مقالات

امام حسن مجتبی (ع) کی حیات طیبہ

امام حسن مجتبی (ع) کی حیات طیبہ:

بچپن کا زمانہ:

 علی (ع) اور فاطمہ (ع) کے پہلے بیٹے 15 رمضان 3ھ ق کو شہر مدینہ میں پیدا ہوئے۔  ارشاد مفید ص 187_ تاریخ الخلفاء سیوطی /188

  پیغمبر (ص) اکرم مبارک باد کے لیے جناب فاطمہ (ع) کے گھر تشریف لائے اور خدا کی طرف سے اس بچہ کا نام ‘ ‘ حسن ‘ ‘ رکھا۔ بحار جلد 43/238

امام حسن مجتبی (ع) سات سال تک پیغمبر(ص) اسلام کے ساتھ رہے۔ دلائل الامامہ طبری /60

رسول اکرم (ص) اپنے نواسہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ کبھی اس کو اپنے کاندھے پر سوار کرتے اور فرماتے:

‘ ‘ خدایا میں اس کو دوست رکھتا ہوں تو بھی اس کو دوست رکھ ‘ ‘ (تاریخ الخلفاء /188، تذکرة الخواص /177 ‘ ‘ 

اور پھر فرماتے:

‘ ‘ جس نے حسن (ع) و حسین(ع) سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی _ اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے بھی دشمنی کی۔  بحار جلد 43/ 264، کشف الغمہ جلد 1/550 مطبوعہ تبریز سنن ترمذی جلد 5/7 ‘ ‘من احبّ الحسن و الحسین(ع) فقد احبّنی و من ابفضہا فقد ابغضنی ‘ ‘

 امام حسن (ع) کی عظمت اور بزرگی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کم سنی کے با وجود پیغمبر (ص) نے بہت سے عہد ناموں میں آپ کو گواہ بنایا تھا۔ 

واقدی نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر(ص) نے قبیلہ ‘ ‘ ثقیف ‘ ‘ کے ساتھ ذمّہ والا معاہدہ کیا، خالد بن سعید نے عہد نامہ لکھا اور امام حسن و امام حسین (ع) اس کے گواہ قرار پائے ۔  طبقات کبیر جلد 1 حصہ 2/23

والد گرامی کے ساتھ:

رسول (ص) اکرم کی رحلت کے تھوڑے ہی دنوں بعد آپ کے سر سے چاہنے والی ماں کا سایہ بھی اٹھ گیا۔  اس بنا پر اب آپ کا صرف ایک سہارا علی (ع) کی مہر و محبت سے مملو آغوش تھی۔  امام حسن مجتبی (ع) نے اپنے باپ کی زندگی میں ان کا ساتھ دیا اور ہمیشہ ہر جگہ پر ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ ظالموں پر تنقید اور مظلوموں کی حمایت فرماتے رہے اور ہمیشہ سیاسی مسائل کو حل کرنے میں مصروف رہے۔

جب عثمان نے پیغمبر(ص) کے عظیم الشان صحابی جناب ابوذر کو شہر بدر کر کے رَبَذہ بیجھنے کا حکم دیا تھا، اس وقت یہ بھی حکم دیا تھا کہ کوئی بھی ان کو رخصت کرنے نہ جائے۔  اس کے بر خلاف حضرت علی (ع) نے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن اور امام حسین (ع) اور کچھ دوسرے افراد کے ساتھ اس صحابی با وفا کو بڑی شان سے رخصت کیا اور ان کو صبر و ثبات قدم کی وصیت فرمائی۔ حیاة الامام حسن جلد 1 ص 20، مروج الذہب جلد 2/341، تاریخ یعقوبی جلد 2 ص 172_ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 8/252_ 55

36ھ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مدینہ سے بصرہ روانہ ہوئے تا کہ جنگ جمل کہ جس کی آگ کو عائشہ اور طلحہ و زبیر نے بھڑکایا تھا، بجھادیں۔

بصرہ کے مقام ذی قار میں داخل ہونے سے پہلے علی (ع) کے حکم سے عمار یاسر کے ہمراہ کوفہ تشریف لے گئے تا کہ لوگوں کو جمع کریں۔ آپ کی کوششوں اور تقریروں کے نتیجہ میں تقریباً بارہ ہزار افراد امام کی مدد کے لئے آگئے ۔8 کامل ابن اثیر جلد 3/227_ 231

آپ نے جنگ کے زمانہ میں بہت شجاعت اور فداکاری کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ امام (ع) کے لشکر کو فتح نصیب ہوئی۔ حیاة الامام الحسن جلد 1/396_ 399

جنگ صفین میں بھی آپ نے اپنے پدربزرگوار کے ساتھ ثابت قدمی کا مظاہرہ فرمایا۔  اس جنگ میں معاویہ نے عبد اللہ ابن عمر کو امام حسن مجتبی (ع) کے پاس بیجھا اور کہلوایا کہ آپ اپنے باپ کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں تو میں خلافت آپ کے لئے چھوڑ دونگا _ اس لئے کہ قریش ماضی میں اپنے آباء و اجداد کے قتل پر آپ کے والد سے ناراض ہیں لیکن آپ کو وہ لوگ قبول کرلیں گے۔

لیکن امام حسن (ع) نے جواب میں فرمایا: ‘ ‘ نہیں ، خدا کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا ‘ ‘_ پھر اس کے بعد ان سے خطاب کر کے فرمایا: گویا میں تمہارے مقتولین کو آج یا کل میدان جنگ میں دیکھوں گا، شیطان نے تم کو دھوکہ دیا ہے اور تمہارے کام کو اس نے اس طرح زینت دی ہے کہ تم نے خود کو سنوارا اور معطّر کیا ہے تا کہ شام کی عورتیں تمہیں دیکھیں اور تم پر فریفتہ ہو جائیں لیکن جلد ہی خدا تجھے موت دے گا ۔ وقعہ صفین /297

امام حسن اس جنگ میں آخر تک اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ رہے اور جب بھی موقع ملا دشمن پر حملہ کرتے اور نہایت بہادری کے ساتھ موت کے منہ میں کود پڑتے تھے۔

آپ (ع) نے ایسی شجاعت کا مظاہرہ فرمایا کہ جب حضرت علی (ع) نے اپنے بیٹے کی جان، خطرہ میں دیکھی تو مضطرب ہوئے اور کہا کہ ‘ ‘ اس نوجوان کو روکو تا کہ ( اسکی موت ) مجھے شکستہ حال نہ بنا دے۔  میں ان دونوں حسن و حسین (ع) کی موت سے ڈرتا ہوں کہ ان کی موت سے نسل رسول خدا (ص) خدا منقطع نہ ہوجائے۔نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ 198 ص 11660 ،املکو عنّی ہذا الغلام لا یہدّنی فانّنی انفس بہذین یعنی الحسن و الحسین علی الموت لئلا ینقطع بہما نسل رسول اللہ

 واقعہ حکمیت میں ابو موسی کے ذریعہ حضرت علی (ع) کے برطرف کر دیئے جانے کی دردناک خبر عراق کے لوگوں کے درمیان پھیل جانے کے بعد فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھی۔  حضرت علی (ع) نے دیکھا کہ ایسے افسوسناک موقع پر چاہیے کہ ان کے خاندان کا کوئی ایک شخص تقریر کرے اور ان کو گمراہی سے بچا کر سکون اور ہدایت کی طرف رہنمائی کرے لہذا اپنے بیٹے امام حسن(ع) سے فرمایا: میرے بیٹا اٹھو اور ابو موسی و عمرو عاص کے بارے میں کچھ کہو۔ امام حسن مجتبی (ع) نے ایک پر زور تقریر میں وضاحت کی کہ :

‘ ‘ ان گوں کو اس لئے منتخب کیا گیا تھا تا کہ کتاب خدا کو اپنی دلی خواہش پر مقدم رکھیں لیکن انہوں نے ہوس کی بنا پر قرآن کے خلاف فیصلہ کیا اور ایسے لوگ حَكَم بنائے جانے کے قابل نہیں بلکہ ایسے افراد محکوم اور مذمت کے قابل) ہیں۔  الامامہ و السیاسة جلد 1 ص 119، حیاة الامام الحسن جلد 1 ص 444

شہادت سے پہلے حضرت علی (ع) نے پیغمبر(ص) کے فرمان کی بناء پر حضرت حسن (ع) کو اپنا جانشین معین فرمایا اور اس امر پر امام حسین (ع) اور اپنے تمام بیٹوں اور بزرگ شیعوں کو گواہ قرار دیا۔ اصول کافی جلد 1/ ص 297

