دین و سیاست نہج البلاغہ کی روشنی میں( حصه دوم)
اسلامی سیاست کے فائدے
اچھی سیاست کے بہت سے فوا ئد ہیں جن کو آپ ؑ بیان فرماتے ہیں ’’ حسن السیاسۃ قوام الرعیۃ ‘‘۱۲ اچھی سیاست شہروں کو محکم بنا تی ہے ۔اگر حکومت اسلامی میں اچھی سیاست ہو گی تو پھر چونکہ اس کا نظام اچھا ہے توخودبخود معاشرے میں اچھا ئیاں عام ہوں گی تو معاشرے کی حالت بہتر ہو تی جا ئے گی۔اس کے علاوہ آپ ؑ فرماتے ہیں’’ حسن السیاسۃ یستدیم الریاسۃ‘‘۱۳ فرماتے ہیں کہ حسن تدبیر ریاست اور سرداری کو با قی رکھتے ہیں سرداری اور قیادت کے لئے ضروری ہے کہ مناسب وقت پر اپنی ذمہ داری کو بہترین انداز میں انجام دیا جا ئے ، لہذا آپ ؑ فرما تے ہیں’’ من حسنت سیاستہ دامت ریاستہ‘‘۱۴ جس کی حکمت عملی اچھی ہو گی اس کی ریاست با قی رہے گی، اس لئے کہ مخالفت وہاں ہو تی ہے جہاں کسی طبقہ کا حق ضائع ہو رہا ہو لیکن جب حکومت اسلامی معیار پر ہو گی تو وہاں سب سے اہم کام سب کا حق ادا کرنا ہے تو جب حاکم اسلامی سب کا حق بر وقت ادا کردے گا تو پھر مخالفت کی کو ئی وجہ سامنے نہیں آتی ہے۔ تو یہ حکومت بھی جا ری رہے گی۔اسلامی حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ نہ کہ صرف عوام کو دیکھے بلکہ اپنے ملازموں کا بھی خیال رکھے جب حاکم اپنے ما تحت لوگو ں کا خیال رکھے گا تب وہ بھی تہہ دل سے اس کے سا تھ پو ری ایمانداری سے کام کریں گے اور اس طرح ایک کا میاب حکومت چل سکتی ہے ۔اور جب حکومت کا داخلی نظام ٹھیک ہو گا تب ہی حکومت اپنا پورا دھیان عوامی مسائل پر لگا سکتی ہے اور پھر معاشرا ترقی کی منزلوں کو آسانی سے طے کرتا ہوا آگے ہی بڑھتا رہے گا۔
مذہبی حکومت کے اصول اور بنیادیں
مولا ئے کا ئنات ؑ نے اسلامی سیاست کے اصول او ر قوانین بھی بیان فرما ئے ہیں جن سے آج بھی فا ئدہ اٹھا یا جا سکتا ہے اس سلسلہ میں آپ ؑ کا ایک مشہور خط ہے جو عہد نامہ مالک اشتر کے نام سے مشہور ہے ،جب آپ ؑ نے اپنے سب سے لائق اور شا ئستہ سردار اور اپنے قوت بازوجناب مالک بن اشتر کو مصر کے علاقے کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان کی رہنمائی کے لئے آپ ؑ نے اسلامی حکومت کا ایک مکمل دستور العمل تحریر فرما یا تھا، جو آج بھی نمونہ عمل ہے اور اس پر عمل کر کے آج بھی ایک مکمل اور مناسب حکومت بنا ئی جا سکتی ہے۔
اس عہد نامہ کے مختصر اقتباس پیش کئے جا تے ہیں : اس میں سب سے پہلے آپؑ نے ایک حاکم کے بنیادی فرائض کو بیان فرمایا ہے: آپؑ نے مالک اشتر کے منصب میں چار کام شامل تھے
۱۔ ٹیکس کی وصولی ہے لیکن اس میں بھی آپؑ کا فرمان دنیا وی حاکموں جیسا نہیں ہے دنیا وی حاکم تو بس کسی بھی طرح سے ٹیکس وصول کر نے کے در پئے رہتے ہیں ،لیکن آپ ؑ اس سلسلہ میں فرما تے ہیں ’’و تفقّدْ امرالخراج بما یصلح اہلہ فان فی صلاحہ و صلاحہم صلا حا لمن سواہم، و لا صلاح لمن سواہم الا بھم ، لان الناس کلھم عیالٌ علی الخراج و اہلہ‘‘۱۵ ٹیکس اور مالگذاری کے سلسلہ میں وہ طریقہ اختیار کرناجو مالگذاروں کے حق میں زیادہ مناسب ہو ، کہ خراج اور اہل خراج کی صلاح ہی میں سارے معاشرے کی صلاح ہے اور کسی کے حالات کی اصلاح خراج(ٹیکس ) کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے،تمام لوگ اسی خراج کے بھروسہ ہی زندگی گذارتے ہیں ۔
۲۔ دشمن سے جہاد کرنافوج کو جہاد کے لئے کیسے تیار رکھا جا ئے اس کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ اپنے ان سرداروں کا خیال رکھنا کہ جو فوجیوں کی امداد میں ہاتھ بتاتا ہو اور اپنے اضافی اموال سے ان کی ضروریات کو پورا کرتا ہو تا کہ ان کے سارے مسائل حل ہو جا ئیں اور ان کا سارا ہم وغم صرف دشمن سے دفاع کرنا ہوجا ئے۔
