علیؑ،علی ؑکی زبانی (حصه اول)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا تعارف اپنی زبان سے
تحریر: محمد عباس
مقدمہ :
طول تاریخ میں بہت سے بزرگان ٬تاریخ نویسان اور دانشمندان اسلام نے امیرالمومنین حضرت علی ؑ کے منزلت اور فضایل پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں.مگر وہ اپنی ان کتابوں میں حضرت علی ؑکی شخصیت کوواضح نہ کر سکے اور ایسی ہستی کہ جس کامقام خدا کے نزدیک باقی مخلوق سے بلند ہو اسے شخص کے حقیقی فضایل اور منزلت کوکون بیان کر سکتا ہے ؟اسیی صورت میں ایسے شخص کا حقیقی تعارف کروانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا مقام اپنی زبان سے بیان کروا جائے .تاکہ اس کے فضایل اورمقام میں سے ہلکی سی چھلک لوگوں کیلئے روشن ہو جائے.
شاہد کسی کے ذھن میں یہ سوال پیدا ہوجائے کہ ایک شخص اپنی اتنی تعریف کرتا ہے اس کا کیا معنی ہے؟آیایہ اسلام میں جائز ہے یانہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینیٰ ؒفرماتے ہیں:کہ حضرت علی ؑکا اپنی زبان سے تعریف کرنا اس بات کا وہی مبداہے جو خدا وندمتعال نے حضرت آدم ؑکو حکم دیا تھا اے آدم ان باقی ملائکہ کو وہ آسمانی نام بتائو جو تم کوسکھائیے گے ہیں آدم نے وہ نام صرف اس لئے بتائیں تھے کہ ان کا مقام اور منزلت بہت بلندتھی . اور دوسرا امام علی ؑ کا اپنی زبان سے اپنی تعریف کرنا یہ صرف لوگوں کی ہدایت کیلئےتھا اس میں دوسرا کوئی مقصد نہ تھااور یہ ایک رحمانی کا م تھا جس کو امیرالمومنین حضرت علی ؑنے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر انجام دیا تاکہ خداکی رضایت حاصل کریں
پس ہم اسی امید کہ ساتھ کہ خدا وندمتعال ہماری اس مختصر سی محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے.یہاں پر امیرالمومنین حضرت علی ؑکی شخصیت کو ان کی زبانی سےبیان کرتے ہیں .[i]
پہلا مومن :
خدا کی کائنات میں حضرت علی ؑکے علاوہ کون ہے جو یہ دعوی کرے کہ میں نے سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد(ص)پر ایمان لایاہے .جبکہ خدا وندمتعال نے حضرت علی ؑکو اپنی کتاب میں پہلے مسلمان کے عنوان سے یاد کیا ہے .
(وسابقون السابقون.اولیک المقربون )[ii]
اور خود حضرت علی اپنے ایمان لانے کے بارے میں نھج البلاغہ میں یوں بیان فرماتے ہیں .
وَ أَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي٬فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَ سَبَقْتُ إِلَى الْإِيمَانِ وَ الْهِجْرَةِ.[iii]
خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کیونکہ میں فطرت اسلام پرپیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے .
اس خطبہ میں امیرالمومنین حضرت علی ؑکا یہ کہنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہو یعنی میں اس خاندان میں پیدا ہوا ہوں جس میں تمام افراد بت پرست نہ تھے بلکہ خدا کی عبادت کرتے تھے .اور میں نے ایمان اور ہجرت میں سبقت حاصل کی.ایمان میں سبقت لینے پر اہل سنت بھی قاہل ہیں مگرآپ نے ہجرت میں کس طرح سبقت حاصل کی .شب ہجرت رسول خدا(ص)کے ساتھ حضرت علی ؑ ہجرت کے لئے آمادہ تھے مگر رسول خدا (ص)کے حکم کی وجہ سے آپ نے مھم ترین مسئولیت کو انجام دیا اور آپ نے اپنی ہجرت پر امر رسول (ص)کو مقدم کیا اس طرح آپ کو پہلی ہجرت اور رسول خدا(ص)کے حکم پر عمل کرنے دونوں کا ثواب مل گیا .[iv]
علامہ امینی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :کہ حضرت علی ؑ نے فرمایا:
ولقد صلیت مع رسول الله صلی الله علیه واله قبل الناس بسبع سنین وانا من اول صلی معه.[v]
میں نے لوگوں کے ایمان لانے سے سات سال پہلے رسول خدا(ص)کے ساتھ نماز پڑھی ٬اور سب سے پہلے میں رسول (ص)کے ساتھ نماز پڑھی .
