مکتوب (۶۲)
(٦٢) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۶۲)
اِلٰۤى اَهْلِ مِصْرَ مَعَ مَالِكٍ الْاشْتَرِ رَحِمَهُ اللّٰهُ لَمَّا وَلَّاهُ اِمَارَتَهَا:
جب مالک اشتر کو مصر کا حاکم تجویز فرمایا تو ان کے ہاتھ اہلِ مصر کو بھیجا:
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ نَذِیْرًا لِّلْعٰلَمِیْنَ، وَ مُهَیْمِنًا عَلٰى الْمُرْسَلِیْنَ، فَلَمَّا مَضٰى عَلَیْهِالسَّلَامُ تَنَازَعَ الْمُسْلِمُوْنَ الْاَمْرَ مِنْ بَعْدِهٖ.
اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں کا (ان کی بداعمالیوں کی پاداش سے) ڈرانے والا اور تمام رسولوں پر گواہ بنا کر بھیجا۔ پھر جب [۱] رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو ان کے بعد مسلمانوں نے خلافت کے بارے میں کھینچا تانی شروع کر دی۔
فَوَاللّٰهِ! مَا كَانَ یُلْقٰى فِیْ رُوْعِیْ وَ لَا یَخْطُرُ بِبَالِیْ اَنَّ الْعَرَبَ، تُزْعِجُ هٰذَا الْاَمْرَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ﷺ عَنْ اَهْلِ بَیْتِهٖ، وَ لَاۤ اَنَّهُمْ مُنَحُّوْهُ عَنِّیْ مِنْۢ بَعْدِهٖ، فَمَا رَاعَنِیْۤ اِلَّا انْثِیَالُ النَّاسِ عَلٰى فُلَانٍ یُّبَایِعُوْنَهٗ.
اس موقع پر بخدا! مجھے یہ کبھی تصور بھی نہیں ہوا تھا اور نہ میرے دل میں یہ خیال گزرا تھا کہ پیغمبر ﷺ کے بعد عرب خلافت کا رخ ان کے اہل بیت علیہم السلام سے موڑ دیں گے، اور نہ یہ کہ ان کے بعد اسے مجھ سے ہٹا دیں گے۔ مگر ایک دم میرے سامنے یہ منظر آیا کہ لوگ فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے دوڑ پڑے۔
فَاَمْسَكْتُ یَدِیْ حَتّٰى رَاَیْتُ رَاجِعَةَ النَّاسِ قَدْ رَجَعَتْ عَنِ الْاِسْلَامِ، یَدْعُوْنَ اِلٰى مَحْقِ دَیْنِ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَخَشِیْتُ اِنْ لَّمْ اَنْصُرِ الْاِسْلَامَ وَ اَهْلَهٗ اَنْ اَرٰى فِیْهِ ثَلْمًا اَوْ هَدْمًا، تَكُوْنُ الْمُصِیْبَةُ بِهٖ عَلَیَّ اَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَایَتِكُمُ الَّتِیْۤ اِنَّمَا هِیَ مَتَاعُ اَیَّامٍ قَلَآئِلَ، یَزُوْلُ مِنْهَا مَا كَانَ كَمَا یَزُوْلُ السَّرَابُ، اَوْ كَمَا یَتَقَشَّعُ السَّحَابُ، فَنَهَضْتُ فِیْ تِلْكَ الْاَحْدَاثِ، حَتّٰی زَاحَ الْبَاطِلُ وَ زَهَقَ، وَ اطْمَاَنَّ الدِّیْنُ وَ تَنَهْنَهَ.
