علی علیه السلام اور تفسیر قرآن
حضرت علی ۔ کی نظر میں نہ قرآن کی تمام آیات ایسے ہیں کہ جنہیں سب سمجھ سکیں اور نہ ہی اس طرح ہیں کہ کوئی نہ سمجھ سکے ۔ قرآن سمجھنے کے لئے خاص اسلوب و روش کیء ضرورت ہے امیرالمومنین ۔ آیات قرآن کے قابل فہم ہونے کے اعتبار سے تین حصوں پر تقسیم کرتے ہیں ۔ ایک حصہ وہ ہے کہ عالم و جاہل سب سمجھتے ہیں دوسرا حصہ وہ ہے جسے صرف وہ سمجھتے ہیں جن کے پاس پاکیزہ ذہن، لطیف احساس اور قوت تمییز پائی جاتی ہو۔تیسرا حصہ وہ ہے کہ جو خدا، پیغمبرؐ اور راسخون فی العلم سے مخصوص ہے۔(1) یعنی قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کی تعلیم مراتب کی حامل ہے ایک درجہ عوام کے لئے قابل فہم داسرا حصہ خاص افارد کے لئے قابل درک اور بلند ترین مرتبہ کا علم خدا اور اس کے اولیاء کے
ہی پاس ہے۔ آپ قرآن مجید کی تفسیر کی جانب اس طرح اہنمائی فرماتے ں ’’کتاب اللہ تبصرون بہ و تنطقون بہ و تسمعون بی و ینطق بعضہ بعضہ و یشہد بعضہ علی بعض لایختلف فی اللہ ولا یخالف لصاحبہ عن اللہ‘‘(2)یعنی کتاب خدا جس میں تمہاری بصارت اور سماعت کا سارا سامان موجود ہے اس میں ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے اور ایک دوسرے کی گواہی دیتا ہے یہ خدا کے بارے میں اختلاف نہیں رکھتا اور اپنے ساتھی کو خدا سے الگ نہیں کرتا۔ آپ اپنے اس بیان سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن قابل تفسیر ہے۔ امام قرآن کی زبان کو عرف اور منحصر بہ فرد سمجھتے ہیں ۔ ایک طرف آیات کو سمجھنے میں علم لغت اور ادبیات عرب کو معیار قرار دیتے ہیں اور خود بھی عملًا اس سے تمسک کرتے ہیں دوسری طرف قرآن کو کلام بشر سے الگ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں ’’ ربّ شی من کتاب اللہ تاویلہ غیر تنزیلہ ولا یشبہ بکلام البشر‘‘ کتاب خدا میں بہت سے ایسی چیزیں ہیں کہ جن کی تاویل ، تنزیل کے علاوہ ہے اور یہ کلام بشر سے مشابہ نہیں ہے۔ (3)
قرآن مجید میں ناسخ و منسوخ مقدم و موخر، عزائم و رخص خاص و عام، مجمل و مبین محکمہ و متشابہ وغیرہ کا پایا جانا امام کے بات کی تائید کرتاہے۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ تفسیر کے لئے کچھ شرائط درکار ہوتے ہیں جن میں بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیاجارہاہے:
شرائط تفسیرعلی ۔ کی نظر میں:
قرآنی علوم کے محققین نے تفسیر کے متعدد شرائط بیان کئے ہیں (4)یہ تمام شرائط اگر چہ حضرت امیر کے اقوال میں موجود نہیں ہیں، فقط بعض کا ذکر ملتا ہے:
الف) خاص اسلوب: آپ کی نظر میں قرآن ایک خاص اسلوب اور روش کا حامل ہے’’ فان القرآن حمال ذووجوہ‘‘(5) قرآن کی متعدد روشوں سے تفسیر، مذکورہ قول کی بہترین دلیل ہے۔
ب)محکمہ و متشابہ، ناسخ و منسوخ اور تاویل وغیرہ پر توجہ: حضرت علی ۔ ایک مقام پر قرآن کو سات حصوں میں تقسیم فرماتے ہیں : عام و خاص، مقدم و موخر، عزائم و رخص منقطع معطوف اور منقطع غیر معطوف(6) اسی طرح دوسرے مقام قرآن کو مبیّن حلال و حرام خدا…. حامل ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ وغیرہ جانتے ہیں ان میں سے ہر ایک کو سمجھنا تفسیر قرآن کے لئے ایک ناگزیر امر ہے۔
ج)خاص درک و فہم: آپ سے کسی نے پوچھا کہ آیا قرآن کے علاوہ کوئی چیز آپ کے پاس ہے؟ فرمایا: نہیں ، قسم اس ذات کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا الّا فہم یوتیہ اللہ رجلًا فی القران‘‘(7)یعنی سوائے اس فہم و درک کے جو اللہ کسی شخص کو قرآن کے بارے میں عطا کرتا ہے۔
د)تفسیری ذوق: ایک نقل کی بنیاد پر علی ؑ کی نظر میں تفسیر قرآن کے لئے خاص ذوق کی ضرورت ہوتی ۔ آپ فرماتے ہیں ۔ ’’ان علم القرآن لیس یعلم ما ہو الّا من ذاق طعمہ‘‘(8) یعنی قرآن کا علم بس وہ جانتا ہے جس نے اس کا مزہ چکھا ہو۔
