مقالات

نہج البلاغہ کی تین خصوصیات

نہج البلاغہ کی تین خصوصیات

جامعیت،عینیت اور ابدیت

آیة اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی دام ظلہ الوارف 

  ترجمہ:سید حیدر عباس رضوی

        حوزۂ علمیہ قم المقدسہ میں بعض افاضل نے نہج البلاغہ کے ترجمہ ومختصر تشریح پر جو کام انجام دیا اور میں ان کے اس تحقیقی کام میں بحیثیت ناظر تھا ،اس کام کی انجام دہی کے دوران بعض اہم مسائل سے ہمیں رو برو ہونا پڑا جن کی طرف اس شرح میں اشارہ بھی ہوا ہے۔ہمیں نہج البلاغہ کی بے شمار خصوصیات نظر آئیں ۔جنہیں مختصر وقت میں بطور کامل بیان نہیں کیا جا سکتا۔ان خصوصیات میں سے جنہیں میں نے اور میرے ساتھیوں نے اس درمیان نہج البلاغہ میں مشاہدہ کیا ہے ؛انہیں اس شرح میں بیان کرنے کی کوشش بھی کی ہے،تین خصوصیات قابل توجہ ہیں:

        ]١[نہج البلاغہ کی جامعیت

ٍ        ]٢[نہج البلاغہ کی جاودانگی

        ]٣[نہج البلاغہ کاحقائق پر مبنی ہونا

        اس جگہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان برادران و خواہران کی توجہات اپنے تجربات کی جانب مبذول کروں جو کہ تألیف وتحقیق کے کاموں میں مشغول ہیں۔اب تک میری تقریباً ٦٠کتابیںمنظر عام پر آچکی ہیں ،جن میں میں نے خود کوشش کی ہے کہ اس نکتہ کی رعایت کی جائے کہ ہمیشہ اپنے سماج اور معاشرہ کی ضروریات و تقاضوں کو مد نظر رکھوں۔اگر ایک موضوع مجھے پسند ہو اور میرے لئے اہمیت رکھتاہواور میں اس موضوع پر قلم اٹھائوں تو میرے خیال میں ہم نے اپنی رسالت وذمہ داری کو ادا ہی نہیں کیا ۔لیکن جب میں معاشرہ میں زندگی بسر کرنے والے افراد سے روبرو ہوں ،بالخصوص تعلیم یافتہ جوان نسل سے میرا سروکار ہو جو کہ مختلف موضوعات پر متعدد سوالات پیش کرتے ہیں اور ان کی دسترس میں موجود کتابوں میں انہیں ان سوالات کے جوابات نظر نہیں آتے ،اب میری ذمہ داری سنگین ہو جاتی ہے اور اب ہمارا فریضہ بنتا ہے کہ اس ضرورت کے مطابق ان مسائل کے جوابات پر مشتمل کتاب تحریر کروں۔

        ہم نے نہج البلاغہ کی یہ مختصر شرح اسی بنیاد پر تحریر کی ہے۔جیسے تفسیر نمونہ اسی بنیاد پر تحریر کی تھی۔مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں بالخصوص تعلیم یافتہ جوانوں کی جانب سے سوالات آتے تھے ۔اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جوانوں کے اختیار میں پائی جانے والی کتابیں ان سوالات کے جواب دینے سے قاصر تھیں ،لہٰذاہم نے کوشش کی کہ ان سوالات کے جوابات اس کتاب میں دئیے جائیں ۔اسی بنا پر نہج البلاغہ کی یہ شرح تحریر کی گئی۔

        ان باتوں کو چھوڑتے ہوئے مذکورہ تین موضوعات پر کچھ دیر گفتگو کرنا چاہتا ہوں جو کہ نہج البلاغہ کی واضح خصوصیات ہیں: نہج البلاغہ کی جاودانگی وہمیشگی ،جامعیت اور حقیقت پر مبنی ہونا۔ان تینوں پر محدود وقت میں برادران وخواہران کے لئے بعض مطالب بیان کروں گا۔

