بنو اُمیہ کا کردار علیؑ کی نظر میں
مقدمہ
الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وآلہ الطیبیب الطاہرین
اما بعد: ان لنبی امیہ مردودًا یجرون فیہ ولو قد اختکفوافیما بینہم ثمّ کادتہم الضباع لغلبتہم
بنی امیہ کے لئے ایک مردو(مہلت کا میدان)ہے۔جس میں وہ دوڑ لگارہے ہیں ۔جب ان میں باہمی اختلاف رونما ہو تو پھر ،بُجّو بھی ان پر حملہ کریں،تو ان پر غالب آجائیں۔
حضرت علی ۔ قرآن مجید کی آیت وافی ہدایۃ کی روح سے وجعلنا ہم ائمۃ یہدون بأمرنا(سورہ انبیاء آیت نمبر ۷۳) امام حق اور لوگوں کے ہادی ’’انما انت منذر ولکل قوم ہاد(سورہ رعد آیت ۷) کی تفسیر میں پیغمبر اسلام نے فرمایا:
اے علی ۔ میں ڈرانے والاہوں اور آپ میری امت کے ہادی ہیں ۔ پس ان مذکورہ آیات کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ امام حق کا کردارباطل امام کے مقابلے میں عیاں ہے۔
’’وجعلنا ہم ائمۃ یدعون النار(سورۃ القصص آیت۴۱)کہ جس کی تفسیر میں معصوم کا ارشاد ہے کہ جہنم کی طرف دعوت دینے والے امام لوگوں کو گمراہ اور راہ حق سے منحرف اور خدا کی یاد سے انحراف کے راستے پرلگانے والوں میں سے ایک معاویہ اور ان کے ساتھی ہیں کہ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام اوائل تبلیغ اسلام کے وقت فرمایا تھا کہ یہ ضال و مظل ہیں اور علی ۔ نے پیغمبر ﷺ کے فورًا بعدجب ابو سفیان علی ۔ آیا اور کہنے لگا آپ اپنا ہاتھ بڑھائے میں بیعت کرنے آیا ہوں ۔اور یہ حق آپ کا ہے اور ہمارا ہے اگرآپ کو دشمن کا خوف ہو تو مدینہ کو پیادہ اور سوارے لوگوں بھر دوں تو امام علی ۔فرمایا تو کب اسلام کا حامی بنا ہے جب کہ پیغمبر اسلام ﷺکو ساری زندگی تکلیفیں دیتا رہا ہے اس گفتگو سے بنی امیہ خصوصًا معاویہ کا کردار سامنے آتا ہے کہ جس نے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازشیں شروع ہی سے بنا رکھی تھیں ۔ فتح مکہ کے وقت مصلحت کی بنا پر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ٹھان لی تھی۔
نہج البلاغہ میں معاویہ کے کردار کو امام نے بڑے فصیحانہ انداز میں تصویر کشی فرمائی ہے کہ اس کے بعد انسان باطل پرست لوگوں کے دام میں پھنسنے سے بچ سکتا ہے۔اگر چہ نہج البلاغہ ایک سمندرہے جس کی موجیں انسان کو حیرت کے تھپیڑوں سے مدہوش کردیتی ہیں۔
میں نے بنو امیہ کا کردار نہج البلاغہ سے انتخاب کیا اور مختلف خطبوں،خطوط ،وصیتوں اور حکمتوں سے چن کر تسبیح کے دانوں کی طرح آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔
امید ہے کہ خداوندمتعال اس امام کے کلام جو امام ا لاکلام ہے۔ دنیا میں امام اور آخرت میں ذریعہ نجات قرار دے اور اس مسابقہ کے برگزار کرنے والوں،شرکت کرنے والوں اور اس کو پڑھنے والوں کی توفیقات میں خداوند متعال اضافہ فرمائے اور امام ۔ کے کلام کو سمجھنے اور سمجھانے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین) والسلام
ملازم حسین جعفری
بنو اُمیہ کا کردار علیؑ کی نظر میں
انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی غفلت و قریب کے پانی اسے سینچا اور اس سے ہلاکت کی جنس حاصل کی ۔اس اُمت میں کسی کو آل محمد ﷺپر قیاس نہیں کیا جا سکتا جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں ۔(۱)
