مقالات

فضائل محبت اہلبیت (ع)

فضائل محبت اہلبیت (ع)

1۔ اسا س الاسلام
922۔رسول اکرم ! اسلام کی اساس میری اور میرے اہلبیت(ع) کی محبت ہے۔( کنز العمال 12 ص 105 / 34206، درمنثور ، ص 350)۔
923۔ رسول اکرم ! ہر شے کی ایک بنیاد ہے اور اسلام کی بنیاد ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( محاسن 1 ص 247 / 461 روایت مدرک بن عبدالرحمن)۔
924۔ امام علی (ع)! رسول اکرم نے مجھ سے خطاب کرکے فرمایا کہ اسلام سادہ ہے اور اس کا لباس تقویٰ ہے اور اس کے بال و پر ہدایت ہیں اور اس کی زینت حیاء ہے اور اس کا ستون ورع ہے اور اس کا معیار عمل صالح ہے اور اس کی بنیاد میری اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( کنز العمال 13 ص 645 / 37631)۔
925۔ امام باقر (ع) ! رسول اکرم حجة الوداع کے مناسک ادا کرچکے تو سواری پر بلند ہوکر ارشاد فرمایا کہ جنت میں غیر مسلم کا داخلہ ناممکن ہے!
ابوذر (ر) نے عرض کی حضور پھر اسلام کی بھی وضاحت فرمادیں ؟ فرمایا کہ اسلام ایک جسم عریان ہے جس کا لباس تقویٰ، زینت حیاء معیار ورع، جمال دین، ثمرہ عمل صالح اور ہر شے کی ایک اساس ہے، اور اسلام کی اساس ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہے۔( امالی طوسی (ر) 84 ص 126 روایت جابر بن یزید، کافی 2 ص 46 / 2 ، امالی صدوق (ر) ص 221 /16 ، محاسن ! ص 445 / 1031 ، شرح الاخبار 3 ص 8 / 927 ، الفقیہ 4 ص 364 /5762 روایت حماد بن عمرو انس بن محمد، تحف العقول ص 52)۔
926۔ رسول اکرم ! آیت مودت کے نزول بعد جبریل (ع) نے کہا کہ اے محمد ! ہر دین کی ایک اصل اور اس کا ایک ستون اور ایک شاخ اور ایک عمارت ہوتی ہے اور اسلام کی اصل اور اس کا ستون لاالہ الا اللہ ہے اور اس کی فرع ا ور تعمیر آپ اہلبیت (ع) کی محبت ہے جس میں حق کی ہم آہنگی اور دعوت پائی جاتی ہے۔( تفسیر فرات کوفی 397 / 528 روایت علی بن الحسین بن سمط)۔
927۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت ہی دین کا نظام ہے۔( امالی طوسی (ر) 296 / 582 روایت جابر بن یزید الجعفی)۔

2۔ محبت اہلبیت (ع) محبت خدا ہے
928۔ امام علی (ع) ! میں نے رسول اکرم کی زبان مبارک سے سناہے کہ میں اولاد آد م کا سردار ہوں اور یا علی (ع) تم اور تمھاری اولاد کے ائمہ میری امت کے سردارہیں جس نے ہم سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے ہم سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ، جو ہمارا چاہنے والا ہے وہ اللہ کا چاہنے والا ہے اور جو ہم سے عداوت کرنے والا ہے ، وہ اللہ سے عداوت رکھنے والاہے ، ہمارا مطیع اللہ کا اطاعت گذار ہے اور ہمارا نافرمان اللہ کا نافرمان ہے۔( امالی صدوق (ر) 384 / 16 ، بشارة المصطفیٰ ص 151 روایت اصبغ بن نباتہ)۔
929۔ امام صادق (ع) ! جو ہمارے حق کو پہچانے اور ہم اہلبیت (ع) سے محبت کرے وہ پروردگار سے محبت کرنے والا ہے۔( کافی 8 ص 129 / 98 روایت حفص بن غیاث ، تنبیہ الخواطر 2 ص 137)۔
930۔ امام ہادی (ع) ، زیارت جامعہ ، جس نے آپ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اور جس نے آپ حضرات سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ، آپ کا موالی اللہ کا چاہنے والا ہے اور آپ سے بغض رکھنے والا اللہ سے بغض رکھنے والا ہے۔( تہذیب 6 ص 97 / 177)۔

3۔ محبت اہلبیت (ع) محبت رسول اکرم ہے۔
931۔ رسول اکرم ! اللہ سے محبت کرو کہ تمھیں اپنی نعمتوں سے فیضیاب فرمایاہے، اس کے بعد اس کی محبت کی بناپر ہم سے محبت کرو اور ہماری محبت کی بناپر ہمارے اہلبیت (ع) سے محبت کرو ۔( سنن ترمذی 5 ص 622 / 3789 ، تاریخ بغداد 4 ص 160 ، مستدرک حاکم 3 ص 162 / 16 47 ، المعجم الکبیر 3 ص 46 / 2639 ، 10 ص 281 /10664 ، شعب الایمان 1 ص 366 / 408 ، 2 ص 130 / 1378 ، اسد الغابہ 2 ص 18 ، امالی صدوق (ر) ص 298 / 6 ، علل الشرائع 139 / 1 ، بشارة المصطفیٰ ص 61 ، 237 روایت ابن عباس ، امالی طوسی (ر) ص 278 / 531 روایت عیسی ٰ بن احمد بن عیسی ٰ ، صواعق محرقہ ص 230)۔