        ہم جانتے ہیں کہ بشری تاریخ کی سنت رہی ہے کہ ہمیشہ نئی چیزوں کو پُرانا بنا دے،ہمیشہ جوانوں کو بوڑھا دکھائے،اور پھر آہستہ آہستہ سماج کے ذہن سے اسے محو کر دے جس کے نتیجہ میں فراموشی کی گرد چھا جائے۔تاریخ بشر کے تمام حادثات اس قانون کی زد میں ہیں ۔کہنگی،قدامت،زمانہ کی رنگت بدلنے کے ساتھ ساتھ بد رنگی اورپھرفراموشی؛ یہ علم مادہ کی خصوصیت ہے، گر چہ دنیا کے خاص حادثات وواقعات ہی کیوں نہ ہوں ۔عالمی جنگیں(world war,s) کاروان انسانیت کے اہم حادثات میں شمار ہوتی ہیں ،بعض جنایت کار اور ظالمین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ،دسیوں ملین افراد مارے گئے اور دسیوں ملین ان جنگوں کے نتیجہ میں مجروح ہوئے۔یہ ایک ایسا حادثہ تھا جسے ہمیشہ باقی رہنا چاہئے تھا لیکن تیس چالیس برس گزرنے کے بعد نئی نسل وجود میں آئی اور اب عالمی جنگ دھیرے دھیرے فراموش ہوتی چلی جا رہی ہے۔عالم مادہ کی یہ ایک پرانی روایت ہے ۔اگر غور وفکر سے کام لیں تو معلوم ہوگا کہ چند ایک انگشت شمار مسائل اس سنت سے مستثنیٰ ہوں یعنی نہ فقط یہ کہ زمانہ بدلنے سے ان پر کوئی اثرنہیں ہوتا ہے بلکہ بجائے کم رنگ وبدرنگ ہونے کے پُر رنگ ،با نام اور پر جوش ہوتے ہیں۔اس سلسلہ میں چند نمونے قابل ذکر ہیں جن میں قرآن کریم سر فہرست ہے۔نہج البلاغہ کا شمار انہیں میں ہوتاہے کہ جس پر زمانہ کی رفت وآمد نے فراموشی و نسیان کی گرد وغبار نہیں چڑھنے دی۔اس کے باوجود کہ علامہ امینی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب الغدیر کی چوتھی جلد میں سید رضی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی سوانح حیات کے ضمن میں نہج البلاغہ کے ترجمہ وتشریح کی تعداد اکیاسی(٨١) عدد بیان کی ہے،میں نے سنا ہے کہ ہمارے بھائیوں نے بنیاد نہج البلاغہ نامی ادارہ میں مرحوم علامہ امینی نے اس فہرست میں جن کتابوں کا نام ذکر نہیں کیا تھا ،ان کا بھی اضافہ کر دیا ہے،اوردسترس میں موجودنہج البلاغہ کی شروح کا مجموعہ فہرست وار نشر کیا ہے۔لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ باوجود یکہ سید رضیکے ذریعہ جمع کی جانے والی نہج البلاغہ کو ہزار سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور اکیاسی (٨١)ترجمہ وتشریح اس کتاب کی تحریر کی گئی ہیں؛ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی بھی نہج البلاغہ سے متعلق بہت ساری باتیں تشنہ ہیں ۔اب بھی اس میں تازگی پائی جاتی ہے۔

        کیوں بعض مسائل تاریخ کی اس عام سنت وروش سے خود کو جدا رکھتے ہیں اور جاودانگی اختیار کر لیتے ہیں اور زمانہ گزرنے کے باوجود استوار رہنے کے ساتھ آگے بڑھتے رہتے ہیں؟واقعۂ کربلا کیوںاس طرح جاودان ہے؟مرحوم سید رضی کے توسط سے ہزار سال قبل جمع کی جانے والی نہج البلاغہ آج بھی گذشتہ وماضی کی بنسبت زیادہ درخشاں نظر آتی ہے؟مختلف علاقوں سے آنے والے برادران وخواہران ،دانشوروں،مفکرین،علماء اورتعلیم یافتہ جوانوں سے میرا سوال یہ ہے کہ کیوں آپ حضرات نہج البلاغہ سے متعلق منعقد ہونے والے سمینار میں اکٹھا ہوئے ہیں اور کیوں اس کتاب کے بارے میں بحث وگفتگو فرما رہے ہیں؟

        اس موقع پر میں ایک حقیقت کی جانب نہایت اختصار کے ساتھ اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اس مادی دنیا سے مربوط ہر چیز کی خصوصیت فرسودگی ہے۔امیر المؤمنین علیہ السلام کے کلام سے استفادہ کرنا چاہتا ہوں۔آپ نے آفتاب وماہتاب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:”یُبلیان کلّ جدید ویقرّبان کُلّ بعید۔”(نہج البلاغہ،خطبہ٨٩)آفتاب وماہتاب سال،مہینہ اور زمانہ کی نشاندہی کرتے ہیں ۔زمانہ گزرنے کے ساتھ ہر نئی چیز پرانی ہو جایا کرتی ہے اور ہر دوری کو نزدیک لا کھڑا کرتی ہے۔آخر کیوں؟کیوں کہ عالم مادہ کی خصوصیت ہی کچھ ایسی ہے۔اس مادی دنیا میں جس اہم چیز سے ہمیں سروکار رہتا ہے ،وہ آفتاب عالم تاب ہے جو کہ کرۂ زمین سے ایک ملین دو سو برابر بڑا ہے ۔لیکن اسی سورج پر زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ اثرات مترتب ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ قدیم اور کم نور ہو جاتا ہے اور قرآن کریم نے اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آواز دی تھی:”اذا الشمس کوّرت۔”(سورۂ تکویر١)آج کے ترقی یافتہ دور میں بشری علم ودانش سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہرچوبیس(٢٤)گھنٹوں میں سورج کا وزن تین ہزار ملین ٹن کم ہو جاتا ہے ۔لا محالہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جب سورج تاریک ہو جائے گا ،یہ مادی دنیا کی خصوصیت ہے۔لیکن اگر کوئی مسئلہ اس مادی دنیا اور زمان ومکان کی چہار دیواری سے باہر اپنا قدم باہر نکالے اور ماوراء مادہ دنیا اور خدا وند کریم کی ابدی ذات پاک سے متصل ہو جائے تو وہ بھی ابدیت وجاودانگی کا رنگ اپنا لے گا اور گزر زمان اسے فرسودگی نیز قدامت سے دچار نہیں کر سکے گا۔خدا وند کریم کی ذات لا متناہی ہے جس کا لازمی نتیجہ اس کے وجود میں نشو نما کا نہ پایا جانا ہے لیکن خدا وند عالم سے مرتبط ممکن الوجود تمام موجودات جاودانگی اور ہمیشگی پانے کے ساتھ ساتھ مستقل اس سے قریب ہوتی چلی جاتی ہیں اور کمال کی جانب آگے بڑھتی رہتی ہیں۔جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے:”ما کان للہ ینمو۔”(نہج البلاغہ،خطبہ٨٩)جو چیز خدا وند عالم کے لئے ہوتی ہے اس میں نشو و نما پائی جاتی ہے۔واقعۂ کربلا اور حادثۂ عاشورا انہیں حوادث کی ایک قسم ہے کہ جس نے ابدیت پانے کے ساتھ ساتھ نشو ونما بھی پائی ہے۔نہج البلاغہ پربھی یہی حقیقت حاکم ہے ،جوجاودانگی پانے کے ساتھ ساتھ روز بروز پاک وپاکیزہ قلوب کو مسخر کرتی ہے اور نئے دانشوروں کو اپنی طرف جذب کرتی ہے۔نہج البلاغہ پر تحقیقی کام کے حوالہ سے اعلیٰ پیمانہ پر عظیم الشان سمینار ہوتے رہتے ہیں اور بے شمار مفکرین نہج البلاغہ کے سلسلہ میں مطالعہ وتحقیقاتی امور انجام دیتے ہیں ،یہ خدا وند عالم کی ذات پاک سے رابطہ برقرار کرنے کا نتیجہ ہے۔