ان حالات میں مَیں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمد ﷺ کے دین کو مٹا ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اب میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوئے میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لئے اس سے بڑھ کر مصیبت ہو گی جتنی یہ مصیبت کہ تمہاری یہ حکومت میرے ہاتھ سے چلی جائے جو تھوڑے دنوں کا اثاثہ ہے، اس میں کی ہر چیز زائل ہو جائے گی، اس طرح جیسے سراب بے حقیقت ثابت ہوتا ہے یا جس طرح بدلی چھٹ جاتی ہے۔ چنانچہ میں ان بدعتوں کے ہجوم میں اٹھ کھڑا ہوا۔ یہاں تک کہ باطل دب کر فنا ہو گیا اور دین محفوظ ہو کر تباہی سے بچ گیا۔
[وَ مِنْهُ]
[اسی خط کا ایک حصہ یہ ہے]
اِنِّیْ وَ اللّٰهِ! لَوْ لَقِیتُهُمْ وَاحِدًا وَ هُمْ طِلَاعُ الْاَرْضِ كُلِّهَا، مَا بَالَیْتُ وَ لَا اسْتَوْحَشْتُ، وَ اِنِّیْ مِنْ ضَلَالِهِمُ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ، وَ الْهُدَى الَّذِیْۤ اَنَا عَلَیْهِ، لَعَلٰى بَصِیْرَةٍ مِّنْ نَّفْسِیْ، وَ یَقِیْنٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَ اِنِّیْۤ اِلٰى لِقَآءِ اللّٰهِ وَ حُسْنِ ثَوَابِهٖ، لَمُنْتَظِرٌ رَّاجٍ، وَ لٰكِنَّنِیْۤ اٰسٰى اَنْ یَّلِیَ اَمْرَ هٰذِهِ الْاُمَّةِ سُفَهَآؤُهَا وَ فُجَّارُهَا، فَیَتَّخِذُوْا مَالَ اللّٰهِ دُوَلًا، وَ عِبَادَهٗ خَوَلًا، وَ الصّٰلِحِیْنَ حَرْبًا، وَ الْفَاسِقِیْنَ حِزْبًا، فَاِنَّ مِنْهُمُ الَّذِیْ قَدْ شَرِبَ فِیْكُمُ الْحَرَامَ، وَ جُلِدَ حَدًّا فِی الْاِسْلَامِ، وَ اِنَّ مِنْهُمْ مَنْ لَّمْ یُسْلِمْ، حَتّٰى رُضِخَتْ لَهٗ عَلَى الْاِسْلَامِ الرَّضَآئِخُ، فَلَوْ لَا ذٰلِكَ مَاۤ اَكْثَرْتُ تَاْلِیْبَكُمْ وَ تَاْنِیْبَكُمْ، وَ جَمْعَكُمْ وَ تَحْرِیْضَكُمْ، وَ لَتَرَكْتُكُمْ اِذْ اَبَیْتُمْ وَ وَنَیْتُمْ.
بخدا! اگر میں تن تنہا ان سے مقابلہ کیلئے نکلوں اور زمین کی ساری وسعتیں ان سے چھلک رہی ہوں، جب بھی میں پروا نہ کروں اور نہ پریشان ہوں۔ اور میں جس گمراہی میں وہ ہیں اور جس ہدایت پر میں ہوں، اس کے متعلق پوری بصیرت اور اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے یقین رکھتا ہوں، اور میں اللہ کے حضور میں پہنچنے کا مشتاق اور اس کے حسن ثواب کیلئے دامن امید پھیلائے ہوئے منتظر ہوں۔ مگر مجھے اس کی فکر ہے کہ اس قوم پر حکومت کریں بدمغز اور بد کردار لوگ اور وہ اللہ کے مال کو اپنی املاک اور اس کے بندوں کو غلام بنا لیں، نیکوں سے بر سر پیکار رہیں اور بدکرداروں کو اپنے جتھے میں رکھیں، کیونکہ ان میں بعض [۲] کا مشاہدہ تمہیں ہو چکا ہے کہ اس نے تمہارے اندر شراب نوشی کی اور اسلامی حد کے سلسلہ میں اسے کوڑے لگائے گئے، اور ان میں ایسا شخص بھی ہے جو اس وقت تک اسلام نہیں لایا جب تک اسے آمدنیاں نہیں ہوئیں۔ اگر اس کی فکر مجھے نہ ہوتی تو میں اس طرح تمہیں (جہاد پر) آمادہ نہ کرتا، نہ اس طرح جھنجھوڑتا، نہ تمہیں اکٹھا کر نے اور شوق دلانے کی کو شش کرتا، بلکہ تم سرتابی اور کوتاہی کرتے تو تم کو تمہارے حال پر چھوڑ دیتا۔
اَ لَا تَرَوْنَ اِلٰۤى اَطْرَافِكُمْ قَدِ انْتَقَصَتْ؟ وَ اِلٰۤى اَمْصَارِكُمْ قَدِ افْتُتِحَتْ؟ وَ اِلٰى مَمَالِكِكُمْ تُزْوٰى؟ وَ اِلٰى بِلَادِكُمْ تُغْزٰى؟. اِنْفِرُوْا رَحِمَكُمُ اللّٰهُ اِلٰى قِتَالِ عَدُوِّكُمْ، وَ لَا تَثَّاقَلُوْۤا اِلَى الْاَرْضِ، فَتُقِرُّوْا بِالْخَسْفِ، وَ تَبُوْءُوْا بِالذُّلِّ، وَ یَكُوْنَ نَصِیْبُكُمُ الْاَخَسَّ، وَ اِنَّ اَخَا الْحَرْبِ الْاَرِقُ، وَ مَنْ نَّامَ لَمْ یُنَمْ عَنْهُ، وَ السَّلَامُ.
کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمہارے شہروں کے حدود (روز بروز) کم ہوتے جا رہے ہیں اور تمہارے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے، تمہاری ملکیتیں چھن رہی ہیں اور تمہارے شہروں پر چڑھائیاں ہو رہی ہیں۔ خدا تم پر رحم کرے! اپنے دشمنوں سے لڑنے کیلئے چل پڑو اور سست ہو کر زمین سے چمٹے نہ رہو۔ ورنہ یاد رکھو کہ ظلم و ستم سہتے رہو گے اور ذلت میں پڑے رہو گے اور تمہارا حصہ انتہائی پست ہو گا۔ سنو! جنگ آزما ہوشیار و بیدار رہا کرتاہے اور جو سو جاتا ہے دشمن اس سے غافل ہو کر سویا نہیں کرتا۔ والسلام۔
۱پیغمبر اکرم ﷺ نے امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں «ھٰذَا اَخِیْ وَ وَصِیِّیْ وَ خَلِیْفَتِیْ فِیْکُمْ» [۱]: )یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تم لوگوں میں میرا جانشین ہے) اور حجۃ الوداع سے پلٹتے ہوئے غدیر خم کے مقام پر «مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَّوْلَاہُ» [۲]فرما کر نیابت و جانشینی کا مسئلہ طے کر دیا تھا، جس کے بعد کسی جدید انتخاب کی ضرورت ہی نہ تھی اور نہ یہ تصور و خیال کیا جا سکتا تھا کہ اہلِ مدینہ انتخاب کی ضرورت محسوس کریں گے۔ مگر کچھ اقتدار پرست افراد نے ان واضح ارشادات کو اس طرح نظر انداز کر دیا کہ گویا ان کے کان کبھی ان سے آشنا ہوئے ہی نہ تھے اور انتخاب کو اس درجہ ضروری سمجھا کہ تجہیز و تکفین پیغمبرؐ کو چھوڑ چھاڑ کر سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہو گئے اور جمہوریت کے نام پر حضرت ابو بکر کو خلیفہ منتخب کر لیا۔
یہ موقع امیر المومنین علیہ السلام کیلئے انتہائی کشمکش کا تھا۔ کیونکہ ایک طرف کچھ مفاد پرست لوگ یہ چاہ رہے تھے کہ آپؑ شمشیر بکف میدان میں اترآئیں اور دوسری طرف آپؑ یہ دیکھ رہے تھے کہ وہ عرب جو اسلام کی طاقت سے مرعوب ہو کر اسلام لائے تھے، مرتد ہوتے جا رہے ہیں اور مسیلمہ کذاب و طلیحہ ابن خویلد قبیلوں کے قبیلوں کو گمراہی کی طرف جھونک رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر خانہ جنگی شروع ہو گئی اور مسلمانوں کی تلواریں مسلمانوں کے مقابلے میں بے نیام ہو کر نکل آئیں تو ارتداد و نفاق کی قوتیں مل کر اسلام کو صفحۂ ہستی سے نابود کر دیں گی۔ اس لئے آپؑ نے جنگ پر وقتی سکوت کو ترجیح دی اور وحدت اسلامی کو برقرار رکھنے کیلئے تلوار کا سہارا لینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ احتجاج کا فی سمجھا۔ کیونکہ آپؑ کو ظاہری اقتدار اتنا عزیز نہ تھا جتنی ملت کی فلاح و بہبود عزیزتھی اور منافقین کی ریشہ دوانیوں کے سدباب اور فتنہ پردازوں کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ آپؑ اپنے حق سے دستبردار ہوکر جنگ کو ہوا نہ دیں اور یہ بقائے ملت و اسلام کے سلسلہ میں اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کا تمام فرق اسلامیہ کو اعتراف ہے۔
شراب نوشی کرنے والے سے مراد ’’ولید ابن عقبہ‘‘ ہے جس نے کوفہ میں شراب پی اور نشہ کی حالت میں نماز پڑھائی اور اس کی پاداش میں اسے کوڑے لگائے گئے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے ابو الفرج اصفہانی سے نقل کیا ہے کہ:
كاَنَ الْوَلِيْدُ زَانِيًا يَّشْرَبُ الْخَمْرَ، فَشَرِبَ بِالْكُوْفَةِ وَ قَامَ لِيُصَلِّیَ بِهِمُ الصُّبْحَ فِی الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ، فَصَلّٰى بِهِمْ اَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ الْتَفَتَ اِلَيْهِمْ فَقَالَ: اَزِيْدُكُمْ؟ .
ولید بدکار اور شراب خوار تھا۔ اس نے کوفہ میں شراب پی اور مسجد جامع میں لوگوں کو صبح کی نماز (دو رکعت کے بجائے) چار رکعت پڑھا دی۔ پھر ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ: اگر تم چاہو تو کچھ اور بڑھا دوں؟۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ۱۹۳) اور مالی انتفاع کی وجہ سے ایمان لانے والے سے مراد ’’معاویہ‘‘ ہے کہ جو صرف دنیوی انتفاعات کی وجہ سے اپنا رشتہ اسلام سے جوڑے ہوئے تھا۔↑
[۱]۔ تفسیر البغوی، ج ۳، ص ۴۸۱۔
[۲]۔ سنن ابن ماجہ، ج ۱، ص ۴۵، حدیث ۱۲۱۔