932۔ زید بن ارقم ! میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا جب فاطمہ (ع) ایک ادنی چادر اوڑھے ہوئے اپنے گھر سے حضور کے حجرہ کی طرف جارہی تھیں اور ان کے ساتھ دونوں فرزند حسن (ع) و حسین (ع) تھے اور پیچھے پیچھے علی (ع)بن ابی طالب (ع) چل رہے تھے کہ آپ نے ان سب کو دیکھ کر فرمایا کہ جس نے ان سب سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ، اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔ ( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص 91 / 126 )۔
933۔ اما م باقر (ع) ! خدا سے محبت کرو اور اس کی وجہ سے رسول خدا سے محبت کرو اور ان کی وجہ سے ہم سے محبت کرو ۔( مناقب امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 160 / 637 روایت عبیداللہ بن عمر بن علی (ع) ابی طالب (ع) )۔

4۔ محبت اہلبیت تحفہ الہی ہے
934۔ رسول اکرم ! پروردگار نے اسلام کو خلق کرنے کے بعد اس کا ایک میدان قرار دیا اور ایک نور۔ ایک قلعہ بنایا اور ایک مددگار، اس کا میدان قرآن مجیدہے اور نور حکمت، قلعہ نیکی ہے اور انصار ہم اور ہمارے اہلبیت (ع) اور شیعہ، لہذا ہمارے اہلبیت (ع) ، ان کے شیعہ اور ان کے اعوان و انصار سے محبت کرو کہ مجھے معراج کی رات جب آسمان پر لے جایا گیا تو جبریل (ع) نے آسمان والوں سے میرا تعارف کرایا اور پروردگار نے میری محبت، میرے اہلبیت(ع) اور شیعوں کی محبت ملائکہ کے دل میں رکھ دی جو قیامت تک امانت رہے گی ، اس کے بعد مجھے واپس لاکر زمین والوں میں متعارف کرایا کہ میری اور میرے اہلبیت (ع) اور ان کے شیعوں کی محبت میری امت کے مومنین کے دلوں میں امانت پروردگار ہے جس کی تا قیامت حفاظت کرتے رہیں گے۔ ( کافی 2 ص 46 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 157 روایت عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنئ عن الجواد (ع))۔
935۔ امام باقر (ع) میں جانتاہوں کہ تم لوگ جو ہم سے محبت کررہے ہو یہ تمھارا کارنامہ نہیں ہے، پروردگار نے ہماری محبت تمھارے دلوں میں پیدا کی ہے۔(محاسن) ص 246 / 457 روایت ابوبصیر۔
936۔امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی محبت کو پروردگار اپنے عرش کے خزانوں سے اس طرح نازل کرتاہے جس طرح سونے چاندی کے خزانے نازل ہوتے ہیں ، اور اس کا نزول بھی ایک مخصوص مقدار میں ہوتاہے اور مالک اسے صرف مخصوص افراد کو عنایت کرتاہے، محبت کا ایک مخصوص ابرکرم ہے جب پروردگار کسی بندہ سے محبت کرتاہے تو اس پر اس ابرکرم کو برسادیتاہے اور اس سے شکم مادر میں بچہ بھی فیضیاب ہوجاتاہے۔( تحف العقول ص 313 روایت جعفر محمد بن النعمان الاحوال)۔

5۔ محبت اہلبیت (ع) افضل عبادت ہے
937۔ رسول اکرم ! آل محمد سے ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور اس پر مرنے والا جنت میں داخل ہوجاتاہے۔( الفردوس 2ص 142 / 2721 ، ینابیع المودة 3 ص 191 روایت ابن مسعود)۔
938۔ رسول اکرم ! ابوذر کو وصیت فرماتے ہیں، دیکھو سب سے پہلی عبادت پروردگار معرفت الہی ہے، اس کے بعد مجھ پر ایمان اور اس امر کا اقرار کہ پروردگار نے مجھے تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر ، داعی الی اللہ اور سراج منیر بناکر ارسال کیاہے، اس کے بعد میرے اہلبیت (ع) کی محبت جن سے خدا نے ہر رجس کو دور رکھاہے اور کمال طہارت کی منزل پر فائز کیاہے۔( امالی طوسی (ر) 526 / 1162 ، مکارم الاخلاق 2 ص 363 / 2661 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 51 ) اعلام الدین ص 189)۔
939۔ امام علی (ع) ! تمام نیکیوں میں سب سے بہتر ہماری محبت ہے اور تمام برائیوں میں سب سے بدتر ہماری عداوت ہے۔( غر ر الحکم ص 3363)۔
940۔ امام صادق (ع) ! ہر عبادت سے بالاتر ایک عبادت ہے لیکن ہم اہلبیت (ع) کی محبت تمام عبادات سے افضل و برتر ہے۔( المحاسن 1 ص 247 / 462 روایت حفص الدہان)۔
941۔ فضیل ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کی کہ قرب خدا کے لئے سب سے بہتر فریضہ کون سا ہے؟ فرمایا بہترین وسیلہٴ تقرب خدا کی اطاعت، اس کے رسول کی اطاعت اور اس کے رسول اور اولی الامر کی محبت ہے۔( المحاسن 1 ص 227/ 463، کافی 1 ص 187 / 12 روایت محمد بن الفضیل)۔

6۔ محبت اہلبیت (ع) باقیات صالحات میں ہے
942۔ محمد بن اسماعیل بن عبدالرحمان الجعفی ! میں اور میرے چچا حصین بن عبدالرحمان امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں قریب بلاکر بٹھایا اور فرمایا کہ یہ کس کے فرزند ہیں ؟ انھوں نے عرض کی کہ میرے بھائی اسماعیل کے فرزند ہیں!۔
