ہدایت (۱۴)
(۱٤) وَ مِنْ وَّصِیَّۃٍ لَّہٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
ہدایت (۱۴)
لِعَسْكَرِهٖ قَبْلَ لِقَآءِ الْعَدُوِّ بِصِفِّیْنَ
صفین میں دشمن کا سامنا کرنے سے پہلے اپنے لشکر کو ہدایت فرمائی:
لَا تُقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰی یَبْدَؤٗكُمْ، فَاِنَّكُمْ بِحَمْدِ اللهِ عَلٰی حُجَّةٍ، وَ تَرْكُكُمْ اِیَّاهُمْ حَتّٰی یَبْدَؤٗكُمْ حُجَّةٌ اُخْرٰی لَكُمْ عَلَیْهِمْ.
جب تک وہ پہل نہ کریں تم ان سے جنگ نہ کرنا، کیونکہ تم بحمد اللہ دلیل و حجت رکھتے ہو اور تمہارا انہیں چھوڑ دینا کہ وہی پہل کریں، یہ ان پر دوسری حجت ہو گی۔
فَاِذَا كَانَتِ الْهَزِیْمَةُ بِاِذْنِ اللهِ فَلَا تَقْتُلُوْا مُدْبِرًا، وَ لَا تُصِیْبُوْا مُعْوِرًا، وَ لَا تُجْهِزُوْا عَلٰی جَرِیْحٍ، وَ لَا تَهِیْجُوا النِّسَآءَ بِاَذًی، وَ اِنْ شَتَمْنَ اَعْرَاضَكُمْ وَ سَبَبْنَ اُمَرَآءَكُمْ، فَاِنَّهُنَّ ضَعِیْفَاتُ الْقُوٰی وَ الْاَنْفُسِ وَ الْعُقُوْلِ، اِنْ كُنَّا لَنُؤْمَرُ بِالْكَفِّ عَنْهُنَّ وَ اِنَّهُنَّ لَمُشْرِكَاتٌ، وَ اِنْ كَانَ الرَّجُلُ لَیَتَنَاوَلُ الْمَرْاَةَ فِی الْجَاهِلِیَّةِ بِالْفِهْرِ اَوِ الْهِرَاوَةِ فَیُعَیَّرُ بِهَا وَ عَقِبُهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ.
خبردار! جب دشمن (منہ کی کھا کر) میدان چھوڑ بھاگے تو کسی پیٹھ پھیرانے والے کو قتل نہ کرنا، کسی بے دست و پا پر ہاتھ نہ اٹھا نا، کسی زخمی کی جان نہ لینا اور عورتوں کو اذیت پہنچا کر نہ ستانا، چاہے وہ تمہاری عزت و آبرو پر گالیوں کے ساتھ حملہ کریں اور تمہارے افسروں کو گالیاں دیں۔ کیونکہ ان کی قوتیں، ان کی جانیں اور ان کی عقلیں کمزور و ضعیف ہوتی ہیں۔ ہم (پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں بھی) مامور تھے کہ ان سے کوئی تعرض نہ کریں، حالانکہ وہ مشرک ہوتی تھیں۔ اگر جاہلیت میں بھی کوئی شخص کسی عورت کو پتھر یا لاٹھی سے گزند پہنچاتا تھا تو اس کو اور اس کے بعد کی پشتوں کو مطعون کیا جاتا تھا۔ [۱]
۱امیر المومنین علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان جو جنگ و قتال کی صورت رونما ہوئی، اس کی تمام تر ذمہ داری معاویہ پر عائد ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اس نے آپؑ پر خونِ عثمان کا غلط الزام لگا کر جنگ کیلئے قدم اٹھایا۔ حالانکہ یہ حقیقت اس سے مخفی نہ تھی کہ قتل عثمان کے کیا وجوہ ہیں اور کن کے ہاتھ سے وہ قتل ہوئے۔ مگر اسے جنگ و جدل کا موقع بہم پہنچائے بغیر چونکہ اپنے مقصد میں کامیابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی اس لئے اپنے اقتدار کے تحفظ کیلئے اس نے جنگ چھیڑ دی جو سراسر جارحانہ تھی اور جسے کسی صورت سے جواز کے حدود میں نہیں لایا جا سکتا، کیونکہ امامِ برحق کے خلاف بغاوت و سرکشی باتفاق اُمت حرام ہے۔ چنانچہ امام نووی نے تحریر کیا ہے:
لَا تُنَازِعُوْا وُلَاةَ الْاُمُوْرِ فِیْ وِلَايَتِهِمْ، وَ لَا تَعْتَرِضُوْا عَلَيْهِمْ اِلَّاۤ اَنْ تَرَوْا مِنْهُمْ مُنْكَرًا مُّحَقَّقًا تَعْلَمُوْنَهٗ مِنْ قَوَاعِدِ الْاِسْلَامِ، فَاِذَا رَاَيْتُمْ ذٰلِكَ فَاَنْكِرُوْا عَلَيْهِمْ وَ قُوْلُوْا بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنْتُمْ، وَ اَمَّا الْخُرُوْجُ عَلَيْهِمْ وَ قِتَالُهُمْ فَمُحَرَّمٌۢ بِاِجْمَاعِ الْمُسْلِمِيْنَ.
