علیؑ،علی ؑکی زبانی (حصه دوم)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا تعارف اپنی زبان سے
تحریر: محمد عباس
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت:
حضرت علی ؑ کی شجاعت کی حد کو کون معین کر سکتا ہے جس کی ایک ضربت تمام انسانوں اور جنوں کی عبادت سے افضل ہو؟
جس کے لئے آسمان سے جبرائیل تلوار لائیں اور احد کے میدان میں یہ قصدیہ پڑھے .لا سیف الاذوالفقار ولا فتی الا علی .
اور آپ اپنی شجاعت کے بارے میں خود یوں فرماتے ہیں:والله لو تظاهرت العرب علی قتالی لماو لیت مدبرا.[i]
خدا کی قسم اگر تمام عرب کے لوگ مل کر مجھ سے جنگ کریں تو پھر بھی میں ان کو پشت نہیں دیکھاوں گا .
کس طرح مکمن ہے جس کے ہاتھوں کو خدا یاد اللہ کہے ٬جس کی تلوار کو خدا سیف اللہ کہے وہ میدان جنگ میں کس سے دڑ ئے.
امام ؑ دین اسلام کے دفاع کے لئےاورخدا پر یقین کامل رکھتے ہوئےمعاویہ کے مقابلے میں نکلتے وقت یوں ارشاد فرماتے ہیں :
إِنِّي وَ اللَّهِ لَوْ لَقِيتُهُمْ وَاحِداً وَ هُمْ طِلَاعُ الْأَرْضِ كُلِّهَا- مَا بَالَيْتُ وَ لَا اسْتَوْحَشْتُ- وَ إِنِّي مِنْ ضَلَالِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيهِ- وَ الْهُدَى الَّذِي أَنَا عَلَيْهِ- لَعَلَى بَصِيرَةٍ مِنْ نَفْسِي وَ يَقِينٍ مِنْ رَبِّي- وَ إِنِّي إِلَى لِقَاءِ اللَّهِ لَمُشْتَاقٌ- وَ حُسْنِ ثَوَابِهِ لَمُنْتَظِرٌ رَاج. [ii]
خدا کی قسم !اگر میں تنہا ان کے مقابلہ پر نکل پڑوں اور ان سے زمین چھلک رہی تو بھی مجھے فکر اور وحشت نہ ہوگی کہ میں ان کی گمراہی کے بارے میں بھی اور اپنے ہدایت یافتنہ ہونے کے بارے میں بھی بصریت رکھتا ہوں اور پروردگار کی طرف سے منزل یقین پر بھی ہوں اور میں لقائے الہی کا اشتیاق بھی رکھتاہوں اور اس کے بہترین اجر اور ثواب کا منتظر اور امیدوار بھی ہوں .
اور اسی طرح حضرت علی ؑ نے جنگ نہروان سے واپسی پر اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں نے کس طرح دین خدا اور رسول اللہ(ص)کی مدد کی :
فَقُمْتُ بِالْأَمْرِ حِينَ فَشِلُوا٬وَ تَطَلَّعْتُ حِينَ تَقَبَّعُوا٬وَ نَطَقْتُحِينَ تَعْتَعُوا٬وَ مَضَيْتُ بِنُورِ اللَّهِ حِينَ وَقَفُوا٬وَ كُنْتُ أَخْفَضَهُمْ صَوْتاً وَ أَعْلَاهُمْ فَوْتاً٬فَطِرْتُ بِعِنَانِهَا وَ اسْتَبْدَدْتُ بِرِهَانِهَا٬كَالْجَبَلِ لَا تُحَرِّكُهُ الْقَوَاصِفُ٬وَ لَا تُزِيلُهُ الْعَوَاصِفُ٬لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ فِيَّ مَهْمَزٌ وَ لَا لِقَائِلٍ فِيَّ مَغْمَزٌ٬الذَّلِيلُ عِنْدِي عَزِيزٌ حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ لَهُ٬وَ الْقَوِيُّ عِنْدِي ضَعِيفٌ حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ مِنْه۔[iii]