فرمایا خدا اسماعیل پر رحمت نازل کرے اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے تم نے انھیں کس عالم میں چھوڑا ہے، انھوں نے عرض کی کہ بہترین حال میں کہ خدا نے ہمیں آپ کی محبت عنایت فرمائی ہے۔
فرمایا حصین ! دیکھو ہم اہلبیت (ع) کی مودت کو معمولی مت سمجھنا یہ باقی رہ جانے والی نیکیوں میں ہے، انھوں نے کہا کہ حضور ہم اسے معمولی نہیں سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اس پر شکر خدا کرتے ہیں کہ اس سے فیضیاب فرمایا ۔( اختصاص ص 86 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 215)۔
خصائص محبت اہلبیت (ع)

1۔ علامت ولادتِ صحیح
943۔رسول اکرم ۔ لوگو ! اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ لو کہ علی (ع) کسی گمراہی کی دعوت نہیں دے سکتے ہیں اور کسی ہدایت سے دور نہیں کرسکتے ہیں جو اولاد ان سے محبت کرے وہ تمھاری ہے ورنہ پھر تمھاری نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص225 / 730)۔
944۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم نے ابوذر سے فرمایا کہ جو ہم اہلبیت (ع) سے محبت رکھتاہے اسے شکر خدا کرنا چاہیئے کہ اس نے پہلی ہی نعمت عنایت فرمادی ہے ابوذر نے عرض کی حضور یہ پہلی نعمت کیا ہے ؟فرمایا حلال زادہ ہونا کہ ہماری محبت حلال زادہ کے علاوہ کسی کے دل میں نہیں ہوسکتی ہے۔( امالی طوسی (ر) ص 455 / 1918 روایت حسین بن زید و عبداللہ بن ابراہیم الجعفری عن الصادق (ع))۔
945۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! جو مجھ سے تم سے اورتمھاری اولاد کے ائمہ سے محبت کرے اسے حلال زادہ ہونے پر شکر خدا کرنا چاہیئے کہ ہمارا دوست صرف حلال زادہ ہی ہوسکتاہے اور ہمارا دشمن صرف حرام زادہ ہی ہوسکتاہے، ( امالی صدوق ص 384 / 14 ، معانی الاخبار 161 / 3 ، بشارہ المصطفیٰ ص 150 روایت زید بن علی (ع) )۔
946۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! عرب میں تمھارا کوئی دشمن ناتحقیق کے علاوہ نہیں ہوسکتاہے ۔( مناقب خوارزمی 323 / 330 ، روایت ابن عباس، فرائد السمطین 1 ص 135 / 97 ، خصال 577 /1 ، علل الشرائع 143 / 7 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 267۔
947۔ امام علی (ع)! کوئی کا فر یا حرامزادہ مجھ سے محبت نہیں کرسکتاہے۔( شرح نہج البلاغہ 4 ص 110 ، روایت ابن مریم انصاری ،شرح الاخبار 1 ص 152 / 92 ، مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 208۔
948۔ امام باقر (ع)! جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے ابتدائی نعمت پر شکر خدا کرنا چاہیئے کسی نے سوال کیا کہ یہ ابتدائی نعمت کیا ہے؟ فرمایا حلال زادہ ہونا ۔( امالی صدوق (ر) 384 / 13 ، علل الشرائع 141 / 2 ، معانی الاخبار 161 / 2 روایت ابومحمد الانصاری)۔
949۔ امام صادق (ع) ! جو شخص اپنے دل میں ہماری محبت کی خنکی کا احساس کرے اسے اپنی ماں کو دعائیں دینا چاہئیں کہ اس نے باپ کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے۔( معانی الاخبار 161 / 4 ، بشارة المصطفیٰ ص 9 روایت مفضل بن عمر)۔
950۔ ابن بکیر ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ جو شخص ہم سے محبت کرے اور محل عیب میں نہ ہو اس پر اللہ خصوصیت کے ساتھ مہربان ہے میں نے عرض کی کہ محل عیب سے مراد کیا ہے؟ فرمایا ۔ حرام زادہ ہونا ۔( معانی الاخبار 166 /1)۔
951۔ امام صادق (ع) ! خدا کی قسم عرب و عجم میں ہم سے محبت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اہل شرف اور اصیل گھر والے ہیں اور ہم سے دشمنی کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کے نسب میں نجاست، گندگی اور غلط نسبت پائی جاتی ہے۔( کافی 8 ص 316 / 497)۔
952۔عبادة بن الصامت ! ہم اپنی اولاد کا امتحان محبت علی (ع) کے ذریعہ کیا کرتے تھے کہ جب کسی کو دیکھ لیتے تھے کہ وہ علی (ع) سے محبت نہیں کرتاہے تو سمجھ لیتے تھے کہ یہ ہمارا نہیں ہے اور صحیح نکاح کا نتیجہ نہیں ہے۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ص 224 / 727 ، نہایة 1 ص 161 ، لسان العرب 4 ص 87)۔ تاج العروس 6 ص 118 ، مجمع البیان 9 ص 160 ، شرح الاخبار 1 ص 446 / 124 ، رجال کشی 1 ص 241 ، مناقب ابن شہر آشوب 3ص 207۔
