مکتوبات

مکتوب (۱۷)

(۱٧) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

مکتوب (۱۷)

اِلٰى مُعَاوِیَةَ جَوَابًا عَنْ كِتَابٍ مِّنْهُ اِلَیْهِ

معاویہ کے خط کے جواب میں

وَ اَمَّا طَلَبُكَ اِلَیَّ الشَّامَ، فَاِنِّیْ لَمْ اَكُنْ لِّاُعْطِیَكَ الْیَوْمَ مَا مَنَعْتُكَ اَمْسِ.

تمہارا [۱] یہ مطالبہ کہ میں شام کا علاقہ تمہارے حوالے کردوں، تو میں آج وہ چیز تمہیں دینے سے رہا کہ جس سے کل انکار کر چکا ہوں۔

وَ اَمَّا قَوْلُكَ: اِنَّ الْحَرْبَ قَدْ اَكَلَتِ الْعَرَبَ اِلَّا حُشَاشَاتِ اَنْفُسٍۭ بَقِیَتْ، اَلَا وَ مَنْ اَكَلَهُ الْحَقُّ فَاِلَی الْجَنَّةِ، وَ مَنْ اَكَلَهُ الْبَاطِلُ فَاِلَی النَّارِ.

اور تمہارا یہ کہنا کہ جنگ نے عرب کو کھا ڈالا ہے اور آخری سانسوں کے علاوہ اس میں کچھ نہیں رہا، تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جسے حق نے کھایا ہے وہ جنت کو سدھارا ہے اور جسے باطل نے لقمہ بنایا ہے وہ دوزخ میں جا پڑا ہے۔

وَ اَمَّا اسْتِوَاۗؤُنَا فِی الْحَرْبِ وَ الرِّجَالِ، فَلَسْتَ بِاَمْضٰی عَلَی الشَّكِّ مِنِّیْ عَلَی الْیَقِیْنِ، وَ لَیْسَ اَهْلُ الشَّامِ بِاَحْرَصَ عَلَی الدُّنْیَا مِنْ اَهْلِ الْعِرَاقِ عَلَی الْاٰخِرَةِ.

رہا یہ دعویٰ کے ہم فن جنگ اور کثرت تعداد میں برابر سرابر کے ہیں، تو یاد رکھو کہ تم شک میں اتنے سرگرم عمل نہیں ہو سکتے جتنا میں یقین پر قائم رہ سکتا ہوں اور اہل شام دنیا پر اتنے مر مٹے ہوئے نہیں جتنا اہل عراق آخرت پر جان دینے والے ہیں۔

وَ اَمَّا قَوْلُكَ: اِنَّا بَنُوْ عَبْدِ مَنَافٍ، فَكَذلِكَ نَحْنُ، وَ لٰكِنْ لَّیْسَ اُمَیَّةُ كَهَاشِمٍ، وَ لَا حَرْبٌ كَعَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَ لَا اَبُوْسُفْیَانَ كَاَبِیْ طَالِبٍ، وَ لَا الْمُهَاجِرُ كَالطَّلِیْقِ، وَ لَا الصَّرِیْحُ كَاللَّصِیْقِ، وَ لَا الْمُحِقُّ كَالْمُبطِلِ، وَ لَا الْمُؤْمِنُ كَالْمُدْغِلِ. وَ لَبِئْسَ الْخَلَفُ خَلَفٌ یَّتْبَعُ سَلَفًا هَوٰی فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ.

اور تمہارا یہ کہنا کہ ہم عبد مناف کی اولاد ہیں تو ہم بھی ایسے ہی ہیں۔ مگر اُمیہ ہاشم کے، حرب عبدالمطلب کے اور ابو سفیان ابو طالب کے برابر نہیں ہیں، (فتح مکہ کے بعد) چھوڑ دیا جانے والا مہاجر کا ہم مرتبہ نہیں، اور الگ سے نتھی کیا ہو اروشن و پاکیزہ نسب والے کے مانند نہیں، اور غلط کار حق کے پرستار کا ہم پلہ نہیں، اور منافق مومن کا ہم درجہ نہیں ہے۔ کتنی بری نسل وہ نسل ہے جو جہنم میں گر چکنے والے اسلاف کی ہی پیروی کر رہی ہے۔