حضرت امیرامومنین علی ؑ فرماتے ہیں:میں نے اس وقت اپنے فرائض کو انجام دیئے.جب کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھانے کی جرات نہ کرتا تھا.اور میں اس وقت سر اٹھا کر سامنے آیا .جس وقت دوسرے گوشوں میں چھپے ہوئے تھے .اس وقت زبان کھولی جس وقت دوسرے گنگ نظر آرہے تھے.اور اس وقت نور خدا کی روشنی میں آگے بڑھا٬جس وقت دوسرے زمین گیر ہو چکے تھے .گو یامیری آواز ان سب سے دہیمی تھی ٬مگر سبقت اور پیش قدمی میں سب سے آگے تھا. اور میں صاف تھا جو اس میدان میں بازی لے گیا.کسی کیلئے بھی مجھ میں عیب گیری کا موقع اور حرف گیری کی گنجائش نہ تھی.یاد رکھو!تمہارا کمزور میری نگاہ میں طاقت ور تھا یہاں تک کہ اس کا حق دلوادوں اور تمہارا طاقت ور میرے سامنے کمزور ہے یہاں تک کہ اس سے دوسروں کا حق لے لوں .
اور اسی طرح امیرالمومنین حضرت علیؑ جنگ جمل میں شرکت کرنے والوں کو دشمن کے فتنہ اور اپنی شجاعت کے بارے میں یوں فرمایا:
َلَا وَ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ جَمَعَ حِزْبَهُ- وَ اسْتَجْلَبَ خَيْلَهُ وَ رَجِلَهُ- وَ إِنَّ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَّسْتُ عَلَى نَفْسِي وَ لَا لُبِّسَ عَلَيَّ-وَ ايْمُ اللَّهِ لَأُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضاً أَنَا مَاتِحُهُِ.[iv]
آگاہ ہو جائو کہ شیطان نے اپنے گروہ کو جمع کر لیا ہے اور اپنے پیادہ و سوار سیمٹ لئے ہیں لیکن میرے ساتھ میری بصرت ہے نہ میں نے کسی کو دھوکہ دیا ہے اور نہ واقعا دھوکہ گھا یا ہے اور خدا کی قسم میں ان کے لئے ایسے حوض چھلکائوں گا جس کاپانی نکالنے والا بھی میں ہی ہوں گا .
اس خطبہ کے آخری حصہ کی (أَنَا مَاتِحُهُِ)کی شرح میں ابن میثم فرماتے ہیں:حضرت علی ؑ نے اپنے دوستوں سے فرمایا:کہ میں اس جنگ کے سارے فرائض اپنے عھدہ پر لیتا ہوں یہاں پر امام ؑ نے جنگ کو پانی کے ساتھ کیوں تشبیہ دی کیونکہ امام ؑ کہنا یہ چاہتے تھے جب انسان دریا میں ڈوب جائے تواس کو کوئی بھی نہیں بچا سکتا اب اگر کوئی بھی میرے مقابلہ میں آئے گا تو اس کو بھی کوئی نہیں بچا سکتا .[v]
اور اسی طرح مزید فرماتے ہیں : فَإِنْ أَبَوْا أَعْطَيْتُهُمْ حَدَّ السَّيْفِ- وَ كَفَى بِهِ شَافِياً مِنَ الْبَاطِلِ وَ نَاصِراً لِلْحَقِّ- وَ مِنَ الْعَجَبِ بَعْثُهُمْ إِلَيَّ أَنْ أَبْرُزَ لِلطِّعَانِ وَ أَنْ أَصْبِرَ لِلْجِلَادِ- هَبِلَتْهُمُ الْهَبُولُ- لَقَدْ كُنْتُ وَ مَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ وَ لَا أُرْهَبُ بِالضَّرْبِ- وَ إِنِّي لَعَلَى يَقِينٍ مِنْ رَبِّي وَ غَيْرِ شُبْهَةٍ مِنْ دِينِي.[vi]
اب اگر ان لوگوں نے حق سے انکار کیا تو میں ان کو تلوار کی باڑھ عطا کروں گاکیونکہ وہی باطل کی بیماری سے شفا دینے والی اور حق کی واقعی مدد گارہے.حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ لوگ مجھے نیزہ بازی کے میدان سے نکلنے اور تلوار سےکی جنگ کرنے کی دعوت دیتے ہیں رونے والی ان کے غم میں روئیں .مجھے تو کبھی بھی جنگ سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتااور نہ میں شمشرزنی سے مرغوب ہواہوں میں اپنے پروردگار کی طرف سے منزل یقین پر ہوں اور مجھے دین کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے .
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا زہدوتقویٰ:
لغت:(زهد )فی الشی و عنه ایضا.(زهدا)بمعنی ترکه و اعرض عنه فهو زاهد….[vii]
زہد کے لغوی معنی ٬چھوڑ دینا٬کناره کشی کرنا،دل کو پاک کرنا.
اصطلاح :اصطلاح میں زہد کا کوئی ایک خاص معنی بیان نہیں کیا گیا .بعض لوگ زہد کا تصور غربت٬ناداری٬دنیا بیزاری٬اور پھٹےکپڑوں میں محصور کر دیا گیا ہے حالکہ اسلام میں کچھ ایسا نہیں ہے اسلام کے نزدیک زہد دولت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتا ہےاور غربت کے ساتھ بھی .اور زہد کی تعریف ہم نھج البلاغہ سے امیرالمومنین حضرت علی ؑ کی زبانی بیان کرتے ہیں :
أَيُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَةُ قِصَرُ الْأَمَلِ٬وَ الشُّكْرُ عِنْدَ النِّعَمِ وَ التَّوَرُّعُ عِنْدَ الْمَحَارِم.[viii]
اے لوگوں!زہد امیدوں کے کم کرنے ٬نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کا نام ہے .
حضرت علی خود قرآن کی آیت سےاستفادہ کرتے ہوئے زہد کی یوں تعریف کرتے ہیں:
وَ قَالَ ع: الزُّهْدُ كُلُّهُ بَيْنَ كَلِمَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ( لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَ لا تَفْرَحُوا بِما آتاكُمْ)وَ مَنْ لَمْ يَأْسَ عَلَى الْمَاضِي وَ لَمْ يَفْرَحْ بِالْآتِي- فَقَدْ أَخَذَ الزُّهْدَ بِطَرَفَيْهِ.[ix]
تمام زہد قرآن مجید کے دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے .جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر مغرور نہ ہوجائو لہذاجو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اور آنے والے سے مغرور نہ ہوجائےتو اس نے سارا زہد سمیٹ لیا ہے .
اسی طرح امام علی(ع)بصرہ میں اپنے ایک صحابی کی بیمار پرسی کیلئے گے جب امام (ع)نے اس کا وسیع گھر اور دینا کی ہر چیز اس کے گھر میں دیکھی تو امام (ع)نے اس کو یوں فرمایا:
مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِسِعَةِ هَذِهِ الدَّارِ فِي الدُّنْيَا- وَ أَنْتَ إِلَيْهَا فِي الْآخِرَةِ كُنْتَ أَحْوَجَ- وَ بَلَى إِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الْآخِرَةَ- تَقْرِي فِيهَا الضَّيْفَ وَ تَصِلُ فِيهَا الرَّحِمَ- وَ تُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوقَ مَطَالِعَهَا- فَإِذاً أَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الْآخِرَةَ.[x]
تم اس دنیا میں اس قدر وسیع مکان کو لے کر کیا کروگے جب کہ آخرت میں اس کی احتیاج زیادہ ہے.تم اگر چاہو تو اسکے ذریعہ آخرت کا سامان تہیہ کر سکتے ہو کہ اس میں مہمانوں کی ضیافت کرو٬قرابت داروں سے صلہ رحمی کرواور موقع اور محل کے مطابق حقوق کو ادا کرواس سے تم آخرت کو حاصل کر سکتے ہو .
