مقالات

عزاداری امام حسین علیہ السلام کے آداب

1- سیاہ پوشی :

فقہ کے مطابق سیاہ لباس پہننا مکروہ ہے لیکن امام حسین اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی عزاداری میں اس لباس کو مستثنی قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ اقدام حزن و اندوہ اور غم و الم کی نشانی ہے اور شعائر اور عظیم کارناموں کی علامت ہے۔ 

2- تعزیت گوئی: 

اصولی طور پر کسی پر وارد ہونے والی مصیبت کے وقت تعزیت کہنا اسلام میں مستحب ہے۔ 

پبغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہرشخص مصیب زدہ انسان کو تعزیت کہہ دے تو اس کا اجر و ثواب اس مصیبت زدہ انسان کے برابر ہوگا۔ (سفینةالبحار، ج2، ص188)

 یہ سنت شیعیان اہل بیت (ع) میں رائج ہے جیسے: "عَظَّمَ اللهُ اُجُورَکُم” کہہ کر ایک دوسرے کو تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔ 

 امام باقر (علیہ السلام ) نے فرمایا: جب شیعہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کی مصیبت میں یہ جملہ دہراتے ہیں: "اَعظَمَ اللهُ اُجُورَنا بمُصابنا بالحُسَین (علیه السلام ) وَ جَعَلَنا وَ اِیاكُم مِنَ الطالبینَ بثاره مع وَلیهِ الاِمام المَهدی مِن الِ مُحَمَدٍ علیهمُ السَلامُ”۔

خداوند متعال امام حسین (ع) کی سوگواری اور عزاداری کی برکت سے ہمارے اجر میں اضافہ فرمائے اور ہم اور آپ کو امام مہدی آل محمد (علیہم السلام) کے ہمراہ امام حسین (ع) کے خونخواہوں میں سے قرار دے۔ (مستدرک الوسایل،ج2،ص216)

3- عاشورا کے دن کام کاج بند: 

امام صادق (علیہ السلام ) نے فرمایا: جو شخص عاشورا کے روز کام کاج کو تعطیل کردے یعنی کام اور کمائی کے لئے اقدام نہ کرے اور بنی امیہ کی ناک رگڑنے کے لئے ـ جو عاشورا کو متبرک سمجھتے تھے ـ اگر کوئی اپنی روزانہ معیشت کے لئے بھی کوشش نہ کرے خداوند متعال اس کے دنیاوی اور اخروی حوائج برآوردہ فرمائے گا اور روز عاشور جس کی مصیبت و الم و عزا کا دن ہوگا قیامت کے روز ـ جو سب کے لئے ہول و ہراس کا دن ہے ـ اس کے لئے سرور و شادمانی کا دن ہوگا۔

( امالی شیخ صدوق ، ص129)

4- زیارت اور زیارت خوانی:

علقمة بن حضرمی نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ: یابن رسول اللہ (ص)! مجھے ایسی دعا تعلیم فرما کہ میں اس روز دور اور نزدیک سے اور اپنی گھر سے پڑھ لیا کروں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: اے علقمہ! جب بھی دعا پڑھنا چاہیں تو اٹھ کر دو رکعت نماز بجا لائیں اور اس کے بعد زیارت عاشورا پڑھ لیں۔ پس اگر زیارت پڑھ لیں تو گویا آپ نے ان کلمات و جملات سے دعا کی ہے جو ملائکہ امام حسین علیہ السلام کے زائر کے لئے دعا کرتے ہوئے بروئے کار لاتے ہیں 100 ہزار ہزار (سو ملین یا دس کروڑ) درجات آپ کے لئے ثبت فرمائے گا اور آپ اس شخص کی مانند ہیں جو امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہادت پاچکا ہو تاکہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب و انصار کے درجات میں شریک ہوجائیں اور آپ صرف اور صرف ان شہیدوں کے زمرے میں قرار پائیں اور ان ہی شہیدوں کے عنوان سے پہچانے جائیں جو امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شہید ہوئے ہیں اور آپ کے لئے ہر نبی اور ہر رسول کی زیارت کا ثواب لکھا جائے گا اور ان تمام لوگوں کا ثواب آپ کے لئے لکھا جائے گا جس نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے آخر تک آپ (ع) کی زیارت کی ہے۔ 

(مصباح المتهجد ، ص714)

 ([اگر ممکن ہو تو زیارت عاشورا معروفہ ـ 100 لعن اور 100 سلام ـ کے ہمراہ پڑھ لیں اور اگر آپ کے پاس فرصت نہیں ہے تو زیارت عاشورا غیر معروفہ پڑھ لیں جو اجر و ثواب میں زیارت عاشورا معروفہ کے برابر ہے۔ زیارت عاشورا معروفہ اور غیر معروفہ کتاب مفاتیح الجنان میں موجود ہیں۔)]

5 ـ گریه و بکاء عزاداری کا افضل ترین عمل:

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم لابنته السیدة فاطمه سلام الله علیها: يا فاطمة إن نساء امتي يبكون على نساء أهل بيتي، ورجالهم يبكون على رجال أهل بيتي، ويجددون العزاء جيلا بعد جيل، في كل سنة فإذا كان القيامة تشفعين أنت للنساء وأنا أشفع للرجال وكل من بكى منهم على مصاب الحسين أخذنا بيده وأدخلناه الجنة؛ يا فاطمة ! كل عين باكية يوم القيامة، إلا عين بكت على مصاب الحسين (ع).

