صالح رہبری اورقیادت کے آثاروبرکات نہج البلاغہ کی نظر میں
صالح رہبری اورقیادت کے آثاروبرکات
اگرچہ اس موضوع پر سیرحاصل بحث نہیں جاسکتی البتہ صرف اس لیے کہ یہ عنوان بھی تشنہ کام نہ رہے صرف اشارہ کرتے ہیں ۔خطبہ نمبر ۴۰میں امام علی علیہ السلام خوارج کے اعتراض کے جواب میں فرماتےہیں کہ آو میں بتاوں کہ حکومت اسلامی کے آثاروبرکات کیا ہیں فرمایا:
۱:مومنین کے لیے امنیت اورآزادی کاحاصل ہونا تاکہ اپنے واجبات کو اچھے طریقے سے انجام دے سکے (یعمل فی امرتہ المومن)[1]
۲:کافر اورمشرک لوگ بھی اپنے فائدے اٹھا سکیں گے اوران پر کوئی جبرنہیں ہوگا۔(ویستمتع فیھا الکافر)[2]
۳:بیت المال کو ایمان داری سے جمع کیا جائے جو لوگوں کی خوشحالی اوران کی مشکلات کے کم ہونے کا سبب بنے گا (یجمع بہ الفیء )[3]
۴:نیک رہبر کی بدولت معاشرتی امنیت حاصل ہوگی (تامن بہ السبل )[4]
۵:مظلوم کا حق ایک ظالم سے فورا لے لیاجائے اورمظلوم کی فریاد کو سنا جائے گا چاہے ظالم کتنا ہی طاقتورکیوں نہ ہو (یوخذبہ للضعیف من القوی)[5]
حالانکہ دنیوی اورغیر الہی حکومتوں میں ایسا ممکن نہیں ہے ایسا تب ہوگا جب رہبر اورقائد صالح ہوگا اسی طرح عھدنامہ مالک اشتر میں اگر غورکریں تو امام نے خط کے شروع میں الہی اوراسلامی حکومت کہ جس کا رہبر صالح اورنیک ہو اس کی برکات کی طرف اشارہ کیا ہے مثلا
۱:شہروں کی آبادکاری صرف صالح اورنیک رہبری کا شاخسانہ ہے (جبایۃ خراجھا)[6]
۲:خداکے دشمنوں سے جنگ کرنا نہ کہ ان کے آگے سر جھکانا (جھاد عدوھا )[7]
۳:لوگوں کی اصلاح ،اچھی تربیت اوران کے رشد کی طرف توجہ کرنا (واستصلاح اھلھا )[8]
یہ مختصر سی تحریریقینا اس موضوع کا حق ادانہیں کرسکتی کیونکہ مطالب کے بحرعمیق نھج البلاغہ سے صرف چند سطور کا انتخاب کیاگیا ہے اگرچہ اس موضوع پرسیر حاصل بحث کرنے کےلیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن صرف اس موضوع کا تعارف کرانے کے لیے یہ مختصر تحریر لکھی گئی ہے ۔
حوالہ جات
:خطبہ ۴۰،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،ص۹۲[1]
:مکتوب ۱۵۳،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ،ص۵۷۲[6]
تحریر: تصورعباس