دنیا حضرت علی علیه السلام کی زبانی :
کائنات کے امیر حضرت علی ؑ کے دل میں خدا وند متعال کی محبت کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہ تھی .ان کے نزدیک خدا کی محبت کائنات کی ہر چیز سے افضل تھی اور اس دنیا کے بارے میں خود آپ یوں بیان فرماتے ہیں :
وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا- عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُهُ- وَ إِنَّ دُنْيَاكُمْ عِنْدِي لَأَهْوَنُ مِنْ وَرَقَةٍ فِي فَمِ جَرَادَةٍ تَقْضَمُهَا- مَا لِعَلِيٍّ وَ لِنَعِيمٍ يَفْنَى وَ لَذَّةٍ لَا تَبْقَى. [xi]
خدا گواہ ہے کہ اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت تمام زیر آسمان دولتوں کے ساتھ دی جائے اور مجھ سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ میں کسی چونٹی پر صرف اس قدر ظلم کرو کہ اس منہ سے چھلکے کوچھین لو جسےوہ چبا رہی ہے تو میں ہر گزا یسا نہیں کروں گا تماری یہ دینا میری نظر میں اس پتی سے زیادہ بے قیمت ہے جو کسی ٹڈی کے منہ میں ہو اور وہ اس کو چبا رہی ہو.بھلا علیؑ کو ان نعمتوں سے کیا واسطا جو فناہو جانے والی ہیں اور اس لذت سے کیا جو باقی رہنے والی نہیں ہے میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے اور لغزشوں کی برائیوں سے .
اس خطبہ کی شرح میں ابن الحدید فرماتے ہیں:کہ امام ؑ کی کلام کا مصداق عبداللہ ملک بن مروان ہے کیونکہ اس نےاپنی حکومت میں بہت سے بےگناہ لوگوں کو قتل کیا٬اور لوگوں کامال لوٹ لیا٬ لیکن اگر مجھے کائنات کی حکومت دی جائے اور کہا جائے کہ خدا کے ایک جانور پر ظلم کروتو میں کسی صورت میں بھی اس پر ظلم نہیں کروں گا .[xii]
جب انسان کسی چیز سے بھی حقیقی محبت کرتا ہے تو جو چیزیں اس کے محبوب کو پسند نہیں ہوتی ان سب کو چھوڑ دیتا ہے .امیرالمومنین حضرت علی ؑ کو خدا وندمتعال کے ساتھ حقیقی پیار تھا جس کی وجہ سے آپ نے اس دنیا کے بارے میں یو ں فرمایا:
يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا إِلَيْكِ عَنِّي أَ بِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ٬ لَا حَانَ حِينُكِ هَيْهَاتَ غُرِّي غَيْرِي لَا حَاجَةَ لِي فِيكِ٬قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ فِيهَا.[xiii]
اے دنیا .اے دنیا !مجھ سے دور ہو جا .تو میرے سامنے بن سنور کر آئی ہے ؟یا واقعا میری مشتاق بن کر آئی ہے ؟خدا وہ وقت نہ لائے کہ تو مجھے دھوکہ دے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے .میں تجھے تین مرتبہ طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد کوئی رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے تیری زندگی بہت تھوری ہے اور تیری حیثیت بہت معمولی ہےاور تیری امید بہت حقیر شے ہے .
