حکمرانوں کی اقسام نهج البلاغہ کی نظر میں
انسان ایک معاشرتی موجود ہے کہ جو کسی حکومت اوررہبری کے بغیر نہیں رہ سکتا اوراسی پیاس کو بجھانے کی خاطر کبھی اسے اچھے اورنیک رہبر نصیب ہوتے ہیں کہ جو انسانوں کو اخلاقی کمالات کے ساتھ ساتھ دنیوی عروج بھی نصیب کرتے ہیں اوربعض ایسے بھی ہوسکتے ہیں کہ جو انسان کی زندگی میں تاریکیوں کے اضافہ کے سوا کچھ نہیں کرپاتے ۔اوریہ دونوں برابرنہیں ہیں ،خود امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : فانه لا سواء امام الهدی و امام الردی[1] کہ ہدایت اورسیدھا راستہ دکھانے والارہبر اورامام ،اورگمراہ کرنے والا امام ہرگزبرابر نہیں ہوسکتے۔بعض رہبر اورقائد سخت مشکلات کو بھی برداشت کرکے لوگوں کی دنیا اورآخر ت سنوارتے ہیں ۔حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم ﷺ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ولیھم وال فاقام واستقام حتی ضرب الدین بجرانہ [2]
لوگوں کے امور کاذمہ دار ایساحاکم بنا جو خود بھی سیدھے راستہ پر چلا اورلوگوں کو بھی اسی راستہ پر چلایا یہانتکہ دین محکم اورپایدارہوگیا۔
ایک اورخطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں :امام من اتقی وبصیرۃ من اھتدی [3](پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم )متقین کے امام اورطلبگاران ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے ۔
خود امیرالمومنین علیہ السلام کہ جس نے عدل وانصاف کی جنگ لڑی اورپورے دردمندانہ طریقے سے حکومت کی باگ ڈور صرف اس لیے سنبھالی تاکہ مظلوم کو اس کا حق واپس دلایا جاسکے ، ایسے رہبر کی مظلومیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جو معاشرے میں حق وانصاف کی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور مظلوموں کی مدد کرنے میں اپنا سب کچھ قربان کردے ۔جس کی سیرت اس کے قول کی بڑھ کر تصدیق کرے لیکن لوگ اس کے وجود کی نعمت سے غفلت کریں یقینا بدبختی ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اس عظیم نعمت کا کفران کیا اوربالآخر حجاج بن یوسف ثقفی جیسے ظالم حکمران کا دوردیکھا ۔حضرت علی علیہ السلام اپنے حکومتی ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : اللهم اِنّك تعلم اَنّه لم يكن الذى كان مِنّا منافسةً في سلطان و لَاالتِماس شى ءٍ من فضول الحُطام و لكن لنَرُدَّ المَعالم مِن دينك و نُظهِر الاِصلاح في بلادك، فيأمن المظلومون مِنْ عبادك و تقامُ المعطَّلةُ مِن حدودك۔[4].
خدایا!توجانتا ہے کہ قیام اورحکومت سے ہمارامقصد ، قدرت کا عشق اورمال ودولت کا حصول نہیں ہے بلکہ ہدف صرف یہ ہے کہ تمہارے دین کو اس جگہ پر کہ جہاں تھا لوٹاسکیں اورتیرے شہروں میں اصلاح کرسکیں تاکہ تیرے مظلوم بندے امان میں رہیں اورتیری جن حدود کر ترک کردیا گیا ہے ان کو قائم کرسکیں ۔
اوردوسری طرف فاسد حکمران بھی ہیں جو صرف دنیا پرستی کے اسیر ہیں جنہوں نے حکمرانی کو ہدف قراردیتے ہوئے اس تک پہنچنے میں سب جائز وناجائز کو انجام دیا ۔وہ تمام کام جن کی دین اسلام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار بھی اجازت نہیں دیتیں ان کوبھی کرگزرنے میں ذرا برابرہچکاہٹ محسوس نہ کی اورزندگی کے چارروز اسی غفلت میں گزاردیئے ۔جنہوں نے نہ صرف لوگوں پر ظلم کیا بلکہ اپنے اوپر بھی ظلم وستم کیا امیرالمومنین ایسے ظالم اورجابر حاکم کے بارے میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے ، ارشاد فرماتے ہیں :یؤتی یوم القیامۃ بالامام الجائر ولیس معہ نصیر ولاعاذرفیلقی فی نار جھنم فیدورفیھا کما تدورالرحی ثم یرتبط فی قعرھا ۔[5] قیامت کے دن ظالم رہبر کا پیش کیا جائے گا جس کا اس دن کوئی مددگارنہیں ہوگا اورنہ ہی عذرخواہی قبول کرنے والا، اس کو جھنم کے شعلوں میں جھونک دیا جائے گا اوروہاں چکی کی طرح چکر کھائے گا اوراس کے بعد اس کو قعرجھنم میں جکڑدیا جائے گا ۔
حضرت علی علیہ السلام کا اصلی درد اورغم یہ تھا کہ افسوس ہے کہ لوگ نیک اورصالح رہبری اورقیادت کو نہ صرف قبول نہ کریں بلکہ اس کو کمزوربنانے کے لیے کمرباندھ لیں جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ فاسق اورفاجر حکمران مسلط ہوجائیں گے ۔امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں ۔ولکننی آسی ان یلی امرھذہ الامۃ سفھاؤھاوفجارھا فیتخذوا مال اللہ دولاوعبادہ خولا و الصالحین حربا والفاسقین حزبا [6]مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ امت کی زمام احمقوں اورفاسقوں کے ہاتھ چلی جائے وہ مال خدا کو اپنی املاک اوربندگان خدا کو اپنے غلام بنا لیں ،نیک لوگوں سے جنگ کریں اورفاسق لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیں ۔
شاید یہاں پر یہ سوال پیدا ہو کہ حقیقتا صالح اورنیک رہبری تو امام معصوم انجام دے سکتا ہے کہ جس کی حکمرانی اوررہبری میں عدل وانصاف قائم ہوسکتا ہے ایک عام انسان کیسے ایسی حکومت قائم کرسکتا ہے ؟جواب بہت سادہ ہے ہر حکمران جو عدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے اپنی قدرت کو وسیلہ بنائے وہ ایساکرسکتاہے جس کے دل میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو۔ یقینا شریر اورمفسد لوگ اس کی حکومت میں ختم نہیں ہوسکتے لیکن ان کے خاتمے کے لیے اورعدل وانصاف کو قائم کرنے کے لیے کوشش توکرسکتاہے اوروہ صفات جو ایک رہبر میں ہونی چاہییں اگران کو اپنا لے تو اس کی شہرت بھی ایک عادل بادشاہ کے طورپر ہوسکتی ہے مسلمان تو دور کی بات آغاز اسلام میں نجاشی بادشاہ کے لیے پیغمبر اکرم ﷺکی زبانی یہ الفاظ کہ تم(مسلمانوا) حبشہ چلے جاو وہاں کا حاکم عادل اورمہربان ہے نجاشی مسلمان نہیں تھا لیکن انسانی اصولوں کا پابند تھا ۔
تصورعباس
مقالہ: قیادت ورہبری نہج البلاغہ کی روشنی میں
منابع
:نھج البلاغہ ،کلمات قصار۴۶۷[2]