رہبر اورحاکم کی ذمہ داریاں نهج البلاغه کی نظر میں
رہبر اورحاکم کی ذمہ داریاں
۱:عدل وانصاف کا قیام
عدالت ایک ایسا مقولہ ہے جو اس دور میں زیادہ تر حضرت علی علیہ السلام کی سیرت اورخلافت سے مربوط سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کے قیام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا اوراس راستے میں اتنی مشکلات اٹھائیں کہ جو عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔
عدالت ایک چیز ہے کہ جو خدا کو پسند ہے اورخدا نے حکمرانوں پر یہ بات بھی فرض کی ہے کہ وہ عدالت کے قیام میں کوشش کریں حضرت علی علیہ السلام عدل کے قیام کو رہبروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ :وان افضل قرۃ عین الولاۃ استقامۃ العدل فی البلاد۔[1]کہ تحقیق والیوں کے حق میں بہترین آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان یہ ہے کہ ملک بھر میں عدل وانصاف کا قیام ہے ۔البتہ رہبروں اورحکمرانوں کا اولین فریضہ بھی ہے تاکہ ظلم وستم سے نجات پاتے ہوئے عوام اورلوگوں تک ان کے حقوق پہنچتےرہیں ۔چاہے اس سے بعض خواص کا طبقہ ناپسندیدگی کا اظہار ہی کیوں نہ کرے اگر انصاف کا دامن پکڑا ہوا ہے تو اس کو انجام دو ۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :
ولیکن احب الامور الیک اوسطھا فی الحق واعمھا فی العدل اجمعھالرضی الرعیتہ۔ تمہارے لیے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو حق کے اعتبار سے بہترین ،انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اوررعایاکی مرضی سے اکثریت کے لیے پسندیدہ ہو کہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے [2] اسی طرح فرماتےہیں کہ انصف اللہ ،وانصف الناس من نفسک ومن خاصۃ اھلک ،ومن لک فیہ ھوی من رعیتک فانک لاتفعل تظلم ۔اپنی ذات اپنے اہل وعیال اوررعایا میں جن سے تمھیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اوراپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کروگے تو ظالم ہوجاوگے[3]
حضرت علی علیہ السلام مالک اشترکو خطاب کرتےہوئے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ارشادفرماتےہیں کہ :لن تقدس امۃ لایوخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیرمتتعتع ۔وہ امت پاکیزہ کردارنہیں ہوسکتی جس میں کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے ۔[4]
۲:اقرباء پروری سے پرہیز
ایک حاکم کے لیے بہت ہی خطرناک چیز یہی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں اورقریبی ساتھیوں کو اہمیت دے اوران میں ہی عہدے تقسیم کرے چاہے ان میں لیاقت ہویا نہ ؟ اگروہ اس لائق ہیں تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے لیکن نالائق لوگوں کو عہدے دینا اس بنا پر کہ وہ حاکم کے رشتہ داراوراس کے قریبی ہیں اورانہیں میں بیت المال تقسیم کرکے دوسرے لوگوں میں فرق کرنا یہ درست نہیں ہے اورتاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی ایسا کیا چاہے وہ خلیفہ ہی کیوں نہ تھا لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دکھائی دیا اس لیے امام ایک رہبر کی ذمہ داریوں میں سے شمار کرتے ہیں کہ وہ اقرباپروری سے پرہیز کرے ۔
