مکتوبات

مکتوب (33)

(٣٣) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

مکتوب (۳۳)

اِلٰى قُثَمِ بْنِ الْعَبَّاسِ، وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلٰى مَكَّةَ

والی مکہ قثم ابن عباس کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ عَيْنِیْ بِالْمَغْرِبِ كَتَبَ اِلَیَّ، يُعْلِمُنِیْۤ اَنَّهٗ وُجِّهَ عَلَى الْمَوْسِمِ اُنَاسٌ مِّنْ اَهْلِ الشَّامِ، الْعُمْیِ الْقُلُوْبِ، الصُّمِّ الْاَسْمَاعِ، الْكُمْهِ الْاَبْصَارِ، الَّذِيْنَ يَلْتَمِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ، وَ يُطِيْعُوْنَ الْمَخْلُوْقَ فِیْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ، وَ يَحْتَلِبُوْنَ الدُّنْيَا دَرَّهَا بِالدِّيْنِ، وَ يَشْتَرُوْنَ عَاجِلَهَا بِاٰجِلِ الْاَبْرَارِ وَ الْمُتَّقِيْنَ.

مغربی [۱] علاقہ کے میرے جاسوس نے مجھے تحریر کیا ہے کہ کچھ شام کے لوگوں کو (مکہ) حج کیلئے روانہ کیا گیا ہے، جو دل کے اندھے، کانوں کے بہرے اور آنکھوں کی روشنی سے محروم ہیں، جو حق کو باطل کی راہ سے ڈھونڈتے ہیں، اور اللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت کرتے ہیں، اور دین کے بہانے دنیا (کے تھنوں)سے دودھ دوہتے ہیں، اور نیکوں اور پرہیز گاروں کے اجر آخرت کو ہاتھوں سے دے کر دنیا کا سودا کر لیتے ہیں۔

وَ لَنْ يَّفُوْزَ بِالْخَيْرِ اِلَّا عَامِلُهٗ، وَ لَا يُجْزٰى جَزَآءَ الشَّرِّ اِلَّا فَاعِلُهٗ، فَاَقِمْ عَلٰى مَا فِیْ يَدَيْكَ قِيَامَ الْحَازِمِ الصَّلِيْبِ، وَ النَّاصِحِ اللَّبِيْبِ، وَ التَّابِـعِ لِسُلْطَانِهِ الْمُطِيْعِ لِاِمَامِهٖ. وَ اِيَّاكَ وَ مَا يُعْتَذَرُ مِنْهُ، وَ لَا تَكُنْ عِنْدَ النَّعْمَآءِ بَطِرًا، وَ لَا عِنْدَ الْبَاْسَآءِ فَشِلًا، وَ السَّلَامُ.

دیکھو! بھلائی اسی کے حصہ میں آتی ہے جو اس پر عمل کرتا ہے اور برا بدلہ اسی کو ملتا ہے جو برے کام کرتا ہے، لہٰذا تم اپنے فرائض منصبی کو اس شخص کی طرح ادا کرو جو بافہم، پختہ کار، خیر خواہ اور دانشمند ہو، اور اپنے حاکم کا فرماں بردار اور اپنے امام کا مطیع رہے۔ اور خبردار! کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ تمہیں معذرت کرنے کی ضرورت پیش آئے، اور نعمتوں کی فراوانی کے وقت کبھی اتراؤ نہیں، اور سختیوں کے موقعہ پر بودا پن نہ دکھاؤ۔ والسلام۔

۱؂معاویہ نے کچھ لوگوں کو حاجیوں کے بھیس میں مکہ روانہ کیا تاکہ وہاں کی خاموش فضا میں سنسنی پیدا کریں اور تقویٰ و ورع کی نمائش سے عوام کا اعتماد حاصل کر کے ان کے یہ ذہن نشین کر دیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا اور آخر انہیں قتل کرا کے دم لیا، اور اس طرح حضرتؑ کو ان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرا کر عوام کو ان سے بدظن کریں، اور امیر شام کے کردار کی بلندی، اخلاق کی عظمت اور داد و دہش کے تذکروں سے لوگوں کو اس کی طرف مائل کریں۔ مگر حضرتؑ نے جن لوگوں کو شام میں حالات کا جائزہ لینے اور خبر رسانی کیلئے مقرر کر رکھا تھا، انہوں نے جب آپؑ کو اطلاع دی تو آپؑ نے والی مکہ قثم ابن عباس کو ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے اور ان کی شورش انگیزیوں کے انسداد کیلئے یہ مکتوب تحریر فرمایا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button