۳۔ اہل مملکت کے حالات کی اصلاح کرنا،اس سلسلہ میں آپؑ فرماتے ہیں کہ اپنی حکومت کے افار پر بھی نظر رکھنا اور انہیں آزمانے کے بعد ہی مناصب عطا کرنا اور خبر دار ذاتی تعلقات یا جانبداری کی بنا پر کسی کو عہدہ نہ دینا ۔
۴۔ زمینوں کو آباد کرنااور زراعت وغیرہ کا مکمل انتظام کرنا۔کہ ان کاموں کو انجام دینے کے لئے ان کو حاکم بنایا جا رہا ہے ۔
اس چار محور پر انہیں کام کرنا ہے ، حضرت امام علی ؑ اس طرح کلام کی شروعات کرتے ہو ئے فرما تے ہیں: ’’امرہ بتقویٰ اللہ و ایثار طاعتہ و اتباع ما امر بہ فی کتا بہ من فرا ئضہ و سننہ التی لا یسعد احد الا باتباعہا و لا یشقیٰ الا مع جحودھا و اضاعتھا‘‘۱۶ سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو ،اس کی اطاعت کو اختیار کرواور (اللہ نے )جن فرائض اور سنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کروکہ کو ئی بھی شخص ان کے اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہو سکتا ہے اور کو ئی شخص ان کے انکار اور بربادی کے بغیر بد بخت نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔اسلام کی نظر میں حکومت اسلامی کے اہم مقاصد میں سے ایک چیز عوام الناس کا خیال رکھنا اور ان کے حقوق کی ادا ئیگی ہے ۔چونکہ حکومت اسلامی ہے اور حاکم کو لوگ حاکم اسلامی کی نظر سے دیکھتے ہیں اسی لئے حاکم کا طریقہ کار بھی پوری طرح اسلامی ہو نا چا ہیئے چنانچہ آپ ؑ فرماتے ہیں : ’’ولیکن احب الامور الیک اوسطھا فی الحق و اعمھا فی العدلو اجمعھا لرضی الرعیۃ فانّ سخط العامۃ یجحف برضی الخاصۃ و ان سخط الخاصۃ یغتفر مع رضی العامۃ ‘‘۱۷ تمہارے لئے پسندیدہ کام وہ ہو نا چا ہیئے جو حق کے اعتبار سے بہترین ، انصاف کے اعتبار سے سب کو شامل اور رعایا کی مرضی سے اکثریت کے لئے پسندیدہ ہوکہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضا مندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے ،اور خاص لوگوں کی نا راضگی عام افراد کی رضا مندی کے ساتھ قابل معافی ہوجاتی ہے ۔ دنیا کے ہر سماج میں دو طرح کے لوگ پا ئے جا تے ہیں،خواص اور عوام، خواص وہ ہو تے ہیں جو کسی نہ کسی بنیاد پر اپنے لئے امتیاز کے قا ئل ہو تے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ ان کو قا نون میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں ملیں،جبکہ یہی لوگ ضرورت کے وقت میں حکو مت کے لئے کسی بھی طرح سے مفید نہیں ہو تے ہیں ،دوسری طرف عام رعایا ہے کہ جو اکثر حکومتوں کے ذریعہ نظر انداز کی جا تی ہے لیکن یہی حکومت کی وفا دار ہو تی ہے اور ہر وقت حکومت کے لئے سینہ سپر رہتی ہے ، امام ؑ نے اسی پہلو کو مد نظررکھتے ہو ئے اور عام فائدے کے تحت فرما یا کہ رعایا کا خاص خیال رکھا جا ئے۔حضرت امیر ؑ نے اسی کی طرف متوجہ کیا ہے کہ حاکم اسلامی کا فرض عوام الناس کے مفاد کا تحفظ اور انہیں خوش رکھنا ہے اور یہی دین کا ستون ہے اور اس کی قوت ہے ،انہی سے اسلام کی طاقت کا مظاہرہ ہو تا ہے ۔
حواله جات
۱۲۔غرر الحکم، ح ۴۸۱۸
۱۳۔غرر الحکم، ح ۴۸۲۰
۱۴۔غرر الحکم، ح ۴۸۳۸
۱۵۔نہج البلاغہ، عہد نامہ مالک اشتر ،نامہ ۳ ۵
۱۶۔نہج البلاغہ، عہد نامہ مالک اشتر ،نامہ ۵۳
۱۷۔نہج البلاغہ، عہد نامہ مالک اشتر ،نامہ ۵۳
تحریر : سید محمد مجتبیٰ علی