حضرت علی علیہ السلام کو مصقلہ بن ہبیرہ الشیبانی کی شکایت ملی کہ وہ بیت المال کو اپنے رشتہ داروں اورقریبی آدمیوں میں تقسیم کرتا ہے حضرت علی علیہ السلام نے جب یہ سنا تو بہت سخت الفاظ میں ایک خط لکھا جس میں فرماتے ہیں :انک تقسم فی ء المسلمین الذی حازتہ رماحھم وخیولھم ۔۔۔۔۔۔ولتخفن عندی میزانا۔ (مجھے خبر ملی ہے کہ )تم مسلمانوں کے مال غنیمت کو جسے ان کے نیزوں اورگھوڑوں نے جمع کیاہے اورجس کی راہ میں ان کا خون بہایا گیا ہے اپنی قوم کے ان بدوں میں تقسیم کررہے ہو جو تمھارے خیرخواہ ہیں ،قسم اس ذات کی جس نے دانہ شگافتہ کیا ہے اورجانداروں کو پیدا کیا ہے اگر یہ بات صحیح ہے تو تم میری نظروں میں انتہائی ذلیل ہوگئے اورتمہارے اعمال کا پلہ ہلکاہوجائے گا ۔[5]
۳:مشورت
انسانی معاشروںمیں مشورت اوردوسروں کے تجربات اورافکار سے استفادہ کرنا ایک بنیادی حیثیت کی حامل چیز ہے اسی وجہ سے آج دنیا میں ہرحکمران کے ہرشعبے میں کوئی نہ کوئی مشیر ہوتا ہے اسلامی تعلیمات میں بھی مشورت کو بہت اہمیت حاصل ہے خود خاتم المرسلین کی زندگی بھی اس پر گواہ ہے مختلف جنگوں میں اصحاب سے مشورہ لینا پیغمبر اپنے لیے ضروری سمجھتے تھے اورعلی علیہ السلام مشورت کو ایک اہم پناہگاہ سمجھتے ہوئے فرماتےہیں کہ :ولامظاھرۃ اوثق من المشاورۃ مشورت سے زیادہ مضبوط کوئی پناھگاہ اورپشت پناہ نہیں ہے[6]
حضرت امام علی علیہ السلام مالک اشتر کے وظائف میں سے ایک مشورت کو شمارکرتے ہیں کہ علماء اورحکماء کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مشورہ لے تا کہ جو چیز ملک کی مصلحت اورفائدےمیں ہے اس کو انجام دے اورحقیقت بھی یہی ہے کہ جوحکمران اپنے آپ کو مشورت سے بے نیاز سمجھتے ہیں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے اورلغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے ۔امام علی علیہ االسلام عھدنامہ مالک میں بعض لوگوں کی صفات بیان کرکے مالک کو منع فرمارہے ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ مشورہ مت کرنا فرمایا:ولاتدخلن فی مشورتک بخیلا یعدل بک عن الفضل ویعدک الفقر،ولاجبانایضعفک عن الامور ولاحریصایزین لک الشرۃ بالجوردیکھو اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل وکرم کے راستہ سے ہٹادے گا اورفقروفاقہ کا خوف دلاتارہے گا اوراسی طرح بزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہرمعاملہ میں کمزور بنادے گا اورحریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقہ سے مال جمع کرنے کو بھی تمہاری نگاہوں میں آراستہ کردے گا ۔[7]
۴:عوام کی طرف توجہ کرنا اوران سے اچھاسلوک
ایک اہم وظیفہ اورذمہ داری جو حاکم اوررہبر پر آتی ہے اورایسا موضوع ہے کہ جس پر مستقل طورپر بحث کی جاسکتی ہے اورحضرت علی علیہ السلام نے مختلف زاویوں سے اس پر بحث کی ہے مثلا ان پر ظلم نہ ہونے دینا ،ان سے رابطہ رکھنا اورنگہبانو ں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی نہ کرنا ،عوام سے زیادہ دنوں تک پوشیدہ نہ رہنا ،ان سے ٹیکس لیتے وقت ان کے حالات کو دیکھنا ،ان کی مشکلات کو حل کرنے کے بارے میں سوچنا ،اگر غلطی ہوجائے تو عوام سے معافی وغیرہ مانگنا وغیرہ یہ وہ اشارے ہیں کہ جن پر حضرت علی علیہ السلام نے اپنے کلام میں نہ صرف ان کے مثبت اثرات کو بیان کیا ہے وہاں ان کی طرف توجہ نہ کرنے سے جو ایک رہبر کےلیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ان کوبھی بیان کیاہے ہم یہاں صرف اشارہ کے طورپر ذکر کرتے ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام برخلاف دنیوی سیاستدانوں کے جو چند اثرورسوخ والے لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں اوراپنی ناقص عقل کے مطابق سوچتے ہیں کہ یہ حکمرانی