یہاں پر مولا کائنات امیرالمومنین علی ؑنے لفظ طلاق کیوں استعمال کیا؟کیوں کہ کوئی شخص جب بھی کسی عورت کوتین مرتبہ طلاق دیتا ہےتو وہ عورت اس سے ناراض ہوجاتی ہے .امیرالمومنین حضرت علیؑ سےدینا کا انحراف کا راز بھی یہی تھا کہ آپ نے اس کو تین مرتبہ طلاق دےدی تھی تواس کا کوئی امکان نہیں کہ اہل دنیا آپ سے کسی قیمت پر بھی راضی ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے ابناء دنیانے تین خلافتوں کے موقع پر اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور اسکے بعد تین جنگوں کے موقع پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیالیکن آپ کسی قیمت پر بھی دنیا سے صلح کرنے پر راضی نہ تھے .[xiv]
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ٬دَخَلْتُ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع بِذِي قَارٍ وَ هُوَ يَخْصِفُ نَعْلَهُ.فَقَالَ لِي مَا قِيمَةُ هَذَا النَّعْلِ٬فَقُلْتُ لَا قِيمَةَ لَهَا٬فَقَالَ ع وَ اللَّهِ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ إِمْرَتِكُمْ- إِلَّا أَنْ أُقِيمَ حَقّاً أَوْ أَدْفَعَ بَاطِلا. [xv]
ابن عباس فرماتے ہیں:کہ میں مقام ذی قار میں حضرت علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں.آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا:اے ابن عباس اس جوتے کی کیا قیمت ہو گی ؟میں نے کہا اس کی اب تو کوئی قیمت بھی نہیں ہے .تو امیرامومنین علیؑ نے فرمایا:اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہوتا تو تم لوگوں پرحکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے .
حضرت علی ؑ نے اس دینا کا تعارف یو ں کروایا :أَنَا كَابُّ الدُّنْيَا لِوَجْهِهَا٬وَ قَادِرُهَا بِقَدْرِهَا وَ نَاظِرُهَا بِعَيْنِهَا. [xvi]
میں دنیا کو منہ کے بل اوندھا کر دینے والااور اس کی صحیح اوقات کا جاننے والااور اس کی حالت کو ا س کے شایان شان نگا ہ سے دیکھنے والا ہوں.
امام علی ؑ نے انسان اور دینا کے درمیان رابطہ کو مسافر والا رابطہ قراردیا ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ دنیا ایک کم رہنے والی جگہ ہے حقیقی زندگی گذرانے کی جگہ آخرت ہےاور یو ں بیان فرماتے ہیں :
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الدُّنْيَا دَارُ مَجَازٍ وَ الْآخِرَةُ دَارُ قَرَارٍ- فَخُذُوا مِنْ مَمَرِّكُمْ لِمَقَرِّكُمْ- وَ لَا تَهْتِكُوا أَسْتَارَكُمْ عِنْدَ مَنْ يَعْلَمُ أَسْرَارَكُمْ- وَ أَخْرِجُوا مِنَ الدُّنْيَا قُلُوبَكُمْ- مِنْ قَبْلِ أَنْ تَخْرُجَ مِنْهَا أَبْدَانُكُمْ- فَفِيهَا اخْتُبِرْتُمْ وَ لِغَيْرِهَا خُلِقْتُم .[xvii]
لوگو!یہ دینا ایک گزرگاہ ہے قرار کی منزلت آخرت کی جگہ ہے لہذا اس گذرگاہ سے وہاں کاسامان لے کر آگے بڑھو اور اس کے سامنے اپنے پردہ راز کو چاک مت کرو کیونکہ وہ تمارے اسرار سے باخبر ہے دنیا کو اپنے دلوں سے باہر نکال دوقبل اس کے کہ تمہارے بدن کو یہاں سے نکالا جائےیہاں صرف تمہارا امتحان لیا جارہا ہے ورنہ تمہاری خلقت کسی اور جگہ کے لیے ہے .
