حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری
حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری
حضرت ولی عصرامام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزداری ان کے مصائب پر رونے کی نہایت اہمیت کے قائل ہیں اور اس بات کا اندازہ حضرت کی جانب سے نقل ہونے والی دو زیارتیں یعنی حضرت امام حسین علیہ کی زیارت اور شہداء کربلا کی زیارت ہیں جن میں حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے درد ناک مصائب ذکر فرماتے ہیں۔
حضرت امام زمان عجل الله تعالی فرجہ الشریف سے نقل ہونے والی حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں: ’’ فَلاَندُبَنَّک صَباحاًوَمسآءًوَلَأَبکِیَنَّ بَدَلَ الدُّموعِ دَماً‘‘(بحار الانوار،ج۱۰۱،ص۳۲۰)اے میرے آقا !خدا کی قسم؛میں دن رات آپ کی مظلومیت و مصیبت پر عزاداری کرتا اور آنسوؤں کے بدلے خون روتا ہوں۔حضرت پہلے فقرے میں اپنی عزاداری اور دوسرے فقرے میں آنسوؤں کی جگہ خون رونے کا ذکر فرماتے ہیں۔
حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا خون کے آنسورونا
محققین معتقد ہیں کہ انسان کی آنکھوں کے پیچھے خون کے تھیلے ہوتے ہیں جب انسان کے غم و حزن سے متأثر ہوتا ہے تو ان تھیلیوں کا خون پانی میں تبدیل ہو کر آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں جاری ہوجاتا ہے اور اگر رونے کا یہ عمل غم کی شدت کی وجہ سےطویل اور شدید ہو جائے تو خون کو پانی میں تبدیل کرنے کا عمل مختل ہوجاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون بہنے لگتا ہے۔( بحار الانوار ،ج۴۴،ص۲۹۳)حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں آپ کی مظلومیت اور مصیبت میں اس قدر عزاداری کرتا ہوں کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری نہیں ہوتے بلکہ خون جاری ہوتا ہے اور کسی خاص وقت یہ عزاداری نہیں کرتا بلکہ پورا سال دن رات اپنے جد کی مظلومیت پر خون کے آنسو بہاتا ہوں۔
روایات میں ہے کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے دنیا والوں کو مخاطب قرار دے کر جو فریاد بلند کریں گے ان میں سے تین جملے حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے متعلق ہیں:’’أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الامامُ القائمُ الثانی عَشَرَ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الصّمْضامُ المُنْتَقِم ،أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن قَتَلوهُ عَطْشاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْنطَرَحوهُ عُریاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن سَحَقوهُ عُدواناً ‘‘(سید ابن طاووس،لہوف،ص۱۱)اے دنیا والوں! میں آپ کا وہ امام ہوں جس کے قیام کا آپ سے وعدہ کیا گیا ہے، میں ظالموں کے خلاف انتقام لینے والی تیز دھاری والی تلوار ہوں،اے دنیا والو!میرے جد امجد حسین کو پیاسا شہید کردیا گیا ، اے دنیا والو ! میرے جد امجد حسین کو مطہر جسم کو عریاں خاک کربلا پر چھوڑ دیا گیا! اے دنیا والو ! میرے جد امجد حسین کے پاک و مطہر بدن کو دشمنی کی خاطر گھوڑوں کے سموں تلے پائمال کردیا گیا۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے مجلس منعقد کریں گے اور اپنے مظلوم جد امجد کی عزداری کریں گے اور اپنے قیام کی ابتداء کو کربلا کے قیام سے متصل کرتے ہوئے دنیا والوں کے سامنے یہ ثابت کردیں گے کہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد