امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے گناہوں کا مٹ جانا
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے گناہوں کا مٹ جانا
ایک دن مرحوم سید بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ تنہا پیدل سامراء کی زیارت کے لیے نکل پڑے اور راستے میں یہ سوچ رہے تھے کہ کیسےحضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری گناہوں کو مٹا دیتی ہے؟اسی وقت متوجہ ہوئے کہ ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے ان کے پاس پہنچتا ہے۔ انھیں سلام کرنے کے بعد سوال کرتا ہے کہ اے سید کیاسوچ رہے ہو؟اگر کوئی علمی مسئلہ ہے تو بتاؤ ہم بھی سنیں؟
مرحوم سید بحر العلوم فرماتے ہیں:میں یہ سوچ رہا ہوں کہ خداوندمتعال کس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا اتنا بڑا ثواب ان کے زائرین اور عزادری کرنے والوں کو عنایت فرماتا ہے ؟مثلاً وہ زیارت کے سفر میں جو قدم بھی اٹھائیں ہر قدم کے بدلے میں انھیں ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ان کے نامۂ اعمال میں اضافہ فرمادیتا ہے۔۔۔ اور عزادری میں آنسو کا ایک قطرہ بہانے سے عزادار کے گناہ محو ہوجاتے ہیں۔؟
اس سوار نے فرمایا:تعجب نہیں کرو! میں اس مسئلہ کے حل کے لیے آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔
ایک بادشاہ اپنے درباریوں کے ہمراہ شکار کے لیے نکلتا ہے شکارگاہ میں وہ اپنے ساتھیوں سے گم ہو جاتا ہے اور نہایت مشکل میں مبتلا ہوجاتا ہے بھوک اور پیاس سے بےحال ہوجانے کے بعد ایک خیمہ کو دیکھتا ہے اور اس خیمے میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس خیمہ میں ایک بوڑھی عورت کو اس کے بچے کے ساتھ دیکھتا ہے ان کے پاس خیمہ میں ایک دودھ دینے والی بھیڑ ہوتی ہے وہ لوگ اسی جانور کے دودھ سے اپنا گذر بسر کرتے تھے۔ جب سلطان ان کے خیمہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ اسے نہیں پہچانتے لیکن اپنے مہمان کی خدمت کے لیے وہ اپنی تنہا جمع پونجی یعنی بھیڑکو ذبح کردیتے ہیں اور گوشت سے کباب بنا کرسلطان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔سلطان رات ان کے پاس قیام کرتا ہے اوردوسرے دن ان سے خداحافظی کرنے کے بعد جس طرح بھی ہوا اپنے ساتھیوں سے جاملتا ہے اور انھیں تمام ماجرا سے آگاہ کرتا ہے ۔ پھر ان سے دریافت کرتا ہے کہ ان سب کی نظر میں اگر میں اس بوڑھی عورت اور اس کے بیٹے کا شکریہ ادا کرنا چاہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟
ایک نے کہا:انھیں سو بھیڑیں عنایت فرمائیں۔
دوسرے نے کہا:سو بھیڑوں کے ساتھ سو اشرفی بھی عنایت فرمائیں۔
تیسرے نے کہا:انھیں ایک زرعی زمین بھی ان کے ساتھ عنایت فرمائیں۔
سلطان نے کہا :میں جو کچھ بھی دوں وہ کم ہے ۔ اگر میں انھیں اپنا تاج و تخت دے دوں تو اسی وقت ان کے ساتھ مقابلہ بالمثل ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنا سب کچھ میرے اوپر قربان کردیا تھالہذا مجھے بھی اپنا سب کچھ انھیں دے دینا چاہئے تاکہ حساب برابر ہو جائے۔
پھر سوار نے سید بحر العلوم سے کہا:حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے اپنا سب کچھ یعنی مال و منال، اہل و عیال،بیٹے،بھائی،بیٹی،بہن،سر،بدن سب کچھ خداوندمتعال کی راہ میں قربان کردیا۔تو پھر اگر خداوندمتعال اس مظلوم امام کے زائرین اور عزاداروں کے اس طرح کے ثواب و اجر دےتوتعجب نہیں کرنا چاہیے۔چونکہ خدا اپنی خدائی تو سید الشہداء کو نہیں دے سکتا تو پھر اپنے عالی مقام کے علاوہ جو کچھ بھی حضرت کے زائرین کو عنایت فرمائے اس کے باوجود بھی اس فداکاری کی مکمل جزا کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی۔
سوار ان مطالب کو کہنے کے بعد سید بحر العلوم کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔( شیخ صدوق،عیون اخبار رضا،ترجمہ محمد تقی اصفہانی،علمیہ اسلامی،ج۱ ص۳۷۴)۔