اورامیرالمومنین حضرت علیؑ اپنے ایمان کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں :
أَ تَرَانِي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص٬وَ اللَّهِ لَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَهُ٬فَلَا أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ كَذَبَ عَلَيْهِ٬ فَنَظَرْتُ فِي أَمْرِي٬فَإِذَا طَاعَتِي قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَتِي٬ وَ إِذَا الْمِيثَاقُ فِي عُنُقِي لِغَيْرِي.[vi]
کیا میں رسول خدا (ص)کے بارے میں غلط بیانی کر سکتا ہوں جب کہ میں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی تو اب میں سب سے پہلے جھوٹ بولنے والا نہیں ہوسکتا ہوں .میں نے اپنے مرحلہ میں غور کیاتو میرے لئے اطاعت رسول (ص)کا مرحلہ بیعت پر مقدم تھا اور میری گردن میں حضرت کے عہد کا طوق پہلے سے پڑا ہواتھا .
ابن الحدید اس خطبہ کی شرح میں بیان فرماتے ہیں :یہ خطبہ امامؑ نے اپنے دوستوں کے درمیان میں فرمایا:جب حضرت علی ؑنے لوگوں کو امور غیبی اور دوسری مھم خبریں بتائیں تو ان میں بعض نے کہا کہ تم رسول خدا (ص)کی طرف جھوٹ کی نسبت دے رہے ہو .اور جھوٹ بول رہے ہو .جس طرح رسول خدا(ص)کے زمانے میں منافق رسول خدا (ص)کو کہتے تھے کہ تم جھوت بول رہے ہو .[vii]
وہ لوگ جن کے ایمان کمزور تھے اور حق سے روح گردانی کر رہے تھے تو اس وقت امام (ع)نے اپنے ایمان کے بارے میں یوں فرمایا:
للَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ٬وَ سَمِعَ وَ أَجَابَ٬لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ ص بِالصَّلَاةِ.[viii]
اےمیرے خدا!تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیری طرف رخ کیا ہےاور تیری آواز سنی ہے اور اسے قبول کیاہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم (ص)کے علاوہ کسی نہیں بھی مجھ پر سبقت حاصل نہیں کی.
ابن الحدید حضرت علیؑ کے پہلے مسلمان ہو نے پر قرآن مجید کی اس آیت کو بیان کرتا ہے :(وسابقون السابقون.اولیک المقربون )[ix] اور پس جب انہوں نے سب سے پہلے خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے تو اب کسی قسم کا جھوٹ نہیں بول سکتےکیونکہ انہوں نے اس وقت ایمان لایاجب رسول خدا(ص)کاکوئی ساتھ دینے والانہ تھا.تو اب ایسا مسلمان اپنی آخری زندگی میں حکومت کیلئے جھوٹ کیوں بولے گا.[x]
حضرت علی اپنے دوستوں کے درمیان اپنے ایمان لانے کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :وَ اللَّهِ لَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَهُ[xi]
خدا کی قسم !میں وہ ہوں جس نے سب سے پہلے رسول خدا (ص)کی تصدیق کی .
ابن ابی الحدید طبری سے روایت نقل کرتا ہے :
سمت علیا (ع) یقول :انا عبداللہ اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر لا یقولھا بعدی الا کاذب مفتر٬صلیت قبل الناس سبع سنین .[xii]
حضرت علی ؑ سے سنا وہ فرمارہے تھے :میں خدا کا بندہ اور رسول خدا (ص)کا بھائی ہوں ٬میں صدیق اکبر ہوں٬میرے بعد کوئی صدیق اکبر نہیں ہو گا مگر جھوٹا شخص٬میں نے باقی لوگوں سے ستر سال پہلے نماز پڑھی تھی .
اور دوسر ی روایت میں ہے :میں صدیق اکبر ہوں ٬میں فاروق اول ہوں ٬میں نے ابوبکر سے پہلے اسلام کو قبول کیا ہے ٬اورسات سال اس سے پہلے نماز پڑھی ہے .[xiii]
اعتقاد اور یقین کامل
حضرت علی ؑفرماتے ہیں :لو کشف الغطاءماازددت یقینا.[xiv] اگر دنیا کے حجاب ظاہری اور دنیوی میرے سامنے سے هٹ جائیں تو پھر بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا .
اور فرماتے ہیں:الهی ماعبدتک خوفا من نارک ولاطمعا فی جنتک٬بل وجدتک اهلا للعبادۃ فعبدتک .[xv]
اے میرے خدا !میں تیری عبادت نہ جہنم کے خوف کی وجہ سے کرتا ہوں اور نہ جنت میں داخل ہونے کیلئے بلکہ میں نے تجھے عبادت کے قابل سمجھا ہے جس کی وجہ سے تیری عبادت کرتا ہوں .
حضرت علی ؑ کا وجود مبارک صرف خدا کی محبت کیلئے تھا اور خدا سے ملنے کیلئے اتنے بے چین تھے کہ دعاء کمیل میں یوں بیان فرماتے ہیں:فهبنی یا الهی و سیدی ومولای و ربی صبرت علی عذابک فکیف اصبر علی فراقک .[xvi]
اے میرے خدا ٬میرے مولا٬میرےسردار٬تیری عذاب پر تو صبر کر سکتا ہوں مگر کس طرح تیرے فراق میں صبر کروں .
حضرت علی کا خداپرایمان اتنا بلند تھا جس کو اس کائنات کا کوئی شخص بھی درک نہیں کر سکتاان فرامین میں سے ایک امام کا یہ فرمان ہے :
لْيَوْمَ أُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَاءَ ذَاتَ الْبَيَانِ- عَزَبَ رَأْيُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّي- مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُهُ.[xvii]
آج میں تمہارے لئے اپنی اس زبان خاموش کو گویا بنا رہو ہوجس میں بڑی قوت بیان ہے یاد رکھو کہ اس شخص کی رائے گم ہو گی ہے جس نے مجھ روگردانی کی ہے میں روز اول سے آج تک حق کے بارے میں کبھی شک نہیں کیا ہے .
امام علیہ السلام فرماتے ہیں : ما شككت فى الحقّ مذ رأيته
اس خطبہ کی شرح میں ابن میثم فرماتے ہیں :کہ امام ؑ کی پیروی ہر حال میں مسلمانوں پر واجب اور ان کے حکم کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے.اور مولا اپنی تعریف میں یوں فرماتے ہیں:کہ مجھےحق کی شاخت کے بعد کوئی شک اورشبہ حاصل نہیں ہوا کیونکہ خداا وندمتعال اپنے نمائندہ کو ایسے کمالات سے مزین کرتا ہے جس کی وجہ خدا کا نمائندہ یقین کی منزل تک پہنچ جاتا ہے. .[xviii]
اور حضرت علی ؑ اپنے دوستوں کے درمیان یون بیان فرماتے ہیں
أَيُّهَا النَّاسُ- لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِهِ[xix] :اے لوگوں! یقین اور ایمان کامل کے ساتھ ہدایت کے راستہ پر چلو اگرچہ کہ اس راستہ پر چلنے والوں کی تعداد کم ہیں .
اور حضرت علی ؑاپنے اصحاب اور رسول خدا(ص)کے اصحاب کا موازنہ کرتے ہوئے اور اپنے ایمان کامل کی طرف یو ں اشارہ کرتے ہیں :
وَ إِنِّي لَعَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَ مِنْهَاجٍ مِنْ نَبِيِّي٬ وَ إِنِّي لَعَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ٬أَلْقُطُهُ لَقْطاً .[xx]
اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں اور رسول خدا (ص)کے رواستہ پر چل رہا ہوں اور میرا راستہ بلکل روشن ہے جس کو میں باطل کے اندھیروں میں بھی تلاش کر لیتا ہوں .
تمام علوم میں کون افضل؟
حضرت علی ؑکی علمی شخصیت تمام عالم جہان کیلئے سورج کی روشنی کی طرح روشن اور واضح ہے جس طرح سورج کی روشنی ہر انسان کو نفع دیتی ہے اسی طرح حضرت علی کی علمی شخصیت سے اپنے اور دشمن سب نے فاہدہ حاصل کیا.اور علماء اہل سنت نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ کائنات میں حضرت علی ٍؑ سے زیادہ علم کسی کے پاس نہ تھا .جس طرح یہ روایت علماء اہل سنت کی معتبر کتابوں میں موجود ہےکہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:
انا مدینۃ العلم و علی بابھا ٬فمن اراد العلم فلیقتبسہ من علی.[xxi] میں علم کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے جو بھی علم کو چاہتا ہے وہ علی سے حاصل کرے .