وَ فِیْۤ اَیْدِیْنَا بَعْدُ فَضْلُ النُّبُوَّةِ الَّتِیْۤ اَذْلَلْنَا بِهَا الْعَزِیْزَ، وَ نَعَشْنَا بِهَا الذَّلِیْلَ. وَ لَمَّاۤ اَدْخَلَ اللهُ الْعَرَبَ فِیْ دِیْنِهٖ اَفْوَاجًا، وَ اَسْلَمَتْ لَهٗ هٰذِهِ الْاُمَّةُ طَوْعًا وَّ كَرْهًا، كُنْتُمْ مِمَّنْ دَخَلَ فِی الدِّیْنِ: اِمَّا رَغْبَةً وَّ اِمَّا رَهْبَةً، عَلٰی حِیْنَ فَازَ اَهْلُ السَّبْقِ بِسَبْقِهِمْ، وَ ذَهَبَ الْمُهَاجِرُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ بِفَضْلِهِمْ.

پھر اس کے بعد ہمیں نبوت کا بھی شرف حاصل ہے کہ جس کے ذریعے ہم نے طاقتور کو کمزور اور پست کو بلند و بالا کر دیا، اور جب اللہ نے عرب کو اپنے دین میں جوق در جوق داخل کیا اور اُمت اپنی خوشی سے یا ناخوشی سے اسلام لے آئی، تو تم وہ لوگ تھے کہ جو لالچ یا ڈر سے اسلام لائے، اس وقت کہ جب سبقت کرنے والے سبقت حاصل کر چکے تھے اور مہاجرین اوّلین فضل و شرف کو لے جا چکے تھے۔

فَلَا تَجْعَلَنَّ لِلشَّیْطٰنِ فِیْكَ نَصِیْبًا، وَ لَا عَلٰی نَفْسِكَ سَبِیْلًا.

(سنو!) شیطان کا اپنے میں ساجھا نہ رکھو اور نہ اسے اپنے اوپر چھا جانے دو۔

۱؂جنگ صفین کے دوران میں معاویہ نے چاہا کہ حضرتؑ سے دوبارہ شام کا علاقہ طلب کرے اور کوئی ایسی چال چلے جس سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے۔ چنانچہ اس نے عمرو ابن عاص سے اس سلسلہ میں مشورہ لیا۔ مگر اس نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ: اے معاویہ! ذرا سوچو کہ تمہاری اس تحریر کا علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر کیا اثر ہو سکتا ہے اور وہ تمہارے ورغلانے سے کیسے فریب میں آ جائیں گے، جس پر معاویہ نے کہا کہ: ہم سب عبدمناف کی اولاد ہیں، مجھ میں اور علی علیہ السلام میں فرق ہی کیا ہے کہ وہ مجھ سے بازی لے جائیں اور میں انہیں فریب دینے میں کامیاب نہ ہو سکوں۔ عمرو نے کہا کہ: اگر ایسا ہی خیال ہے تو پھر لکھ دیکھو۔ چنانچہ اس نے حضرتؑ کی طرف ایک خط لکھا جس میں شام کا مطالبہ کیا اور یہ بھی تحریر کیا کہ: «نَحْنُ بَنُوْ عَبْدِ مَنَافٍ، وَ لَيْسَ لِبَعْضِنَا عَلٰى بَعْضٍ فَضْلٌ» [۱]: ہم سب عبد مناف کی اولاد ہیں اور ہم میں سے ایک کو دوسرے پر برتری نہیں ہے۔ تو حضرتؑ نے اس کے جواب میں یہ نامہ تحریر فرمایا اور اپنے اسلاف کے پہلو بہ پہلو اس کے اسلاف کا تذکرہ کر کے اس کے دعوائے ہمپائیگی کو باطل قرار دیا ہے۔