میرے متعلق سب کچھ جاننے بوُجھنے نے بنی اُمیہ کو مُجھ پر افترا پردازیوں سے بازرکھا اور نہ میری سبقت ایمانی اور دیرینہ اسلامی خدمات نے ان جاہلوں کو اتہام لگانے سے روکا ،اور جو اللہ نے (کذب وا فتراء کے متعلق )انہیں پندو نصیحت کی ہے ۔وہ میرے بیان سے کہیں بلیغ ہے ۔میں (ان)بے دینوں پر حجت لانے والا اور (دین میں )شک و شبہ کرنے والوں کا فریق مخالف ہوں اور قرآن پر پیش ہونا چاہیے ۔تمام مشتبہ باتوں کو اور بندوں کو جیسی اُن کی نیت ہو گئی ویسا ہی پھل ملے گا ۔(۲)
یہا ں تک کہ گمان کرنے والے یہ گمان کرنے لگیں گے ،کہ بس اب دنیا بنی امیہ ہی کے دامن سے بندھی رہے گی اور انہیں ہی اپنے سارے فائدے بخشتی رہے گی ، اور انہیں ہی اپنے صاف چشمہ پر سیراب ہونے کیلئے اتارتی رہے گی ، اور اس امت کی (گردن پر) ان کی تلوار اور (پشت پر) ان کا تازیانہ ہمیشہ رہے گا جو یہ خیال کرے گا ، غلط خیال کرے گا بلکہ یہ تو زندگی کے مذوں میں سے چند شہد کے قطرے ہیں جنہیں کچھ دیرتک وہ چوسیں گے ،اور پھر سارے کا سارا تھوک دیں گے۔(۳)
میرے نزدیک سب فتنوں سے زیادہ خوفناک تمہارے لیے بنی اُمیہ کا فتنہ ہے جسے نہ خود کچھ نظر آتا ہے ،اور نہ اس میں کوئی چیز سجھائی دیتی ہے ۔اس کے اثرات تو سب کو شامل ہیں ۔لیکن خصوصیّت سے اس کی آفتیں خاص ہی افراد کیلئے ہیں ،جو اس میں حق کو پیش نظر رکھے گا
خُدا کی قسم !میرے بعد تم بنی اُمیہ کو اپنے لیے بدترین حکمران پاؤ گے ۔وہ تو اس بوڑھی اور سرکش اونٹنی کے مانند ہیں ،جو منہ سے کاٹتی ہو اور ادھر اُدھر پَیر مارتی ہو ۔اور دوہنے والے پر ٹانگیں چلاتی ہو ۔اور دودھ دینے سے انکار کر دیتی ہو ۔وہ برابر تمہارا قلع قمع کرتے رہیں گے ۔یہاں تک کہ صرف اُسے چھوڑیں گے جو ان کے مفید مطلب ہو یا (کم از کم )ان کے لیے نقصان رساں نہ ہو ۔اور ان کی مصیبت اسی طرح گرے رہے گی ۔ کہ ان سے داد خواہی ایسی ہی مشکل ہو جائے گی ۔جیسے غلام کیلئے اپنے آقا سے اور مرُید کی اپنے پےِر سے ۔
تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک صُورت میں آئے گا کہ جس سے ڈر لگنے لگے گا ،اور زمانہ جاہلیت کی مختلف حالتوں کو لیے ہو گا ۔نہ اس میں ہدایت کا مینار نصب ہو گا ،اور نہ راستہ دکھانے والا کوئی نشان نظر آئیگا ۔ہم (اہل بیتؑ رسول )ان فتنہ انگیزیوں کے (گناہ سے )بچے ہوں گے اور ان کی طرف لوگوں کو بُلانے میں ہمارا کوئی حصّہ نہ ہو گا ۔پھر ایک دن وہ آئے گا کہ اللہ اُس شخص کے ذریعہ سے جو اُنہیں ذلّت کا مزا چکھا ئے اور سختی سے نہکائے اور (موت کے )تلخ جام پلائے ،اور ان کے سامنے تلوار رکھے اور خوف اُنہیں چمٹا دے ۔ان فتنوں سے اس طرح علیحدہ کر دے گا ۔جس طرح ذبیحہ سے کھال الگ کی جاتی ہے ۔اس وقت قریش دُنیا و ما فہیا کے بدلہ میں یہ چاہیں گے ،کہ وہ مجھے صرف اتنی دیر کہ جتنی اُونٹ کے ذبح ہونے میں لگتی ہے ۔کہیں ایک دفعہ دیکھ لیں تاکہ میں اس چیز کو قُبول کر لوُں کہ جس کا آج کچھ حصّہ بھی طلب کرنے کے باوجود دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ بنی اُمیّہ مجھے محمد ﷺکا ورثہ تھوڑا تھوڑا کر کے دیتے ہیں ۔خُدا کی قسم !اگر میں زندہ رہا ،تو انھیں اس طرح جھاڑ پھینکوں گا ۔جس طرح قصائی خاک آلُودہ گوشت کے ٹکڑے سے مٹی جھاڑ دیتا ہے ۔(4)