اس خطبے کی شرح میں حبیب اللہ ھاشمی فرماتے ہیں :اسلام کا مدعی ترک دینا نہیں ہے اور نہ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان رہبانیت کی زندگی گذارے.اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا انسان کی زندگی کا وسیلہ رہے اور اس کودل کا مکین نہ بنائو ورنہ دنیا کی محبت انسان کوزندگی کے ہر موڑپر خطرہ سے دوچار کر سکتی ہے .[xviii]
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی عدالت :
عدالت حضرت علی ؑکی نگاہ میں اصول دین میں سے ہے جس کی وجہ سےآپ نے اپنی ساری زندگی میں عدالت کو رائج کرنے کا حکم دیا.جب آپ ظاہری ظاہری خلافت پر آئے تو سب سے پہلے آپ نے اس طرح عدالت کو قائم کیا اور یوں بیان فرمایا:
وَ اللَّهِ لَوْ وَجَدْتُهُ قَدْ تُزُوِّجَ بِهِ النِّسَاءُ وَ مُلِكَ بِهِ الْإِمَاءُ- لَرَدَدْتُهُ- فَإِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً- وَ مَنْ ضَاقَ عَلَيْهِ الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْهِ أَضْيَقُ .[xix]
خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دے دیا گیا ہوتو میں اسکو بھی واپس کر دیتا کیونکہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کیلئے عدل میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہے .
اس خطبہ کی شرح میں علامہ محمد تقی نقوی فرماتے ہیں:کہ امیرالمومنین علی ؑ جب بھی بیت المال میں داخل ہوتے تھے بیت مال کا تمام مال غربیوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور اس کے بعد جھاڑو لگا کر دورکعت نمازادا کرتے تھے .تاکہ یہ زمین روز قیامت علیؑ کے عدل اور انصاف کی گواہی دے اور اسی بنیاد پر آپ نے عثمان کی عطا کردہ جاگیروں کو واپسی کا حکم دیااور صدقہ کے اونٹ عثمان کے گھر سے واپس منگوا لئےکیونکہ عثمان زکوۃ لینے کا مستحق نہ تھا .[xx]
امام علی ؑ نے اپنے خاص صحابہ کو عدالت قائم کرنے کے بارے میں یوں فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ٬أَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ٬ وَ لَا الْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ- وَ لَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ- وَ نُظْهِرَ الْإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ- فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ- وَ تُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ.[xxi]
خدایا!تو جانتا ہے کہ میں نے جو حکومت کے بارے میں اقدام کیا ہےاس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہ مال و دنیا کی لالچ تھی میر امقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثار کو ان کی منزل تک پہنچا دوں اور شہروں میں اصلاح پید اکردوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہوجائیں اور معطل حدود قائم ہوجائیں …
أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ٬وَ ايْمُ اللَّهِ لَأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِهِ وَ لَأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِهِ٬حَتَّى أُورِدَهُ مَنْهَلَ الْحَقِّ وَ إِنْ كَانَ كَارِهاً.[xxii]
لوگو!اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلے میں میری مدد کرو.خدا کی قسم میں مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلواوں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کر کھنیچوں گا تاکہ اسے حق کے چشمےپرواردکردوں چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہو.
اس خطبہ کی شرح میں محمد جواد مغنیہ فرماتے ہیں کہ یہاں پر امام ؑ نے ظالم کو اونٹ کی نکیل کے ساتھ شبہات دی ہے کیونکہ امام ؑ کہہ رہے تھے جس طرح اونٹ کی رسی مالک کے پاس ہو اور اونٹ پانی کو نہ پیناچاہے مگر مالک زبردستی اس رسی سے اونٹ کو پانی پلاتاہے پس امام ؑ بھی کہ رہے ہیں کہ میں ظالم سے مظلوم کا حق ضرور لوں گا چاہے ظالم حق دینے پر راضی نہ ہو پھر بھی میں اس سے مظلوم کا حق لو ں گا .[xxiii]
کائنات کے وارث کو خدا کی زمین عدالت قائم کرنے کا اتنا شوق تھا کہ اپنی زندگی کے آخری لمحہ میں فرمایا:کہ میرے قاتل کے ساتھ بھی عدالت کے ساتھ پیش آنااور اپنے بچوں کو یو ں فرمایا:انْظُرُوا إِذَا أَنَا مِتُّ مِنْ ضَرْبَتِهِ هَذِهِ- فَاضْرِبُوهُ ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ-[xxiv]
اگر میں اس کی ایک ضرب سے مرجائوں تو اس کی ضر ب کا جواب ایک ہی ضرب ہے .