(بحارالانوار ـ علامه محمد باقر مجلسی ج 44 ص 293).

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: بیٹی فاطمہ (س)! بے شک میری امت کی خواتین میرے خاندان کی خواتین کے مصائب پر روتی ہیں اور ان کے مرد میرے خاندان کے مردوں کے مصائب کے لئے روتے ہیں اور نسل در نسل ہر برس ہماری عزاداری کی تجدید کرتے ہیں اور جب قیامت ہوگی تو آپ (اہل بیت کی خواتین کے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والے) خواتین کی شفاعت کریں گی اور میں (اہل بیت کے مردوں پر گذرنے والے مصائب پر گریہ و بکاء کرنے والے) مردوں کی شفاعت کرونگا اور ان میں سے جس نے بھی امام حسین علیہ السلام کے مصائب کے لئے گریہ و بکاء کیا ہوگا ہم اس کا ہاتھ پکڑلیں گے اور اس کو جنت میں داخل کریں گے۔ یا فاطمہ (س)! روز قیامت تمام آنکھیں رو رہی ہونگی سوائے ان آنکھوں کے جو امام حسین (ع) کے مصائب کے لئے اشکبار ہوئی ہیں۔

تباکی اور رونا: 

حدیث قدسی میں مذکور ہے کہ خداوند متعال نے حضرت موسی علیہ السلام سے ارشاد فرمایا: اے موسی! جو بھی روز عاشورا میرے حبیب مصطفی (ص) کے فرزند کے لئے گریہ کرے یا رونے کی صورت بنائے اور سبط مصطفی (ص) کی مصیبت پر تعزیت کہے؛ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں ہوگا۔ 

(مستدرک سفینة البحار، ج7، ص235)

6- عزاداری کی مجالس بپا کرنا: 

امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: آپ کی طرف سے بپاکی ہوئی مجالس کو میں دوست رکھتا ہوں اور ان سے محبت کرتا ہوں۔ اپنی مجالس میں ہمارے امر کو زندہ رکھو۔ خدا رحمت نازل فرمائے اس پر جو ہمارے امر کا احیاء کرے۔ (وسایل الشیعه، ج10، ص235)۔

7 – ظہر عاشورا نماز جماعت: 

سید الشہداء علیہ السلام اور آپ (ع) کے با وفا اصحاب سب کے سب نماز کی راہ میں شہید ہوئے۔ اسی بنا پر ہم امام حسین علیہ السلام کی "زیارت مطلقہ” میں امام (ع) کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: 

اشهد انک قد اقمت الصلاة و اتیت الزکاة و امرت بالمعروف و نهیت عن المنکر۔ 

( 1 تا 7 – سوگنامه عاشورا ، ص 80- 67) 

"میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکاة ادا کی اور بھلائیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے منع کیا۔ 

لذتیں ترک کرنا:

8 ترکِ لذت:

ضروری ہے کہ زندگی کی لذتیں ـ جو کھانے، پینے، نیز سونے اور بولنے ـ سے حاصل ہوتی ہیں ترک کی جائیں۔ (مگر یہ کہ ان کی ضرورت ہو)؛ نیز دینی برادران سے ملاقات تک ترک کی جائے اور اس روز کو گریہ و بکاء اور غم و اندوہ کا روز قرار دیا جائے اور [عزاداران] اس شخص کی طرح ہوں جو اپنے والد یا بھائی کھو گیا ہے۔ 

* امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: اس روز (عاشورا کو) لذت بخش امور سے اجتناب کیا جائے اور سوگواری کے آداب و مراسمات بجا لائے جائیں اور سورج کے زوال تک کھانے پینے سے پرہیز کیا جائے اور پھر اسی غذا میں سے کھایا جائے جو سوگوار افراد کھایا کرتے ہیں۔ 

(میزان الحکمه ، ج8 ، ص3783)

[ایک عالم دین نے فرمایا: سات محرم الحرام سے امام حسین علیہ السلام پر پانی بند کیا گیا؛ روز عاشورا تک آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ پانی پینے سے پرہیز کریں؛ بے شک دوسری حلال مشروبات سے استفادہ کریں لیکن آقا و سید و سرور اور آپ (ع) کے خاندان و اصحاب احترام میں پانی پینے سے اجتناب کریں]۔

9- اخلاص کو بطور خاص یاد رکھیں: 