953۔ محبوب بن ابی الزناد ! انصار کا کہنا تھا کہ ہم لوگوں کے حرامزادہ ہونے کو بغض علی (ع) کے ذریعہ پہچان لیا کرتے تھے۔
مولف ! عیسی بن ابی دلف کا بیان ہے کہ ان کا بھائی ولف جس کے نام سے ان کے والد کو ابودلف کہا جاتا تھا، حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کی برابر برائی کیا کرتا تھا اور انھیں جاہل قرار دیا کرتا تھا، ایک دن اس نے اپنے والد کی بزم میں ان کی عدم موجودگی میں یہ کہنا شروع کردیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ علی (ع) کی تنقیص کرنے والا حرامزادہ ہوتاہے حالانکہ تم لوگ جانتے ہو کہ میرا باپ کس قدر غیرت دار ہے اور وہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کی زوجہ کے بارے میں کوئی شخص زبان کھول سکے اور میں برابر علی (ع) سے عداوت کا اعلان کررہاہوں جو اس بات کی علامت ہے کہ یہ بات بے بنیاد ہے۔
اتفاق امر کہ اچانک ابودلف گھر سے نکل آئے، لوگوں نے ان کا احترام کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلف کا بیان تو سن لیا، اب بتائیے کیا حدیث معروف غلط ہے جبکہ اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، تو ابودلف نے کہا کہ یہ ولد الزنا بھی ہے اور ولد الحیض بھی ہے اور اس کا واقعہ یہ ہے کہ میں بیمار تھا، میری بہن نے اپنی کنیز کو عیادت کے لیے بھیجا، مجھے وہ پسندتھی ، میں نے اپنے نفس کو بے قابو دیکھ کر اس سے تعلقات قائم کرلئے جبکہ وہ ایام حیض میں تھی اور اس طرح وہ حاملہ بھی ہوگئی اور بعد میں اس نے بچہ کو میرے حوالہ کردیا۔ جس کے بعد دلف اپنے باپ کا بھی دشمن ہوگیا کہ اس کا رجحان تشیع اور محبت علی (ع) کی طرف تھا اور باب کے مرنے کے بعد مسلسل اسے بُرا بھلا کہنے لگا۔( مروج الذہب 4 ص 62 ، کشف الیقین 276 / 573)۔

2۔ شرط توحید
954۔ جابر بن عبداللہ انصاری ! ایک اعرابی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ حضور کیا جنت کی کوئی قیمت ہے؟ فرمایا، بیشک اس نے کہا وہ کیا ہے ؟ فرمایا لا الہ الا اللہ جسے بندہ مومن خلوص دل کے ساتھ زبان پر جاری کرے۔
اس نے کہا کہ خلوص دل کا مطلب کیا ہے؟ فرمایا میرے احکام پر عمل اور میرے اہلبیت (ع) کی محبت ۔
اس نے عرض کیا اہلبیت (ع) کی محبت بھی کلمہ توحید کا کوئی حق ہے؟ فرمایا یہ سب سے عظیم ترین حق ہے۔( امالی طوسی (ر) ص 583 / 1207)۔
955۔ امام علی (ع) ! کلمہ لا الہ الا اللہ کے بہت سے شروط ہیں اور میں اور میری اولاد انھیں شروط میں سے ہیں ۔( غرر الحکم ص 3479)۔
956۔ اسحاق بن راہویہ ! جب امام علی رضا (ع) نیشاپور پہنچے تو لوگوں نے فرمائش کی کہ حضور ہمارے درمیان سے گذر جائیں اور کوئی حدیث بیان نہ فرمائیں یہ کیونکر ممکن ہے۔؟
آپ نے محمل سے سر باہر نکالا اور فرمایا کہ مجھ سے میرے والد بزرگوار موسیٰ بن جعفر (ع) نے فرمایا کہ انھوں نے اپنے والد بزرگوار حضرت جعفر بن محمد(ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت محمد بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد امام حسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے اور انھوں نے رسول اکرم سے اور انھوں نے جبریل کی زبان سے یہ ارشاد الہی سنا ہے کہ لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوجائیگا۔
یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے اور پھر ایک مرتبہ پکارکر فرمایا لیکن اس کی شرائط ہیں اور انھیں میں سے ایک میں بھی ہوں ۔( التوحید 25/23 ، امالی صدوق (ر) ص 195 /8 عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 135 / 4 ، معانی الاخبار ص 371 /1 ، ثواب الاعمال ص 21 / 1 ، بشارة المصطفیٰ ص 269 ، روضة الواعظین ص 51)۔

3۔ علامت ایمان
957۔ رسول اکرم ! مجھ سے میرے پروردگار نے عہد کیا ہے کہ میرے اہلبیت (ع) کی محبت کے بغیر کسی بندہ کے ایمان کو قبول نہیں کرے گا۔ ( احقاق الحق 9 ص 454 نقل از مناقب مرتضویہ و خلاصة الاخبار)۔