        نہج البلاغہ بھی اسی جگہ سے صادر ہوئی جہاں سے قرآن کریم ،قرآن کریم پر کہنگی نہیں آسکتی،لہٰذا نہج البلاغہ بھی فرسودہ نہیں ہو سکتی۔یہ کوئی نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔تیرہ سو سال قبل حضرت علی علیہ السلام نے جن مسائل پر روشنی ڈالی تھی یعنی وہ خطبات جنہیں مسجد کوفہ کی چہار دیواری میں بیان فرمایا تھا اور بعد میں اسے یکجا کیا گیا،وہ خطوط جنہیں مختلف افراد کے نام لکھا تھا ،آج جب تیرہ سو سال کے بعد ہم ان کی تحقیق کا کام انجام دیتے ہیں تو مشاہدہ کرتے ہیں کہ معاشرے کوان کی اشد ضرورت ہے ۔

        ہمارے پاس بیحد نفیس کتابیں موجود ہیں ،بطور مثال گلستان سعدی جو کہ اپنے زمانہ میں بیحد مقبول تھی لیکن آج یہی ایک ادبی کتاب کے عنوان سے جانی اور پہچانی جاتی ہے اور ہماری آج کی زندگی میں اس کا کوئی خاص استعمال نہیں ہے لیکن پوری نہج البلاغہ ہمارے ہر انقلابی محاذ پر کار آمد ثابت ہو سکتی ہے اور حکومت کے قیام میں الہام بخش ہو سکتی ہے۔جب ہم دیگر برادران کے ہمراہ خبرگان کمیٹی میں بنیادی قوانین کے اصول کی تنظیم میں مشغول تھے تو ہمیں محسوس ہوا کہ اسلامی جمہوریہ کے نظام کے بنیادی قوانین بہت سارے مسائل میں نہج البلاغہ سے مدد لے سکتے ہیں۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نہج البلاغہ پر کہنگی نہیں آ سکتی۔بنیادی آئین جسے انسان تیار کرتا ہے ،ممکن ہے کہ ایک مدت گزرنے کے بعد ،مثلاً پچاس یا سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد اس میں تبدیلی کی ضرورت پیش آئے ،لیکن یہ خط یا حکم نامہ جو جناب مالک اشتر کے نام ہے اس میں ایسی ہمہ گیری اور جامعیت پائی جاتی ہے کہ اس میں ایک بات بھی غیر قابل عمل یا نا قابل استفادہ نہیں ہے ۔ایسی ہی ہے نہج البلاغہ ۔یہ جاودانگی کے معنی ہیں،یعنی ہمیشہ تر وتازہ اور ہمیشہ قابل استفادہ ہے۔

        دوسرا مسئلہ نہج البلاغہ کی جامعیت کا ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ نہج البلاغہ تین حصوں کا مجموعہ ہے:خطبات،مکتوبات اور کلمات قصار۔اور ان میں سے ہر ایک انسان کی زندگی کے اہم حصہ کو تشکیل دینے والے ہیں۔یعنی اگر یہ تینوں حصے انسانی زندگی میں عملی جامہ پہن لیں تومیرے اعتبار سے زندگی میں کسی قسم کا کوئی نقص یا کمی نہیں رہے گی۔پہلا حصہ جو کہ خطبات پر مشتمل ہے وہ آئیڈیولوجی ،عقائد،اسلام کی اعلیٰ تعلیمات،عرفان اور آغازو انجام سے عبارت ہے کہ جو بہترین انداز میں بیان ہوئی ہے ۔آپ نہج البلاغہ دیکھیں ،پہلا خطبہ جسے آپ سبھی نے بارہا پڑھا ہوگا ،ایک بار پھر پڑھیں تو محسوس کریں گے کہ اگر دنیا کے تمام دانشور حضرات اکٹھا ہو جائیں اور خدا وند عالم کی توصیف نیز عرفان پروردگار سے متعلق گفتگو کریں تب بھی اس عظیم کتاب کے پہلے خطبہ جیسی گفتگو نہیں کر سکتے ہیں:

        ”الحمد للہ الذی لا یبلغ مدحتہ القائلون،ولا یحصی نعمائہ العادّون ،ولا یؤدّی حقہ المجتھدون الذی لا یدرکہ بعد الھمم ولا ینالہ غوص الفطن ۔”(نہج البلاغہ،خطبہ١)حضرت علی علیہ السلام نے اس پہلے خطبہ کی ابتدائی چند سطروں میں پروردگار عالم کی بارہ صفات بیان فرمائی ہیں ۔اگر ان کی تشریح میں مدتوں وقت صرف کیا جائے تب بھی حق مطلب ادا نہیں کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح خطبہ ٔ قاصعہ،خطبۂ اشباع اور اسی طرح وہ خطبات جن میں خدا وند کریم کی معرفت کے اعلیٰ مطالب بیان ہوئے ہیں ،انسان کو ایک ایسے عالم میں پہنچا دیتے ہیں جس سے بالاتر انسان تصورنہیں کر سکتا ہے۔اگر کوئی شخص خدا وند عالم کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے قرآن کریم کے بعد نہج البلاغہ کے ان خطبات اور حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ ان خطبوں میں بیان شدہ مالک کائنات کی توصیف اور آغاز و انجام (قیامت)کا دقیق مطالعہ کرنا چاہئے۔

        نہج البلاغہ کا دوسرا حصہ(مکتوبات)،نہج البلاغہ کا سیاسی حصہ ہے۔میرے خیال سے جو افراد اس وقت سیاست مدارہیں اورسیاسی مسائل میں سوج بوجھ رکھنے والے ہیں انہیں ہر رات نہج البلاغہ کے مکتوبات کا مطالعہ کرنا چاہئے اور انہیں اپنی زندگی میں ہر روز کے کاموں کی انجام دہی کے لئے اپنا آئیڈیل قرار دینا چاہئے۔

        مجھے یاد آتا ہے کہ  ١٣٤٢شمسی کے تیسرے یعنی خرداد ماہ کی پندرہ تاریخ کو تہران کے ایک جیل میں بعض قیدیوں کے ساتھ ہم تھے ،ہمارے ساتھ شہید مطہری اور بعض دیگر شہداء نیز کچھ وہ افراد جن کا شمار اس وقت ذمہ دار افراد میں ہوتا ہے،اس وقت ہمیں کتاب کا مطالعہ کرنے کی اجازت دی گئی۔میں نے درخواست کی کہ احباب نہج البلاغہ لے کر آئیں ۔بالخصوص مکتوبات پر مشتمل حصہ کہ جن کا معمولاً کم مطالعہ ہو پاتا ہے ،ہم نے بغور اس حصہ کا مطالعہ کیا۔اس حصہ میں عجائبات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔الہام بخش اوردقیق و عمیق نیز وہ حقائق کہ جو زندگی میں عملی جامہ پہن لیں اور اسی طرح سیاسیات اس قدر محکم ومتقن ہیں کہ جو طالب کو دوسری ہر چیز سے بے نیاز کرسکتے ہیں۔

        جیسا کہ بیان ہو چکا ہے ،دوسرا حصہ معاشرتی ،سیاسی اور انقلابی مسائل پر مشتمل ہے ۔میرے کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ خطبات میں یہ موجود نہیں یاپھر یہ کہ مکتوبات میں معرفت خدا وندی سے مربوط مسائل کا ذکر نہیں ہے ۔لیکن مکتوبات میں سیاسی اور معاشرتی مسائل کی گفتگو دیگر مسائل پر غالب ہے۔

        کچھ عرصہ قبل فوجی قائدین کے لئے ایک کلاس کا اہتمام کیا گیا ،جس میں اسلام کی نگاہ سے فوجی قیادت کے اصول وضوابط بعض برادران کے لئے تدریس کئے جائیں۔کچھ لوگوں سے مشورہ ہوا منجملہ شہر قم میں مجھ حقیر سے بھی مشورہ کیا کہ آپ کی نظر میں کون سی کتاب ایسی ہے جس سے مدیریت اور فوجی قیادت کے سلسلہ میں ان کلاسوں میں تدریس ہو سکے؟میں نے اپنی تلاش و کوشش کے مطابق مطالعہ کیا لیکن اس سلسلہ میں کچھ خاص نظر نہیں آیا ،کیونکہ اسلامی حکومت بہر حال اس انداز سے کسی بھی صورت ہمارے اختیار میں نہیں تھی جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فوجی قیادت کے مسائل بھی فوری طور پر حل کئے جانے و الے مسائل میں سے نہ تھے اور اس سلسلہ میں کتاب بھی تحریر نہیں ہوئی ہے۔برادران نے مجھ سے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ خود آپ ایک کتاب تحریر فرما دیں ۔میں نے بھی سوچا کہ یہ ایک اہم اور مفیدکام ہے ،تو میں نے ایک کتاب تحریر کی اور ان کے حوالے کر دی اور اس وقت بھی یہی کتاب ان کلاسوں میں پڑھائی جاتی ہے۔میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میں نے اس کتاب کو لکھنے میں فوجی قیادت کے اصول بیان کرنے کے لئے سب سے زیادہ نہج البلاغہ میں موجود امام علی علیہ السلام کے مکتوبات سے استفادہ کیا ۔میں نے محسوس کیا کہ اس موضوع پر تحقیقی کام اب تک انجام نہیں پایا ہے و گر نہ تمام مطالب انہیں مکتوبات میں موجود ہیں۔میں نے دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام کے کمانڈرز کو دئیے جانے والے فرامین،حکومت کے مسئولین ،ڈپٹی کمشنرزاورگورنرزکو بھیجے والے خطوط اور مکتوبات سے استفادہ کرتے ہوئے بنحو احسن اپنی بات پہنچائی جا سکتی ہے ۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ نہج البلاغہ میں کیسے کیسے ذخیرے اور سرمایہ موجود ہیں اور جب ہم ان پر کام کریں تو ہمارے لئے مزید واضح اور روشن ہو جایا کرتے ہیں۔

