عہد نامہ (۲۷)
(٢٧) وَ مِنْ عَهْدہٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
عہد نامہ (۲۷)
اِلٰى مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ بَكْرٍ رَضِىَ اللّٰهُ عَنْهُ حِیْنَ قَلَّدَهٗ مِصْرَ:
محمد ابن ابی بکر ؒ کے نام جب انہیں مصر کی حکومت سپرد کی:
فَاخْفِضْ لَهُمْ جَنَاحَكَ، وَاَلِنْ لَهُمْ جَانِبَكَ، وَابْسُطْ لَهُمْ وَجْهَكَ، وَ اٰسِ بَیْنَهُمْ فِی اللَّحْظَةِ وَ النَّظْرَةِ، حَتَّی لَا یَطْمَعَ الْعُظَمَآءُ فِیْ حَیْفِكَ لَهُمْ، وَ لَا یَیْاَسَ الضُّعَفَآءُ مِنْ عَدْلِكَ عَلَیْهِمْ. فَاِنَّ اللهَ تَعَالٰی یُسَآئِلُكُمْ مَعْشَرَ عِبَادِهٖ عَنِ الصَّغِیْرَةِ مِنْ اَعْمَالِكُمْ وَ الْكَبِیْرَةِ، وَ الظَّاهِرَةِ وَ الْمَسْتُوْرَةِ، فَاِنْ یُّعَذِّبْ فَاَنْتُمْ اَظْلَمُ، وَ اِنْ یَّعْفُ فَهُوَ اَكْرَمُ.
لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا، کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا، تاکہ بڑے لوگ تم سے اپنی ناحق طرف داری کی امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل و انصاف سے ان (بڑوں) کے مقابلہ میں ناامید نہ ہو جائیں۔ کیونکہ اے اللہ کے بندو! اللہ تمہارے چھوٹے بڑے، کھلے ڈھکے اعمال کی تم سے باز پرس کرے گا اور اس کے بعد اگر وہ عذاب کرے تو یہ تمہارے خود ظلم کا نتیجہ ہے اور اگر وہ معاف کردے تو وہ اس کے کرم کا تقاضا ہے۔
وَ اعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ الْمُتَّقِیْنَ ذَهَبُوْا بِعَاجِلِ الدُّنْیَا وَ اٰجِلِ الْاٰخِرَةِ، فَشَارَكُوْۤا اَهْلَ الدُّنْیَا فِیْ دُنْیَاهُمْ، وَ لَمْ يُشَارِكْهُمْ اَهْلُ الدُّنْیَا فِیْۤ اٰخِرَتِهِمْ، سَكَنُوا الدُّنْیَا بِاَفْضَلِ مَا سُكِنَتْ، وَ اَكَلُوْهَا بِاَفْضَلِ مَاۤ اُكِلَتْ، فَحَظُوْا مِنَ الدُّنْیَا بِمَا حَظِیَ بِهِ الْمُتْرَفُوْنَ، وَاَخَذُوْا مِنْهَا مَاۤ اَخَذَهُ الْجَبَابِرَةُ الْمُتَكَبِّرُوْنَ، ثُمَّ انْقَلَبُوْا عَنْهَا بِالزَّادِ الْمُبَلِّغِ، وَالْمَتْجَرِ الرَّابِحِ، اَصَابُوْا لَذَّةَ زُهْدِ الدُّنْیَا فِیْ دُنْیَاهُمْ، وَ تَیَقَّنُوْۤا اَنَّهُمْ جِیْرَانُ اللهِ غَدًا فِیْۤ اٰخِرَتِهِمْ، لَا تُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَةٌ، وَ لَا یَنْقُصُ لَهُمْ نَصِیبٌ مِّنْ لَّذَّةٍ.
خدا کے بندو! تمہیں جاننا چاہیے کہ پرہیز گاروں نے جانے والی دنیا اور آنے والی آخرت دونوں کے فائدے اٹھائے۔ وہ دنیا والوں کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے، مگر دنیا دار ان کی آخرت میں حصہ نہ لے سکے۔ وہ دنیا میں بہترین طریقہ پر رہے اور اچھے سے اچھا کھایا اور اس طرح وہ ان تمام چیزوں سے بہرہ یاب ہوئے جو عیش پسند لوگوں کو حاصل تھیں اور وہ سب کچھ حاصل کیا کہ جو سرکش و متکبر لوگوں کو حاصل تھا۔ پھر وہ منزل مقصود پر پہنچانے والے زاد کا سر و سامان اور نفع کا سودا کر کے دنیا سے روانہ ہوئے۔ انہوں نے دنیا میں رہتے ہوئے ترک دنیا کی لذت چکھی اور یہ یقین رکھا کہ وہ کل اللہ کے پڑوس میں ہوں گے، جہاں نہ ان کی کوئی آواز ٹھکرائی جائے گی، نہ ان کے حظ و نصیب میں کمی ہو گی۔
فَاحْذَرُوْا عِبَادَ اللهِ الْمَوْتَ وَ قُرْبَهٗ، وَ اَعِدُّوْا لَهٗ عُدَّتَهٗ، فَاِنَّهٗ یَاْتِیْ بِاَمْرٍ عَظِیْمٍ، وَ خَطْبٍ جَلِیْلٍ، بِخَیْرٍ لَّا یَكُوْنُ مَعَهٗ شَرٌّ اَبَدًا، اَوْ شَرٍّ لَّا یَكُوْنُ مَعَهٗ خَیْرٌ اَبَدًا، فَمَنْ اَقْرَبُ اِلَی الْجَنَّةِ مِنْ عَامِلِهَا! وَ مَنْ اَقْرَبُ اِلَی النَّارِ مِنْ عَامِلِهَا!