ہمیں عزاداری کو عادت اور رسم کی طور عزاداری نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس عمل کو خالص نیت اور اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے انجام دینا چاہئے اور اپنے خلوص میں بھی ہمیں صادق و راست باز ہونا چاہئے۔ کیونکہ حتی ایک چھوٹا سا عمل بھی اگر خلوص نیت کے ساتھ انجام پائے ان کثیر اعمال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جن میں خلوص اور صداقت کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو خواہ وہ اعمال کئی ہزار گنا زیادہ کیوں نہ ہوں؛ چنانچہ یہ بات حضرت آدم (علی نبینا و آلہ و علیہ السلام) اور شیطان رجیم کی عبادات سے بخوبی سمجھ میں آتی ہے؛ کیونکہ شیطان کی کئی ہزار سالہ غیر مخلصانہ عبادت اسے دوزخ کی آگ سے نجات نہیں دے سکی۔ جبکہ حضرت آدم (ع) کی عبادت شیطان کی نسبت بہت کم تھی مگر چونکہ ان عبادات میں اخلاص کا عنصر شامل تھا خداوند متعال نے ابوالبشر (ع) کا ترک اولی بخش دیا اور آپ (ع) کو نبوت عطا فرمائی۔ 

اعمال کی انجام دہی میں بھی خیال رہے کہ کہیں ریاء اور لوگوں کی تعریف و تمجید کی خواہش و تمنا ہماری نیت میں رسوخ نہ کرلے۔ 

10. روز عاشورا توبہ و استغفار کا دن

امام حسین علیه السلام اور نماز 

ہم سب جانتے ہیں کہ نو محرم الحرام کو محاصرہ شدید ہوا اور لشکر یزید نے حملے کا منصوبہ بنایا تو امام حسین علیہ السلام نے بھائی عباس علیہ السلام سے فرمایا: یزیدی لشکر کے پاس جائیں اور اگر ممکن ہو تو ان سے آج کی رات مہلت لیں اور جنگ کو ایک کل تک ملتوی کرائیں تا کہ ہم آج کی رات نماز، استغفار اور مناجات اور اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز میں گذاریں؛ خدا جانتا ہے کہ میں نماز، تلاوت قرآن اور دعا و استغفار کو کس حد تک دوست رکھتا ہوں۔ 

ضحاک بن عبداللہ سے روایت ہے کہ شب عاشورا امام حسین علیہ السلام اور آپ (ع) کے انصار و افراد خاندان نے نماز و استغفار اور دعا میں گذار دی۔

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد ہر شب ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ روز عاشورا امام حسین علیہ السلام نے نماز ظہر و عصر کا خاص طور پر اہتمام کیا اور یزیدی دشمن کے تیروں کی بوچھاڑ مین بھی نماز عشق کی داستان رقم فرمائی۔

چنانچہ امام علیہ السلام قطعی طور پر اپنے پیروکاروں سے بھی توبہ و استغفار اور دعا و عبادت کی توقع رکھتے ہیں چنانچہ حالت عزاداری میں بھی، نماز کی حالت مین بھی اور تعزیت و تسلیت کہنے اور مجالس کے انعقاد کے ضمن میں بھی استغفار اور راز و نیاز کا عنصر شامل ہونے کی ضرورت ہے۔

11. روز عاشورا تسلیت و تعزیت کا دن

 روز عاشورا "زیارت تسلیت” پڑھ لینی چاہئے اور روز عاشور توسل کرکے اصلاح احوال، عزاداری و عبادات کی قبولیت اور اپنی کوتاہیوں اور کم عملیوں یا گناہوں سے مغفرت طلب کرنی چاہئے۔ 

(8 تا10 – ترجمه المراقبات ، ص53 – 47)

12۔ عزاداری پیغام زینب (س)

ہم جانتے ہیں کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا پہلی عزادار ہیں جنہوں نے کربلا میں امام (ع) کے جسم مبارک پر آکر فرمایا: اے میرے جد یا رسول اللہ (ص)! یہ آپ کے حسین ہیں جو خون میں لت پت ریت اور مٹی میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ ان کے اعضاء قطع کردیئے گئے ہیں؛ یا اللہ ہماری یہ قربانی اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔ یوں عزاداری کی تہذیب کی بنیاد پڑی اور حضرت زینب سلام اللہ نے بنی امیہ کی ایک عظیم سازش یہیں ناکام بنادی جو عاشورا کا پیغام کہیں بھی نہیں پہنچنے دینا چاہتے تھے۔ سیدہ نے یہ سلسلہ شام تک ـ قیدی ہوتے ہوئے بھی جاری رکھا ـ اور عزاداری کو پیغام رسانی کا بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ ثابت کرکے دکھایا چنانچہ ہمیں بھی عاشور کے روز اور عزاداری کے دوسرے ایام میں اس خاص بات کا خیال رکھنا چاہئے اور خیال رکھنا چاہئے کہ ہر مجلس عزادار کی کندھے پر نئی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے اور اگر ہم کسی مجلس میں شرکت کریں اور عزاداری کرکے اٹھیں اور ہمارے دلوں میں کسی نئی ذمہ داری کا احساس نہ ہو تو ہم نے وقت ضائع کیا ہے کیونکہ عزاداری احیائے دین کا وسیلہ ہے جیسا کہ انقلاب عاشورا اور تحریک حسینی اور واقعہ کربلا دین اسلام کے احیاء کا وسیلہ ٹہرا۔

source : http://www.abna.ir

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button