        نہج البلاغہ کا تیسرا حصہ ،کلمات قصار پر مشتمل ہے۔میرے اعتبار سے کلمات قصار خود سازی،انسان سازی اور اخلاقیات سے مملو ہے۔یعنی ہم خطبات کے ذریعہ اپنے عرفان ومعارف اور مکتوبات سے مدیریت و قیادت کو محکم بناتے ہیں ۔جب ہمیں خود اپنے آپ کو محکم و مستحکم بنانا ہو اور اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی خووسازی کرنی ہو تو ہمیں مولا علی علیہ السلام کے ذریعہ بیان شدہ کلمات قصار کا رخ کرنا ہوگا۔

        میں اس جگہ بطور مثال ان میں سے بعض کی جانب اشارہ کروں گا۔کلمات قصار میںایک حصہ پانچ وصیت کے نام سے موجود ہے ۔حضرت علی علیہ السلام نے انسان کی خود سازی کا پروگرام پانچ جملوں میں نہایت اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز ہمیں مل سکتی ہے۔

        ”اوصیکما بخمس لو ضربتم الیھا آباط الابل لکانت لذلک أھلاً،لا یرجون أحد منکم الا ربہ ولا یخافنّ الا ذنبہ ولا یستحینّ أحد منکم اذا سئل عمّا لا یعلم أن یقول لا اعلم ولا یستحین احد اذا لم یعلم الشئی ،ان یتعلمہ وعلیکم بالصبر فان الصبر من الایمان کالرّاس من الجسد ،ولا خیر فی جسد لا رأس معہ ولا فی ایمان لا صبر معہ۔”(نہج البلاغہ،حکمت٧٩)خود سازی کے اصول اس سے بہتر کہاں ملنے والے ہیں؟

پانچ دستورات:پہلی اصل:اے انسان!زندگی میں تمہاری تکیہ گاہ صرف ذات خدا وند کریم ہونی چاہئے ۔نہ مشرق نہ مغرب،نہ یہ نہ وہ۔تمہاری تکیہ گاہ ، تماری امید کا مرکز اور تمہارے وجود میں موجود آگے بڑھانے والی قوت کا دار ومدار پروردگار پر ہونا چاہئے۔”لا یرجون أحد منکم الا ربہ۔”

        دوسری اصل:تمہیں خوف اور وحشت کس چیز سے ہے؟صدام کے بموں سے جو خوامخواہ اپنے کو تھکا رہا ہے،اپنی عزت و آبرو کھو کر ہمیں مشکلات سے دچار کر رہا ہے؟مشرق ومغرب کی دھمکیوں سے؟نہیں !یہ وحشتناک نہیں ہیں ،یہ ممکن ہے انسان کے لئے افتخار کی اعلیٰ بلندی پر فائز ہونے میں معاون ثابت ہوں۔آپ نے فرمایا:اس دنیا میں صرف ایک چیزوحشت ناک ہے اور وہ ہے تمہارا گناہ۔اگر گناہ نہ ہو تو تمہاری پوری زندگی میں وحشت کا گذر تک نہیں ہو سکتا۔”ولا یخافنّ الا ذنبہ ۔”

         تیسری اور چوتھی اصل :تعلیم وتعلم کا مسئلہ ہے۔تم میں سے جو شخص بھی کسی مسئلہ کا حل نہیں جانتا کہہ دے میں نہیں جانتا ،اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں شرمائے نہیں ۔”ولا یستحینّ أحد منکم اذا سئل عمّا لا یعلم أن یقول لا اعلم ولا یستحین احد اذا لم یعلم الشئی ،ان یتعلمہ۔”نہ ہی استاد اپنی تعلیم کے سلسلہ میں علم کل کا دعویٰ کرے نہ ہی شاگرد تعلم کے موقع پر شرم وحیا سے کام لے۔

        پانچویں اصل:انسان جس چیز کو جانتا ہے اس پر عمل کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں رائج کرنا ہے،وہ استقامت وپائیداری جیسی اصل ہے۔”علیکم بالصبر۔”استقامت وپائیداری ،حادثات کے مقابل:”ان الصبر من الایمان کالرّاس من الجسد ۔”بالکل اسی طرح جیسے انسان کے پورے بدن کا حاکم اس کے سر میں موجود دماغ ہوا کرتا ہے ۔انسانی دماغ پرایک ہلکی سی چوٹ،اس کے بدن کے ایک حصہ کو کام سے روک دیتی ہے۔آپ فرماتے ہیں:صبر وشکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سر کو بدن سے ہوتی ہے ۔اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے ،یونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں۔”ھر کہ را صبر نیست ایمان نیست”۔

        غور فرمایا آپ نے،حضرت علی علیہ السلام نے خودسازی کے سلسلہ میں پانچ جملے ارشاد فرمائے جو کہ ایک انسان یا ایک معاشرے کے لئے کافی ووافی ہیں۔معاشرہ بھی”لا یرجونّ أحد منکم الا ربہ”(نہج البلاغہ،حکمت٨٢)کا مصداق ہو نا چاہئے۔ہمارے سماج اور معاشرے کو بھی گناہ وخلاف کاری نیز اپنی کوتاہیوں کے علاوہ کسی چیز سے نہیں ڈرنا چاہئے۔معاشرہ میں بھی تعلیم وتعلم کی اصل نافذ وحاکم ہونی چاہئے اسی طرح استقامت وپائیداری اور صبر کے اصول کارفرما ہونے چاہئے۔