958۔ رسول اکرم ! کوئی انسان صاحب ایمان نہیں ہوسکتاہے جب تک میں اس کے نفس سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میرے اہل اس کے اہل سے زیادہ محبوب نہ ہوں اور میری عترت اس کی عترت سے زادہ محبوب نہ ہو اور میری ذات اس کی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہو۔( المعجم الاوسط 6 ص 59 / 5790 ، المعجم الکبیر 7 ص 75 ، 6416 ، الفردوس 5 ص 154 ، 7769، امالی صدوق (ر) ص 274 / 9 ، علل الشرائع ص 140 / 3 ، بشارة المصطفیٰ ص 53 ، روایت عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ روضة الواعظین ص 298)۔
959۔ رسول اکرم ! ایمان ہم اہلبیت (ع) کی محبت کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتاہے ( کفایة الاثر ص 110 روایت واثلہ بن الاسقع)۔
960۔ امام علی (ع) ! کسی بندہ مومن کا دل ایمان کے ساتھ آزمایا ہوا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنے دل میں ہماری محبت کو پاکر ہمیں دوست رکھتاہے اور کسی بندہ سے خدا ناراض نہیں ہوتاہے مگر یہ کہ ہمارے بغض کو اپنے دل میں جگہ دے کر ہم سے دشمنی کرتاہے ، لہذا ہمارا دوست ہمیشہ منتظر رحمت رہتاہے اور گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھلے رہتے ہیں اور ہمارا دشمن ہمیشہ جہنم کے کنارہ رہتاہے، خوش بختئ ہے اہل رحمت کے لئے اس رحمت کی بنیاد پر اور ہلاکت و بدبختئہے اہل جہنم کیلئے اس بدترین ٹھکانہ کی بنا پر( امالی طوسی (ر) 43 / 34 ، امالی مفید ص 270 / 2 ، بشارة المصطفیٰ ص 25 ، کشف الغمہ 1 ص 140 روایات حارث اعور)۔
961۔ رسول اکرم ! جس نے علی (ع) سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اس نے خدا سے بغض رکھا اور اے علی (ع) تمھارا دوست مومن کے علاوہ کوئی نہ ہوگا اور تمھارا دشمن کافر او ر منافق کے علاوہ کوئی نہ ہوگا۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 188 / 671 از یعلیٰ بن مرة الثقفی)۔
962۔ امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم کا یہ عہد ہے کہ مجھ سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہ کرے گا اور منافق کے علاوہ کوئی دشمنی نہ کرے گا ۔( سنن نسائی 8 ص 117 ، مسند احمد بن حنبل 1 ص 204 / 731 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 564 / 948 ، کنز الفوائد 2 ص 83 ، الغارات 2 ص 520 ، تاریخ بغداد 2 ص 255 / 14 ص 426 روایات زرّ بن جیش 80 ص 417 روایت علی بن ربیعہ الوالبی)۔
963۔ ام سلمہ ! میں نے رسول اکرم کو علی (ع)سے یہ فرماتے سناہے کہ مومن تم سے دشمنی نہیں کرسکتاہے اور منافق تمھارا دوست نہیں ہوسکتاہے۔( مسند احمد بن حنبل 10 ص 176 / 26569 ، سنن ترمذی 5 ص 635 / 3717 ، البدایة والنہایة 7 ص 55 ۔3 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع)2 ص 208 /99 ، محاسن 1 ص 248 / 456 ، اعلام الدین ص 278 ، عوالی اللئلالی 4 ص 85 / 95 ، احتجاج 10 ص 149 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 4 ص 83)۔
964۔ ابوذر ! میں نے رسول اکرم کو حضرت علی (ع) سے فرماتے سناہے کہ اللہ نے مومنین سے تمھاری محبت کا عہد لے لیا ہے اور گویا منافقین سے تمھاری عداوت کا عہد ہوگیاہے ، اگر تم مومن کی ناک بھی کاٹ دو تو تم سے دشمنی نہیں کرے گا اور اگر منافق پر دینا رنچا در کردو تو بھی تم سے محبت نہیں کرے گا یا علی (ع) تم سے محبت نہیں کرے گا مگر مومن اور تم سے عداوت نہیں کرے گا مگر منافق ۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 204 / 695 ، الغارات 2 ص 520 /وایت حبة القرتی)۔
965۔ امام علی (ع) ! اگر میں مومن کی ناک بھی تلوار سے کاٹ دوں کہ مجھ سے عداوت کرے تو نہیں کرے گا اور اگر منافق پر ساری دنیاانڈیل دوں کہ مجھ سے محبت کرلے تونہیں کرے گا اس لئے کہ یہ فیصلہ رسول اکرم کی زبان سے ہوچکاہے کہ یاعلی (ع) ! مومن تم سے دشمنی نہیں کرسکتاہے اور منافق تم سے محبت نہیں کرسکتاہے(نہج البلاغہ حکمت ص 45 ، امالی طوسی (ر) ص 206 / 353 ، روایت سوید بن غفلہ ، روضة الواعظین ص 323 ، کافی 8 ص 268 / 396)۔
966۔ امام باقر (ع) ! ہماری محبت ایمان ہے اور ہماری عداوت کفر ہے۔( کافی 1 ص 188 /12 محاسن 1 ص 247 / 463 روایت محمد بن الفضل ، تفسیر فرات کوفی ص 228 / 566 زیاد بن المنذر )۔
