مکتوب (۳۶)
(٣٦) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۳۶)
اِلٰۤى اَخِیْهِ عَقِیْلِ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فِیْ ذِكْرِ جَیْشٍ اَنفَذَهٗۤ اِلٰى بَعْضِ الْاَعْدَآءِ، وَهُوَ جَوَابُ كِتَابٍ كَتَبَهٗ اِلَیْهِ عَقِیْلٌ:
جو امیر المومنین علیہ السلام [۱] نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے خط کے جواب میں لکھا ہے، جس میں کسی دشمن کی طرف بھیجی ہوئی ایک فوج کا ذکر کیا گیا ہے:
فَسَرَّحْتُ اِلَیْهِ جَیْشًا كَثِیْفًا مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ، فَلَمَّا بَلَغَهٗ ذٰلِكَ شَمَّرَ هَارِبًا وَّ نَكَصَ نَادِمًا، فَلَحِقُوْهُ بِبَعْضِ الطَّرِیْقِ، وَ قَدْ طَفَّلَتِ الشَّمْسُ لِلْاِیَابِ، فَاقْتَتَلُوْا شَیْئًا كَلَا وَ لَا، فَمَا كَانَ اِلَّا كَمَوْقِفِ سَاعَةٍّ، حَتّٰى نَجَا جَرِیْضًۢا بَعْدَ مَاۤ اُخِذَ مِنْهُ بِالْمُخَنَّقِ، وَ لَمْ یَبْقَ مِنْهُ غَیْرُ الرَّمَقِ، فَلَاْیًۢا بِلَاْیٍ مَا نَجَا.
میں نے اس کی طرف مسلمانوں کی ایک بھاری فوج روانہ کی تھی۔ جب اس کو پتہ چلا تو وہ دامن گردان کر بھاگ کھڑا ہوا اور پشیمان ہو کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ سورج ڈوبنے کے قریب تھا کہ ہماری فوج نے اسے ایک راستہ میں جا لیا اور نہ ہونے کے برابر کچھ جھڑپیں ہوئی ہوں گی، اور گھڑی بھر ٹھہرا ہو گا کہ بھاگ کر جان بچا لے گیا، جبکہ اسے گلے سے پکڑا جا چکا تھا، اور آخری سانسوں کے سوا اس میں کچھ باقی نہ رہ گیا تھا، اس طرح بڑی مشکل سے وہ بچ نکلا۔
فَدَعْ عَنْكَ قُرَیْشًا وَّ تَرْكَاضَهُمْ فِی الضَّلَالِ، وَ تَجْوَالَهُمْ فِی الشِّقَاقِ، وَ جِمَاحَهُمْ فِی التِّیْهِ، فَاِنَّهُمْ قَدْ اَجْمَعُوْا عَلٰى حَرْبِیْ كَاِجْمَاعِهِمْ عَلٰى حَرْبِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ قَبْلِیْ، فَجَزَتْ قُرَیْشًا عَنِّی الْجَوَازِیْ، فَقَدْ قَطَعُوْا رَحِمِیْ، وَ سَلَبُوْنِیْ سُلْطَانَ ابْنِ اُمِّیْ.
تم قریش کے گمراہی میں دوڑ لگانے، سرکشی میں جولانیاں کرنے اور ضلالت میں منہ زوری دکھانے کی باتیں چھوڑ دو۔انہوں نے مجھ سے جنگ کرنے میں اسی طرح ایکا کیا ہے جس طرح وہ مجھ سے پہلے رسول ﷺ سے لڑنے کیلئے ایکا کئے ہوئے تھے۔ خدا کرے ان کی کرنی ان کے سامنے آئے! انہوں نے میرے رشتے کا کوئی لحاظ نہ کیا اور میرے ماں جائے کی حکومت مجھ سے چھین لی۔
وَ اَمَّا مَا سَئَلْتَ عَنْهُ مِنْ رَّاْیِیْ فِی الْقِتَالِ، فَاِنَّ رَاْیِیْ فِیْ قِتَالِ الْمُحِلِّیْنَ حَتّٰى اَلْقَى اللّٰهَ، لَا یَزِیْدُنِیْ كَثْرَةُ النَّاسِ حَوْلِیْ عِزَّةً، وَ لَا تَفَرُّقُهُمْ عَنِّیْ وَحْشَةً.