اور حضرت علی ؑاپنے علم کے بارے میں یو ں بیان فرماتے ہیں :
أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى٬يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْر.[xxii]
آگاہ ہو جاو کہ خدا کی قسم فلاں شخص(ابن ابی قحافہ)نے قمیص خلافت کو کھنیچ تان کر پہن رکھا ہے حالکہ اس کو معلوم ہے کہ خلافت کی چکی کے لئے میری حثیت مرکزی کیل کی ہے علم کاسیلاب میری ذات سے گذر کر نیچے جاتاہے اور میری بلندی تک کسی طاہر کی فکر بھی نہیں پہنچ سکتی.
اس خطبہ کی شرح میں محمد تقی جعفری فرماتے ہیں :کہ ابوبکر نے حضرت علی ؑ کے فضایل علمی کومتعدد بار عایشہ ٬ابن عباس ٬اور عمر سے سنا ہو اتھا اور یہ بھی جانتا تھاکہ خلافت کا حق دار حضرت علی ؑ ہیں مگر دنیا کی لالچ میں اس نے خلافت کو قبول کر لیا.
يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ تمام علوم کا اصلی سرچشمہ حضرت علی ؑ کی ذات گرامی ہے اور تمام مذھب کے بزرگان کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام سات علوم اسلامی حضرت علی ؑ کی ذات سے نکلتے ہیں.[xxiii]
اور یہ خطبہ حضرت علی نے متعدد مرتبہ اپنے اصحاب کے درمیان میں بیان فرمایا:
أَيُّهَا النَّاسُ سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي- فَلَأَنَا بِطُرُقِ السَّمَاءِ أَعْلَمُ مِنِّي بِطُرُقِ الْأَرْضِ- قَبْلَ أَنْ تَشْغَرَ بِرِجْلِهَا فِتْنَةٌ تَطَأُ فِي خِطَامِهَا- وَ تَذْهَبُ بِأَحْلَامِ قَوْمِهَا. [xxiv]
اے لوگوں مجھے کھو دینےسے پہلے مجھ سے پوچھ لوکہ میں زمین کی راہوں سے زیادہ آسمان سے واقف ہوںقبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیروں کو اٹھائےجو مہار کو بھی اپنے پیروں کے نیچے روند رہا ہو .
ابن الحدید اس خطبہ کی شرح میں کہتا ہے:
اجمع الناس کلهم علی انه لم یقل احد من الصحابه ولا احد من العلماء٬سلونی غیرعلی بن ابی طالب.
تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام اصحاب اور علماء میں سے کسی نہیں بھی سلونی سلونی کا دعوی نہیں کیا اگر یہ دعوی اگر کسی نہیں کیا ہے تو وہ صرف حضرت علی ؑکی ذات گرامی ہے .اور مزید کہتے ہیں: کہ حضرت علی کا یہ فرمانا: کہ میں زمین کے راستوں سے آسمان کے راستوں کو بہتر جانتا ہوں یہ ایک علم کی نشانی ہے کیونکہ یہ کلام آپ کی زبان سے ایک مرتبہ صادر نہیں ہوئی تاکہ کہا جا سکے کہ ایک اتفاقی بات تھی امیر المومنین علیؑ کا اس بات کا سو بار سے زیادہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا علم کائنات کے ہر عالم سے زیادہ ہے.اور اگر کوئی اس قسم کے علم کاادعی کرے تو وہ یقینی طور پر جھوٹا ہو گا اور لوگ بھی اس کو کاذب کہیں گے .[xxv]
حضرت علی ؑ مسجد کوفہ کے مبر پر یوں فرماتے ہیں :علمنی الف باب من العلم یفتح کل باب الف باب .[xxvi]
کہ رسول خدا(ص)نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم دیےہیں جس کے ہرباب سے ہزار باب نکلتے ہیں .
