مکتوب (۷۱)
(٧۱) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
مکتوب (۷۱)
اِلَی الْمُنْذِرِ بْنِ الْجَارُوْدِ الْعَبْدِیِّ، وَ قَدْ خَانَ فِىْ بَعْضِ مَا وَلَّاهُ مِنْ اَعْمَالِهٖ:
منذر ابن جارود عبدی کے نام، جبکہ اس نے خیانت کی بعض ان چیزوں میں جن کا انتظام آپؑ نے اس کے سپرد کیا تھا:
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ صَلَاحَ اَبِیْكَ غَرَّنِیْ مِنْكَ، وَ ظَنَنْتُ اَنَّكَ تَتَّبِـعُ هَدْیَهٗ، وَ تَسْلُكُ سَبِیْلَهٗ، فَاِذَاۤ اَنْتَ فِیْمَا رُقِّیَ اِلَیَّ عَنْكَ، لَا تَدَعُ لِهَوَاكَ انْقِیَادًا، وَ لَا تُبْقِیْ لِاٰخِرَتِكَ عَتَادًا، تَعْمُرُ دُنْیَاكَ بِخَرَابِ اٰخِرَتِكَ، وَ تَصِلُ عَشِیْرَتَكَ بِقَطِیْعَةِ دِیْنِكَ.
واقعہ یہ ہے کہ تمہارے باپ کی سلامت روی نے مجھے تمہارے بارے میں دھوکا دیا۔ میں یہ خیال کرتا تھا کہ تم بھی ان کی روش کی پیروی کرتے اور ان کی راہ پر چلتے ہو گے، مگر اچانک مجھے تمہارے متعلق ایسی اطلاعات ملی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم اپنی خواہش نفسانی کی پیروی سے ہاتھ نہیں اٹھاتے اور آخرت کیلئے کوئی توشہ باقی رکھنا نہیں چاہتے۔ تم اپنی آخرت گنواکر دنیا بنا رہے ہو اور دین سے رشتہ توڑ کر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کررہے ہو۔
وَ لَئِنْ كَانَ مَا بَلَغَنِیْ عَنْكَ حَقًّا، لَجَمَلُ اَهْلِكَ وَ شِسْعُ نَعْلِكَ خَیْرٌ مِّنْكَ، وَ مَنْ كَانَ بِصِفَتِكَ فَلَیْسَ بِاَهْلٍ اَنْ یُّسَدَّ بِهٖ ثَغْرٌ، اَوْ یَنْفُذَ بِهٖۤ اَمْرٌ، اَوْ یُعْلٰى لَهٗ قَدْرٌ، اَوْ یُشْرَكَ فِیْۤ اَمَانَةٍ، اَوْ یُؤْمَنَ عَلٰى خِیَانَةٍ، فَاَقْبِلْ اِلَیَّ حِیْنَ یَصِلُ اِلَیْكَ كِتَابِیْ هٰذَا، اِنْ شَآءَ اللّٰهُ.
جو مجھے معلوم ہوا ہے اگر وہ سچ ہے تو تمہارے گھر والوں کا اونٹ اور تمہاری جوتی کا تسمہ بھی تم سے بہتر ہے۔ جو تمہارے طور طریقے کا آدمی ہو وہ اس لائق نہیں کہ اس کے ذریعہ کسی رخنہ کو پاٹا جائے یا کوئی کام انجام دیا جائے یا اس کا رتبہ بڑھایا جائے، یا اسے امانت میں شریک کیا جائے یا خیانت کی روک تھام کیلئے اس پر اطمینان کیا جائے۔ لہٰذا جب میرا یہ خط ملے تو فوراً میرے پاس حاضر جاؤ۔ ان شاء اللہ۔
وَ الْمُنْذِرُ ھٰذَا هُوَ الَّذِیْ قالَ فِيْهِ اَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ: اِنَّهٗ لَنَظَّارٌ فِیْ عِطْفَيْهِ، مُخْتَالٌ فِیْ بُرْدَيْهِ، تَفَالٌ فِیْ شِرَاكَيْهِ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ ’’منذر‘‘ وہی ہے کہ جس کے بارے میں امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے: ’’وہ اِدھر اُدھر اپنے بازوؤں کو بہت دیکھتا ہے اور اپنی دونوں چادروں میں غرور سے جھومتا ہوا چلتا ہے اور اپنی جوتی کے تسموں پر پھونک مارتا رہتا ہے (کہ کہیں اس پر گرد نہ جم جائے)‘‘۔