تو اللہ کے بندو! موت اور اس کی آمد سے ڈرو اور اس کیلئے سر و سامان فراہم کرو۔ وہ آئے گی اور ایک بڑے حادثے اور عظیم سانحے کے ساتھ آئے گی۔ جس میں یا تو بھلائی ہی بھلائی ہو گی کہ برائی کا اس میں کبھی گزر نہ ہو گا، یا ایسی برائی ہو گی کہ جس میں کبھی بھلائی کا شائبہ نہ آئے گا۔ کون ہے جو جنت کے کام کرنے والے سے زیادہ جنت کے قریب ہو؟ اور کون ہے جو دوزخ کے کام کرنے والے سے زیادہ دوزخ کے نزدیک ہو؟
وَ اَنْتُمْ طُرَدَآءُ الْمَوْتِ، اِنْ اَقَمْتُمْ لَهٗ اَخَذَكُمْ، وَ اِنْ فَرَرْتُمْ مِنْهُ اَدْرَكَكُمْ، وَ هُوَ اَلْزَمُ لَكُمْ مِنْ ظِلِّكُمْ، الْمَوْتُ مَعْقُوْدٌۢ بِنَوَاصِیْكُمْ، وَ الدُّنْیَا تُطْوٰی مِنْ خَلْفِكُمْ. فَاحْذَرُوْا نَارًا قَعْرُهَا بَعِیْدٌ، وَ حَرُّهَا شَدِیْدٌ، وَ عَذَابُهَا جَدِیْدٌ، دَارٌ لَّیْسَ فِیْهَا رَحْمَةٌ، وَ لَا تُسْمَعُ فِیْهَا دَعْوَةٌ، وَ لَا تُفَرَّجُ فِیْهَا كُرْبَۃٌ.
تم وہ شکار ہو جس کا موت پیچھا کئے ہوئے ہے۔ اگر تم ٹھہرے رہو گے جب بھی تمہیں گرفت میں لے لے گی اور اگر اس سے بھاگو گے جب بھی وہ تمہیں پالے گی۔ وہ تو تمہارے سایہ سے بھی زیادہ تمہارے ساتھ ساتھ ہے۔ موت تمہاری پیشانی کے بالوں سے جکڑ کر باندھ دی گئی ہے اور دنیا تمہارے عقب سے تہہ کی جا رہی ہے۔ لہٰذا جہنم کی اس آگ سے ڈرو جس کا گہراؤ دور تک چلاگیا ہے، جس کی تپش بے پناہ ہے اور جس کا عذاب ہمیشہ نیا اور تازہ رہتا ہے۔ وہ ایسا گھر ہے جس میں رحم و کرم کا سوال ہی نہیں۔ نہ اس میں کوئی فریاد سنی جاتی ہے اور نہ کرب و اذیت سے چھٹکارا ملتا ہے۔
وَ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ یَشْتَدَّ خَوْفُكُمْ مِنَ اللهِ، وَ اَنْ یَّحْسُنَ ظَنُّكُمْ بِهٖ، فَاجْمَعُوْا بَیْنَهُمَا، فَاِنَّ الْعَبْدَ اِنَّمَا یَكُوْنُ حُسْنُ ظَنِّهٖ بِرَبِّهٖ عَلٰی قَدْرِ خَوْفِهٖ مِنْ رَّبِّهٖ، وَ اِنَّ اَحْسَنَ النَّاسِ ظَنًّۢا بِاللهِ اَشَدُّهُمْ خَوْفًا لِّـلّٰهِ.