اخلاقی خصوصیات:

 امام حسن (ع) ہر جہت سے کامل تھے آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔

 جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ‘ ‘ حسن(ع) بن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے ایک بزرگ ، باوقار ، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔  تاریخ الخلفاء /189

ان کے درخشاں اور غیر معمولی فضائل میں سے ایک قطرہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

پرہیزگاری:

 آپ خدا کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ کاپنے لگتے تھے۔  جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے کہ جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو اس کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے ۔ مناقب ابن شہر آشوب جلد 4/14 ‘ ‘ حقٌ علی کل من وقف بین یدی رب العرش ان یصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ ‘ ‘

امام جعفر صادق نے فرمایا: امام حسن(ع) اپنے زمانہ کے عابد ترین اور زاہد ترین شخص تھے۔  جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہو جاتے تھے۔  بحار جلد 43/331

امام حسن(ع) ، اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پا برہنہ زیارت خانہ خدا کو تشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر لے سکیں۔بحار جلد 43/331، تاریخ الخلفاء /190، مناقب ابن شہر آشوب 4/14_ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16/10 ، تذکرة الخواص /178

سخاوت:

امام(ع) کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار تمام اموال خدا کے راستہ میں دیا اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا_ آدھا راہ خدا میں دیا اور آدھا اپنے پاس رکھا ۔  تاریخ یعقوبی جلد 2/215، بحار جلد 43/ 332، تاریخ الخلفاء /190، مناقب جلد 4/14

ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دے دے۔ امام (ع) اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔  کشف الغمہ مطبوعہ تبریز جلد 1/558

ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو آپ(ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خدا نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر اس کے بعد آپ(ع) نے آیت پڑھی_ و اذاحُيّیتم بتحيّة: فحَيّوا باحسن منہا (20) ‘ ‘ جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔  بحار جلد 43/342

بردباری:

 ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ کے اکسانے پر اس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا امام (ع) نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:

‘ ‘ اے ضعیف انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔  اگر تم مجھ سے میری رضا مندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو میں اس قرض کو ادا کروں گا۔ اگر تم بھوکے ہو تو میں تم کو سیر کردوں گا اور اگر میرے پاس آؤ گے تو زیادہ آرام محسوس کرو گے۔

وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کی: ‘ ‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ و ہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔  آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ بحار جلد 43 /344

 مروان بن حکم _ جو آپ کا سخت دشمن تھا_ آپ (ع) کی رحلت کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی امام حسین(ع) نے پوچھا میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہو سکتا تھا وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی تشییع جنازہ میں شریک اور رو رہے ہو؟ مروان نے جواب دیا ‘ ‘ میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا جس کی بردباری پہاڑ ( کوہ مدینہ کی طرف اشارہ) سے زیادہ تھی۔ تاریخ الخلفاء /191 ، شرح ابن ابی الحدید جلد 16 / 13 ، 51 واقعہ کے آخری حصہ میں تھوڑے فرق کے ساتھ

خلافت:

 21رمضان المبارک 40 ھ ق کی شام کوحضرت علی (ع) کی شہادت ہو گئی۔  اس کے بعد لوگ شہر کی جامع مسجد میں جمع ہوئے حضرت امام حسن مجتبی (ع) منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے پدر بزرگوار کی شہادت کے اعلان اور ان کے تھوڑے سے فضائل بیان کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایا۔  پھر بیٹھ گئے اور عبد اللہ بن عباس کھڑے ہوئے اور کہا لوگو یہ امام حسن (ع) تمہارے پیغمبر (ص) کے فرزند حضرت علی (ع) کے جانشین اور تمہارے امام (ع) ہیں ان کی بیعت کرو۔

لوگ چھوٹے چھوٹے دستوں میں آپ کے پاس آتے اور بیعت کرتے رہے۔ ارشاد مفید /188 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16/30 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت 50 _ 52

نہایت ہی غیر اطمینان نیز مضطرب و پیچیدہ صورت حال میں کہ جو آپ کو اپنے پدر بزرگوار کی زندگی کے آخری مراحل میں در پیش تھے آپ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالی۔ آپ نے حکومت کو ایسے لوگوں کے درمیان شروع کیا جو جہاد کی حکمت عملی اور اس کے اعلی مقاصد پر زیادہ ایمان نہیں رکھتے تھے کیونکہ ایک طرف آپ (ع) پیغمبر (ص) و علی (ع) کی طرف سے اس عہدہ کے لئے منصوب تھے اور دوسری طرف لوگوں کی بیعت اور ان کی آمادگی نے بظاہر ان پر حجت تمام کردی تھی اس لئے آپ نے زمام حکومت کو ہاتھوں میں لیا اور تمام گورنروں کو ضروری احکام صادر فرمائے اور معاویہ کے فتنہ کو ختم کرنے کی غرض سے لشکر اور سپاہ کو جمع کرنا شروع کیا، معاویہ کے جاسوسوں میں سے دو افراد کی شناخت اور گرفتاری کے بعد قتل کرا دیا۔ آپ(ع) نے ایک خط بھی معاویہ کو لکھا کہ تم جاسوس بھیجتے ہو ؟ گویا تم جنگ کرنا چاہتے ہو جنگ بہت نزدیک ہے منتظر رہو انشاء اللہ۔ارشاد مفید 189 ، بحارجلد 44/45 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16 / 31 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت / 53 اما بعد فانک دسَّست الرجال للاحتی ال و الاغتیال و ارصدت العیون کانک تحت اللقاء و ما اشک فی ذالک فتوقعہ انشاء اللہ

معاویہ کی وعدہ خلافی:

جس بہانہ سے قریش نے حضرت علی (ع) سے رو گردانی کی اور ان کی کم عمری کو بہانہ بنایا معاویہ نے بھی اسی بہانہ کی وجہ سے  امام حسن (ع) کی بیعت سے انکار کیا۔ امام حسین (ع) کے مقابل معاویہ کی منطق سے واقفیت کے لئے امام حسن (ع) کے نام معاویہ کا وہ خط پڑھاجائے جس کو ابن ابی الحدید نے اپنی شرح کی ج 16 / 37 پر درج کیا

 وہ دل میں تو یہ سمجھ رہے تھے کہ امام حسن (ع) تمام لوگوں سے زیادہ مناسب ہیں لیکن ان کی ریاست طلبی نے ان کو حقیقت کی پیروی سے باز رکھا۔

معاویہ نے نہ صرف یہ کہ بیعت سے انکار کیا بلکہ وہ امام (ع) کو درمیان سے ہٹا دینے کی کوشش کرنے لگا کچھ لوگوں کو اس نے خفیہ طور پر اس بات پر معین کیا کہ امام (ع) کو قتل کر دیں۔  اس بنا پر امام حسن (ع) لباس کے نیچے زرہ پہنا کرتے تھے اور بغیر زرہ کے نماز کے لئے نہیں جاتے تھے، معاویہ کے بندوں میں سے ایک شخص نے ایک دن امام حسن (ع) کی طرف تیر پھینکا لیکن پہلے سے کئے گئے انتظام کی بنا پر آپ کو کوئی صدمہ نہیں پہونچا۔  بحار جلد 44/23

معاویہ نے اتحاد کے بہانہ اور اختلاف کو روکنے کے حیلہ سے اپنے عمال کو لکھا کہ ‘ ‘ تم لوگ میرے پاس لشکر لے کر آو ‘ ‘ پھر اس نے اس لشکر کو جمع کیا اور امام حسن (ع) سے جنگ لڑنے کے لئے عراق کی طرف بھیجا۔ شرح شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16/ 37 و 38 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت /60

امام حسن (ع) نے بھی حجر بن عدی کندی کو حکم دیا کہ وہ حکام اور لوگوں کو جنگ کے لئے آمادہ کریں۔  ارشاد مفید /189 ،بحار جلد 44 / 46 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 16 / 38 مقاتل الطالبین / 61

امام حسن (ع) کے حکم کے بعد کوفہ کی گلیوں میں منادی نے ‘ ‘ الصّلوة الجامعة ‘ ‘ کی آواز بلند کی اور لوگ مسجد میں جمع ہو گئے امام حسن (ع) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ : ‘ ‘ معاویہ تمہاری طرف جنگ کرنے کے لئے آ رہا ہے تم بھی نُخَیلہ کے لشکر گاہ کی طرف جاؤ … ‘ ‘ پورے مجمع پر خاموشی طاری رہی۔