        دوسرا نمونہ اور دوسری مثال، البتہ آپ برادران وخواہران میں سے اکثر ذوق مطالعہ رکھنے والے ان مسائل سے آشنا ہیں لیکن ممکن ہے بعض ایسے افراد بھی ہوں جو مطالعہ کے دوران ان مسائل سے روبرو نہ ہوئے ہوں ۔نہج البلاغہ میں کلمات قصار میں ایک ایسا بھی جملہ ہے جو فقط دو کلموں سے مرکب ہے ،سید رضی جیسے بزرگ دانشور اور اس زمانہ کے نابغہ جب ان دو کلموں تک پہنچتے ہیں فرماتے ہیں:میں ان دو کلموںکی عظمت کے سلسلہ میں جو کچھ بھی کہوں کم ہے ۔حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:”تخفّفوا تلحقوا۔”(نہج البلاغہ،خطبہ١٦٧)اے لوگو!ہلکے پھلکے رہو تا کہ آگے بڑھ جانے والوں کو پا سکو۔تمہاری زندگی میں پیچ وخم اور فراز ونشیب پائے جاتے ہیں ،دشوار اور صعب الامور مراحل پائے جاتے ہیں ،وہ افراد جن کا بار سفر سنگین ہو وہ پہلے ہی پیچ وخم میں پھنسے رہ جائیں گے ۔اے لوگو!ان راستوں سے با آسانی نہیں گزر سکتے ہو ،اپنے کو ہلکا پُھلکا بنا لو تا کہ زندگی کے ان سخت اور دشوار مراحل سے آسانی کے ساتھ عبور کر سکو۔حضرت علی علیہ السلام یہ فقط کسی ایک فرد سے نہیں فرما رہے بلکہ ایک معاشرہ سے بھی فرما رہے ہیں :”تخفّفوا تلحقوا۔”اے انسانی معاشرے!تم نے اپنا دست سوال طرح طرح کے قرض کی حصولیابی کے لئے مشرق ومغرب کی جانب بڑھا رکھا ہے اور انہیں قرضوں کے زیرسایہ ان سے وابستہ ہو جاتے ہو ،اپنا معاشرہ ہلکا بنائو ،اس سے زرق وبرق کا خاتمہ کرو ،اضافات کو ان سے دور کرو اور ہلکے بن جائو تا کہ مقصد تک پہنچ سکو۔

        آج علم اقتصاد کے ماہرین ،انسان کو درپیش اقتصاد ی مسائل کا مطالعہ کرنے کے بعد کہتے ہیں:انسان کی مکمل اقتصادی زندگی کا تین حصوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے۔ضروریات،آرام وآسائش کے مسائل اور ھویٰ وھوس۔ضرورت،ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو زندہ رہنے کے لئے درکار ہے ۔مثال کے طور پر غذا،لباس،مکان،دوا اور حفظان صحت۔اس کے بعد آرام وآسائش کے مسائل ہیں ۔اس کے بعد تیسرا مرحلہ یعنی خواہشات نفسانی پیش آتا ہے۔دیکھا دیکھی،دوسروں کی برابری ،رقابت اور بیہودہ و بے سود خیالات۔وہ ارقام کے اعتبار سے کئے جانے والے حساب کتاب کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ تیسرا حصہ وہ اہم حصہ ہے جو انسانی مال ودولت کو سب سے زیادہ اپنی طرف جذب کرتا ہے۔تو پہلا حصہ ضروریات کا ہے ۔امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:”تخفّفوا تلحقوا۔”ان اضافات اور زیادہ طلبی کو دور بھگائو ،خواہشات نفسانی سے نجات پائو اور آرام وآسائش کے مسائل کہ جو دوسروں سے وابستگی ذریعہ قرار پاتے ہیں ،اپنی زندگی سے ختم کرو ،اور اس کی وجہ سے اپنے ملک کو دشمن کی اقتصادی پالیسی کا شکار نہ بنائو ۔ہلکے پُھلکے رہو اور منزل مقصود نیز اپنی سعادت تک پہنچ جائو۔

        نہج البلاغہ کاتیسرا حصہ حقائق بیانی کا ہے۔قرآن مجید کے بعد جسے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ہمیشہ باقی رہ جانے والے نور کی صورت تمام عالم بشریت کے لئے روشن ومنور کیا ،نہج البلاغہ میں بھی ایک عجیب وغریب عینیت اور حقیقت بیانی پائی جاتی ہے۔اس دنیا میں بے شمار کتابیں تحریر ہوئی ہیں۔جب انسان اس کا مطالعہ کرتا ہے اس سے متأثر ہوتا ہے،دیکھتا ہے کہ امید وآرزو کی منزل میں ایک اچھا پروجکٹ ہے لیکن اس کا حقیقت و واقعیت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔اہمیت کی حامل اور با ارزش وہ کتاب ہوتی ہے جو جامع اور جالب نظر ہونے کے ساتھ ساتھ قابل عمل بھی ہو۔نہج البلاغہ اور اس میں بیان شدہ دستورات ایسے ہی ہیں۔انسان جو کچھ چاہے نہج البلاغہ سے حاصل کر کے اس پر عمل پیرا ہو سکتا ہے۔اس موقع پر ایک دو مثالیں اور نمونے پیش کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔

        حضرت علی علیہ السلام ،جناب مالک اشتر کے نام تحریر کرنے والے عہد نامہ میں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جملہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اے مالک!میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارہا یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس قوم میں پاکیزگی نہیں آسکتی جس میں کمزوروں کو کھل کر طاقتوروں سے حق نہیں دلایا جاتا۔”لن تقدس امة لا یؤخذ فیھا حق الضعیف عن القویّ غیر متعتع۔”