اگر یہ کر سکو کہ تم اللہ کا زیادہ سے زیادہ خوف بھی رکھو اور اس سے اچھی امید بھی وابستہ رکھو، تو ان دونوں باتوں کو اپنے اندر جمع کر لو، کیونکہ بندے کو اپنے پروردگار سے اتنی ہی امید بھی ہوتی ہے جتنا کہ اس کا ڈر ہوتا ہے۔ اور جو سب سے زیادہ اللہ سے امید رکھتا ہے وہی سب سے زیادہ اس سے خائف ہوتا ہے۔
وَ اعْلَمْ ـ یَا مُحَمَّدُ بْنَ اَبِیْ بَكْرٍ! ـ اَنِّیْ قَدْ وَلَّیْتُكَ اَعْظَمَ اَجْنَادِیْ فِیْ نَفْسِیْۤ اَهْلَ مِصْرَ، فَاَنْتَ مَحْقُوْقٌ اَنْ تُخَالِفَ عَلٰی نَفْسِكَ، وَ اَنْ تُنَافِحَ عَنْ دِیْنِكَ، وَ لَوْ لَمْ یَكُنْ لَّكَ اِلَّا سَاعَةٌ مِّنَ الدَّهْرِ، وَ لَا تُسْخِطِ اللهَ بِرِضٰی اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِهِ، فَاِنَّ فِی اللهِ خَلَفًا مِّنْ غَیْرِهٖ، وَ لَیْسَ مِنَ اللهِ خَلَفٌ فِیْ غَیْرِهٖ.
اے محمد ابن ابی بکر!اس بات کو جان لو کہ میں نے تمہیں مصر والوں پر کہ جو میری سب سے بڑی سپاہ ہیں، حکمران بنایا ہے۔ اب تم سے میرا یہ مطالبہ ہے کہ تم اپنے نفس کی خلاف ورزی کرنا اور اپنے دین کیلئے سینہ سپر رہنا، اگرچہ تمہیں زمانہ میں ایک ہی گھڑی کا موقع حاصل ہو۔ اور مخلوقات میں سے کسی کو خوش کرنے کیلئے اللہ کو ناراض نہ کرنا، کیونکہ اوروں کا عوض تو اللہ میں مل سکتا ہے مگر اللہ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔
صَلِّ الصَّلٰوةَ لِوَقْتِهَا الْمُوَقَّتِ لَهَا، وَ لَا تُعَجِّلْ وَقْتَهَا لِفَرَاغٍ، وَ لَا تُؤْخِّرْهَا عَنْ وَّقْتِهَا لِاشْتِغَالٍ، وَ اعْلَمْ اَنَّ كُلَّ شَیْءٍ مِّنْ عَمَلِكَ تَبَعٌ لِّصَلٰوتِكَ.
نماز کو اس کے مقررہ وقت پر ادا کرنا اور فرصت ہونے کی وجہ سے قبل از وقت نہ پڑھ لینا اور نہ مشغولیت کی وجہ سے اسے پیچھے ڈال دینا۔ یاد رکھو کہ تمہارا ہر عمل نماز کے تابع ہے۔
[وَ مِنْهُ]
[اس عہد نامہ کا ایک حصہ یہ ہے]
فَاِنَّهٗ لَا سَوَآءٌ اِمَامُ الْهُدٰی وَ اِمَامُ الرَّدٰی، وَ وَلِیُّ النَّبِیِّ وَ عَدُوُّ النَّبِیِّ، وَ لَقَدْ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: «اِنِّیْ لَاۤ اَخَافُ عَلٰۤی اُمَّتِیْ مُؤْمِنًا وَّ لَا مُشْرِكًا، اَمَّا الْمُؤْمِنُ فَیَمْنَعُهُ اللهُ بِاِیْمَانِهٖ، وَ اَمَّا الْمُشْرِكُ فَیَقْمَعُهُ اللهُ بِشِرْكِهٖ. وَ لٰكِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْكُمْ كُلَّ مُنَافِقِ الْجَنَانِ، عَالِمِ اللِّسَانِ، یَقُوْلُ مَا تَعْرِفُوْنَ، وَ یَفْعَلُ مَا تُنْكِرُوْنَ».
ہدایت کا امام اور ہلاکت کا پیشوا، پیغمبر ﷺ کا دوست اور پیغمبر ﷺ کا دشمن برابر نہیں ہوسکتے۔ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ: «مجھے اپنی اُمت کے بارے میں نہ مومن سے کھٹکا ہے اور نہ مشرک سے، کیونکہ مومن کی اللہ اس کے ایمان کی وجہ سے (گمراہ کرنے سے) حفاظت کرے گا اور مشرک کو اس کے شرک کی وجہ سے ذلیل و خوار کرے گا (کہ کوئی اس کی بات پر کان نہ دھرے گا)، بلکہ مجھے تمہارے لئے ہر اس شخص سے اندیشہ ہے کہ جو دل سے منافق اور زبان سے عالم ہے، کہتا وہ ہے جسے تم اچھا سمجھتے ہو اور کرتا وہ ہے جسے تم برا جانتے ہو»۔