حاتم طائی کے بیٹے عدی نے جب ایسے حالات دیکھے تو اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کہا سبحان اللہ یہ کیسا موت کا سناٹا ہے جس نے تمہاری جان لے لی ہے؟ تم امام (ع) اور اپنے پیغمبر (ص) کے فرزند کا جواب نہیں دیتے۔  خدا کے غضب سے ڈرو کیا تم کو ننگ و عار سے ڈر نہیں لگتا …؟ پھر امام حسن (ع) کی طرف متوجہ ہوا اور کہا ‘ ‘ میں نے آپ کی باتوں کو سنا اور ان کی بجا آوری کے لئے حاضر ہوں۔  پھر اس نے مزید کہا کہ اب میں لشکر گاہ میں جا رہا ہوں، جو آمادہ ہو وہ میرے ساتھ آجائے۔  قیس بن سعد، معقل بن قیس اور زیاد بن صَعصَعہ نے بھی اپنی پر زور تقریروں میں لوگوں کو جنگ کی ترغیب دلائی پھر سب لشکر گاہ میں پہنچ گئے۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16 / 37 _ 40 ،بحار جلد 44 / 50 ——- 31 ارشاد مفید /189 ، بحار 44/ 46

امام حسن (ع) نے لشکر کے ایک دستہ کو حَكَم کی سرداری میں شہر انبار بھیجا، لیکن وہ معاویہ سے جا ملا اور اس کی طرف چلا گیا۔  حَكَم کی خیانت کے بعد امام (ع) مدائن کے مقام ‘ ‘ ساباط ‘ ‘ تشریف لے گئے اور وہاں سے بارہ ہزار افراد کو عبید اللہ بن عباس کی سپہ سالاری میں معاویہ سے جنگ کرنے کے لئے روانہ کیا اور قیس بن سعد کو بھی اس کی مدد کے لئے منتخب فرمایا کہ اگر عبید اللہ بن عباس شہید ہو جائیں تو وہ سپہ سالاری سنبھال لیں۔

معاویہ ابتداء میں اس کوشش میں تھا کہ قیس کو دھوکہ دے دے۔ اس نے دس لاکھ درہم قیس کے پاس بھیجے تا کہ وہ اس سے مل جائے یا کم از کم امام حسن (ع) سے الگ ہو جائے، قیس نے اس کے پیسوں کو واپس کر دیا اور جواب میں کہا: ‘ ‘ تم دھوکہ سے میرے دین کو میرے ہاتھوں سے نہیں چھین سکتے۔  تاریخ یعقوبی ج 2 / 214

لیکن عبید اللہ بن عباس صرف اس پیسہ کے وعدہ پر دھوکہ میں آ گیا اور راتوں رات اپنے خاص افراد کے ایک گروہ کے ساتھ معاویہ سے جا ملا صبح سویرے لشکر بغیر سر پرست کے رہ گیا، قیس نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور اس واقعہ کی خبر امام حسن (ع) کو بھیج دی ۔  ارشاد مفید 190

قیس نے بڑی بہادری سے جنگ کی چونکہ معاویہ قیس کو دھوکہ دینے میں ناکام رہا اس لئے اس نے عراق کے سپاہیوں کے حوصلہ کو پست کر دینے کے لئے دوسرا راستہ اختیار کیا۔  اس نے امام حسن (ع) کے لشکر میں، چاہے وہ مَسکن 34) مسکن منزل کے وزن پرہے _ نہر دجیل کے کنارے پر ایک جگہ ہے جہاں قیس کی سپہ سالاری میں امام حسن (ع) کا لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا(میں رہا ہو یا مدائن میں ، چند جاسوس بھیجے تا کہ وہ جھوٹی افواہیں پھیلائیں اور سپاہیوں کو وحشت میں مبتلاکریں۔ 

مقام مَسکن میں یہ پروپیگنڈہ کر دیا گیا کہ امام حسن (ع) نے معاویہ سے صلح کی پیشکش کی ہے اور معاویہ نے بھی قبول کر لی ہے۔35) تاریخ یعقوبی جلد 2 / 214(اور اس کے مقابل مدائن میں بھی یہ افواہ پھیلا دی کہ قیس بن سعد نے معاویہ سے ساز باز کر لی اور ان سے جاملا ہے۔ تاریخ یعقوبی ج 2 / 214

ان افواہوں نے امام حسن (ع) کے سپاہیوں کے حوصلوں کو توڑ دیا اور یہ پروپیگنڈے امام (ع) کے اس لشکر کے کمزور ہونے کا سبب بنے جو لشکر ہر لحاظ سے طاقت ور اور مضبوط تھا ۔

معاویہ کی سازشوں اور افواہوں سے خوارج اور وہ لوگ جو صلح کے موافق نہ تھے انہوں نے فتنہ و فساد پھیلانا شروع کر دیا۔  انھیں لوگوں میں سے کچھ افراد نہایت غصّہ کے عالم میں امام (ع) کے خیمہ پر ٹوٹ پڑے اور اسباب لوٹ کر لے گئے یہاں تک کہ امام حسن (ع) کے پیر کے نیچے جو فرش بچھا ہوا تھا اس کو بھی کھینچ لے گئے۔  ارشاد مفید /190 ، تاریخ یعقوبی جلد 2 / 215 ، بحار جلد 44 / 47 ، شرح ابن ابی الحدید جلد 16/ 41 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت / 63

ان کی جہالت اور نادانی یہاں تک پہنچ گئی کہ بعض لوگ فرزند پیغمبر کو ( معاذ اللہ) کافر کہنے لگے_ اور ‘ ‘ جراح بن سَنان ‘ ‘ تو قتل کے ارادہ سے امام (ع) کی طرف لپکا اور چلّا کر بولا، اے حسن (ع) تم بھی اپنے باپ کی طرح مشرک ہو گئے ( معاذاللہ) اس کے بعد اس نے حضرت کی ران پر وار کیا اور آپ (ع) زخم کی تاب نہ لا کر زمین پر گر پڑے ، امام حسن (ع) کو لوگ فوراً مدائن کے گورنر ‘ ‘ سعد بن مسعود ثقفی ‘ ‘ کے گھر لے گئے اور وہاں کچھ دنوں تک آپ کا علاج ہوتا رہا۔ ارشاد مفید /190 ، تاریخ یعقوبی ج 2 / 215 ، بحار جلد 44 / 47 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 16/ 41 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت /63

اس دوران امام (ع) کو خبر ملی کہ قبائل کے سرداروں میں سے کچھ نے خفیہ طور پر معاویہ کو لکھا ہے کہ اگر عراق کی طرف آ جاؤ تو ہم تم سے یہ معاہدہ کرتے ہیں کہ حسن (ع) کو تمہارے حوالے کر دیں۔

معاویہ نے ان کے خطوط کو امام حسن (ع) کے پاس بھیج دیا اور صلح کی خواہش ظاہر کی اور یہ عہد کیا کہ جو بھی شرائط آپ (ع) پیش کریں گے وہ مجھے قبول ہیں۔  ارشاد مفید /190 _ 191، تاریخ یعقوبی جلد 2 / 215

ان دردناک واقعات کے بعد امام (ع) نے سمجھ لیا کہ معاویہ اور اس کے کارندوں کی چالوں کے سامنے ہماری تمام کوششیں نا کام  ہیں۔ ہماری فوج کے صاحب نام افراد معاویہ سے مل گئے ہیں لشکر اور جانبازوں نے اپنے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑ دیا ہے ممکن ہے کہ معاویہ بہت زیادہ تباہی اور فتنے برپا کر دے۔ 