اگرچہ دونوں کی اصل ایک اور دونوں کا سلسلۂ نسب عبد مناف تک منتہی ہوتا ہے، مگر عبد شمس کی اولاد تہذیبی و اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ اور شرک و ظلم میں مبتلا تھی اور ہاشم کا گھرانہ خدائے واحد کا پر ستار اور بت پرستی سے کنارہ کش تھا۔ لہٰذا ایک ہی جڑ سے پھوٹنے والی شاخوں میں اگر پھول بھی ہوں اور کانٹے بھی تو اس سے دونوں کو ایک سطح پر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ یہ امر کسی صراحت کا محتاج نہیں کہ امیہ اور ہاشم، حرب اور عبدالمطلب، ابو سفیان اور ابو طالبؑ کسی اعتبار سے ہم پایہ نہ تھے جس سے نہ کسی مؤرخ کو انکار ہے اور نہ کسی سیرت نگار کو، بلکہ اس جواب کے بعد معاویہ کو بھی اس کی تردید میں کچھ کہنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ کیونکہ اس واضح حقیقت پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا کہ عبدمناف کے بعد حضرت ہاشم ہی وہ تھے جو قریش میں ایک امتیازی وجاہت کے مالک تھے اور خانہ کعبہ کے اہم ترین عہدوں میں سے سقایہ (حاجیوں کیلئے کھانے پینے کا سامان فراہم کرنا) اور رفادہ (حاجیوں کی مالی اعانت کا انتظام کرنا) انہی سے متعلق تھا۔ چنانچہ حج کے موقع پر قافلوں کے قافلے آپ کے ہاں اترتے اور آپ اس خوش اسلوبی سے فرائضِ مہمان نوازی انجام دیتے کہ آپ کے سرچشمۂ جود و سخا سے سیراب ہونے والے مدتوں آپ کی مدح و تحسین میں رطب اللسان رہتے۔

اسی عالی حوصلہ و بلند ہمت باپ کے چشم و چراغ حضرت عبد المطلب تھے جن کا نام ’’شیبہ‘‘ اور لقب ’’سیّد البطحاء‘‘ تھا جو نسلِ ابراہیمی کے شرف کے وارث اور قریش کی عظمت و سرداری کے مالک تھے اور ابرہہ کے سامنے جس عالی ہمتی و بلند نگاہ کا مظاہرہ کیا وہ آپ کی تاریخ کا تابناک باب ہے۔ بہر صورت آپ ہاشم کے تاج کا آویزہ اور عبدمناف کے گھرانے کا روشن ستارہ تھے۔

اِنَّما عَبْدُ مَنَافٍ جَوْهَرٌ

زَيَّنَ الْجَوْهَرَ عَبْدُ المُطَّلِبْ

’’عبد مناف ایک موتی تھے، مگر اس پر جلا کر نے والے عبد المطلب تھے‘‘۔[۲]

حضرت عبد المطلب کے فرزند حضرت ابو طالبؑ تھے جن کی آغوش یتیم عبد اللہ کا گہوارہ اور رسالت کی تربیت گاہ تھی، جنہوں نے پیغمبر ﷺ کو اپنے سایہ میں پروان چڑھایا اور دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہو کر ان کی حفاظت کرتے رہے۔ ان جلیل القدر افراد کے مقابلہ میں ابوسفیان، حرب اور اُمیہ کو لانا اور ان کا ہم رتبہ خیال کرنا ایسا ہی ہے جیسے نور کی ضوپاشیوں سے آنکھ بند کر کے اسے ظلمت کا ہم پلہ سمجھ لینا۔

اس نسلی تفریق کے بعد دوسری چیز (وجہ فضیلت) یہ بیان کی ہے کہ آپؑ ہجرت کر نے والوں میں سے ہیں اورمعاویہ طلیق ہے۔ ’’طلیق‘‘ اسے کہا جاتا ہے جسے پیغمبر ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ جب پیغمبر ﷺ فاتحانہ طور پر مکہ میں وارد ہوئے تو قریش سے پوچھا کہ تمہارا میرے متعلق کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ سب نے کہا کہ: ہم کریم ابن کریم سے بھلائی ہی کے امید وار ہیں۔ جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ: ’’جاؤ تم طلقاء ہو‘‘۔ یعنی تم تھے تو اس قابل کے تمہیں غلام بنا کر رکھا جاتا، مگر تم پر احسان کرتے ہوئے تمہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ان طلقاء میں معاویہ اور ابوسفیان بھی تھے۔ چنانچہ شیخ محمد عبدہ نے اس مکتوب کے حواشی میں تحریر کیا ہے کہ:

وَ اَبُوْ سُفْیَانَ وُ مُعَاوِیَۃُ کَانَا مِنَ الطُّلَقَآءِ.