کی کرسی ان کی وجہ سے ہے اورجب تک یہ راضی ہیں اس کی اس کرسی کو کوئی نہیں چھین سکتا امام اس غلط فہمی کو دورکرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ خاص اثرورسوخ والے لوگ سب سے زیادہ تیری حکومت کو نقصان پہنچائیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو عدالت برقرارکرنے کے مخالف ہیں ،جتنا بھی دو اتنا ان کے لیے کم ہے ،مشکلات کے وقت سب سے پہلے متزلزل نظرآتے ہیں یہاں تک کہ عوام کی خصوصیات تک پہنچتے ہیں اورفرماتے ہیں :
وانما عمادالدین ،واجماع المسلمین ،والعدۃ للاعداء،العامۃ من الامۃ ،فلیکن صغوک لھم ،ومیلک معھم دین کا ستون ،مسلمانوں کی اجتماعی طاقت ،دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتےہیں لہذا تمھارا جھکاو انہیں کی طرف ہونا چاہیے اورتمھارا رجحان انہیں کی طرف ضروری ہے ۔[8]
جی ہاں عوام ہی رہبر کی اصل طاقت ہے عوام کو مطمئن رکھنا ان کی ضروریات کو پوری کرنا ،ان کے مسائل کو سننا رہبر کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہییں تاکہ ضرورت مند اورمظلوم کھلم کھلا اوربغیر ہچکچاہٹ کے اپنا مدعی بیان کرسکے ۔امام علی علیہ السلام فرماتےہیں :وتجلس لھم مجلسا عاما۔۔۔۔حتی یکلمک متکلمھم ۔(فریادیوں کی فریاداورعوام کے مسائل سننے کے لیے )ایک عمومی مجلس کا انعقاد کرو اوراس خدا کے سامنے متواضع رہو کہ جس نے تجھے پیدا کیاہے اپنے تمام نگہبان ،پولیس ،فوج ،اعوان وانصار سب کو دوربٹھا دو تاکہ بولنے والاآزادی سے بول سکے اورکسی طرح کی لکنت کا شکار نہ ہو ۔[9] رعایا سے محبت اورنرمی سے پیش آنا ایک رہبر کا اولین فریضہ ہونا چاہیے مولائے کائنات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں :واشعر قلبک الرحمۃ للرعیۃ ،والمحبۃ لھم واللطف بھم ولاتکونن علیھم سبعاضاریا۔رعایا کے ساتھ مہربانی اورمحبت ورحمت کو اپنے دل کا شعار بنالواورخبر دار ان کے حق میں پھاڑکھانے والے درندے کی مثل نہ ہوجاناکہ انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سجھے ۔[10]
عوام میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کی بہت سی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں یہ رہبر اورحاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی کمزوریوں اوران کے عیبوں پر پردہ ڈالے امام علی علیہ السلام مالک کو مخاطب کرتےہوئے مکتوب ۵۳میں ارشاد فرماتےہیں کہ :لوگوں کے ان تمام عیبوں کی پردہ پوشی کرتے رہے کہ جن عیبوں کی پردہ پوشی کا اپنے لیے خدا سے تمنا رکھتےہو ۔
اسی طرح ایک اوراہم مورد جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے وہ ہے ٹیکس لینا ،اما م علی علیہ السلام اسی مورد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ دیکھو ٹیکس کا تعلق زمینوں کی آباد کاری سے ہے ایک حاکم ٹیکس کا حقدار اس وقت ہوسکتا ہے جب اس نے زمینوں کی آبادکاری میں مدد کی ہو ان کی مشکلات کو دورکیا ہو جس نے زمینوں کو آباد کیے بغیر ٹیکس لینے پر اصرار کیا اس نے شہروں کو برباد کیا ۔[11]
۵:دنیاکو ذخیرہ نہ کرنا