مذکورہ بالا باتوں اور دوسری وجوہ کے پیش نظر امام حسن (ع) نے جنگ جاری رکھنے میں اپنے پیروکاروں اور اسلام کا فائدہ نہیں دیکھا۔  اگر امام (ع) اپنے قریبی افراد کے ہمراہ مقابلہ کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے اور قتل کردیئے جاتے تو نہ صرف یہ کہ معاویہ کی سلطنت کے پایوں کو متزلزل کرنے یا لوگوں کے دلوں کو جلب کرنے کے سلسلہ میں ذرّہ برابر بھی اثر نہ ہوتا، بلکہ معاویہ اسلام کو جڑ سے ختم کر دینے اور سچے مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کردینے کے ساتھ ساتھ اپنی مخصوص فریب کارانہ روش کے ساتھ لباس عزا پہن کر انتقام خون امام حسن (ع) کے لئے نکل پڑتا اور اس طرح فرزند رسول(ص) کے خون کا داغ اپنے دامن سے دھو ڈالتا خاص کر ایسی صورت میں جب صلح کی پیشکش معاویہ کی طرف سے ہوئی تھی اور وہ امام (ع) کی طرف سے ہر شرط قبول کر لینے پر تیار نظر آتا تھا۔  بنا بر ایں کافی تھا کہ امام (ع) نہ قبول کرتے اور معاویہ ان کے خلاف اپنے وسیع پروپیگنڈے کے ذریعہ اپنی صلح کی پیشکش کے بعد ان کے انکار کو خلاف حق بنا کر آپ (ع) کی مذمت کرتا اور کیا بعید تھا جیسا کہ امام (ع) نے خود پیشین گوئی کردی تھی کہ ان کو اور ان کے بھائی کو گرفتار کر لیتا اور اس طریقہ سے فتح مکہ کے موقع پیغمبر(ص) کے ہاتھوں اپنی اور اپنے خاندان کی اسیری کے واقعہ کا انتقام لیتا۔  اس وجہ سے امام (ع) نے نہایت سخت حالات میں صلح کی 40) بحار جلد 44/ 17 ، شرح ابن ابی الحدید 16 / 41_ 42، مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت /14(پیشکش قبول کرلی۔ 

معاہدہ صلح:

معاہدہ صلح امام حسن کا متن، اسلام کے مقدس مقاصد اور اہداف کو بچانے میں آپ کی کوششوں کا آئینہ دار ہے۔ جب کبھی کوئی منصف مزاج اور باریک بین شخص صلح نامہ کی ایک ایک شرط کی تحقیق کرے گا تو بڑی آسانی سے فیصلہ کر سکتا ہے کہ امام حسن (ع) نے ان خاص حالات میں اپنی اور اپنے پیروکاروں اور اسلام کے مقدس مقاصد کو بچالیا۔ 

صلح نامہ کی بعض شرائط ملاحظہ ہوں:

1۔ حسن (ع) زمام حکومت معاویہ کے سپرد کر رہے ہیں اس شرط پر کہ معاویہ قرآن و سیرت پیغمبر(ص) اور شائستہ خلفاء کی روش پر عمل کرے۔  بحار جلد 44/ 65

2۔ بدعت اور علی (ع) کے لئے نا سزا کلمات ہر حال میں ممنوع قرار پائیں اور ان کی نیکی کے سوا اور کسی طرح یادنہ کیا جائے ۔  ارشاد مفید /191 ،مقاتل الطالبین ،حیاة الامام الحسن بن علی جلد 2 / 237 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 16 / 4

3۔  کوفہ کے بیت المال میں پچاس لاکھ درہم موجود ہیں، وہ امام مجتبی (ع)کے زیر نظر خرچ ہوں (43تاریخ دول الاسلام جلد 1/ 53 ،حیاة الامام الحسن بن علی ج 2 / 238، تذکرة الخواص ابن جوزی /180 ، تاریخ طبری ج 5 / 160) گے اور معاویہ ‘ ‘ داراب گرد ‘ ‘ کی آمدنی سے ہر سال دس لاکھ درہم جنگ جمل و صفین کے ان شہداء کے پسماندگان میں تقسیم کرے گا جو حضرت علی (ع) کی طرف سے لڑتے ہوئے شھید کر دیئے گئے تھے۔ جوہرة الکلام ، حیاة الامام الحسن بن علی جلد 2/ 337

4۔  معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین نہ کرے ۔  بحارالانوار جلد 44/65

5۔  ہر شخص چاہے وہ کسی بھی رنگ و نسل کا ہو اس کو مکمل تحفظ ملے اور کسی کو بھی معاویہ کے خلاف اس کے گذشتہ کاموں کو بنا پر سزا نہ دی جائے۔  مقاتل الطالبین / 43

6۔ شیعیان علی (ع) جہاں کہیں بھی ہوں محفوظ رہیں گے اور کوئی ان کو تنگ نہیں کرے گا۔ارشاد مفید حیاة الامام الحسن بن علی جلد 2/237 شرح ابن ابی الحدید 16/4

امام (ع) نے اور دوسری شرطوں کے ذریعہ اپنے بھائی امام حسین (ع) اور اپنے چاہنے والوں کی جان کی حفاظت کی اور اپنے چند اصحاب کے ساتھ جن کی تعداد بہت ہی کم تھی ایک چھوٹا سا اسلامی لیکن با روح معاشرہ تشکیل دیا اور اسلام کو حتمی فنا سے بچالیا۔

معاویہ کی پیمان شکنی:

 معاویہ وہ نہیں تھا جو معاہدہ صلح کو دیکھ کر امام (ع) کے مطلب کو نہ سمجھ سکے۔  اسی وجہ سے صلح کی تمام شرطوں پر عمل کرنے کا عہد کرنے کے باوجود صرف جنگ بندی اور مکمل غلبہ کے بعد ان تمام شرطوں کو اس نے اپنے پیروں کے نیچے روند دیا اور مقام نُخَیلہ میں ایک تقریر میں صاف صاف کہہ دیا کہ ‘ ‘ میں نے تم سے اس لئے جنگ نہیں کی کہ تم نماز پڑھو، روزہ رکھو اور حج کے لئے جاؤ بلکہ میری جنگ اس لئے تھی کہ میں تم پر حکومت کروں اور اب میں حکومت کی کرسی پر پھنچ گیا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ صلح کے معاہدہ میں جن شرطوں کو میں نے ماننے کیلئے کہا تھا ان کو پاؤں کے نیچے رکھتا ہوں اور ان کو پورا نہیں کروں گا۔ حیاة الامام الحسن بن علی جلد 2/237 مقاتل الطالبین / 43

لہذا اس نے اپنے تمام لشکر کو امیرالمؤمنین(ع) کی شان میں نا سزا کلمات کہنے پر برانگیختہ کیا۔  اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ انکی حکومت صرف امام کی اہانت اور ان سے انتقامی رویہ کے سایہ میں استوار ہو سکتی ہے_ جیسا کہ مروان نے اس کو صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ‘ ‘ علی کو دشنام دیئے بغیر ہماری حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔  بحار 44/49، ابن شرح نہج البلاغہ ابی الحدید ج 16/ 14_ 15 ، 46 مقاتل الطالبین مطبوعہ بیروت /70 ارشاد، مفید 91

دوسری طرف امیرالمؤمنین (ع) کے چاہنے والے جہاں کہیں بھی ملتے ان کو مختلف بہانوں سے قتل کر دیتا تھا۔ اس زمانہ میں تمام لوگوں سے زیادہ کوفہ کے رہنے والے سختی اور تنگی سے دوچار تھے اس لئے کہ معاویہ نے مغیرہ کے مرنے کے بعد کوفہ کی گورنری کو زیاد کے حوالہ کر دیا تھا اور زیاد شیعوں کو اچھی طرح پہچانتا تھا، وہ ان کو جہاں بھی پاتا بڑی بے رحمی سے قتل کر دیتا تھا۔ الصواعق المحرقہ / 33 (لا یستقیم لنا الامر الا بذالک ای بسبّ علی)

مدینہ کی طرف واپسی:

 معاویہ ہر طرف سے طرح طرح کی امام کو تکلیفیں پہنچانے لگا۔  آپ(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب پر اس کی کڑی نظر تھی ان کو بڑے سخت حالات میں رکھتا اور علی(ع) و خاندان علی (ع) کی توہین کرتا تھا۔

یہاں تک کہ کبھی تو امام حسن (ع) کے سامنے آپ کے پدر بزرگوار کی برائی کرتا اور اگر امام(ع) اس کا جواب دیتے تو آپ (ع) کو بھی ادب سکھانے کی کوشش کرتا۔ حیاة الامام الحسن ابن علی جلد 2/ 356

کوفہ میں رہنا مشکل ہو گیا تھا اس لئے آپ نے مدینہ لوٹ جانے کا ارادہ کیا۔

لیکن مدینہ کی زندگی بھی آپ کے لئے عافیت کا سبب نہیں بنی اس لئے کہ معاویہ کے کارندوں میں سے ایک پلید ترین شخص مروان مدینہ کا حاکم تھا، مروان وہ ہے جس کے بارے میں پیغمبر(ص) نے فرمایا تھا: ‘ ‘ ھو الوزغ بن الوزغ، الملعون بن الملعون ارشاد مفید /191 شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد 16/ 47