حکومت کے معاملات میں فرمانرواؤں سے ٹکر نہ لو اور نہ ان پر اعتراضات کرو۔ البتہ تم کو ان میں کوئی ایسی برائی نظر آئے کہ جو پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہو اور تم جانتے ہو کہ وہ اصول اسلام کے خلاف ہے تو اسے ان کیلئے برا سمجھو اور جہاں بھی تم ہو صحیح صحیح بات کہو ،لیکن ان پر خروج کرنا اور ان سے جنگ کرنا با جماع مسلمین حرام ہے۔ (شرح مسلم، نووی، ج۲، ص۱۲۵)
عبد الکریم شہرستانی تحریر کرتے ہیں کہ:
كُلُّ مَنْ خَرَجَ عَنِ الْاِمَامِ الْحَقِّ الَّذِی اتَّفَقَتِ الْجَمَاعَةُ عَلَيْهِ يُسَمّٰى خَارِجِيًّا، سَوَاءٌ كَانَ الْخُرُوْجُ فِیْۤ اَيَّامِ الصَّحَابَةِ عَلَى الْاَئِمَّةِ الرَّاشِدِيْنَ اَوْ كَانَ بَعْدَهُمْ عَلَى التَّابِعِيْنَ بِاِحْسَانٍ.
جو شخص اس امام بر حق پر خروج کرے جس پر جماعت نے اتفاق کر لیا ہو وہ خارجی کہلائے گا۔ چاہے یہ خروج صحابہ کے دور میں آئمہ راشدین پر ہو، چاہے ان کے بعد ان کے تابعین پر۔ (کتاب الملل و النحل، ص۵۳)
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ معاویہ کا اقدام بغاوت و سر کشی کا نتیجہ تھا اور باغی کے ظلم و عدوان کو روکنے کیلئے تلوار اٹھانا کسی طرح آئینِ امن پسندی و صلح جوئی کے خلاف نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ یہ مظلوم کا ایک قدرتی حق ہے اور اگر اسے اس حق سے محروم کر دیا جائے تو دنیا میں ظلم و استبداد کی روک تھام اور حقوق کی حفاظت کی کوئی صورت ہی باقی نہ رہے۔ اسی لئے قدرت نے باغی کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰٮهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىْ تَبْغِىْ حَتّٰى تَفِىْٓءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ﴾
ان میں سے اگر ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم اس زیادتی کرنے والی جماعت سے لڑو، یہاں تک کہ وہ حکم خدا کی طرف پلٹ آئے۔[۱]
یہ پہلی حجت تھی جس کی طرف حضرت علیہ السلام نے «فَاِنَّكُمْ بِحَمْدِ اللهِ عَلٰی حُجَّةٍ» کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ مگر اس حجت کے تمام ہونے کے باوجود حضرتؑ نے اپنی فوج کو ہاتھ اٹھانے اور لڑائی میں پہل کرنے سے روک دیا، کیونکہ آپؑ یہ چاہتے تھے کہ آپؑ کی طرف سے پہل نہ ہو اور وہ صرف دفاع میں تلوار اٹھائیں۔ چنانچہ جب آپؑ کی صلح و امن کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور دشمن نے جنگ کیلئے قدم اٹھا دیا، تو یہ ان پر دوسری حجت تھی جس کے بعد حضرتؑ کے آمادۂ جنگ ہونے پر نہ کوئی حرف گیری کی جا سکتی ہے اور نہ آپؑ پر جارحانہ اقدام کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ ظلم و تعدی کی طغیانیوں کو روکنے کیلئے ایک ایسا فریضہ تھا جسے آپؑ کو انجام دینا ہی چاہیے تھا اور جس کی اللہ سبحانہ نے کھلے لفظوں میں اجازت دی ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ﴾
جو شخص تم پر زیادتی کرے، تم بھی اس پر ویسی زیادتی کرو جیسی اس نے کی ہے اور اللہ سے ڈرو اور اس بات کو جانے رہو کہ اللہ پرہیز گاروں کا ساتھی ہے۔[۲]