علی ۔ اور تفسیری مبنی:
حضرت علی ۔ نهج البلاغه میں قرآن کو حلال و حرام ناسخ و منسوخ، حرمت و جواز، خاص و عام اور محکم و متشابہ کا بیان کرنے والا جانتے ہیں ۔ (9) اپنے اس قول کے ذریعہ امام اس بات کی جانب متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ قرآن کے اقیانوس میں جانے سے پہلے آیات کے مفاہیم سمجھنے کے لئے از قبل بعض مسائل کے بارے میں اطلاع ضروری ہے جنہیں مبنیٰ بنا کر قرآن کی تفسیر و تبیین کرنا چاہئے۔ ذیل میں آنحضرت ﷺ کے بعض تفسیر مبنی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
۱) قرآن کی حجیت:
نهج البلاغه کے خطبہ ۱۷۶ میں آپ فرماتے ہیں ’’ جو خدا نے بیان کیا ہے اس سے فائدہ اٹھا خدا کی وعظ و نصیحت کو قبول کرو۔ فان اللہ تعالیٰ قد اؑ ذر الیکم بالجلیلہ واتخذ علیکم الحجۃ… یعنی بے شک اللہ تعالیٰ نے’’ اپنی روشن دلیلوں سے عذر کا دروازہ بند کردیا ہے اور حجت تم پر تمام کردی ہے۔(10)
۲)عدم تحریف قرآن:
دوسرا مبنیٰ جس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنا ہے، اس بارے میں آپ فرماتے ہیں : ’’و علیکم بکتاب اللہ فانہ الحبل المتین و النور المبین و الشفاء النافع والرأی النافع، العصمۃ للتمسک والنجاۃ للمتعلق۔ لا یعوج فیقام ولا یزیغ فیستعتب…‘‘ یعنی تمہار فرض ہے کہ کتاب خدا سے وابستہ رہو کہ وہی مضبوط ریسمان ہدایت اور روشن نور الٰہی ہے اسی میں منفعت بخش شفاء ہے اور اس میں پیاس بجھانے والی سیرابی ہے وہی تمسک کرنے والوں کے لئے وسیلہ عصمت کردار ہے اور وہی رابطہ رکھنے والوں کے لئے ذریعہ نجات ہے۔ اس میں کوئی کجی نہیں جسے سیدھا کیا جائے اور اس میں کوئی انحراف نہیں جسے درست کیا جائے۔ (11)
۳)فہم قرآن کا امکان:
یقینًا تفسیر قرآن سے پہلے یہ بات قابل قبول ہونا چاہیے کہ قرآن فہمی کا امکان پایا جاتا ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں :’’فانظر ایھا السائل : مما دلّ القرآن علیہ من صفتہ فأنتم بہ واستضئ بنور ہدایتہ‘‘ یعنی اے سوال کرنے والے قرآن، صفات خدا کے بارے میں جو بیان کرتا ہے اس پر تکیہ کر اور اس کے نور ہدایت سے روشنی حاصل کر۔ (12)
۴)سنت نبیؐ کی حجیت:
حضرت امیر ۔ کا ایک اور مبنیٰ سنتِ پیغمبر کی حجیت ہے آپ نے اپنے بیانات میں بار بار اس کی تکرار فرمائی ہے:
’’ شغل من الجنۃوالنار امامہ ساع سریع نجا طالب بطی رجا و مقصد فی النار ھوی الیمین و الشمال عضلہ والطریق الوسطی ہی الجادہ علیہا باقی الکتاب و آثار النبوہ و منہا منفذ السنۃ و الیہا یصیر العاقبہ‘‘ یعنی وہ شخص کسی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں رکھتا جس کی نگاہ میں جنت و جہنم کا نقشہ ہو، تیز رفتاری سے کام کرنے والا نجات پالیتا ہے اور سست رفتاری سے کام کرکے جنت کی طلبکاری کرنے والا بھی امیدوار رہتا ہے لیکن کوتاہی کرنے والا جہنم میں گر پڑتا ہے داہنے بائیں گمراہوں کی منزلیں ہیں اور سیدھا راستہ صرف درمیانی راستہ ہے اسی راستے پر رہ جانے والی کتاب خدا اور نبوت کے آثار ہیں اور اسی سے شریعت کا نفاذ ہے۔13
- وسائل الشیعہ، ج۱۸، ص۱۴۳
- نهج البلاغه،خ۱۳۳، ترجمہ اردو
- التوحید ص۲۶۵
- الاتقان فی علوم القرآن، ج۴،ص ۲۰۰
- نهج البلاغه، خطوط۷۷
- بحار الانوار، ج۹۰، ص ۴
- التفسیر المفسرون،ج۱،ص۵۹
- البرھان فی علوم القرآن، ج۲، ص۳۰
- نهج البلاغه، خطبہ ۱
- نہج البلاغہ، خطبہ ۱۷۶
- نہج البلاغہ، خ ۱۵۵ ترجمہ اردو
- نهج البلاغه، خطبہ ۹
- نهج البلاغه، خطبہ ۱۶، ترجمہ علامہ موددی
تحریر: سید عباس مہدی حسنی مقالہ :نہج البلاغہ بطور تفسیر قرآن