نتیجہ :
اس مقالہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت علی ؑ اخلاق اور فضایل میں عالی ترین درجہ پر فائز تھے .اور امیرالمومنین حضرت علیؑ کے نزدیک اس دنیا کی حقیقت ہاتھوں کی انگلیوں کی طرح واضح تھی.اور آپ کو یہ معلوم تھا کہ یہ دنیا ایک عارضی دنیا ہے حقیقی دنیا کانام آخرت ہے .اور خدا کی حقیقت آپ کے لئے اتنی روشن تھی کہ خدا کی کائنات میں آپ کے علاوہ کسی نہیں یہ جملہ نہیں کیا. لو کشف الغطاءماازددت یقینا.[xxv] اگر دنیا کے حجاب ظاہری اور دنیوی میرے سامنے سے هٹ جائیں تو پھر بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا .
اور ہم یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں : حضرت علی ؑ اسم اعظم ٬نمایندہ کامل اسلام ٬پہلا مسلمان ٬شجاع اسلام اور عادل اسلام ہیں .اور ان کی گفتگو قرآن کی طرح لوگوں کوصرف ہدایت اور نیکی کی طرف لے کر چلتی ہے .
[i] نھج بلاغہ :نامہ 45 ٬ص 557
[ii] بھج البلاغۃ :خط نمبر :62 ٬ص 606
[iii] نہج البلاغہ :خطبہ37 ٬ص 91
[iv] نہج البلاغہ :خطبہ 10 ٬ص48
[v] شرح نھج البلاغہ :ابن میثم :ج 1 ٬ص 569
[vi] نہج البلاغہ :خطبہ22 ٬ص 63
[vii] المصابح المنیر :المقری ،احمد بن محمدبن علی٬ مادہ زھد:ج1 ٬ص 257 ٬انتشارات دار ھجر٬قم ٬الطبعۃالثانیۃ 1414 ھ.
لسان العرب :ابن منظور ٬محمد بن بکر٬ج2٬ص 196 ناشر ادب الحوزہ 1405 ق.
[viii] نہج البلاغہ :خطبہ 81 ٬ص 131
[ix] نھج البلاغہ :حکمت ٬439 ص784
[x] نہج البلاغہ :خطبہ 209 ٬ص 427
[xi] نہج البلاغہ :خطبہ 224 ٬ص 457
[xii] شرح ابن ابى الحديد جلد 7 صفحه 99!
[xiii] نہج البلاغہ :حکمت 77!ص 653! امالی شیخ صدوق ٬ص 371! انشتارات مکتبۃ الداوری، قم ،بی تا.
[xiv] شرح نہج البلاغہ :علامہ ذشیان حیدر جوادی ٬حکمت 77 ٬ص 653!ناشر انصاریان ٬ چاپ چہارم 1430 ھ .
[xv] نہج البلاغہ :خطبہ 33 ٬ص 184
[xvi] نہج البلاغہ :خطبہ 33 ٬ص 184
[xvii] نہج البلاغہ :خطبہ 203 ٬ص 423
[xviii] منھاج البراعۃ فی شرح نھج البلاغہ ؛میرزا حبیب اللہ الہاشمی خوئی:ج14 ٬ص 54.
[xix] نہج البلاغہ :خطبہ 15 ٬ص 53
[xx] مفتاح السادۃ فی شرح نھج البلاغہ ؛سید محمد تقی نقوی قائنی:ج2٬ص73! ناشر قائن ٬الطبعۃالاولی1384٬ش .
[xxi] نہج البلاغہ :خطبہ 131 ٬ص 253
[xxii] نہج البلاغہ :خطبہ 136 ٬ص 259
[xxiii] فی ظلال نھج البلاغہ ؛محمد جواد مغنیہ:ج ج2 ٬ص 421 ! ناشر دارالعلمہ للملایین٬الطبعۃ الرابعۃ بیروت لبنان ٬بی تا .
[xxiv] نہج البلاغہ :خط نمبر ٬47 ص 567 .
[xxv] تحف العقول عن آل رسول :ص٬236