اس کے علاوہ امیر المومنین علیہ السلام سے صف آرا ہونا پیغمبر ﷺ سے صف آرا ہونا ہے۔ جیسا کہ حدیث نبویؐ: يَا عَلِیُّ! حَرْبُكَ حَرْبِیْ [۳]:’’اے علیؑ! تم سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے‘‘، اس کی شاہد ہے۔ تو اس صورت میں جو سزا پیغمبر ﷺ سے جدال و قتال کرنے والے کیلئے ہو گی وہی سزا امیرالمومنین علیہ السلام سے جنگ و پیکار کرنے والے کیلئے ہونا چاہیے اور پیغمبر ﷺ سے محاذ جنگ قائم کرنے والے کی سزا قدرت نے یہ تجویز کی ہے:
﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِى الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْۤا اَوْ يُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِؕ ذٰ لِكَ لَهُمْ خِزْىٌ فِى الدُّنْيَا وَ لَهُمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ۙ﴾
جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ پر آمادہ ہوں اور زمین میں فساد پھیلانے کیلئے تگ و دَو کرتے ہوں ان کی سزا یہ ہے کہ: یا تو قتل کردیئے جائیں، یا انہیں سولی دی جائے، یا ان کا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ دیا جائے، یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے۔ یہ ان کیلئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں تو ان کیلئے بڑا عذاب ہے ہی۔[۴]
اس کے بعد حضرتؑ نے جو جنگ کے سلسلہ میں ہدایات فرمائی ہیں کہ کسی بھاگنے والے، ہتھیار ڈال دینے والے اور زخمی ہونے والے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، وہ اخلاقی اعتبار سے اس قدر بلند ہیں کہ انہیں اخلاقی قدروں کا اعلیٰ نمونہ اور اسلامی جنگوں کا بلند معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور یہ ہدایات صرف قول تک محدود نہ تھیں، بلکہ حضرتؑ ان کی پوری پابندی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی سختی سے ان کی پابندی کا حکم دیتے تھے اور کسی موقع پر بھاگنے والے کا تعاقب اور بے دست و پا پر حملہ اور عورتوں پر سختی گوارا نہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جمل کے میدان میں کہ جہاں فوج مخالف کی باگ ڈور ہی ایک عورت کے ہاتھ میں تھی، آپؑ نے اپنے اصول کو نہیں بدلا، بلکہ دشمن کی شکست و ہزیمت کے بعد اپنی بلند کرداری کا ثبوت دیتے ہوئے اُمّ المومنین کو حفاظت کے ساتھ مدینہ پہنچا دیا اور اگر آپؑ کے بجائے کوئی دوسرا ہوتا تو وہ وہی سزا تجویز کرتا جو اس نوعیت کے اقدام کی ہونا چاہیے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے:
لَوْ كَانَتْ فَعَلَتْ بِعُمَرَ مَا فَعَلَتْ بِهٖ وَ شَقَّتْ عَصَا الْاُمَّةِ عَلَيْهِ ثُمَّ ظَفَرَ بِهَا لَقَتَلَهَا وَ مَزَّقَهَا اِرْبًا اِرْبًا، وَ لٰكِنَّ عَلِيًّاؑ كَانَ حَلِيْمًا كَرِيْمًا.
جو انہوں نے حضرتؑ کے ساتھ برتاؤ کیا اگر ایسا ہی حضر ت عمر کے ساتھ کرتیں اور ان کے خلاف رعیت میں بغاوت پھیلاتیں تو وہ ان پر قابو پانے کے بعد انہیں قتل کر دیتے اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے۔ مگر امیر المومنین علیہ السلام بہت بردبار اور بلند نفس تھے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۲۰۲)↑
[۱]۔ سورۂ حجرات، آیت ۹۔
[۲]۔ سورۂ بقرۃ، آیت ۱۹۴۔
[۳]۔ امالی شیخ صدوق، ص ۵۶۱۔
[۴]۔ سورۂ مائدہ، آیت ۳۳۔