وصیت (۲۴)
(٢٤) وَ مِنْ وَّصِیَّةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
وصیت(۲۴)
بِمَا یُعْمَلُ فِیْۤ اَمْوَالِهٖ كَتَبَهَا بَعْدَ مُنْصَرَفِهٖ مِنْ صِفِّیْنَ:
حضرتؑ کی وصیت اس امر کے متعلق کہ آپؑ کے اموال میں کیا عمل درآمد ہو گا۔ اسے صفین سے پلٹنے کے بعد تحریر فرمایا:
هٰذَا مَاۤ اَمَرَ بِهٖ عَبْدُ اللهِ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ مَالِهٖ، ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللهِ، لِیُوْلِجَهٗ بِهِ الْجَنَّةَ، وَ یُعْطِیَهٗ بِهِ الْاَمَنَةَ.
یہ وہ ہے جو خدا کے بندے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے اموال (اوقاف) کے بارے میں حکم دیا ہے، محض اللہ کی رضا جوئی کیلئے تاکہ وہ اس کی وجہ سے مجھے جنت میں داخل کرے اور امن و آسائش عطا فرمائے۔
[مِنْهَا]
[اس وصیت کا ایک حصہ یہ ہے]
وَاِنَّهٗ یَقُوْمُ بِذٰلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، یَاْكُلُ مِنْهُ بِالْمَعْرُوْفِ، وَ یُنْفِقُ مِنْهُ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ حَدَثَ بِحَسَنٍ حَدَثٌ وَّ حُسَیْنٌ حَیٌّ، قَامَ بِالْاَمْرِ بَعْدَهٗ وَ اَصْدَرَهٗ مَصْدَرَهٗ.
حسن ابن علی علیہما السلام اس کے متولی ہوں گے جو اس مال سے مناسب طریقہ پر روزی لیں گے اور امور خیر میں صرف کریں گے۔ اگر حسن علیہ السلام کو کچھ ہو جائے اور حسین علیہ السلام زندہ ہوں تو وہ ان کے بعد اس کو سنبھال لیں گے اور انہی کی راہ پر چلائیں گے۔
وَ اِنَّ لِابْنَیْ فَاطِمَةَ مِنْ صَدَقَةِ عَلِیٍّ مِّثْلَ الَّذِیْ لِبَنِیْ عَلِیٍّ، وَ اِنِّیْۤ اِنَّمَا جَعَلْتُ الْقِیَامَ بِذٰلِكَ اِلَی ابْنَیْ فَاطِمَةَ ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللهِ، وَ قُرْبَةً اِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَ تَكْرِیْمًا لِّحُرْمَتِهٖ، وَ تَشْرِیْفًا لِّوُصْلَتِهٖ.
علی علیہ السلام کے اوقاف میں جتنا حصہ فرزندانِ علیؑ کا ہے اتنا ہی اولادِ فاطمہؑ کا ہے۔ بیشک میں نے صرف اللہ کی رضا مندی، رسول ﷺ کے تقرب، ان کی عزت و حرمت کے اعزاز اور ان کی قرابت کے احترام کے پیش نظر اس کی تولیت فاطمہ کے دونوں فرزندوں سے مخصوص کی ہے۔
وَ یَشْتَرِطُ عَلَی الَّذِیْ یَجْعَلُهٗۤ اِلَیْهِ اَنْ یَّتْرُكَ الْمَالَ عَلٰۤی اُصُوْلِهٖ، وَ یُنْفِقَ مِنْ ثَمَرِهٖ حَیْثُ اُمِرَ بِهٖ وَ هُدِیَ لَهٗ،
اور جو اس جائیداد کا متولی ہواس پر یہ پابندی عائد ہو گی کہ وہ مال کو اس کی اصلی حالت پر رہنے دے اور اس کے پھلوں کو ان مصارف میں جن کے متعلق ہدایت کی گئی ہے تصرف میں لائے۔
وَ اَنْ لَّا یَبِیْعَ مِنْ اَوْلَادِ نَخْلِ هٰذِهِ الْقُرٰی وَدِیَّةً حَتّٰی تُشْكِلَ اَرْضُهَا غِرَاسًا.
اور یہ کہ وہ ان دیہاتوں کے نخلستانوں کی نئی پود کو فروخت نہ کرے، یہاں تک کہ ان دیہاتوں کی زمین کا ان نئے درختوں کے جم جانے سے عالم ہی دوسرا ہو جائے۔ [۱]
وَ مَنْ كَانَ مِنْ اِمَآئِیْ ـ اللَّاتِیْۤ اَطُوْفُ عَلَیْهِنَّ ـ لَهَا وَلَدٌ، اَوْ هِیَ حَامِلٌ، فَتُمْسَكُ عَلٰی وَلَدِهَا وَ هِیَ مِنْ حَظِّهٖ، فَاِنْ مَّاتَ وَلَدُهَا وَ هِیَ حَیَّةٌ فَهِیَ عَتِیْقَةٌ، قَدْ اُفْرِجَ عَنْهَا الرِّقُّ، وَ حَرَّرَهَا الْعِتْقُ.