لوگوں پربنی اُمیہ کا ظلم
خدا کی قسم !وہ ہمیشہ یوُنہی (ظلم ڈھاتے)رہیں گے اور کوئی اللہ کی حرام کی ہوئی چیز ایسی نہ ہو گئی ،جسے وہ حلال نہ سمجھ لیں گے ،اور ایک بھی عہدو پیمان ایسا نہ ہو گا جسے وہ توڑ نہ ڈالیں گے ۔یہاں تک کہ کوئی اینٹ پتھر کا گھر اور اون کا خیمہ اُن کے ظلم کی زد سے محفوظ نہ رہے گا اور اُنکی بُری طرز نگہداشت سے لوگوں کا اپنے گھروں میں رہنا مشکل ہو جائے گا اور یہاں تک دو قسم کے رونے والے کھڑے ہو جائیں گے ایک دین کے لیے رونے والا ،اور ایک دُنیا کیلئے ۔اور یہاں تک کہ تم میں سے کسی ایک کا اُن میں سے کسی ایک سے داد خواہی کرنا ایسا ہی ہو گا ۔جیسے غلام کا اپنے آقا سے کہ وہ سامنے اطاعت کرتا ہے ،اور پیٹھ پیچھے برُائی کرتا (اور دل کی بھڑاس نکالتا)ہے ،اور یہاں تک نوبت پہنچ جائے گی کہ تم میں سے جو اللہ کا زیادہ اعتقاد رکھے گا ۔اتنا ہی وہ زحمت و مشقت میں بڑھا چڑھا ہو گا ۔اس صورت میں اگر اللہ تمھیں امن و عافیت میں رکھے ،تو (اس کا شکر کرتے ہوئے)اسے قبول کرو ،اور اگر ابتلاو آزمائش میں ڈالے جاؤ تو صبر کرو ،اس لیے کہ اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہے ۔(5)
لو گو کا امام حق کو چھوڑنے کی سزا سے دوچار ہونا
اُس وقت کوئی پختہ گھر اور کوئی اُونی خیمہ ایسا نہ بچے گا کہ جس میں ظالم غم و حزن کو داخل نہ کریں اور سختیوں کو اُس کے اندر نہ پہنچائیں وہ دن ایسا ہو گا کہ آسمان میں تمہارا کوئی عذر خواہ اور زمین میں کوئی تمہارا مددگار نہ رہے گا ۔تم نے امر ’’خلافت‘‘ کے لیے نا اہلوں کو چُن لیا ،اور ایسی جگہ پر سے لا اُتارا کہ جو اُس کے اُترنے کی جگہ نہ تھی ۔عنقریب اللہ ظلم ڈھانے والوں سے بدلہ لے گا ۔کھانے کے بدلے میں کھانے کا اور پینے کے بدلے میں پینے کا ےُوں کہ انہیں کھانے کیلئے حنظل اور پینے کیلئے ایلوا اور زہر ہلاہل دیا جائے گا اور ان کا اندرونی لباس خوف اور بیرونی پہناوا تلوار ہو گا ۔وہ گناہوں کی سواریاں اور خطاؤں کے بار برادر اونٹ میں قسم پر قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے بعد بنی اُمیہ کہ یہ خلافت اس طرح تھوک دینا پڑے گی جس طرح بلغم تھوکا جاتا ہے ۔پھر جب تک دن رات کا چکر چلتا رہے گا وہ اس کا ذائقہ نہ چکھیں گے اور نہ اس کا مزا اُٹھا سکیں گے ۔
وہ الفت ویکجائی کے بعد الگ الگ اور اپنے مرکز سے منتشر ہوگئے ہوں گے ۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے ۔جو ایک شاخ کو پکڑے رہیں گے کہ جدھر یہ جھکے ادھر وہ جھکیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ جلد ہی اُس دن کے لئے کہ جو بنی امیہ کیلئے بد ترین دن ہو گا۔انہیں اس طرح جمع کرے گا جس طرح خریف کے موسم میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں ،اللہ ان کے درمیان محبت و دوستی پیدا کرے گا ۔