مکتوبات

مکتوب (۵۴)

(٥٤) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

مکتوب (۵۴)

اِلٰى طَلْحَةَ وَ الزُّبَیْرِ، مَعَ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ الْخُزَاعِىِّ، ذَكَرَهٗۤ اَبُوْ جَعْفَرٍ الْاِسْكَافِىُّ فِیْ كِتَابِ الْمَقَامَاتِ فِیْ مَنَاقِبِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ:

جو عمران ابن حصین خزاعی [۱] کے ہاتھ طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا۔ اس خط کو ابو جعفر اسکافی نے اپنی کتاب ’’مقامات‘‘ میں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل میں ہے ذکر کیا ہے۔

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ عَلِمْتُمَا وَ اِنْ كَتَمْتُمَا، اَنِّیْ لَمْ اُرِدِ النَّاسَ حَتّٰۤى اَرَادُوْنِیْ، وَ لَمْ اُبَایِعْهُمْ حَتّٰى بَایَعُوْنِیْ، وَ اِنَّكُمَا مِمَّنْ اَرَادَنِیْ وَ بَایَعَنِیْ، وَ اِنَّ الْعَامَّةَ لَمْ تُبَایِعْنِیْ لِسُلْطَانٍ غَالِبٍ، وَ لَا لِعَرَضٍ حَاضِرٍ، فَاِنْ كُنْتُمَا بَایَعْتُمَانِیْ طَآئِعَیْنِ، فَارْجِعَا وَ تُوْبَا اِلَى اللّٰهِ مِنْ قَرِیْبٍ، وَ اِنْ كُنْتُمَا بَایَعْتُمَانِیْ كَارِهَیْنِ، فَقَدْ جَعَلْتُمَا لِیْ عَلَیْكُمَا السَّبِیْلَ بِاِظْهَارِكُمَا الطَّاعَةَ، وَ اِسْرَارِكُمَا الْمَعْصِیَةَ.

چاہے تم کتنا ہی چھپاؤ مگر تم دونوں واقف ہو کہ میں لوگوں کی طرف نہیں بڑھا، بلکہ وہ بڑھ کر میری طرف آئے۔ میں نے اپنا ہاتھ بیعت لینے کیلئے نہیں بڑھایا، بلکہ انہوں نے خود میرے ہاتھ پر بیعت کی، اور تم دونوں بھی انہی لوگوں میں سے ہو کہ جو میری طرف بڑھ کر آئے تھے اور بیعت کی تھی، اور عوام نے میرے ہاتھ پر نہ تسلط و اقتدار (کے خوف) سے بیعت کی تھی اور نہ مال و دولت کے لالچ میں۔ اب اگر تم دونوں نے اپنی رضا مندی سے بیعت کی تھی تو اس (عہد شکنی) سے پلٹو اور جلد اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو، اور اگر ناگواری کے ساتھ بیعت کی تھی تو اطاعت کو ظاہر کر کے اور نافرمانی کو چھپا کر تم نے اپنے خلاف میرے لئے حجت قائم کر دی ہے۔

وَ لَعَمْرِیْ! مَا كُنْتُمَا بِاَحَقِّ الْمُهَاجِرِیْنَ بِالتَّقِیَّةِ وَ الْكِتْمَانِ، وَ اِنَّ دَفْعَكُمَا هٰذَا الْاَمْرَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَدْخُلَا فِیْهِ، كَانَ اَوْسَعَ عَلَیْكُمَا مِنْ خُرُوْجِكُمَا مِنْهُ بَعْدَ اِقْرَارِكُمَا بِهٖ، وَ قَدْ زَعَمْتُمَا اَنِّیْ قَتَلْتُ عُثْمَانَ، فَبَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمَا مَنْ تَخَلَّفَ عَنِّیْ وَ عَنْكُمَا مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ، ثُمَّ یُلْزَمُ كُلُّ امْرِئٍۭ بِقَدْرِ مَا احْتَمَلَ.

اور [۲] مجھے اپنی زندگی کی قسم! کہ تم قلبی کیفیت پر پردہ ڈالنے اور اسے چھپانے میں دوسرے مہاجرین سے زیادہ سزا وار نہ تھے ،اور بیعت کرنے سے پہلے اسے ردّ کرنے کی تمہارے لئے اس سے زیادہ گنجائش تھی کہ اب اقرار کے بعد اس سے نکلنے کی کو شش کرو، اور تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان مدینہ کے وہ لوگ کہ جو تم سے بھی اور ہم سے بھی کنارہ کش ہیں گواہی دینے کو موجود ہیں۔ اس کے بعد جس نے جتنا حصہ لیا ہو اتنے کا اسے ذمہ دار سمجھا جائے گا۔

فَارْجِعَاۤ اَیُّهَا الشَّیْخَانِ عَنْ رَّاْیِكُمَا، فَاِنَّ الْاٰنَ اَعْظَمُ اَمْرِكُمَا الْعَارُ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّجْتَمِـعَ الْعَارُ وَ النَّارُ، وَ السَّلَامُ.

بزرگوارو! اپنے اس رویہ سے باز آؤ، کیونکہ ابھی تو تم دونوں کے سامنے ننگ و عار ہی کا بڑا مرحلہ ہے، مگر اس کے بعد تو اس ننگ و عار کے ساتھ (دوزخ کی) آگ بھی جمع ہو جائے گی۔ والسلام۔

۱؂عمران ابن حصین خزاعی بلند پایہ صحابی، علم و فضل میں ممتاز اور نقلِ احادیث میں بہت محتاط تھے۔ خیبر والے سال ایمان لائے اور پیغمبر ﷺ کے ساتھ شریک جہاد رہے۔ کوفہ میں منصب قضا پر فائز ہوئے ،اور۵۲ھ میں بصرہ میں رحلت فرمائی۔

۲؂یعنی تم دونوں تو دولت و ثروت اور قوم و قبیلہ والے تھے، تمہیں اس دو رُخی کی کیا ضرورت تھی کہ قلبی کیفیت کو چھپاتے ہوئے اطاعت کا اظہار کرتے اور ناگواری و مجبوری سے بیعت کرتے۔ البتہ تمہارے علاوہ کوئی اور کمزور و ناتواں یہ کہتا کہ وہ بیعت پر مجبور تھا تو کسی حد تک یہ بات تسلیم کی جا سکتی تھی۔ مگر جب کسی دوسرے نے اپنے مجبور و بے بس ہونے کا اظہار نہیں کیا تو یہ مجبوری تمہارے ہی سر کیوں پڑی کہ اپنی بیعت کو مجبوری کا نتیجہ قرار دو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button