مکتوب (۵۸)
(٥٨) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۵۸)
كَتَبَهٗ اِلٰۤى اَهْلِ الْاَمْصَارِ یَقْتَصُّ فِیْهِ مَا جَرٰى بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ اَهْلِ صِفِّیْنَ:
جو مختلف علاقوں کے باشندوں کو صفین کی روئداد سے مطلع کرنے کیلئے تحریر فرمایا:
وَ كَانَ بَدْءُ اَمْرِنَاۤ اَنَّا الْتَقَیْنَا وَ الْقَوْمُ مِنْ اَهْلِ الشَّامِ، وَ الظَّاهِرُ اَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ، وَ نَبِیَّنَا وَاحِدٌ، وَ دَعْوَتَنَا فِی الْاِسْلَامِ وَاحِدَةٌ، لَا نَسْتَزِیْدُهُمْ فِی الْاِیْمَانِ بِاللّٰهِ، وَ التَّصْدِیْقِ بِرَسُوْلِهٖ ﷺ،وَ لَا یَسْتَزِیْدُوْنَنَا، الْاَمْرُ وَاحِدٌ، اِلَّا مَا اخْتَلَفْنَا فِیْهِ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ، وَ نَحْنُ مِنْهُ بَرَآءٌ.
ابتدائی صورت حال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے سامنے آئے اس حالت میں کہ ہمارا اللہ ایک، نبی ایک اور دعوت اسلام ایک تھی، نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسولؐ کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے، بالکل اتحاد تھا، سوا اس اختلاف کے جو ہم میں خونِ عثمان کے بارے میں ہو گیا تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے
فَقُلْنَا تَعَالَوْا نُدَاوِ مَا لَا یُدْرَكُ الْیَوْمَ بِاِطْفَآءِ النَّآئِرَةِ، وَ تَسْكِیْنِ الْعَامَّةِ، حَتّٰى یَشْتَدَّ الْاَمْرُ وَ یَسْتَجْمِـعَ، فَنَقْوٰى عَلٰى وَضْعِ الْحَقِّ
بالکل بری الذمہ تھے۔
مَوَاضِعَهٗ، فَقَالُوْا بَلْ نُدَاوِیْهِ بِالْمُكَابَرَةِ.
تو ہم نے ان سے کہا کہ آؤ فتنہ کی آگ بجھا کر اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا کر کے اس مرض کا وقتی مداوا کریں جس کا پورا استیصال ابھی نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ صورتِ حال استوار و ہموار ہو جائے اور سکون و اطمینان حاصل ہو جائے۔ اس وقت ہمیں اس کی قوت ہو گی کہ ہم حق کو اس کی جگہ پر رکھ سکیں، لیکن ان لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا علاج جنگ و جدل سے کریں گے۔
فَاَبَوْا حَتّٰى جَنَحَتِ الْحَرْبُ وَ رَكَدَتْ، وَ وَقَدَتْ نِیْرَانُهَا وَ حَمِسَتْ، فَلَمَّا ضَرَّسَتْنَا وَ اِیَّاهُمْ، وَ وَضَعَتْ مَخَالِبَهَا فِیْنَا وَ فِیْهِمْ، اَجَابُوْا عِنْدَ ذٰلِكَ اِلَى الَّذِیْ دَعَوْنَاهُمْ اِلَیْهِ، فَاَجَبْنَاهُمْ اِلٰى مَا دَعَوْا، وَ سَارَعْنَاهُمْ اِلٰى مَا طَلَبُوْا، حَتَّى اسْتَبَانَتْ عَلَیْهِمُ الْحُجَّةُ، وَ انْقَطَعَتْ مِنْهُمُ الْمَعْذِرَةُ.
اور جب انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا تو جنگ نے اپنے پر پھیلا دیئے اور جم کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے شعلے بھڑک اٹھے اور شدت بڑھ گئی۔ اب جب اس نے ہمیں اور انہیں دانتوں سے کاٹا اور اپنے پنجوں میں جکڑ لیا تو وہ اس بات پر اتر آئے جس کی طرف ہم خود انہیں بلا چکے تھے۔ چنانچہ ہم نے ان کی پیشکش کو مان لیا اور ان کی خواہش کو جلدی سے قبول کر لیا۔ اس طرح ان پر حجت پورے طور سے واضح ہو گئی اور ان کیلئے کسی عذر کی گنجائش نہ رہی۔
فَمَنْ تَمَّ عَلٰى ذٰلِكَ مِنْهُمْ فَهُوَ الَّذِیْۤ اَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنَ الْهَلَكَةِ، وَ مَنْ لَّجَّ وَ تَمَادٰى فَهُوَ الرَّاكِسُ الَّذِیْ رَانَ اللّٰهُ عَلٰى قَلْبِهٖ، وَ صَارَتْ دَآئِرَةُ السَّوْءِ عَلٰى رَاْسِهٖ.
اب ان میں سے جو اپنے عہد پر جما رہے گا وہ وہ ہو گا جسے اللہ نے ہلاکت سے بچایا ہے اور جو ہٹ دھرمی کرتے ہوئے گمراہی میں دھنستا جائے گا تو وہ عہد شکن ہو گا جس کے دل پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور زمانہ کے حوادث اس کے سرپر منڈلاتے رہیں گے۔