ابو سفیان اور معاویہ دونوں طلقاء (آزاد کردہ لوگوں) میں سے تھے۔

تیسری چیز (وجہ فضیلت) یہ ہے کہ آپؑ کا نسب واضح اور روشن ہے جس میں کہیں کوئی شبہ نہیں۔ اس کے برعکس معاویہ کیلئے لفظ «لَصِیْق» استعمال کیا ہے۔ اور اہل لغت نے ’’لصیق‘‘ کے معنی «اَلدَّعِیُّ الْمُلْصَقُ بِغَیْرِ اَبِیْہِ» کے کئے ہیں۔ یعنی وہ جو اپنے باپ کے علاوہ دوسروں سے منسوب ہو۔ چنانچہ اس سلسلہ میں پہلا شبہ اُمیّہ کے متعلق کیا جاتا ہے کہ وہ عبد شمس کا بیٹا تھا یا اس کا غلام کہ جو صرف اس کی تربیت کی وجہ سے اس کا بیٹا کہلانے لگا تھا۔ چنانچہ علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں کامل بہائی سے نقل کیا ہے کہ:

اِنَّ اُمَيَّةَ كَانَ غُلَامًا رُّوْمِيًّا لِّعَبْدِ الشَّمْسِ، فَلَمَّا اَلْقَاهُ كَيِّسًا فَطِنًا اَعْتَقَهٗ وَ تَبَنَّاهُ، فَقِيْلَ «اُمَيَّةَ بْنَ عَبْدِ الشَّمْسِ»كَمَا كَانُوْا يَقُوْلُوْنَ قَبْلَ‏ نُزُوْلِ الْاٰيَةِ «زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ ﷺ».

’’امیّہ‘‘ عبد شمس کا ایک رومی غلام تھا۔ جب انہوں نے اس کو ہوشیار اور بافہم پایا تو اسے آزاد کر دیا اور اپنا بیٹا بنا لیا جس کی وجہ سے اسے ’’امیّہ ابن عبد شمس‘‘ کہا جانے لگا، جیسا کہ آیت اترنے سے قبل لوگ زید کو ’’زید ابن محمد ﷺ‘‘ کہا کرتے تھے۔ (بحار الانوار، ج۸، ص۳۸۳)

اموی سلسلۂ نسب میں دوسرا شبہ یہ ہوتا ہے کہ ’’حرب ‘‘ جسے فرزند اُمیّہ کہا جاتا ہے وہ اس کا واقعی بیٹا تھا یا پروردہ غلام تھا۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے ابو الفرج اصفہانی کی کتاب الاغانی سے نقل کیا ہے کہ:

اِنَّ مُعَاوِيَةَ قَالَ لِدِغْفَلِ النَّسَّابَةِ: اَ رَاَيْتَ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ رَاَيْتَهٗ؟ قَالَ: رَاَيْتُهٗ رَجُلًا نَّبِيْلًا جَمِيْلًا وَضِيْٓئًا كَانَ عَلٰى‏وَجْهِهٖ نُوْرُ النُّبُوَّةِ، قَالَ: اَفَرَاَيْتَ اُمَيَّةَ بْنَ عَبْدِ شَمْسٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ رَاَيْتَهٗ؟ قَالَ: رَاَيْتُهٗ رَجُلًا ضَئِيْلًا مُنْحَنِيًا اَعْمٰى يَقُوْدُهٗ عَبْدُهٗ ذَكْوَانُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: ذٰلِكَ ابْنُهٗ اَبُوْ عَمْرٍو، قَالَ: اَنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ ذٰلِكَ، فَاَمَّا قُرَيْشُ فَلَمْ تَكُنْ تَعْرِفُ اِلَّا اَنَّهٗ عَبْدُهٗ.