اس نے امام (ع) اور آپ کے اصحاب کا جینا مشکل کر دیا تھا یہاں تک کہ امام حسن (ع) کے گھر تک جانا مشکل ہو گیا تھا، اس کے با وجود  کہ امام (ع) دس برس تک مدینہ میں رہے لیکن ان کے اصحاب ، فرزند پیغمبر کے چشمہ علم و دانش سے بہت کم فیض یاب ہو سکے۔

مروان اور اس کے علاوہ دس سال کی مدت میں جو بھی مدینہ کا حاکم بنا اس نے امام حسن (ع) اور ان کے چاہنے والوں کو تکلیف و اذیت پہونچانے میں کوئی کمی نہیں کی۔

شہادت:

معاویہ جو امام (ع) کی کمسنی کے بہانہ سے اس بات کے لئے تیار نہیں تھا کہ آپ(ع) کو خلافت دی جائے وہ اب اس فکر میں تھا کہ اپنے نالائق جوان بیٹے یزید کو ولی عہدی کے لئے نامزد کرے تا کہ اس کے بعد مسند سلطنت پر وہ متمکن ہو جائے۔

اور ظاہر ہے کہ امام حسن (ع) اس اقدام کے راستہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھے اس لئے کہ اگر معاویہ کے بعد امام حسن (ع) مجتبی زندہ رہ گئے تو ممکن ہے کہ وہ لوگ جو معاویہ کے بیٹے سے خوش نہیں ہیں وہ امام حسن (ع) کے گرد جمع ہو جائیں اور اس کے بیٹے کی سلطنت کو خطرہ میں ڈال دیں لہذا یزید کی ولی عہدی کے مقدمات کو مضبوط بنانے کے لئے اس نے امام حسن (ع) کو راستہ سے ہٹا دینے کا ارادہ کیا۔  آخر کار اس نے شیطانی مکر کا مظاہرہ کرتے ہوئے امام حسن (ع) کی بیوی ‘ ‘ جعدہ بنت اشعث ‘ ‘ کے ذریعہ آپ(ع) کو زہر دے دیا اور امام معصوم (ع) سینتالیس سال کی عمر میں شہید ہو گئے اور مدینہ کے قبرستان بقیع میں دفن ہوئے۔ حیاة الامام الحسن بن علی جلد 1/239 ، مستدرک حاکم جلد 4/ 479

امام حسن(ع) کی شخصیت:

امام حسن(ع)  کے فضائل کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔ ان روایات کے راوی بہت سے علمائے اہل سنت اور علمائے شیعہ ہیں ۔ تاریخ کے متعدد ادوار میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں امام حسن  کے فضائل کو جمع کیا گیا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آپ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں حالیہ زمانے تک بھی بہت کم قابل توجہ کاوشیں منظر عام پر آئی ہیں ۔ امام حسن کے بارے میں نقل ہونے والے بہت سے فضائل سے یہ پتا چلتا ہے کہ رسول خدا کو ان دو بھائیوں (حسنین ؑ) سے بہت زیادہ محبت تھی، اور آپ سب کے سامنے ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ حسنین  سے آنحضرت کے اظہار محبت کا انداز آپ کا منبر سے نیچے اترنا اور ان کے بوسے لے کر دوبارہ منبر پر تشریف فرما ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ انداز اور اظہار محبت ایک مقصد کے تحت تھا۔ 

اس کے علاوہ رسول خدا سے منقول ہے کہ آپ نے امام حسن  کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کے موقع پر فرمایا کہ : دیکھنے والے اس اظہار محبت سے ان لوگوں کو آگاہ کریں جو یہاں موجود نہیں ہیں ۔ یا آپ فرمایا کرتے تھے کہ: میں اس سے محبت کرتا ہوں ، اور اس سے بھی محبت کرتا ہوں جو اس سے محبت کرتا ہے۔“

مباہلے میں امام حسن  کی موجودگی، اور آپ کا اصحاب کساء میں سے ہونا ، رسول خدا کے نزدیک آپ کی اہمیت اور آپ کے اعتبار کی علامت ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام حسن مجتبیٰ  بیعت رضوان میں موجود تھے اور نبی اکرم نے ان سے بیعت لی تھی۔

رسول خدا سے نقل ہوا ہے کہ: اگر عقل کسی انسان کی صورت میں مجسم ہوتی تو وہ حسن  ہوتے۔

ناکثین کی شورش کے موقع پر اہل کوفہ کو جنگ پر ابھارنے کے سلسلے میں امام حسن  کی کامیابی اس شہر کے لوگوں کے نزدیک آپ کی اہمیت اور اعتبار کی علامت ہے ۔ رسول خدا کی ایسی احادیث کی وجہ سے مسلمان ، فاطمہ زہرا(س) کے بچوں کو اولاد رسول سمجھتے تھے اور بنی امیہ اور ان کے بعد بنی عباس کے انکار کے با وجود مسلمانوں میں اس بات میں کوئی معمولی سا بھی شک نہیں ہے۔

انہی عظیم خصوصیات کی وجہ سے حضرت علی  جیسی ہستی نے لوگوں میں اپنے جانشین کے طور پر آپ کا تعارف کرایا۔ عراق اور بہت سے دوسرے علاقوں کے لوگوں نے باضابطہ خلیفہ کی حیثیت سے آپ کی بیعت کی ۔ اس کے باوجود، مخصوص مفادات رکھنے والوں کی جانب سے مختلف علاقوں میں امام کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی، اور آپ کو ایک طرف تو تدبیر و سیاست سے بے بہرہ اور دوسری جانب (نعوذ باللہ) دنیا پرست اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے موقف کو حضرت علی اور امام حسین  کے موقف کے برخلاف ظاہر کیا گیا۔ مثال کے طور پر یہ کوشش کی گئی کہ بے بنیاد خبریں گھڑ کر امام حسن کا تعارف ایک ایسے شخص کے طور پر کرایا جائے، جو ہمیشہ شادیاں کرنے اور طلاق دینے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ایک اور موقع پر دیکھتے ہیں کہ صلح سے متعلق روایات میں اس طرح ظاہر کیا گیا ہے جیسے امام  صرف چند ایسے وعدوں پر جن کا تعلق مال و دولت سے تھا،حکومت سے کنارہ کش ہونے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ یعنی آپ صرف”اہواز“ کا خراج اور کوفہ کے بیت المال میں موجود مال و دولت کا حصول چاہتے تھے۔

انہی روایات میں یہ بات پیش کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ امام  اپنے آپ کو خلافت کا حقدار نہیں سمجھتے تھے۔ اسی لئے آپ نے اسے معاویہ کے حوالے کر دیا۔       

حالانکہ یہ محض ایک تہمت ہے۔ کیونکہ امام  نے بار ہا اس نکتے کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ”خلافت صرف ان کا حق ہے، اور آپ جبراً اسے معاویہ مکار کے حوالے کر رہے ہیں ۔ “ امامت و ولایت کے مخالفین امام کی جانب سے یہ موقف منسوب کر کے آپ کی کردار کشی کہ جو زیادہ تر بنی عباس کی جانب سے کی گئی کیونکہ بنی حسن ان کے لئے مشکلات کھڑی کررہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اور فائدہ اٹھایا کرتے تھے اور وہ حضرت علی  اور حتیٰ آپ  کے بھائی حسین ابن علی ؑ کی مذمت کو صحیح قرار دینا تھا۔ چنانچہ امام  کی زبانی یہ جھوٹا قول نقل کیا گیا ہے کہ :” میں ملک کی خاطر معاویہ سے جنگ کرنے پر تیار نہیں ہوں۔“ یہ بات حضرت علی کی جنگوں کی مذمت کے لئے اہل سنت کے متعصب افراد کے کام آ سکتی تھی۔

اسی بناء پر یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ امام حسن کی ولادت کے وقت آپ کے والد آپ کا نام ”حرب“ رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت علی ابتداء ہی سے فطری طور پر جنگ و جدال کو پسند کیا کرتے تھے ۔

