خطبہ (۲۳۷)
(٢٣٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۳۷)
قَالَهٗ لِعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَ قَدْ جَآئَهٗ بِرِسَالَةٍ مِّنْ عُثْمَانَ وَ هُوَ مَحْصُوْرٌ يَّسْئَلُهٗ فِيْهَا الْخُرُوْجَ اِلٰى مَالِهٖ بِيَنْۢبُعَ لِيَقِلَّ هَتْفُ النَّاسِ بِاسْمِهٖ لِلْخِلَافَةِ بَعْدَ اَنْ كَانَ سَئَلَهٗ مِثْلَ ذٰلِكَ مِنْ قَبْلُ، فَقَالَ ؑ:
جن دنوں میں عثمان ابن عفان محاصرہ میں تھے تو عبد اللہ ابن عباس ان کی ایک تحریر لے کر امیر المومنین علیہ السلام کے پاس آئے جس میں آپؑ سے خواہش کی تھی کہ آپؑ اپنی جاگیر ینبع کی طرف چلے جائیں، تاکہ خلافت کیلئے جو حضرتؑ کا نام پکارا جا رہا ہے اس میں کچھ کمی آ جائے اور وہ ایسی درخواست پہلے بھی کر چکے تھے جس پر حضرتؑ نے ابن عباس سے فرمایا:
یَابْنَ عَبَّاسٍ! مَا یُرِیْدُ عُثْمَانُ اِلَّاۤ اَنْ یَّجَعَلَنِیْ جَمَلًا نَّاضِحًۢا بِالْغَرْبِ: اُقْبِلُ وَ اُدْبِرُ! بَعَثَ اِلَیَّ اَنْ اَخْرُجَ، ثُمَّ بَعَثَ اِلَیَّ اَنْ اَقْدَمَ، ثُمَّ هُوَ الْاٰنَ یَبْعَثُ اِلَیَّ اَنْ اَخْرُجَ! وَاللهِ! لَقَدْ دَفَعْتُ عَنْهُ حَتّٰی خَشِیْتُ اَنْ اَكُوْنَ اٰثِمًا.
اے ابن عباس! عثمان تو بس یہ چاہتے ہیں کہ وہ مجھے اپنا شتر آب کش بنا لیں کہ جو ڈول کے ساتھ کبھی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹتا ہے۔ انہوں نے پہلے بھی یہی پیغام بھیجا تھا کہ میں (مدینہ سے) باہر نکل جاؤں اور اس کے بعد یہ کہلوا بھیجا کہ میں پلٹ آؤں، اب پھر وہ پیغام بھیجتے ہیں کہ میں یہاں سے چلا جاؤں۔ (جہاں تک مناسب تھا) میں نے ان کو بچایا، اب تو مجھے ڈر ہے کہ میں (ان کو مدد دینے سے) کہیں گنہگار نہ ہو جاؤں۔