حضرت علی ؑاپنے اصحاب اور رسول خدا(ص)کے اصحاب کو غفلت سے بیدار کرتے ہوئے اور اپنے علم کو یو ں بیان کرتے ہیں: وَ اللَّهِ لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْكُمْ- بِمَخْرَجِهِ وَ مَوْلِجِهِ وَ جَمِيعِ شَأْنِهِ لَفَعَلْتُ- وَ لَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَكْفُرُوا فِيَّ بِرَسُولِ اللَّهِ ص- أَلَا وَ إِنِّي مُفْضِيهِ إِلَى الْخَاصَّةِ مِمَّنْ يُؤْمَنُ ذَلِكَ مِنْهُ- وَ الَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ وَ اصْطَفَاهُ عَلَى الْخَلْقِ- مَا أَنْطِقُ إِلَّا صَادِقاً- وَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ بِذَلِكَ كُلِّهِ وَ بِمَهْلِكِ مَنْ يَهْلِكُ- وَ مَنْجَى مَنْ يَنْجُو وَ مَآلِ هَذَا الْأَمْرِ- وَ مَا أَبْقَى شَيْئاً يَمُرُّ عَلَى رَأْسِي إِلَّا أَفْرَغَهُ فِي أُذُنَيَّ.[xxvii]
خدا کی قسم !اگر میں چاہوں تو ہر شخص کو اس کے داخل اور خارج ہونے کی منزل سے آگاہ کر سکتا ہوں اور جملہ حالات کو بتا سکتا ہوں لیکن میں تم سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم مجھ سے گم ہو کو رسول اکرم (ص)کا انکا ر نہ کر دو اور یاد رکھو میں ان باتوں سے ان لوگوں کو آگاہ کر دوں گا جس سے گمراہی کا خطرہ نہیں ہے اور مجھے مخلوق میں سے منتخب قرار دیا ہے اور میں سچ کے علاوہ کوئی کلام نہیں کرتا انھوں نے ساری باتیں مجھے بتا دی ہیں اور ہر ہلاک ہونے والی کی ہلاکت اور نجات پانے والے کی نجات کا راستہ بھی مجھےبتایا گیا ہے اور اس امر خلافت کے انجام سے بھی باخبر کیا گیا ہے اور کوئی اسی شے نہیں جو میرے سر سے گذرنے والی ہو اور اسے میرے کانوں میں نہ ڈال دیا ہو.
اورکائنات کے وارث حضرت علی ؑ اپنے علم کے بارے میں فرماتے ہیں :أَنَا وَضَعْتُ فِي الصِّغَرِ بِكَلَاكِلِ الْعَرَبِ- وَ كَسَرْتُ نَوَاجِمَ قُرُونِ رَبِيعَةَ وَ مُضَرَ- وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص- بِالْقَرَابَةِ الْقَرِيبَةِ وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِيصَةِ- وَضَعَنِي فِي حِجْرِهِ وَ أَنَا وَلَدٌ يَضُمُّنِي إِلَى صَدْرِهِ- وَ يَكْنُفُنِي فِي فِرَاشِهِ وَ يُمِسُّنِي جَسَدَهُ- وَ يُشِمُّنِي عَرْفَهُ- وَ كَانَ يَمْضَغُ الشَّيْءَ ثُمَّ يُلْقِمُنِيهِ- وَ مَا وَجَدَ لِي كَذْبَةً فِي قَوْلٍ وَ لَا خَطْلَةً فِي فِعْلٍ- وَ لَقَدْ قَرَنَ اللَّهُ بِهِ ص- مِنْ لَدُنْ أَنْ كَانَ فَطِيماً أَعْظَمَ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَتِهِ- يَسْلُكُ بِهِ طَرِيقَ الْمَكَارِمِ- وَ مَحَاسِنَ أَخْلَاقِ الْعَالَمِ لَيْلَهُ وَ نَهَارَهُ- وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ- يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً- وَ يَأْمُرُنِي بِالِاقْتِدَاءِ بِہ. وَ لَقَدْ كَانَ يُجَاوِرُ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِحِرَاءَ- فَأَرَاهُ وَ لَا يَرَاهُ غَيْرِي- وَ لَمْ يَجْمَعْ بَيْتٌ وَاحِدٌ يَوْمَئِذٍ فِي الْإِسْلَامِ- غَيْرَ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ خَدِيجَةَ وَ أَنَا ثَالِثُهُمَا- أَرَى نُورَ الْوَحْيِ وَ الرِّسَالَةِ وَ أَشُمُّ رِيحَ النُّبُوَّةِ- وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّيْطَانِ حِينَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَيْهِ ص- فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الرَّنَّةُ- فَقَالَ هَذَا الشَّيْطَانُ قَدْ أَيِسَ مِنْ عِبَادَتِهِ- إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى- إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ وَ لَكِنَّكَ لَوَزِيرٌ-[xxviii]