اور پھر ان کا تہہ بہ تہہ جمے ہوئے ابر کی طرح ایک مضبوط جتّھا بنا دے گا ۔اور اُن کیلئے دروازوں کو کھول دے گا کہ وہ اپنے اُبھرنے کے مقام سے شہر سبا کے دو باغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے ۔ جس سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی تھی اور نہ کوئی ٹیلہ اس کے دھارا موڑ سکی تھی ۔اللہ سُبحانہ ،انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق کر دے گا ۔پھر انہیں چشموں (کے بہاؤ )کی طرح زمین میں پھیلادے گا ،اور ان کے ذریعہ سے کچھ لوگوں کے حقوق کچھ لوگوں سے لے گا ۔خدا کی قسم اُن کی سر بلندی و اقتدار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گا ۔اس طرح پگھل جائے گا ،جس طرح آگ میں چربی ۔(6)
اور تمہارا یہ کہنا کہ ہم عبد مناف کی اولاد ہیں ،تو ہم بھی ایسے ہی ہیں ۔مگر اُمیہ ہاشم کے اور حرب عبدالمطلب کے اوراُبو سفیان ،ابو طالب کے برابر نہیں ہیں (فتح مکہ کے بعد )چھوڑ دیا جانے والا مہاجر کا ہم مرتبہ نہیں ۔اور الگ سے نتّھی کیا ہوا روشن و پاکیزہ نسب والے کے مانند نہیں اور غلط کار حق کے پرستار کا ہم پلّہ نہیں ۔اور منافق مومن کا ہم درجہ نہیں ہے ،کتنی بُری نسل وہ نسل ہے جو جہنم میں گر چکنے والے اسلاف کی ہی پیروی کر رہی ہے ۔(7)
بنی امیہ کے ظلم کے بعد ان کی شکست
اِنَّ لِبنی اُمےۃ مرُوداََ یجرُونَ فِیہ وَلَو قَداختکفُوا فیما بینھُم ثُمَّ کَا دَتھُمُ الضّباع لغلبتھُم۔
بنی اُمیہ کیلئے ایک مرد و (مہلت کا میدان )ہے ۔جس میں وُہ دوڑ لگا رہے ہیں ۔جب ان میں باہمی اختلاف رونما ہو تو پھر ،بِجُّو بھی ان پر حملہ کریں ،تو ان پر غالب آجائیں گے ۔
سید رضی فرماتے ہیں کہ )مردد ارواد سے مُفعل کے وزن پر ہے اور اس کے معنی مہلت و فرصت دینے کے ہیں ۔اور یہ بہت فصیح اور عجیب و غریب کلام ہے،گویا آپؑ نے ان کے زمانہ مہلت کو ایک میدان سے تشبہہ دی ہے ،جس میں انتہا کی حد تک پہنچنے کیلئے دَوڑ رہے ہیں ۔چنانچہ جب اپنی آخری حد تک پہنچ جائیں گے ،تو ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا ۔یہ پیشین گوئی بنی اُمیہ کی سلطنت کے زوال کے متعلق ہے جو حرف بحرف پُوری ہوئی ۔اس سلطنت کی بُنیاد معاویہ ابن سفیان نے رکھی ،اور نّوے برس گیارہ مہینے اور تیرہ دن کے بعد ۱۳۲ اھ میں مروان الحمار پر ختم ہو گئی ۔بنی اُمیہ کا دور ظلم و ستم اور قہر و استبداد کے لحاظ سے آپ اپنی نظیر تھا۔اس عہد کے مطلق العنان حکمرانوں نے ایسے ایسے مظالم کئے کہ جن سے اسلام کا دامن داغدار ،تاریخ کے اوراق سیاہ اور رُوح انسانیّت مجروح نظر آتی ہے ۔
اُنھوں نے اپنے شخضی اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے ہر تباہی و بربادی کو جائز فرار دے لیا تھا ۔مکہ پر فوجوں کی یلغار کی ،خانہ کعبہ پر آگ برسائی ،مدینہ کو اپنی بہیمانہ خواہشوں کا مرکز بنایا اور مسلمانوں کے قتل عام سے خون کی ندیاں بہادیں ۔آخر ان سفاکیوں اور خونیریزں کے نتیجہ میں ہر طرف سے بغاوتیں اور سازشیں اُٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے اندورنی خلفشار اور باہمی رزم آرائی نے اُن کی بربادی کا راستہ ہموار کر دیا ۔