967 ۔ امام باقر (ع) ! اے ابا ابورد اور اے جابر ! تم دونوں قطعیت تک جب بھی کسی مومن کے نفس کی تفتیش کروگے تو علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی محبت ہی پاؤگے اور اسی طرح قیامت تک اگر منافق کے نفس کی جانچ کروگے تو امیر المومنین (ع) کی دشمنی ہی پاؤگے، اس لئے کہ پروردگار نے رسول اکرم کی زبان سے یہ فیصلہ سنادیا ہے، کہ یا علی (ع) ! تم سے مومن دشمنی نہیں کرے گا اور کافر یا منافق محبت نہیں کرے گا اور ظلم کا حامل ہمیشہ خائب و خاسر ہی ہوتاہے ، دیکھو ہم سے سمجھ بوجھ کر محبت کرو تا کہ راستہ پاجاؤ اور کامیاب ہوجاؤ ہم اسلامی انداز کی محبت کرو ۔( تفسیر فرات کوفی ص 260 / 355 روایت جابر بن یزید و ابی الورد)۔
968۔امام باقر (ع) ! جو شخص یہ چاہتاہے کہ یہ معلوم کرے کہ وہ اہل جنّت میں سے ہے اسے چاہیئے کہ ہماری محبت کو اپنے دل پر پیش کرے، اگر دل اسے قبول کرلے تو سمجھے کہ مومن ہے۔( کامل الزیارات ص 193 از ابوبکر الخصرمی)۔
969۔ علی بن محمد بن بشر ! میں محمد بن علی (ع) کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک سوار آیا اور اپنے ناقہ کو بٹھاکر آپ کے پاس آیا اور ایک خط دیا ، آپ نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ مہلب ہم سے کیا چاہتاہے ؟ خدا کی قسم کہ ہمارے پاس نہ کوئی دنیا ہے اور نہ سلطنت۔
اس نے کہا کہ میری جان آپ پر قربان ، اگر کوئی شخص دنیا و آخرت دونوں چاہتاہے تو وہ آپ اہلبیت(ع) ہی کے پاس ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ماشاء اللہ ، یاد رکھو کہ جو ہم سے برائے خدا محبت کرے گا اللہ اسے اس محبت کا فائدہ دے گا اور جو کسی اور کے لئے محبت کرے گا تو خدا جو چاہتاہے فیصلہ کرسکتاہے، ہم اہلبیت (ع) کی محبت ایک ایسی شے ہے جسے پروردگار دلوں پر ثبت کردیتاہے اور جس کے دل پر خدا ثبت کردیتاہے اسے کوئی مٹا نہیں سکتاہے، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ہے ” یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے دل میں خدا نے ایمان لکھ دیا اور ان کی اپنی روح سے تائید کردی ہے“ … ہم اہلبیت (ع) کی محبت ایمان کی اصل ہے۔( شواہد التنزیل 2 ص 330 / 971 ، تاویل الآیات الظاہرة ص 650۔

4۔ قیامت کا سب سے پہلا سوال
970۔ رسول اکرم ! قیامت کے دن سب سے پہلے ہم اہلبیت (ع) کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 62 / 258 روایت حسن بن عبداللہ بن محمد بن العباس الرازی التمیمی)۔
971۔ ابوبرزہ رسول اکرم سے روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن کسی بندہ کے قدم آگے نہیں بڑھیں گے جب تک چار باتوں کا سوال نہ کرلیا جائے، اپنی عمر کو کہاں صرف کیاہے، اپنے جسم کو کہاں استعمال کیاہے، اپنے مال کو کہاں خرچ کیاہے اور کہاں سے حاصل کیا ہے اور پھر ہم اہلبیت(ع) کی محبت ! ( المعجم الکبیر 11 ص 84 / 11177 ، المعجم الاوسط 9 ص 155 / 9406 ، مناقب ابن المغازلی ص 120 /157 روایات ابن عباس ، فرائد السمطین 2 ص 301 / 557 روایت داؤد بن سلیمان، امالی صدوق (ر) 42 / 9 ، خصال 253 / 125 ، روایت اسحاق بن موسیٰ عن الکاظم (ع) ، تحف العقول ص 56 ، امالی طوسی (ر) ص 593 / 1227 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 75 روایت ابوبریدہ الاسلمی ، جامع الاخبار ص 499 / 1384 عن الرضا (ع) ، روضة الواعظین ص 546 ، شرح الاخبار 2 ص 508 / 898 روایت ابوسعید خدری )۔
972۔ ابوہریرہ ! رسول اکرم نے فرمایاہے کہ کسی بندہ کے قدم روز قیامت آگے نہ بڑھیں گے جب تک چار باتوں کا سوال نہ کرلیا جائے ، جسم کو کہاں تھکایا ہے؟ عمر کو کہاں صرف کیا ہے ؟ مال کو کہاں سے حاصل کیا ہے اور کہاں خرچ کیا ہے ؟ اور ہم اہلبیت (ع) کی محبت ۔
کسی نے عرض کیا کہ حضور آپ حضرات کی محبت کی علامت کیا ہے؟ آپ نے علی (ع) نے کاندھے پر رکھ کر فرمایا … یہ … (المعجم الاوسط 2 ص 348 / 1291 ، مناقب خوارزمی ص 77 / 59)۔
973۔ حنان بن سدیر ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ہے کہ میں امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا، آپ نے ایسا کھانا پیش فرمایا جو میں نے کبھی نہیں کھایا تھا اور اس کے بعد فرمایا کہ سدیر ! تم نے ہمارے کھانے کو کیسا پایا؟ میں نے عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ، ایسا کھانا تو میں نے کبھی نہیں کھایا ہے، اور نہ شائد کبھی کھاسکوں گا، اس کے بعد میری آنکھوں میں آنسو آگئے!
فرمایا سدیر ! کیوں رورہے ہو؟ میں نے عرض کی ، فرزند رسول قرآن مجید کی ایک آیت یاد آگئی !