معاویہ نے ماہر انساب دغفل سے دریافت کیا کہ تم نے عبد المطلب کو دیکھا ہے؟ کہا کہ ہاں۔ پوچھا کہ تم نے اسے کیسا پایا؟ کہا کہ وہ باوقار، خوبرو اور روشن جبیں انسان تھے اور ان کے چہرے پر نورِ نبوت کی درخشند گی تھی۔ معاویہ نے کہا کہ کیا امیّہ کو بھی دیکھا ہے؟ کہا کہ ہاں اسے بھی دیکھا ہے۔ پوچھا کہ اس کو کیسا پایا؟ کہا کہ کمزور جسم، خمیدہ قامت اور آنکھوں سے نابینا تھا۔ اس کے آگے آگے اس کا غلام ذکوان ہوتا تھا جو اس کو لئے لئے پھرتا تھا۔ معاویہ نے کہا کہ وہ تو اس کا بیٹا ابو عمرو ( حرب) تھا۔ اس نے کہا تم لوگ ایسا کہتے ہو، مگر قریش تو بس یہ جانتے ہیں کہ وہ اس کا غلام تھا۔

(شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۴۶۶)

اس سلسلہ میں تیسرا شبہ خود معاویہ کے متعلق ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے:

وَ كَانَتْ هِنْدٌ تُذْكَرُ فِیْ مَكَّةَ بِفُجُوْرٍ وَّ عَهْرٍ، وَ قَالَ الزَّمَخْشَرِیُّ فِیْ كِتَابِ رَبِيْعِ الْاَبْرَارِ: كَانَ مُعَاوِيَةُ يُعْزٰی اِلٰى اَرْبَعَةٍ: اِلٰى مُسَافِرِ بْنِ اَبِیْ عَمْرٍو وَ اِلٰى عَمَّارَةَ بْنِ الْوَلِيْدِ بْنِ الْمُغِيْرَةِ وَ اِلَى الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ اِلَى الصَّبَاحِ.

(معاویہ کی والدہ) ’’ہند ‘‘ مکہ میں فسق و فجور کی بد نام زندگی گزارتی تھی اور زمخشری نے ربیع الابرار میں لکھا ہے کہ معاویہ کو چار آدمیوں کی طرف منسوب کیا جاتا تھا جویہ ہیں: مسافر ابن ابی عمرو، عمارہ ابن ولید ابن مغیرہ، عباس ابن عبد المطلب اور صباح۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۶۳)

چوتھی چیز (وجہ فضیلت) یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ حق کے پر ستار ہیں اورمعاویہ باطل کا پر ستار اور یہ امر کسی دلیل کا محتاج نہیں کہ معاویہ کی پوری زندگی حق پوشی و باطل کوشی میں گزری اور کسی مرحلہ پر بھی اس کا قدم حق کی جانب اٹھتا ہوا نظر نہیں آتا۔

پانچویں فضیلت یہ پیش کی گئی ہے کہ آپؑ مومن ہیں اور معاویہ مفسد و منافق اور جس طرح حضرتؑ کے ایمان میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا اسی طرح معاویہ کی مفسدہ انگیزی و نفاق پروری میں بھی کوئی شبہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کے نفاق کو واضح طور سے اس سے پہلے مکتوب میں ان لفظوں میں بیان کیا ہے:

ماۤ اَسْلَمُوْا وَ لٰكِنِ اسْتَسْلَمُوْا وَ اَسَرُّوا الْكُفْرَ، فَلَمَّا وَجَدُوْۤا اَعْوَانًا عَلَیْهِ اَظْهَرُوْهُ.

یہ لوگ اسلام نہیں لائے تھے بلکہ اطاعت کر لی تھی اور دلوں میں کفر کو چھپائے رکھا تھا۔ اب جبکہ یارو مددگار مل گئے تو اسے ظاہر کر دیا۔[۳]

[۱]۔ وقعۃ صفین، ص ۴۷۱۔

[۲]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۵، ص ۲۰۱۔

[۳]۔ نہج البلاغہ، مکتوب ۱۶۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button