میں نے کمسنی ہی میں عرب کے سینوں کو زمین سے ملا دیا تھا اور ربیعہ و مضر کی سینگوں کو توڑ دیا تھا.تمھیں معلوم ہے کہ مجھے رسول خدا (ص)سے کس قدر قریبی قربت اور مخصوص منزلت حاصل ہے.انھوں نے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں اس طرح جگہ دی ہے کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے اور اپنےبستر پر جگہ دیتے تھے .اپنے کلیجہ سے لگا کر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی خوشبوسے سرفراز فرماتے تھےاور غذا کو اپنے دانتوں سے چباکر مجھے کھلاتے تھے.نہ انھوں نے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایااور نہ میرے کسی عمل میں غلطی دیکھی .اور اللہ نے دودھ بڑھائی کے دور ہی سے ان کے ساتھ ایک عظیم ترین ملک کو کردیا تھاجو ان کے ساتھ بزرگیوں کے راستہ اور بہترین اخلاق کے طور طریقہ چلتا رہتا تھا اور شب و روز یہی سلسلہ رہا کرتا تھا اور میں بھی ان کے ساتھ اسی طرح چلتا تھاجس طرح اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ چلتا ہے اور وہ روزانہ میرے سامنے اپنے اخلاق کا نشانہ پیش کرتے تھے اور پھر مجھے اس کی اقتداء کرنے کا حکم دیتے تھے .
وہ سال میں ایک زمانہ غار حرا میں گذارا کرتےتھے جہاں میں صرف انہیں دیکھا کرتا تھا اور کوئی دوسرا نہ ہوتا تھا .میں نور وحی رسالت کا مشاہدہ کیا کرتا تھاور خوشبو رسالت سے دماغ کو مطر کیا کرتا تھا.میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کو سنا تھا اور رسول خدا (ص) سے عرض کیا تھا یا رسول اللہ یہ آواز کیسی ہے ؟تو انہوں نے فرمایا:یہ شیطان ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہو گیا ہے .اور تم وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ سب کچھ سن رہے ہو جو کچھ میں سن رہا ہوں.صرف فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو.لیکن میرے بعد وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو .
حضرت علی ؑغفلت کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے اور اپنے علم کی طرف یو ں اشارہ کیا :والله لو شئت ان اخبر کل رجل منکم بمخرجه و مولجه وجمیو شانه نفعلت .[xxix]
خدا کی قسم !اگر میں بتانا چاہوں تو تم میں سے ہر ایک شخص کو بتا سکتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں جانا ہےاور اس کے پورے حالات کیا ہیں یہ بھی بتا سکتا ہوں .
سلمان اور ابوذر نے حضرت علی ؑسے پوچھا :اے ہمارے مولا خدا نے آپ کو کیا کیا اختیار دئے ہیں تو امیرکائنات نے ان سے فرمایا:انا احی وامیت باذن ربی وانا انبئکم بما تاکلون وما تد خرون فی بیتو تکم باذن ربی وانا عالم بضمائر قلوبکم. میں اپنے رب کے حکم سے زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اور اپنے رب کے حکم سے جانتا ہوں جو کچھ کھاتے ہوں اور جو کچھ تمھارے گھروں میں ہےاور میں وہ بھی جانتا ہوں جو کچھ تمھارے دلوں میں چھپا ہوا ہے .
اے سلمان میں ہر مومن و مومنہ کا باپ ہوں میں جلد آنے والا ہوں میں جب آ جائو ںتو سب کو گھیرلیتا ہوں سب کے دلوں پر ضرب لگانے والا ٬میں امتحان لینے والا٬میں وہ ہوں جس کا نام عرش پر لکھا ہوا اور اسی وجہ سے وہ قائم ہیں میرا نام زمین پر لکھا گیا جس کی وجہ سے و ہ قائم ہے اور پہاڑوں پر لکھا گیا جس کی وجہ سے وہ بلند ہیں٬ہوا پر لکھا گیا جس کی وجہ سے وہ اڑتی ہے ٬ برق ہر لکھا گیا جس کی وجہ وہ چمکتی ٬بارش کے قطروں پر لکھا گیا جس کی وجہ سے وہ جاری ہوتے ہیں٬نور پر لکھا گیا جس کی وجہ سے وہ روشن ہوئے٬بادلوں پر لکھا گیا جس کی وجہ برسنے لگے ٬ اور رعد پر لکھا گیا تو اس سے خشوع کی صدا بلند ہوئی ٬رات پر لکھا گیا تو وہ تاریک ہوئی ٬دن پر لکھا گیا تو وہ چمک اٹھا.[xxx]
[i] خلاصہ بیانات امام خمینی :ج2٬ص 839!مئوسسہ و نشر امام خمینی !چاپ اول ٬1381ھ ش
[ii] قرآن مجید !سورہ واقعہ !آیت 56
[iii] نہج البلاغہ :خطبہ 57٬ص 109!مترجم محمد دشتی ٬ناشر وجدانی ٬چاپ بعثت ٬بھار 85.