فرمایا وہ کونسی آیت ہے؟ میں نے عرض کی کہ ” قیامت کے دن تم لوگوں سے نعمت کے بارے میں سوال کیا جائے گا “ مجھے خوف ہے کہ یہ کھانا بھی اسی نعمت میں شمار ہوجس کا حساب دینا پڑے۔
امام ہنس پڑے اور فرمایا کہ سدیر ! تم سے نہ اچھے کھانے کے بارے میں سوال ہوگا اور نہ نرم لباس کے بارے میں اور نہ پاکیزہ خوشبو کے بارے میں ۔ یہ سب تو ہمارے ہی لئے خلق کئے گئے ہیں اور ہم مالک کے لئے خلق ہوئے ہیں تا کہ اس کی اطاعت کریں۔
میں نے عرض کی تو حضور ! یہ نعمت کیا ہے ؟ فرمایا علی (ع) اور ان کی اولاد کی محبت ! جس کے بارے میں خدا روز قیامت سوال کرے گا کہ تم نے اس نعمت کا کس طرح شکریہ ادا کیا ہے اور اس کی کس قدردانی کی ہے۔( تفسیر فرات الکوفی ص 605 / 763)۔
تربیت اولاد بر حب اہلبیت (ع)
974۔ رسول اکرم ! اپنی اولاد کی تربیت کرو میری محبت ، میری اہلبیت (ع) کی محبّت اور قرآن کی تعلیم پر ۔(احقاق الحق 18 / 498)۔ 975۔ رسول اکرم ! اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو، اپنے پیغمبر کی محبّت پیغمبر کے اہلبیت (ع) کی محبت اور قرائت قرآن ، اس لئے کہ حاملان قرآن انبیاء و اولیاء کے ساتھ اس دن بھی سایہ رحمت میں ہوں گے جس دن سایہ رحمت الہی کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ۔( کنز العمال 16 / 456 / 45409 نقل از فوائد عبدالکریم الشیرازی ، والدیلمی و ابن النجار، فرائد السمطین 2ص 304 / 559 از مخارق بن عبدالرحمان ، صواعق محرقہ ص 172 ، احقاق الحق 18 / 297 نقل از ابویعلیٰ )۔
976۔ ابوالزبیر المکی ! میں نے جابر کو دیکھا کہ انصار کے راستوں اور اجتماعات کا دورہ کررہے ہیں عصا کا سہارا لئے ہوئے … اور کہتے جارہے ہیں اپنی اولاد کو محبت علی (ع) کی تربیت دو اور اگر قبول نہ کریں تو ان کی ماں کے بارے میں تحقیق کرو ۔( علل الشرائع ص 142 ، الفقیہ 3 ص 493 / 4744 ، رجال کشی 1 ص 236 ، الثاقب فی المناقب / 123)۔
977۔ ابوالزبیر ، عطیہ کو فی جواب ! ہر ایک کا بیان ہے کہ ہم نے جابر کو عصا کا سہارا لے کر مدینہ کی گلیوں اور محفلوں کا دورہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جب وہ اس روایت کا اعلان کررہے تھے اور کہہ رہے تھے اے گروہ انصار ! اپنی اولاد کو محبت علی (ع) کی تربیت دو اور جو انکار کردے اس کی ماں کے بارے میں غور کرو ۔( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 67)۔
نوٹ ! روایت سے مراد حدیث ” علی خیر البشر فمن ابیٰ فقد کفر “ علی (ع) تمام انسانوں سے افضل ہیں اور جو اس کا انکار کردے وہ کافر ہے“
978۔ امام صادق (ع) (ع)! اے میرے شیعو ! اپنی اولاد کو عبدی کے اشعار سکھاؤ کہ وہ دین خدا پر ہیں ۔( رجال کشی 2 ص 704 / 748 از سماعة)۔
نوٹ ! ابومحمد سفیان بن مصعب العبدی الکندی کا شمار ان شعراء اہلبیت (ع) میں ہوتاہے جو ہر اعتبار سے ان سے قربت اور اخلاص رکھتے تھے اور انھوں نے بے شمار اشعار امیر المومنین (ع) اور ان کی ذریت کے بارے میں لکھے ہیں جن میں ان حضرات کی مدح بھی کی ہے اور ان کے مصائب کا تذکرہ بھی کیاہے اور اہلبیت (ع) کے علاوہ کسی کے بارے میں ایک شعر بھی نہیں لکھاہے۔
شیخ الطائفہ نے انھیں امام صادق (ع) کے اصحاب میں شمار کیا ہے لیکن یہ صحابیت صرف محبت ، آمد و رفت یا ہمزمان ہونے کی بناپر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد حضرت کی بارگاہ میں تقرب ، ان سے اخلاص اور اہلبیت(ع) سے صحیح قلب سے محبت ہے یہاں تک کہ امام (ع) نے اپنے شیعوں کو ان کے اشعار کی تعلیم دینے کا حکم دیا ہے اور ان اشعار کو دین خدا پر مبنی قرار دیاہے جیسا کہ کشی نے اپنے رجال ص 254 میں نقل کیاہے۔
ان کی صداقت اور ان کے اخلاص و استقامت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ امام (ع) نے انھیں وہ مراثی لکھنے کا حکم دیا تھا جو خواتین اپنے اجتماعات غم میں پڑھا کریں ۔
افسوس کہ مورخین نے ان کی تاریخ ولادت و وفات کا تذکرہ نہیں کیا ہے، البتہ ان کا امام جعفر صادق (ع) سے روایت کرنا اور سید حمیری کے ساتھ اجتماع جن کی ولادت 105 ء ھ میں ہوئی ہے اور 178 ء ھ میں وفات ہوئی ہے اور اسی طرح ابوداؤد المسترق کے ساتھ جمع ہونا اس بات کی علامت ہے کہ عبدی کی زندگی کا سلسلہ سید حمیری کے سال وفات تک باقی تھا۔
فہرست نجاشی کی بناپر ابوداؤد کا انتقال 231 ء ھ میں ہوا ہے اور کشی کی بناپر 160 ء ھ میں ہوا ہے اور عبدی سے روایت کرنے کے لئے کم سے کم اتنی عمر تو بہر حال درکار ہے جس میں انسان روایت کرنے کے قابل ہوجائے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ عبدی کی زندگی کا سلسلہ سید حمیری کی وفات تک باقی تھا لہذا اعیان الشیعہ 1 ص 370 کا یہ بیان کہ عبدی کا انتقال تقریباً 120 ء ھ میں ابوداؤد المسترق کی ولادت سے تقریباً 40 سال پہلے ہوگیا ہے خلاف تحقیق اور خلاف قرائن ہے۔(الغدیر 2 ص 290 ۔ 328 حالات عبدی کوفی)۔