        غور فرمایا آپ نے کہ کس قدر حقیقت بیانی پائی جا رہی ہے۔اگر ہم پوری دنیا پر نگاہ دوڑائیں،تو ہم مشاہدہ کریں گے کہ عالمی سطح پر پائی جانے تمام مشکلات اور بد امنی کا اصل منبع ،طاقتورافراد اور اغنیاء کی جانب سے ضعفاء اور کمزور طبقہ کے حقوق کی پائمالی ہے۔آپ بہ بانگ دہل فرماتے ہیں:”لن تقدس امة ” جو قوم قیام نہ کرے اور کمزورو ں کے حقوق کو غنڈوں،بدمعاشوںاور طاقتوروں سے حاصل نہ کرے وہ کبھی پاکیزہ نہیں ہو سکتی اور ہمیشہ بد امنی،تنش اور غیرپاکیزگی کا شکار رہے گی،اضطراب و پریشانی ہمیشہ اس پر حاکم رہے گی۔یہ حقیقت بیانی کے اصل معنی ہیں ۔ایک ایسی چیز جو انسانوں کی پوری زندگی میں اپنا اثر قائم کر چکی ہے۔

        ایک دوسری مثال پیش کروں۔برادران وخواہران!آپ سب نے یہ مثال اور نمونہ سنا ہے لیکن ایک نئی جہت سے اسے سماعت فرمائیں۔ہم انقلاب سے قبل اس نمونہ کو پڑھتے تھے،کبھی اس کی تدریس کرتے تھے ،لیکن خدا وند کریم کو حاضر وناظر جان کر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک انقلاب رونما نہ ہوا ،میں حضرت علی علیہ السلام کے اس کلام کی گہرائی اور گیرائی تک نہیں پہنچ سکا تھا۔مالک اشتر کے نام تحریر کردہ اسی عہد نامہ میں مولا کا ایک جملہ ہے۔اس جگہ حضرت علی علیہ السلام لوگوں کو دو گروہ میں تقسیم کرتے ہیں :خواص اور عوام۔آپ خواص کے لئے سات خصوصیات کا ذکر فرماتے ہیں اور عام انسانوں کی تین خصوصیات کی جانب اشارہ فرماتے ہیں۔آپ نے فرمایا:اے مالک!میں تم سے بتا رہا ہوں کہ لوگ دو قسم کے ہیں ،بعض عیش و آرام اور آسائش نیز ناز ونعم کی زندگی بسر کر رہے ہیں جن کی زندگی میںسات شکلیں قابل بیان ہیں ۔بعض کمزور و مستضعف ہیں جو کہ عوام ہیں جن میں تین خصوصیات قابل ذکر ہیں۔میں یہ باتیں تم سے ا س لئے بیان کر رہا ہوں تا کہ جان لو کہ تمہارا بیڑا ان خوشگوار زندگی بسر کرنے والوں کے ساتھ پار ہونے والا نہیں بلکہ جو کچھ ہے ان کمزوروں اور مستضعفین کے ساتھ ہے۔آپ نے فرمایا:”لیس احد من الرعیة اثقل علی الوالی مؤونةً فی الرخائ۔”۔”خوشگوار او رناز ونعم میں زندگی بسر کرنے والے جنہیں خواص سے تعبیر کیا گیا ہے ،ان کی پہلی مشکل یہ ہے کہ رعیت میں ان خواص سے زیادہ کوئی ایسا نہیں کہ جو خوش حالی کے وقت حاکم پر بوجھ بننے والا ہو”۔پانی،بجلی اور پھلوں کا استعمال ان کے یہاں دوسروں کی بنسبت بہت زیادہ ہے ، ان کے پاس کئی ہزار میٹر کے گھر ہوتے ہیں ،حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا سارا ذمہ حکومت برداشت کرتی ہے ۔بسا اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک خاندان، پچاس کمزور طبقہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے برابر حکومت پر اپنا بوجھ ڈالتی ہے۔    

        ”واقل معونة فی البلاء۔”لیکن جب مشکلات کا زمانہ آتا ہے تو یہ لوگ دوسروں سے کم مدد کرتے ہیں۔مثال کے طور پر محاذ جنگ پر شہر کے جنوبی علاقہ سے کتنے افراد گئے؟گائوں اوردیہاتوں سے کتنے اور خوش حال زندگی بسر کرنے والوں میں سے کتنے؟اب آپ موازنہ کریں ،حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:ان کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ پُر توقع ہونے کے باوجود یہ مصیبت کے وقت امداد سے کترا جانے والے ہیں۔

        ”واکرہ للانصاف”؛”انصاف پر ناک بھوں چڑھانے والے ہیں”یہ ،خوش حال زندگی بسر کرنے والے انصاف وعدالت کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ہرگز نہیں چاہتے کہ دوسرے بھی معاشرتی اور اجتماعی محاسن سے استفادہ کریں۔ہمیشہ خود کو دوسروں سے برتر تصور کرتے ہیں اور حکومت سے اپنے امتیاز کے طلبگار ہوتے ہیں۔

        ”واسأل بالالحاف”؛طلب وسوال کے موقع پر ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ جانے ہوتے ہیں۔حکومت اور قوم کے امکانات ان کے مد نظر نہیں ہوتے ۔افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے اکثر نے عوام کی زندگی کے ضروریات کو فراموش کر دیا ہے لیکن جو چیز ان سے بھلائے نہیں بھولتی وہ ان کی طرح طرح کی فرمائشات ہیں جنہیں وہ بکثرت طلب کرتے ہیں۔