اور جو تم نے جنگ کے بارے میں میری رائے دریافت کی ہے تو میری آخر دم تک رائے یہی رہے گی کہ جن لوگوں نے جنگ کو جائز قرار دے لیا ہے ان سے جنگ کرنا چاہیے۔ اپنے گرد لوگوں کا جمگھٹا دیکھ کر میری ہمت نہیں بڑھتی اور نہ ان کے چھٹ جانے سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔
وَ لَا تَحْسَبَنَّ ابْنَ اَبِیْكَ وَ لَوْ اَسْلَمَهُ النَّاسُ مُتَضَرِّعًا مُّتَخَشِّعًا، وَ لَا مُقِرًّا لِّلضَّیْمِ وَاهِنًا، وَ لَا سَلِسَ الزِّمَامِ لِلْقَآئِدِ، وَ لَا وَطِئَ الظَّهْرِ لِلرَّاكِبِ الْمُتَقَعِّدِ، وَ لٰكِنَّهٗ كَمَا قَالَ اَخُوْ بَنِیْ سُلَیْمٍ:
دیکھو! اپنے بھائی کے متعلق چاہے کتنا ہی لوگ اس کا ساتھ چھوڑ دیں، یہ خیال کبھی نہ کرنا کہ وہ بے ہمت و ہراساں ہو جائے گا، یا کمزوری دکھاتے ہوئے ذلت کے آگے جھکے گا، یا مہار کھینچنے والے ہاتھ میں بآسانی اپنی مہار دے دے گا، یا سوار ہونے والے کیلئے اپنی پشت کو مرکب بننے دے گا، بلکہ وہ تو ایسا ہے جیسا قبیلہ بنی سلیم والے نے کہا ہے:
فَاِنْ تَسْئَلِیْنِیْ كَیْفَ اَنْتَ؟ فَاِنَّنِیْ صَبُورٌ عَلٰى رَیْبِ الزَّمَانِ صَلِیْبُ یَعِزُّ عَلَیَّ اَنْ تُرٰى بِیْ كَاٰبَةٌ فَیَشْمَتَ عَادٍ اَوْ یُسَآءَ حَبِیْبُ
’’اگر تم مجھ سے پوچھتی ہو کہ کیسے ہو تو سنو کہ میں زمانہ کی سختیاں جھیل لے جانے میں بڑا مضبوط ہوں۔ مجھے یہ گوارا نہیں کہ مجھ میں حزن و غم کے آثار دکھائی پڑیں کہ دشمن خوش ہو نے لگیں اور دوستوں کو رنج پہنچے‘‘۔
۱تحکیم کے بعد جب معاویہ نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا تو ضحاک ابن قیس فہری کو چار ہزار کے لشکر کے ہمراہ حضرتؑ کے مقبوضہ شہروں پر حملہ کرنے کیلئے روانہ کیا۔ حضرتؑ کو جب اس کی غارت گریوں کا علم ہوا تو آپؑ نے اہل کوفہ کو اس کے مقابلہ کیلئے ابھارا، مگر انہوں نے حیلے بہانے شروع کر دیئے۔ آخر حجر ابن عدی کندی چار ہزار جنگجوؤں کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے مقام تدمر میں اس کو جا لیا۔ دونوں فریق میں کچھ ہی جھڑپیں ہوئی تھیں کہ شام کا اندھیرا پھیلنے لگا اور وہ اس سے فائدہ اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ عقیل ابن ابی طالب مکہ میں عمرہ بجا لانے کیلئے آئے ہوئے تھے۔ جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ضحاک حیرہ پر حملہ کرنے کے بعد صحیح و سالم بچ نکلا ہے اور اہل کوفہ جنگ سے جی چھوڑ بیٹھے ہیں اور ان کی تمام سرگرمیاں ختم ہو گئی ہیں تو آپ نے نصرت و امداد کی پیش کش کرتے ہوئے عبید الرحمٰن ابن عبید ازدی کے ہاتھ ایک مکتوب حضرتؑ کی خدمت میں روانہ کیا جس کے جواب میں حضرتؑ نے یہ مکتوب تحریر فرمایا ہے جس میں اہل کوفہ کے رویہ کا شکوہ اور ضحاک کے فرار کا تذکرہ کیاہے۔