واضح رہے کہ عبدی کا قصیدہ بائیہ بہت طویل ہے جس کے مدحیہ اشعار کا خلاصہ یہ ہے۔
میرا سلام اس قبر تک پہنچا دو جو مقام غری ( نجف) میں ہے اور جس میں عرب و عجم کا سب سے زیادہ وفادار انسان آرام کررہاہے۔
اور اپنا شعار ان کی بارگاہ میں خشوع کو قرار دو اور آواز دو اے بہترین پیغمبر کے بہترین وصی ۔
تو نبی ہادی کا بھائی بھی ہے اور مددگار بھی ، تو حق کا اظہار کرنے والا بھی ہے اور تمام کتب سماویہ کا ممدوح بھی۔
تو بضعة الرسول فاطمہ زہرا کا شوہر بھی ہے اور منتخب روزگار اولاد رسول کا باپ بھی ہے۔
وہ اولاد رسول جن میں سب راہ خدا میں زحمت برداشت کرنے والے دین خدا کی مدد کرنے والے اور اللہ کے لئے کام کرنے والے افراد ہیں۔
یہ سب گمراہی کی تاریک راتوں کے راہنما ہیں اور ان کا نور ہدایت ستاروں سے زیادہ جگمگارہاہے۔
میں نے ان کی محبت کا اظہار کیا تو مجھے رافضی کا لقب دیدیا گیا اور مجھے اس راہ میں یہ لقب کس قدر پیاراہے۔
صاحب عرش کی صلوات و رحمت ہر آن فاطمہ (ع) بنت اسد کے اس لال پر ہے جو تما م رنج و غم کا دور کرنے والا ہے۔
اور ان کے دونوں فرزندوں پر جن میں سے ایک زہر دغا سے شہید ہونے والا اور دوسرا خاک کربلا پر شہید ہونے والا ہے۔
اور اس عابد (ع) و زاہد پر جو اس کے بعد ہے اور اس باقر (ع) العلم پر جو منتہاے مطلوب سے قریب تر ہے۔
اور جعفر (ع) پر اور ان کے فرزند موسیٰ (ع) پر اور ان کے بعد رضا (ع) نیک کردار پر اور جواد (ع) شب زندہ دار پر ۔
اور عسکر یین (ع) پر اور اس مہدی پر جو قائم ، صاحب (ع) الامر اور لباس ہدایت سے آراستہ و پیراستہ ہے۔
جو زمین کو ظلم سے بھرنے کے بعد انصاف سے بھر دے گا اوراہل فتنہ و فساد کا قلع قمع کردے گا۔
اور بہترین مجاہدین راہ خدا کی قیادت کرنے ولاا ہے اس جنگ میں جو سرکش باغیوں کے خلاف ہونے والی ہے۔
عبدی نے دوسرے قصیدہ میں اپنی محبت آل (ع) کا اظہار اس انداز سے کیا ہے۔
اے میرے سردارو ! اے اولاد علی (ع) اے آل طہ اور آل ص کون تمھارا مثل ہوسکتاہے جبکہ تم زمین میں اللہ کے جانشین ہو۔
تم وہ نجو م ہدایت ہو جن کے ذریعہ خدا ہر ہادی کو ہدایت دیتاہے۔
اگر تمھاری راہنمائی نہ ہوتی تو ہم گمراہ ہوجاتے اور ہدایت و گمراہی مخلوط ہوکر رہ جاتے۔
میں ہمیشہ تمھاری محبّت میں محبت کرتاہوں اور تمھارے دشمنوں سے دشمنی کرتاہوں۔
میں نے تمھاری محبت کے علاوہ کوئی زاد راہ نہیں فراہم کیا ہے اور یہی بہترین زاد راہ ہے۔
یہی وہ ذخیرہ ہے جس پر روز قیامت میرا اعتماد اور بھروسہ ہے۔
آپ حضرات کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے برائت ہی میرا کل دین و ایمان ہے!۔
ترویج محبوبیت اہلبیت (ع)
979۔ امام صادق (ع) ! اللہ اس بندہ پر رحم کرے جو ہمیں لوگوں میں محبوب بنائے اور مبغوض نہ بنائے۔( کافی 8 ص 229 / 293 ، تنبیہ الخواطر 2ص 152 روایت ابوبصیر، مشکٰوة الانوار ص 180 روایت علی بن ابی حمزہ ، الاعتقادات و تصحیح الاعتقادات ص 109 ، دعائم الاسلام 1 ص 61 ، فقہ الرضا (ع) ص 306)۔
980۔ امام صادق (ع) ! اللہ اس بندہ پر رحمت کرے جو لوگوں کی محبت کو ہماری طرف کھینچ کرلے آئے اور ان سے وہ بات کرے جو انھیں پسندیدہ ہو اور وہ بات نہ کرے جو ناپسند ہو۔( امالی صدوق (ر) 88/ 8 روایت مدرک بن زہبیر ، الخصال 25 / 89 ، بشارة المصطفیٰ ص 15 ، شرح الاخبار 3 ص 590 / 1456 ، روایت مدرک بن الہزہاز)۔
981۔ علقمہ ! میں نے امام صادق (ع) سے گذارش کی کہ میں آپ کے قربان کوئی نصیحت فرمائیے ؟ فرمایا کہ میں تمھیں تقوائے الہی ،احتیاط ، عبادت، طول سجدہ ، ادائے امانت ، صدق حدیث ، ہمسایہ کے ساتھ بہترین سلوک کی وصیت کرتاہوں، دیکھو اپنے قبیلہ کے ساتھ تعلقات ٹھیک رکھنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، جنازوں کی مشایعت کرنا اور ہمارے واسطے باعث زینت بننا باعث ننگ و عار نہ بننا ہمیں لوگوں کے نزدیک محبوب بنانا اور مبغوض نہ بنانا، ہماری طرف ہر مودت کو کھینچ کر لے آؤ اور ہر برائی کو ہم سے دور رکھو ہمارے بارے میں جو خیر کہا جائے ہم اس کے اہل ہیں اور جس شرکی نسبت دی جائے اس سے یقیناً پاکیزہ ہیں، ہمارا کتاب خدا اور قرابت رسول اور پاکیزہ ولادت کی بناپر ایک حق ہے لہذا ہمارے بارے میں ایسی ہی بات کرو ! ( بشارة المصطفیٰ ص 222)۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button