وصیت (۲۳)
(٢٣) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
وصیت (۲۳)
قَالَهٗ قُبَیْلَ مَوْتِهٖ عَلٰى سَبِیْلِ الْوَصِیَّةِ لَمَّا ضَرَبَهُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَعَنَهُ اللّٰهُ:
جب ابن ملجم نے آپؑ کے سر اقدس پر ضربت لگائی تو انتقال سے کچھ پہلے آپؑ نے بطور وصیت ارشاد فرمایا:
وَصِیَّتِیْ لَكُمْ: اَنْ لَّا تُشْرِكُوْا بِاللهِ شَیْئًا، وَ مُحَمَّدٌ -صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ- فَلَا تُضَیِّعُوْا سُنَّتَهٗ، اَقِیْمُوْا هٰذَیْنِ الْعَمُوْدَیْنِ، وَ اَوْقِدُوْا هٰذَیْنِ الْمِصْبَاحَیْنِ وَ خَلَاكُمْ ذَمٌّ.
تم لوگوں سے میری وصیت ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور محمد ﷺ کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرنا۔ ان دونوں ستونوں کو قائم کئے رہنا اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا۔ بس پھر برائیوں نے تمہارا پیچھا چھوڑ دیا۔
اَنَا بِالْاَمْسِ صَاحِبُكُمْ، وَ الْیَوْمَ عِبْرَةٌ لَّكُمْ، وَ غَدًا مُّفَارِقُكُمْ، اِنْ اَبْقَ فَاَنَا وَلِیُّ دَمِیْ، وَ اِنْ اَفْنَ فَالْفَنَآءُ مِیْعَادِیْ، وَاِنْ اَعْفُ فَالْعَفْوُ لِیْ قُرْبَةٌ، وَ هُوَ لَكُمْ حَسَنَةٌ، فَاعْفُوْا، ﴿اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ؕ ﴾ .
میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لئے (سراپا) عبرت ہوں اور کل کو تمہارا ساتھ چھوڑ دوں گا۔ اگر میں زندہ رہا تو مجھے اپنے خون کا اختیار ہو گا اور اگر مر جاؤں تو موت میری وعدہ گاہ ہے۔ اگر معاف کر دوں تو یہ میرے لئے رضائے الٰہی کا باعث ہے اور وہ تمہارے لئے بھی نیکی ہو گی۔’’کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے‘‘۔
وَ اللهِ مَا فَجَئَنِیْ مِنَ الْمَوْتِ وَارِدٌ كَرِهْتُهٗ، وَ لَا طَالِعٌ اَنْكَرْتُهٗ، وَ مَا كُنْتُ اِلَّا كَقَارِبٍ وَّرَدَ، وَ طَالِبٍ وَّجَدَ، ﴿وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ﴾.
خدا کی قسم! یہ موت کا ناگہانی حادثہ ایسا نہیں ہے کہ میں اسے نا پسند جانتا ہوں اور نہ یہ ایسا سانحہ ہے کہ میں اسے برا جانتا ہوں۔ میری مثال بس اس شخص کی سی ہے جو رات بھر پانی کی تلاش میں چلے اور صبح ہوتے ہی چشمہ پر پہنچ جائے اور اس ڈھونڈنے والے کی مانند ہوں جو مقصد کو پالے، ’’اور جو اللہ کے یہاں ہے وہی نیکو کاروں کیلئے بہتر ہے‘‘۔
اَقُوْلُ: وَ قَدْ مَضٰی بَعْضُ هٰذَا الْكَلَامِ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْخُطَبِ، اِلَّاۤ اَنَّ فِیْهِ هٰهُنَا زِیَادَةً اَوْجَبَتْ تَكْرِیْرَهٗ.
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ اس کلام کا کچھ حصہ خطبات میں گزر چکا ہے، مگر یہاں کچھ اضافہ تھا جس کی وجہ سے دوبارہ درج کرنا ضروری ہوا۔