اور وہ کنیزیں جو میرے تصرف میں ہیں ان میں سے جس کی گود میں بچہ یا پیٹ میں ہے تو وہ بچے کے حق میں روک لی جائے گی اور اس کے حصہ میں شمار ہو گی۔ پھر اگر بچہ مر بھی جائے اور وہ زندہ ہو تو بھی وہ آزاد ہو گی۔ اس سے غلامی چھٹ گئی ہے اور آزادی اسے حاصل ہو چکی ہے۔
قَوْلُهٗ ؑ فِیْ هٰذِهِ الْوَصِیَّةِ: »اَنْ لَّا یَبِیْعَ مِنْ نَخْلِهَا وَدِیَّةً«، الْوَدِیَّةُ: الْفَسِیْلَةُ، وَ جَمْعُهَا وَدِیٌّ. وَ قَوْلُهٗ ؑ: «حَتّٰی تُشْكِلَ اَرْضُهَا غِرَاسًا» هُوَ مِنْ اَفْصَحِ الْكَلَامِ، وَ الْمُرَادُ بِهٖ: اَنَّ الْاَرْضَ یَكْثُرُ فِیْهَا غِرَاسُ النَّخْلِ حَتّٰی یَرَاهَا النَّاظِرُ عَلٰی غَیْرِ تِلْكَ الصِّفَةِ الَّتِیْ عَرَفَهَا بِهَا فَیُشْكِلُ عَلَیْهِ اَمْرُهَا وَ یَحْسِبُهَا غَیْرَهَا.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس وصیت میں حضرتؑ کا ارشاد: «اَنْ لَّا یَبِیْعَ مِنْ نَّخْلِھَا وَدِیَّةً» میں ’’وَدِیَّۃٌ‘‘ کے معنی کھجور کے چھوٹے درخت کے ہیں اور اس کی جمع ’’وَدِیٌّ‘‘ آتی ہے۔ اور آپؑ کا یہ ارشاد: «حَتّٰی تُشْکِلَ اَرْضُھَا غِرَاسًا» (زمین درختوں کے جم جانے سے مشتبہ ہو جائے)، اس سے مراد یہ ہے کہ جب زمین میں کھجوروں کے پیڑ کثرت سے اُگ آتے ہیں تو دیکھنے والے نے جس صورت میں اسے پہلے دیکھا تھا ، اب دوسری صورت میں دیکھنے کی وجہ سے اسے اشتباہ ہو جائے گا اور اسے دوسری زمین خیال کرے گا۔
۱امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی ایک مزدور اور کاشتکار کی زندگی تھی۔ چنانچہ آپؑ دوسروں کے کھیتوں میں کام کرتے اور بنجر اور افتادہ زمینوں میں آب رسانی کے وسائل مہیا کر کے انہیں آباد کرتے اور کاشت کے قابل بنا کر ان میں باغات لگاتے اور چونکہ یہ زمینیں آپؑ کی آباد کردہ ہوتی تھیں اس لئے آپؑ کی ملکیت میں داخل تھیں، مگر آپؑ نے کبھی مال پر نظر نہ کی اور ان زمینوں کو وقف قرار دے کر اپنے حقوق ملکیت کو اٹھا لیا۔ البتہ قرابتِ پیغمبر ﷺ کا لحاظ کرتے ہوئے ان اوقاف کی تولیت یکے بعد دیگرے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے سپرد کی، لیکن ان کے حقوق میں کوئی امتیاز گوارا نہیں کیا، بلکہ دوسری اولاد کی طرح انہیں بھی صرف اتنا حق دیا کہ وہ گزارے بھر کا لے سکتے ہیں اور بقیہ عامۂ مسلمین کے مفاد اور امورِ خیر میں صرف کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ ابن ابی الحدید تحریر کرتے ہیں:
قَدْ عَلِمَ كُلُّ اَحَدٍ اَنَّ عَلِيًّا ؑ اسْتَخْرَجَ عُيُوْنًۢا بِكَدِّ يَدِهٖ بِالْمَدِيْنَةِ وَ يَنْبُعَ وَ سُوَيْعَةَ وَ اَحْيَا بِهَا مَوَاتًا كَثِيْرًا، ثُمَّ اَخْرَجَهَا عَنْ مِّلْكِهٖ وَ تَصَدَّقَ بِهَا عَلَى الْمُسْلِمِيْنَ وَ لَمْ يَمُتْ وَ شَیْءٌ مِّنْهَا فِیْ مِلْكِهٖ.
سب کو معلوم ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے مدینہ اور ینبع اور سویعہ میں بہت سے چشمے زمین کھود کر نکالے اور بہت سی افتادہ زمینوں کو آباد کیا اور پھر ان سے اپنا قبضہ اٹھا لیا اور مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا اور وہ اس حالت میں دنیا سے اٹھے کہ کوئی چیز آپؑ کی ملکیت میں نہ تھی۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۴۲۳)↑