اگرچہ سیاسی اضطراب ان میں پہلے ہی سے شروع ہو چکا تھا مگر ولید ابن یزید کے دور میں کھلم کھلا نزاع کا دروازہ کھل گیا اور اُدھر چپکے چپکے بنی عباس نے بھی پُرزے نکالنا شروع کئے ،اور مروان الحمار کے دور میں ’’خلافت اِلہیہ ‘‘ کے نام سے ایک تحریک شروع کر دی اور اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے اُنھیں ابو مسلم خراسانی ایسا امیر سپاہ مل گیا ،جو سیاسی حالات وواقعات کا جائزہ لینے کے علاوہ فُنون حرب میں بھی پوری مہارت رکھتا تھا ۔چنانچہ اُس نے خراسان کو مرکز قرار دے کر امویوں کے خلاف ایک جال بچھا دیا اور عباسیوں کو بر سر اقتدار لانے میں کامیاب ہو گیا ۔یہ شخض ابتداء میں گمنام اور غیر معروف تھا ۔چنانچہ اسی گمنامی و پستی کی بنا پر حضرت نے اُسے اور اس کے ساتھیوں کو ’’بجّو ‘‘سے تعبیر کیا ہے جو ادنی و فرومایہ لوگوں کیلئے بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ (8)
معاویہ کا امام حق کی بیعت کو توڑنا ۔
معاویہ ابن ابی سفیان کے نام ۔
(جن لوگوں نے اُبو بکر ،عمر ،عثمان کی بیعت کی تھی۔)اُنہوں نے میرے ہاتھ پر اُسی اُصول کے مطابق بیعت کی جس اُصول پر وہ ان کی بیعت کر چکے تھے ۔(9)
دیکھو !تم نے اسلام کی پاپندیاں توڑ دیں اور اس کی حدیں بیکار کر دیں اور اس کے احکام میرے سے ختم کر دئیے ۔معلوم ہونا چائیے کہ اللہ نے مجھے باغیوں عہد شکنوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں سے جہاد کا حکم دیا ۔چنانچہ میں نے عہد شکنوں (اصحاب جمل)سے جنگ کی نافرمانوں (اہل صفین)سے جہاد کیا اور بے دینوں (خوارج نہروان)کو بھی پوری طرح ذلیل کر کے چھوڑا ۔مگر گڑھے (میں گر کرمرنے )والا شیطان میرے لیے اس کی مہم سر ہو گئی ۔ایک ایسی چنگھاڑ کے ساتھ کہ جس میں اُس کے دل کی دھڑکن اور سینے کی تھر تھری کی آواز میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی ۔اب باغیوں میں سے کچھ رہے سہے باقی رہ گئے ہیں ،اگر اللہ نے پھر مجھے اُن پر دھاوا بولنے کی اجازت دی تو میں انہیں تہس نہس کر کے دولت و سلطنت کا رُخ دوسری طرف موڑ دوں گا (پھر)وُہی لوگ بچ سکیں گے جو مختلف شہروں کی دور دواز حدوں میں تِتر بِتر ہو چکے ہوں گے ۔(10)
معاویہ کا امام کی نظر میں اسلام حقیقی نہ لانا ۔
بخُدا اگر میں تن تنہا ان سے مُقابلہ کیلئے نکلوں اور زمین کی ساری وُسعتیں اُن سے چھلک رہی ہوں ،جب بھی میں پرواہ کروں اور نہ پریشان ہوں اور میں جس گمراہی میں وہ ہیں اور جس ہدایت پر میں ہوں ،اس کے متعلق پوری بصیرت اور اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے یقین رکھتا ہوں ،اور میں اللہ کے حضور میں پہنچنے کا مشتاق اور اس کے حُسن ثواب کے لیے دامن اُمید پھیلانے ہوئے منتظر ہوں ۔مگر مجھے اس کی فکر ہے کہ اس قوم پر حکومت کریں۔بد مغز اور بد کردار لوگ ،اور وہ اللہ کے مال کو اپنی املاک اور اس کے بندوں کو غلام بنا لیں ،نیکوں سے بر سر پیکار رہیں اور بد کردار وں کو اپنے جتّھے میں رکھیں ،کیونکہ ان میں بعض کا مشاہدہ تمھیں ہو چکا ہے ۔کہ اس نے تمھارے اندر شراب نوشی کی اور اسلامی حد کے سلسلہ میں اسے کوڑے لگائے گئے اور ان میں ایسا شخص بھی ہے جو اس وقت تک اسلام نہیں لایا ۔جب تک آمدنیاں نہیں ہوئیں (جہاد پر)آمادہ نہ کرتا نہ اس طرح جھنجھوڑتا نہ تمھیں اکٹھا کرنے اور شوق دلانے کی کوشش کرتا ،بلکہ تم سرتابی اور کوتاہی کرتے تو تم کو تمھارے حال پر چھوڑ دیتا ۔