        ”واقل شکراً عند الاعطاء”؛یہ بخشش پر کم شکر گزار ہونے والے ہیں ۔بلکہ اس موقع پر بھی کسی چیز کا مطالبہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اس ملک کے لئے یہ یہ خدمات انجام دئیے ہیں ،جو چیز ہمیں دی گئی ہے یہ اس سے بہت کم ہے جو ہمیں ملنی چاہئے تھی لیکن وہ بیچارہ کمزور اسی مختصر پر اکتفا کرتا ہے ۔یعنی جب اسے راشن دیا جاتا ہے کہتا ہے:ہمیں اسلامی حکومت کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ جو ہمارا اس قدر خیال رکھنے والی ہے۔

        ”وابطأ عذراًعند المنع”؛حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:اگر ایک چیز بنا بر مصلحت انہیں نہ دی جائے ،چاہے جتنی ہی دلیلیں کیوں نہ بیان کر دی جائیں لیکن وہ قبول نہیں کرتے ،اگر دیا جائے تو شکرگذار نہیں اور اگر نہ دیا جائے تو عذر سننے والے نہیں۔

        ان کی آخری خصوصیت”وأضعف صبراً عند ملمّات الدھر”؛یعنی زمانہ کی ابتلائوں پر ،جنگ در پیش ہو ،شہروں پر بم بارانی شروع ہوجائے تو سب سے زیادہ بے صبری دکھانے والے یہی خوش حال زندگی بسر کرنے والے ہوتے ہیں۔

        عوام الناس کی خصوصیات:

        ”انما عمود الدین وجماع المسلمین والعدّة للاعداء العامة من الامة”؛امت کے عوام کی یہ تیں خصوصیات ہیں:دین کا مضبوط سہارا،مسلمانوں کی قوت اور دشمن کے مقابلہ میں سامان دفاع۔اس موضوع پر گفتگو مزید کی جا سکتی ہے ،میں فقط دو نکتوں کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا لیکن مجھے امید ہے کہ دیگر افراد اس سلسلہ میں گفتگو فرمائیں گے۔

        پہلا نکتہ:میرے اعتبار سے حضرت علی علیہ السلام کے اس ارشاد کو ہر زمانہ سے بہتر ہم تہران کی یونیورسٹی میں ہونے والی تاریخی نماز جمعہ میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔اگر دنیا میں ایک گروہ کو منتشر کرنا چاہیں تو پانی چھڑکنے والی گاڑی سے یہ کر سکتے ہیں ،لیکن نماز گزاروں میں سے کسی ایک کے پیر تلے بم پھٹا ،اوپر سے ہوائی حملوں کا احتمال پایا جا رہا تھا اور درختوں کی شاخوں پر گوشت کے ٹکڑے آویزاں تھے لیکن اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں ۔یہ وہی ہے جس کے لئے امیر المومنین علیہ السلام مالک اشتر سے فرما رہے تھے:ان کے ساتھ رہوکیونکہ یہ وہ ہیں جو مشکل دور میں تمہارے کام آئیں گے نہ کہ دوسرے۔

        دوسرا نکتہ:یہ کہ اسرائیل کی یونیورسٹی میں شیعہ مذہب پر نئے سرے سے شناخت کے حصول کی غرض سے کانفرنس منعقد ہوتی ہے اس عنوان سے کہ اسرائیل کوسب سے بڑا خطرہ تنہا شیعہ مذھب سے ہی لاحق ہے ۔یعنی لبنان کے جنوبی اور دیگر علاقوں کے شیعہ ۔یعنی وہی رنج دیدہ اور زحمت کش ،کمزور اور مستضعف طبقہ۔وہاں پر تمام مشرق شناس دانشوروں کو دعوت دی جاتی ہے اور اس مسئلہ پر گفتگو ہوتی ہے کہ شیعوں پر کون سا ایسا نظام حاکم ہے کہ جو انہیں مشرق ومغرب کی تمام طاقتوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ بخشتاہے؟واضح سی بات ہے کہ یہ لوگ نہج البلاغہ سے الہام حاصل کرتے ہیں ۔آخری بات یہ کہ جو قرارداد انہیں نے مرتب کی اور نہایت پُر معنی تھی ،مشرق شناسوں نے شیعوں سے مقابلہ کرنے کے ایک ہی راستہ پر سارا زور ڈالا یعنی ان کے حساب سے بمباری،جنگ اور اقتصادی پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ صرف ایک راستہ ہے وہ یہ کہ شیعہ جوانوں میں فساد کاشعلہ بھڑکایا جائے ،اپنی تمام تر کوششیں اور طاقتیں اسی پر صرف کرو کہ شیعہ جوانوں میں فساد رواج پیدا کر لے۔

        بہر حال !میں یہ سمجھتا ہوں کہ نہج البلاغہ کے نام پر منعقد ہونے والی اس جیسی محفلوں اور مجلسوں میں نہج البلاغہ کی ان عینی واقعیات اور حقائق سے استفادہ کرتے ہوئے انہیں دوسروں تک پہنچایا جائے اور برادران وخواہران نہج البلاغہ سے اپنی دوری کم کریں اور زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔میرے اعتبار سے انقلاب کی تمام تر مشکلا ت بھی قرآن کریم اور نہج البلاغہ کے ذریعہ قابل حل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button