 بعض روایتوں میں آیا ہے کہ امام حسن نے فرمایا:” عرب کی تمام طاقت میرے ہاتھ میں ہے صلح کروں یا جنگ کروں سب میرے ساتھ ہوں گے۔“ اس کے علاوہ یہ کہ:” ایک لاکھ یا چالیس ہزار افراد نے آپ کی بیعت کی اور حتیٰ لوگ انہیں ان کے بابا سے بھی زیادہ پسند کرتے تھے۔“ اگر کوئی ان خلاف حقیقت روایات کو قبول کر لے تو قدرتی طور پر وہ یہی سمجھے گا کہ امام  نے حکومت راضی خوشی معاویہ  کے حوالے کی ہے، نہ کہ مجبوراً یہ کام کیا ہے۔ ان دو نظریات کا فرق بالکل واضح ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مورخین کا یہ گروہ اپنی تاریخی روایات کے ذریعے یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ان دونوں بھائیوں میں باہمی اختلاف پایا جاتا تھا، یہاں تک کہ امام حسین نے اپنے بھائی کے موقف کو قبول نہیں کیا تھا اور ان کا نقطہ نظر کچھ اور تھا۔

ان دو بھائیوں کے درمیان اسی فرق کو ثابت کرنے کے لئے یہ روایت بھی لاتے ہیں کہ : امام حسین نے اپنے بھائی سے کہا:” کاش آپ کے سینے میں میرا دل ہوتا اور میرے منہ میں آپ کی زبان۔“

ان باتوں کو متاخرین نے فضیلت کے طور پر بیان کیا ہے جبکہ ان میں سے متعدد اسی مقصد کے لئے گھڑی گئی ہیں جس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔

مصائب امام حسن مجتبی (ع):

آپ حضرت علی(ع) کی شہادت کے بعد مسلسل دشمنوں کے مصائب کا نشانہ رہے،خاص طور سے معاویہ کے ظلم و ستم برداشت کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کے دوستوں نے بھی آپ سے بے وفائی کی ۔ آپ نے چھ مہینے خلافت کی اور صلح کے بعد مدینہ چلے گئے اور تا آخر عمر وہیں رہے ۔

معاویہ کی خونخوار سازش:

معاویہ کی قاتلانہ سازش یہ تھی کہ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ پوشیدہ طریقے سے امام حسن کو قتل کر دیا جائے اپنے اس ارادے کو پورا کرنے کے لئے اس نے چار منافقوں کا الگ الگ انتخاب کیا ، ہر ایک سے کہا کہ اگر تم نے حسن بن علی کو قتل کر دیا تو میں تمہیں دو لاکھ درہم اور شام کا فوجی افسر بنا دوں گا ۔ اس کے علاوہ اپنی بیٹی سے شادی کر دوں گا ۔ ان چار کا نام تھا ۔١۔ عمر و بن حریث۔٢۔ اشعث بن قیس ۔٣۔ حجر بن الحارث اور ۔٤۔ شبث بن ربعی ۔

معاویہ نے جن انعامات کا اعلان کیا تھا انہیں حاصل کرنے کے لئے ان سب نے حامی بھر لی ۔

معاویہ نے ان سب پر جاسوس مقرر کر دیئے جو پوشیدہ طریقے پر ان کی کارکردگی کی رپورٹ معاویہ کو بھیجتے رہتے تھے ۔

امام حسن کو اس سازش کی خبر ہو گئی ۔ اس کے بعد آپ مکمل طور سے نگراں رہے کہ یہ سازش اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ آپ ہر وقت لباس کے اندر زرہ پہنتے تھے یہاں تک کہ اسی زرہ میں آپ نماز بھی پڑھتے تھے ،آخر ایک سازشی نے حالت نماز میں آپ پر تیر چلا دیا ، لیکن اس زرہ کی وجہ سے تیر کا زخم بدن پر نہ لگا ۔ بحار الانوار ،ج٤٤،ص٣٣

خوارج کی سازش:

دوسری طرف خوارج آپ کی گھات میں تھے ، یعنی وہی تقدس مآب جاہل افراد آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، ان کا بہانہ یہ تھا کہ آپ نے معاویہ سے جنگ کیوں نہیں کی ، وہ آپ کو ( معاذ اللہ )مشرک و مذل المومنین پکارتے تھے ۔

انہیں خوارج میں ایک جراح بن سنان نامی شخص نے ساباط ( مدائن )میں سر راہ امام حسن کا لجام فرس پکڑ لیا اور تلوار سے آپ کو اس طرح مارا کہ ران کا گوشت شگافتہ ہو کر تلوار استخوان تک پہنچ گئی ۔ امام نے درد کی شدت سے اس کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور دونوں زمین پر گر گئے ، امام حسن کے ایک شیعہ عبد اللہ بن خطل نے لپک کر تلوار اس کے ہاتھ سے چھین لی اور قتل کر دیا ، ایک دوسرے ساتھی کو بھی پکڑ کر قتل کر دیا ۔ امام حسن کو مدائن کے گورنر سعد بن مسعود ثقفی کے مکان پر لے گئے اور آپ کا علاج کرایا گیا ۔ ترجمۂ ارشاد شیخ مفید ،ج٢،ص٨

امام حسن(ع) کو زہر دیا گیا:

جعدہ بنت اشعث امام حسن کی زوجہ تھی ، معاویہ نے اسے ایک لاکھ درہم بھیجا اور پیغام بھیجا کہ اگر امام حسن کو زہر دو گی تو تمہاری شادی اپنے بیٹے یزید سے کر دوں گا ، جعدہ نے معاویہ کی یہ پیش کش قبول کر لی اور امام حسن کو زہر دیدیا ۔

معاویہ نے جعدہ کے پاس سیّال زہر بھیجا،امام حسن روزے سے تھے ،ہوا گرم تھی ، افطار کے وقت جعدہ نے وہ زہر آپ کے دودھ کے پیالے میں ملا کر امام کی خدمت میں پیش کیا ، امام نے اسے پیا تو فوراً زہر محسوس کر لیا ، جعدہ سے فرمایا :

‘ ‘تو نے مجھے قتل کیا ، خدا تجھے قتل کرے ، خدا کی قسم تیری آرزو پوری نہ ہو گی ، خدا تجھے ذلیل کرے گا ۔ ‘ ‘

دو روز کے بعد آپ نے اسی زہر سے شہادت پائی ۔ معاویہ نے جعدہ سے جو قول و قرار کیا تھا اسے پورا نہ کیا ،یزید سے اس کی شادی نہیں کی ،اس نے امام حسن کے بعد خاندان طلحہ کے ایک شخص سے شادی کر لی،

اور اس سے کئی بچے ہوئے،جب ان بچوں کے خاندان اور خاندان قریش کے درمیان تکرار ہوتی تو انہیں کہا جاتا  ‘ ‘یا بنی مسمّة الازواج ‘ ‘ ( اے ایسی عورت کے بیٹو جو اپنے شوہروں کو زہر دیتی ہیں )۔

 (ارشاد شیخ مفید،ج٢ ص١٣ میں روایت ہے کہ جعدہ معاویہ کے پاس گئی اور کہا :میری یزید سے شادی کر دو۔ اس نے جواب دیا : ‘ ‘اذهبی فان الامرأة لا تصلح للحسن بن علی لا تصلح لابنی یزید ‘ ‘ دفع ہو جا ! تیری جیسی عورت جب حسن بن علی سے وفا نہ کر سکی تو میرے بیٹے یزید سے کیا وفا کرے گی ۔  بحار الانوار ،ج٤٤،ص ١٤٨و١٥٤

عمر بن اسحاق کا بیان ہے کہ میں حسن و حسین کے ساتھ گھر میں تھا اتنے میں امام حسن طہارت کے لئے گھر سے باہر گئے، واپس آکر فرمایا کہ ‘ ‘کئی بار مجھے زہر دیا گیا لیکن اس مرتبہ سب سے شدید تھا ، میرے جگر کا ایک ٹکڑا گرا  اسے میں نے اپنے اس عصا سے حرکت دی ‘ ‘ ۔ امام حسین نے پوچھا : ‘کس نے آپ کو زہر دیا ۔ ‘ ‘

امام حسن نے فرمایا : اس سے تم کیا چاہتے ہو؟ کیا اسے قتل کرو گے ؟ جسے میں سمجھتا ہوں اس پر تم سے زیادہ خدا عذاب کرے گا اور اگر وہ نہ ہو تو میں نہیں چاہتا کہ بے گناہ میری وجہ سے گرفتار ہو ۔ بحار الانوار،ج٤٤،ص١٤٨،١٥٤