[iv] ترجمہ گویا اور شرح نھج البلاغہ ؛محمد جعفر امامی٬ج 1 ص 373 !ناشر مدرسہ امام علی بن ابی طالب (ع) 1377ش .
[v] الغدیر:علامہ امینی ٬ج 3!ص 221! بیروت دارالفکر٬چاپ اول ٬بی جا٬بی تا.
بحارالنوار : محمد باقر مجلسی ٬ج 38٬ص204! ،موسسہ العفا و داراحیاءالتراث العربی ،بیروت ،1983م.
[vi]شرح نھج البلاغہ :ج 37 ٬ص 47
[vii]شرح ابن ابى الحديد:ج 1 ٬ص 208 ٬ناشر انور الھدی ٬الطبعۃ الاولی 1429ھ.
[viii] نہج البلاغہ :خطبہ 131 ٬ص 253
[ix] سورہ واقعہ !آیت 56
[x] شرح ابن ابى الحديد:ج2ص 379
[xi] نہج البلاغہ :خطبہ 37٬ ٬ص 194
[xii] شرح ابن ابى الحديد:ج3 ٬ 250
[xiii] شرح نھج الابلاغہ :ابن الحدید ج 3٬ ص251
[xiv] تحف العقول عن آل رسول :حرانی ٬ابن شعبۃ ٬ص ٬236ناشر اسلامی جامعہ مدرسین چاپ دوم ٬1404ق.
المناقب :احمد بن محمد خورازمی :ص 375!ناشر اسلامی جامعہ مدریسن چاپ دوم 1411ق.
[xv] عوالی اللئالی:ابن ابی الجمھور :ج1٬ص 20 !چاپخانہ قم سیدالشھداء٬چاپ اول 1403ق.
[xvi] دعاء کمیل
[xvii] نھج البلاغہ :خطبہ 4٬ص 45
[xviii]ترجمہ اورشرح نھج الابلاغہ ابن میثم:ج1 ٬ص 545! ناشر قدس رضوی مشہد مقدس1375٬.
[xix] نھج البلاغہ :خطبہ 210 ٬ص420
[xx] نھج البلاغہ :خطبہ 97 ٬ ص 191
[xxi] المجروحین ٬من المحدثین ٬ابن حبان:ج2٬ص 94 ٬بی جا ٬بی تا.
الجانع الصغیر٬جلال الدین سیوطی:ج 1 ٬ص 415 ٬بیروت دارالفکر٬چاپ اول ٬1401ق. اور دوسری کتابوں میں
[xxii] نھج الابلاغہ :خطبہ 3٬ ٬ص 39.
[xxiii] شرح نھج البلاغہ :محمد تقی جعفری :ج2 ٬ص 52ناشر فرھنگ اسلامی تھران ٬چاپ11 ٬ 1386.
[xxiv] نہج البلاغہ :خطبہ 189٬ ٬ص 512
[xxv] شرح ابن ابى الحديد:ج2٬ص 175
[xxvi]الخصال٬شیخ صدوق ٬ص 572! ،انتشارات موسسہ الاعلمی للمطبوعات ،بیروت لبنان ،الطبعۃ الاولیٰ ، 1410 ھ
ینابیع المودۃ لذوی القربیٰ:سیلمان بن ابراھیم ٬ج1٬ص 231!ناشر دارالاسوہ ٬چاپ اول٬ 1416 ق.
[xxvii] نھج البلاغہ :خطبہ 175 ٬ص 331
[xxviii] نہج البلاغہ :خطبہ 192 ٬ص397
[xxix] نھج البلاغہ :جعفر حسین خطبہ 173 ٬ص 466
[xxx] القطرہ ! ج 1 ٬ ص200 ٬ناشر حاذق خیابان ارم٬ ٬چاپ پنجم1384.