مقالات

علی علیه السلام کی قرآنی شخصیت

بے شک علی ۔ امام المفسرین ہیں چونکہ وہ سرچشمہ وحی و نبوت سے سیراب ہوئے ہیں آپ ہی کے بقول ’’ میں نور وحی و نبوت کا مشاہدہ کرتا تھا، بوی نبوت کو استشمام کرتا تھا۔ جب ان (نبی اکرم ﷺ) پر وحی نازل ہوئی تو شیطان کی آواز میں نے سنی اور پوچھا کہ اے رسول خدا ﷺ یہ آواز کیسی ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا یہ شیطان ہے کہ جو اس بات سے ناامید اور پریشان ہے اس کی پرستش نہ ہوگی۔ یقینًا تم وہی سنتے ہو کہ جو میں سنتا ہوں۔ تم سب دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں مگر تم پیغمبر نہیں ہو، وزیر ہو۔ راہ خیر پر گامزن ہو اور مومنوں کے امید ہو‘‘(1)

متعدد مقامات پر آپ نے خود اپنے عالم اور مفسر قرآن ہونے کا اظہار فرمایا ہے:’’آیات الٰہی کے بارے میں مجھ سے جو چاہو سوال کرلو میں تمام آیات خدا کے بارے میں علم رکھتا ہوں کہ کب اور کس مقام پر نازل ہوئی ہیں ۔ نشیب و فراز میں اور رات و دن میں نازل ہونے کو جانتا ہوں۔(2)

پیغمبر اسلام ﷺ کی نظر میں:

علی ۔ کی قرآنی شخصیت وحی و نبوت کے سایہ میں پروان چڑھی ہے اور آپؑ نے متعدد مقامات پر علی ۔ کے اعلم قرآن ہونے کا ذکر کیا ہے۔ فقط بعض اقوال کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

ایک مقام پر حضرت ۔ سے فرماتے ہیں:تم خاور و باختر، عرب و عجم پر فخر کرو… تم سب سے پہلے اسلام لانے والے ہو اور کتاب خدا کے سلسلہ میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہو‘‘(3) شاید یہی وجہ تھی کہ آپ نے علم علی ۔ کو دیکھتے ہوئے ان کی قرآن سے معیت کا اعلان کیا اور فرمایا:’’علی مع القرآن والقرآن مع علی لن یفترقا حتی یرد علیّ الحوض‘‘یعنی علیؑ قرآن اور قرآن علیؑ کے ساتھ ہے یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آجائیں۔(4)

اسی طرح حدیث ثقلین کہ جو علمائے اسلام کے درمیان متفق علیہ اور متواتر حدیث ہے علیؑ کی قرآنی شخصیت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے ’’انی تارک فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی احدہما اعظم من الاخر کتاب اللہ و عترتی‘‘(5)

یعنی میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں سے تمسک کرو گے گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک دوسرے سے زیادہ عظیم ہے۔ کتاب خدا اور میری عترت اس طرح سے یہ امر ثابت ہوجاتاہے کہ حضرت علی ۔ کی ذات کتاب خدا کی تفسیر و بیان کے لئے حجت کی حیثیت رکھتی ہے۔

اہلبیت علیهم اسلام کی نظر میں

پیغمبر اکرم ﷺ کے علاوہ اہلبیت علیهم اسلام نے بھی متعدد مقامات پر حضرت علی ۔ کے سلسلہ میں قرآن کا مکمل علم رکھنے والے وغیرہ جیسے صفات کے ساتھ تعارف کرایا ہے۔ امام صادق ۔ فرماتے ہیں :’’ کان علی ۔ صاحب حرام و حلال و علم بالقرآن و نحن علی منھجہ‘‘ یعنی علی ۔ حلال و حرام خدا اور قرآن کا علم رکھنے والے ہیں ہم انہیں کی روش پر گامزن ہیں(6)

یا دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : ’’ ان اللہ علّم نبیہ الینزیل و التاویل فعلمہ رسول علیّا‘‘ یعنی خداوند نے تنزیل و تاویل کا علم رسول خدا ﷺ کو دیا اور انہوں نے اس کی تعلیم علی ۔ کو دی (7)

امام رضا ۔ نے مامون کے ایک خط کے جواب میں حضرت علی ۔ کو قرآن کا اسپیکر کے طور پر تعارف کرایا ہے۔ (8)

معصومین علیهم اسلام کا حضرت علی ۔ کو عالم،مفسر اور راسخون فی العلم وغیرہ کے ذریعہ حضرت کی تمجید و تعریف کرنا۔ آپ کے اعلم اور امام

المفسرین ہونے کی بہترین دلیل ہے اس لئے یہ کہ کلمات ان دو ذوات المقدسہ کی زبان اطہر سے نکلے ہوئے ہیں کہ جو قرآنی حقائق سے باخبر اور مکمل قرآن کا علم رکھنے والے ہیں ۔

صحابہ  کی نظر میں

علی ۔ کی ذات ولا صفات وہ ہے جو عصر پیغمبر ﷺ ہی سے ’’ من عندہ علم الکتاب‘‘ کا واضح و روشن مصداق ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے آیت کی تاویل و تفسیر میں اس نکتہ پر تاکید فرمائی ہے۔ (9)

جناب ابن عباس کے بقول: ’’من عندہ علم الکتاب ‘‘ کا مصداق فقط علی ابن ابیطالب ہیں کیونکہ وہ اس قرآن کے تفسیر و تاویل، ناسخ و منسوخ اور حلال و حرام کا علم رکھتے ہیں ۔(10)

عمر بن خطاب کہتے ہیں کہ علی ابن ابیطالب قرآنی معارف کو ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔(11)

ان کے بیٹے عبداللہ بھی علی ۔ کو اعلم قرآن سمجھتے تھے۔(12) اسی طرح دیگر اصحاب پیغمبر نے بھی علی کی قرآنی شخصیت کا اعتراف کیا ہے۔

حوالے جات

  1. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۲
  2. انساب الاشراف،ج۲،ص۹۱
  3. الصواعق المحرقہ ص ۱۲۷
  4. طبرانی، المعجم الصغیر، ج۱، ص ۲۵۵
  5. احقاق الحق، ج۴، ص ۴۳۹
  6. البرھان،ج۱، ص۱۵
  7. وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۱۲۹
  8. بحار الانوار، ج۶۵م ص ۲۶۱
  9. امالی صدوق،ج۳،ص۴۰۳/ شواہد التنزیل،ج۱،ص۴۰۰ / ینابیع المودت، ج۱ ،ص ۳۰۷
  10. شواہد النزول، ج۱، ص ۱۰۵/ ینابیع المودۃ، ج۱ ، ص ۳۰۷
  11. شواہد النزول، ج۱، ص ۳۵
  12. شواہد النزول، ج۱، ص ۳۵ 

تحریر: سید عباس مہدی حسنی   مقالہ :نہج البلاغہ بطور تفسیر قرآن

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button