امام حسن زہر کھانے کے بعد چالیس دن بیمار اور بستر پر رہے، آخر ماہ صفر میں آپ کی شہادت واقع ہوئی ۔ کشف الغمہ ،ج٢،ص ١٦٣

ایک دوسری روایت میں حضرت صادق آل محمد کا ارشاد ہے کہ جس وقت امام حسین اپنے بھائی کے سرہانے آئے اور حالت دیکھی تو رونے لگے ۔ امام حسن نے پوچھا ۔بھائی کیوں روتے ہو ؟

امام حسین نے کہا : کیسے گریہ نہ کروں کہ آپ کو مسموم دیکھ رہا ہوں ،لوگوں نے مجھے بے بھائی کا کر دیا ۔

امام حسن نے فرمایا : میرے بھائی ! اگر چہ مجھے زہر دیا گیا ہے لیکن جو کچھ ( پانی ، دودھ ،دوا وغیرہ )چاہوں یہاں مہیّا ہے ۔ بھائی ، بہنیں اور خاندان کے افراد میرے پاس موجود ہیں ، لیکن

‘لا یوم کیومک یا ابا عبداللّه. ‘ ‘

اے ابا عبد اللہ! تمہاری طرح میری حالت تو نہیں ہے ، تم پر تیس ہزار اشقیاء کا ہجوم ہو گا جو دعویٰ کریں گے کہ ہم امت محمدی ہیں ۔ وہ تمہارا محاصرہ کر کے قتل کریں گے ، تمہارا خون بہائیں گے، تمہاری عورتوں اور بچوں کو اسیر کریں گے ،تمہارا مال لوٹ لیں گے، اس وقت بنی امیہ پر خدا کی لعنت روا ہو گی ۔

میرے بھائی تمہاری شہادت دلگداز ہے کہ

‘ ‘و یبکی علیک کلّ شئی حتیٰ الوحش فی الفلوات و الحیتان فی البحار  ‘ ‘تم پر تمام چیزیں گریہ کریں گی یہاں تک کہ حیوانات صحرائی و دریائی تمہاری مصیبت پر روئیں گی ۔ (امالی صدوق مجلس ٣٠، مقتل المقرم ،ص٢٤٠

امام حسین(ع) سے وصیت:

امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ امام حسن پر حالت احتضار طاری ہوئی ، امام حسین سے کہا : میرے بھائی تم سے وصیت کرتا ہوں اس کا لحاظ کرنا اور پوری کرنا ۔

جب میں مر جاؤں تو دفن کا انتظام کرنا ، پھر مجھے قبر رسول (ص)پر لے جانا تا کہ ان سے تجدید عہد کروں، پھر مجھے قبر مادر پر لانا پھر بقیع میں لیجا کر دفن کر دینا، یہ سمجھ لو کہ حمیرا ( عائشہ )جس کی دشمنی و عناد میرے خاندان سے سبھی جانتے ہیں اس کی طرف سے مجھ پر مصیبت ڈھائی جائے گی ۔

جس وقت حضرت نے انتقال کیا ، جنازے کو تابوت میں رکھا گیا ، جہاں رسول (ص)نماز پڑھتے تھے وہیں لے جایا گیا امام حسین نے نماز جنازہ پڑھائی، وہاں سے قبر رسول (ص)پر لیجا کر تھوڑی دیر کے لئے رکھا گیا ۔

اعتراض عائشہ اور امام حسین(ع) کا جواب:

عائشہ کو خبر دی گئی کہ بنی ہاشم جنازے کو قبر رسول (ص)کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، عائشہ ایک خچر پر سوار ہو کر وہاں پہنچ گئی اور ڈیرا ڈال دیا ،کہنے لگیں :

‘ ‘نحّوا ابنکم عن بیتی. ‘ ‘۔اپنے فرزند کو میرے گھر سے باہر لے جاؤ کیونکہ یہاں کوئی چیز دفن نہیں ہو سکتی ، حجاب رسول کو پارہ نہیں ہونا چاہئے ۔

امام حسین نے ان سے فرمایا :

تم نے اور تمہارے باپ نے تو پہلے ہی حجاب رسول کو پارہ پارہ کر دیا ہے، تم نے رسول کے گھر ایسے کو ابو بکر پہنچا دیا ہے کہ رسول کو اس کی قربت نا پسند تھی ، خدا تم سے اس کی باز پرس کرے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے بھائی حسن نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ قبر رسول (ص)پر لے جانا تا کہ تجدید عہد کروں ۔ تم سمجھ لو کہ میرے بھائی تمام لوگوں سے زیادہ خدا و رسول اور معنی قرآن کو سمجھتے تھے، وہ حجاب رسول کے پارہ ہونے کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔ اگر ان کا دفن ہونا میری رائے میں مناسب ہو تا تو سمجھ لو کہ تمہاری خواہش کے بر خلاف یہاں ضرور دفن ہوتے ۔ 

اس کے بعد محمد حنفیہ اپنی بات کہنے لگے ،فرمایا :

اے عائشہ! ایک دن تم خچر پر سوار ہوئی اور ایک دن تم اونٹ پر سوار ہوئی تھی، تمہیں جو بنی ہاشم سے نفرت ہے اس کی وجہ سے نہ تو تم اپنے اختیار میں ہو نہ چین سے رہ سکتی ہو ۔

عائشہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا : اے حنفیہ کے بیٹے ! یہ فرزندان فاطمہ ہیں جو مجھ سے بات کر رہے ہیں، تم کیوں بیچ میں بول رہے ہو ۔

امام حسین نے فرمایا : محمد کو بنی فاطمہ سے الگ کیوں کر رہی ہو، خدا کی قسم ! انہیں تین فاطمہ نے جنم دیا ہے ۔ فاطمہ بنت عمران (مادر ابو طالب )، فاطمہ بنت اسد (مادر علی )فاطمہ بنت زائدہ بن اصم (مادر عبد المطلب )۔

عائشہ نے جھلا کر کہا : اپنے فرزند کو ہٹاؤ ،لے جاؤ کہ تم لوگ عناد پرست ہو ۔

امام حسین جنازے کو بقیع کی طرف لے کر چلے گئے ۔ اصول کافی ،ج١،ص ٣٠٢،٣٠٣

دوسری روایت ہے کہ غسل کے بعد جب جنازے کو قبر رسول (ص)کی طرف لے چلے تو حاکم مدینہ مروان اور اس کے ساتھیوں نے یقین کر لیا کہ امام حسن کو قبر رسول (ص)کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے تیاری شروع کر دی اور لباس جنگ پہن کر بنی ہاشم کے سامنے آگئے،عائشہ خچر پر سوار ہو کر فریاد کر رہی تھیں ، مجھے پسند نہیں کہ اپنے فرزند کو میرے گھر میں لاؤ ۔

مروان نے کہا :

‘ ‘یا ربّ هیجا هی خیر. ‘ ‘

کتنے ہی موقعے ہوتے ہیں کہ جنگ آسائش سے بہتر ہوتی ہے،کیا عثمان مدینے کے کنارے دفن ہوں اورحسن پیغمبر کے قریب دفن کئے جائیں .؟ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔

قریب تھا کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ میں شدید جنگ چھڑ جائے کہ عبد اللہ بن عباس نے مروان سے جا کر کہا : اے مروان ! ہم چاہتے ہیں کہ قبر رسول (ص)پر تجدید عہد کریں ،ہم امام حسن کو پہلوئے رسول(ص)میں دفن نہیں ہونے دینا چاہتے ،

اس کے بعد عائشہ کی طرف رخ کیا :

یہ کیا ذلیل حرکت ہے عائشہ ! ایک دن خچر پر ایک دن اونٹ پر ۔ تم نور خدا کو بجھانا چاہتی ہو ۔ دوستان خدا سے جنگ کرنا چاہتی ہو ۔ واپس جاؤ کہ جو کچھ تم چاہتی ہو پا گئی ہو ۔ ( اطمینان رکھو کہ ہم امام حسن کو پہلوئے رسول(ص)میں دفن نہیں کریں گے )خداوند عالم اس خاندان سے انتقام ضرور لے گا چاہے عرصہ گذر جائے ۔  ترجمہ ارشاد شیخ مفید ،ج٢،ص ١٥

جنازے پر تیر بارانی:

محدث قمی نے مناقب بن شہر آشوب کے حوالے سے لکھا ہے کہ جنازہ امام حسن پر تیر بارانی بھی ہوئی ۔ اور دفن کے وقت ستر تیر آپ کے جسد مبارک سے نکالے گئے ۔  انوار البہیہ ،ص٨٣

اسی لئے ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:

‘ ‘و انتم صریع قد فلق  ‘ ‘

تم ( خاندان نبوت والو )میں سے کسی کو محراب عبادت میں سر شگافتہ کیا گیا، دوسرے کو تابوت کے اندر تیر بارانی کی گئی ،کسی کو بعد قتل نوک نیزہ پر سر بلند کیا گیا ۔ اور بعض کو زندان کے گوشے میں کھینچا گیا اور اعضاء کو لوہے کا فشار دیا گیا ۔ یا زہر کے اثر سے داخلی طور سے قطع قطع کیا گیا ۔ یہ زیارت مصباح الزائر میں ائمہ اطہار سے نقل ہوئی ہے اور مفاتیح الجنان میں بھی موجود ہے

امام حسین جنازے کو بقیع میں گئے اور جدۂ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔

مرثیۂ امام حسین(ع):

امام حسین نے جنازے کو تابوت میں رکھتے ہوئے یہ اشعار پڑھے :

کیا میں سر میں تیل لگاؤںیا ریش کو عطر سے خوشبودار کروں ؟ جبکہ میں آپ کے سر کو مٹی میں دیکھ رہا ہوںاور آپ کو کٹی شاخ یا پتے کی طرح دیکھ رہا ہوں ۔

جب تک کبوتر کی آواز گونجے گی اور شمالی و جنوبی ہوا چلے گی میں آپ پر روتا رہوں گا ۔

میرا گریہ طولانی ہے،میرے آنسو رواں ہیں ، آپ مجھ سے دور ہیں اور قبر نزدیک ہے ۔

جس کا مال چھین لیا گیا ہو ، غارت شدہ نہیں ہے ، بلکہ غارت شدہ وہ ہے جو اپنے بھائی کو خاک میں لٹائے۔(  مناقب بن شہر آشوب ،ج٤،ص ٤٥

طشت میں خون جگر:

جنادہ بن امیہ روایت کرتا ہے کہ جس بیماری میں امام حسن نے شہادت پائی ، میں انکی عیادت کے لئے گیا ،میں نے دیکھا کہ آپ کے پاس طشت رکھا ہے جس میں گلے سے خون کے لوتھڑے گر رہے ہیں،جس میں آپ کے جگر کے ٹکڑے تھے ،میں نے عرض کی : اے مولا ! علاج کیوں نہیں کرتے ؟

فرمایا : اے بندۂ خدا ! موت کا علاج کس چیز سے کروں ؟

اس کے بعد میں نے عرض کی:مولا ! مجھے موعظہ فرمایئے ۔فرمایا : ‘ ‘ استعد لسفرک . ‘ ‘

اے جنادہ ! آخرت کے سفر کے لئے آمادہ ہو جاؤ اور عمر ختم ہونے سے پہلے توشۂ آخرت حاصل کرلو۔ سمجھ لو کہ تم دنیا کی طلب میں ہو اور موت تمہاری طلب میں ہے ،کبھی آنے والے کل کا غم آج نہ کرو ۔

جنادہ کہتے ہیں کہ ناگاہ میں نے دیکھا کہ امام حسین حجرے میں تشریف لائے حالانکہ امام حسن کا رنگ زرد ہو گیا تھا ،سانسیں رک رہی تھیں، امام حسین نے خود کو برادر کے بدن پر گرا دیا اور سر آنکھوں کا بوسہ دینے لگے ،تھوڑی دیر آپ کے پاس بیٹھ کر راز کی باتیں کرتے رہے ۔ انوار البہیہ ،ص٨٠

شہادت امام حسن(ع) پر معاویہ کی خوشی:

معاویہ کو شہادت امام حسن کی خبر ملی تو بہت خوش ہوا ۔ سجدے میں گر کر شکر خدا بجا لایا ۔ پھر تکبیر کہی ۔ اس وقت ابن عباس شام میں تھے ۔ معاویہ نے انہیں بلایا اور بڑے مسرور انداز میں تعزیت پیش کی ۔ پھر ابن عباس سے پوچھا حسن بن علی کی عمر کتنی تھی ؟

ابن عباس نے جواب دیا ۔ تمام قریش کے لوگ ان کے سن و سال سے آگاہ ہیں ۔ تعجب ہے کہ تم نا واقفیت ظاہر کر رہے ہو ۔

معاویہ نے کہا : سنا ہے کہ حسن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ؟

ابن عباس نے کہا : ہر چھوٹا بڑا ہوتا ہے ۔ اور یہ سمجھ لو کہ ہمارے بچے بھی بوڑھوں کی طرح ہوتے ہیں ۔

سچ بتاؤ کہ وفات حسن سے تم اتنے خوش کیوں ہو ؟ خدا کی قسم ان کی موت تمہارے اجل کو ٹالے گی نہیں نہ ان کی قبر تمہاری قبر کو بھرے گی ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے بعد میری اور تمہاری عمر کس قدر مختصر ہے ۔   عقد الفرید ،ج٤،ص ٣٦٢

 امام حسن(ع) کی شہادت کے وقت کے اہم واقعات:

معاویہ سے صلح کے بعد:

جب امام حسن علیہ السلام معاویہ کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہو گئے تو آپ نے صلح نامہ میں جہاں باقی بہت سارے شرائط معین فرمائے وہاں اس بات کی قید و شرط بھی لگا دی کہ معاویہ اپنے بعد کسی کو اپنی جگہ عہدہ خلافت پر معین کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ معاویہ سے صلح کے بعد آپ دار الخلافہ کوفہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس چلے گئے۔

معاویہ کی سازش:

اگر چہ معاویہ نے روز اول سے ہی صلح کے تمام شرائط کی خلاف ورزی کرنا شروع کر دی تھی لیکن پھر بھی اسے امام حسن (ع) سے اس بات کا خطرہ لاحق تھا کہ آپ اسے یزید کے لیے اسلامی حاکم کے عنوان سے بیعت نہیں لینے دیں گے اور اس راہ میں ضرور رکاوٹ کھڑی کریں گے۔ اس وجہ سے معاویہ نے امام حسن علیہ السلام کو اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش شروع کر دی۔

امام حسن مجتبی(ع) کی حالت احتضار:

شیخ کلینی اور شیخ صدوق نے بیان کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ جب امام حسن (ع) حالت احتضار میں تھے تو گریہ فرمانے لگے میں نے عرض کیا: آپ گریہ کر رہے ہیں جبکہ آپ نانا رسول خدا(ص) کے نزدیک خاص مقام رکھتے ہیں اور نانا نے آپ کے بارے میں اتنا سب فرمایا اور جبکہ آپ بیس مرتبہ پا پیادہ حج پر مشرف ہوئے ہیں تین مرتبہ آپ نے اپنا سارا مال و منال راہ خدا میں فقراء و مساکین کو دے دیا حتی اپنے پیروں سے جوتیاں بھی اتار کر تقسیم کر دیں ایک اپنے لیے رکھی اور دوسری فقیر کو دے دی؟

آپ نے جواب میں فرمایا:

انما ابکی لھول المطلع و فراق الاحبۃ۔

(کافی، ج۱،ص ۴۶۱، امالی، مجلس ۳۹، ص۱۳۳)

میں جس سفر میں قدم رکھ رہا ہوں اس کے خوف سے رو رہا ہوں اور آپ عزیزوں کی جدائی پر گریہ کر رہا ہوں۔

حضرت زینب (س) کا بھائی کے پاس آنا:

مرحوم شیخ جعفر نقدی نے نقل کیا ہے کہ امام حسن (ع) کو جو زہر دیا گیا وہ اتنا سخت تھا کہ اس کی وجہ سے آپ کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر طشت میں گرا، امام حسن علیہ السلام کو جب بتایا گیا کہ آپ کی بہن زینب (س) آپ کی طرف تشریف لا رہی ہیں تو آپ نے حکم دیا کہ اس طشت کو وہاں سے ہٹا دیا جائے تاکہ زینب (س) کی اس طشت پر نگاہ نہ پڑے جس میں جگر کے ٹکڑے پڑے ہیں اس لیے کہ زینب (ع) برداشت نہیں کر پائے گی کہ بھائی کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر طشت میں گرا ہے۔ (زینب کبریٰ، ص۲۲)

منبع:valiasr-aj.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button