آج کے حکمرانوں کاطرزعمل یہ ہے کہ وہ حکمرانی یا کسی عہدے کو غنیمت شمارکرتے ہیں اوریہی سوچتے ہیں کہ انہی دنوں میں کئی سالوں کے لیے دولت جمع کرلیں لیکن حضرت علی علیہ السلام معاشرے میں فقراورغربت کے سبب کو یہی طرزعمل بتاتے ہوئے ارشادفرماتےہیں کہ :جہاں بھی غربت اورفقرآجائے نابودی بھی حتمی ہے اورغربت معاشرے میں اس وقت آتی ہے جب حکمران دولت جمع کرنے میں لگ جائیں اوراپنی کرسی کے جانے کا خوف پیدا ہوجائے ۔حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :وانما یوتی خراب الارض من اعواز اھلھا وانما یعوز اھلھا لاشراف انفس الولاۃ علی الجمع ۔۔۔زمینوں کی بربادی اہل زمین کی تنگدستی سے پیدا ہوتی ہے اورتنگدستی کا سبب حکام کے نفس کا جمع آوری کی طرف رجحان ہوتا ہے اوران کی یہ بدظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے اوروہ دوسرے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل نہیں کرتے ۔[12]
۶:وزراء کی تشویق
حکومت ایک ماشین کی مانند ہے کہ جس کا ہر وزیر حکومت کی اس مشینری کو چلانے میں حصہ دار ہے اما م علی علیہ السلام کی نظر میں ایک حاکم کے لیے جو حکومت کی باگ ڈورسنبھالے ہوئے ہے ، ایک وظیفہ یہ بھی ہے کہ وزراء کی تشویق کرے جس کے دو اہم فائدے یہ ہیں ایک یہ جن وزراء کی تشویق ہوئی ہے ان کو حوصلہ ملے گا کہ ان کی محنت رایگان نہیں گئی اوردوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دوسرے وزراء اورحکومتی اہل کار بھی دیکھیں گے تو رشک کریں گے کہ ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے ۔
امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ :وواصل فی حسن الثناء علیھم ،وتعدیدما ابلیٰ ذوو البلاء منھم ،فانّ کثرۃ الذکر لحسن افعالھم تھزالشجاع ،وتحرص الناکل ،انشاء اللہ تعالی ۔اوربرابر(جوانوں اوروزراء کے ) کارناموں کی تعریف کرتے رہنا بلکہ ان کےعظیم کارناموں کا شمار کرتے رہنا کہ ایسے کارناموں کےتذکرے بہادروں کو جوش دلاتے ہیں اورپیچھے رہ جانے والوں کو ابھارتےہیں ۔ [13]
۷:مصاحبت کے لیے اچھے لوگوں کا انتخاب کرنا
ایک اوراہم وظیفہ جو ایک رہبر اورحاکم کا بنتا ہے وہ اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں پر توجہ ہے کیونکہ بسااوقات ایک رہبر کی شکست اوراسکی حکومت کاتختہ الٹنے کا سبب یہی لوگ بنتے ہیں لوگوں میں رہبرکی بدنامی کاسبب بھی یہی لوگ ہوتے ہیں اسی لیے رہبرکے لیے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد کے لوگ متقی اورپرہیزگارہونے چاہییں ۔امام علی علیہ السلام مالک کو خبردارکرتے ہوئے ارشادفرمایا:والصق باھل الورع والصدق،ثم رضھم علی الایطروک ولایبححوک بباطل لم تفعلہ اپنا قریبی رابطہ اہل تقوی اوراہل صداقت رکھنا اورانہیں بھی اس امر کی تربیت دینا کہ بلاسبب تمہاری تعریف نہ کریں اورکسی ایسے بے بنیاد عمل کا غرورنہ پیدا کرائیں جو تم نے انجام نہ دیا ہو کہ زیادہ تعریف سے غرورپیدا ہوتا ہے ۔[14]
رہبر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد رہنے والے لوگ سب برابر نہیں ہونے چاہییں بلکہ نیک اوربد میں فرق ہونا چاہیے اس کی رفتار ،اس کے کردار وغیرہ میں یہ چیز ظاہر ہونی چاہیے امام فرماتے ہیں :ولایکونن المحسن والمسی ء عندک بمنزلۃ سواء ،فان فی ذلک تزھیدا لاھل الاحسان فی الاحسان ،وتدریبا لاھل الاساء ۃ علی الاساء ۃ !دیکھو خبردار نیک اوربدکردار تمہارے نزدیک یکساں نہیں نہ ہونےپائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں نیکی سے بددلی پیدا ہوگی اوربدکرداروں میں بدکرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا ۔[15]
تحریر: تصورعباس خان
منابع
:نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ۵۳،ص۵۸۱[1]
:نھج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ، مکتوب ۴۳،ص۵۵۵[5]
:نھج البلاغہ ،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،مکتوب ۵۳[13]