حق کی حمایت نہ کرنے سے ظلم کی چکی میں پستے رہنا ۔
کیا تم دیکھتے نہیں کہ تمھارے شہروں کے حدود (روز بروز) کم ہوتے جارہے ہیں ۔اور تمھارے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کیا جارہا ہے ،تمھاری ملکیتیں چھن رہی ہیں ،اور تمھارے شہروں پرچڑھائیاں ہو رہی ہیں۔خُدا تم پر رحم کرے اپنے دشموں سے لڑنے کیلئے چل پڑو ،اور سُست ہو کر زمین سے چمٹے نہ رہو ورنہ یاد رکھو کہ ظلم ستم سہتے رہو گے ،اور ذلت میں پڑے رہو گے ،اور تمہارا حصہ انتہائی پست ہو گا ۔۔۔ سُنو !جنگ آزما ہو شیار و بیدار رہا کرتا ہے اور جو سو جاتا ہے دُشمن اُس سے غافل ہو کر سویا نہیں کرتا ۔
شراب نوشی کرنے والے سے مراد ولید ابن عقبہ ہے ،جس نے کوفہ میں شراب پی اور نشہ کی حالت میں نماز پڑھائی اور اسکی پاداش میں اُسے کوڑے لگائے گئے ۔(چنانچہ ابن ابی الحدید نے الفرج اصفہانی سے نقل کیا ہے )
کان الولید زانیا یشرب الخمر نشرب بالکوفہ و تام یصلی بھم الصبع فی المسجد الجامع نصلی بہم اربع رکعات ثم التفت الیہم فقال ازیدکم ۔
ولید کا کردار
ولید بد کا راور شراب خوار تھا ۔ اس نے کوفہ میں شراب پی ،اور مسجد جامع میں لوگوں کو صبح کی نماز دو رکعت کے بجائے چار رکعت پڑھادی پھر ان کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ اگر چاہو تو کچھ اور بڑھادوں۔ اور مالی انتفاع کی وجہ سے ایمان لانے والے سے مراد معاویہ ہے کہ جو صرف دنیوی انتفاعات کی وجہ سے اپنا رشتہ اسلام سے جوڑے ہوئے تھا ۔
اس پر مصیبتیں آئیں گی اور جو آنکھیں بند رکھے گا ۔وہ ان سے بچا رہے گا ۔
معاویہ کا دنیاوی آسائشوں سے مخمور ہونا اور علیؑ کی نصیحت
دُنیا اپنی لذتوں میں اس وقت تمہارے لیے شیرین و خوشگوار ہوئی اور اس وقت تم اس کے تھنوں سے دودھ پینے پر قادر ہوئے ،جب اس کے پہلے اس کی مہاریں جھول رہی تھیں اور اس کا تنگ (ڈھیلا ہو کر )ہل رہا تھا ۔(یعنی اس کا کوئی سوار اور دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا جو اس کی باگیں اُٹھاتا اور اس کا تنگ کَستا ،کچھ قدموں کیلئے تو حرام اس بیری کے مانند (خوش گوار اور مزے دار )ہو گیا تھا ،جس کی شاخیں پھلوں کی وجہ سے جھُکی ہوئی ہوں اور حلال ان کیلئے (کوسوں)دُور اور نایاب تھا ۔
خُدا کی قسم !یہ دنیا لمبی چھاؤں کی صورت میں ایک مقرر وقت تک تمہارے پاس ہے ۔مگر اس وقت تو زمین بغیر روک ٹوک کے تمہارے قبضے میں ہے ،تمہارے ہاتھ اس میں کھلے ہوئے ہیں اور پیشواؤں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔تمہاری تلواریں ان پر مسلط ہیں اور ان کی تلواریں روکی جا چکی ہیں ۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر خون کا کوئی قصاص لینے والا ،اور ہر حق کا کوئی طلب کرنے والا بھی ہوتا ہے ۔اور ہمارے خُون کا قصاص لینے والا اُس حاکم کے مانند ہے جو اپنے ہی حق کے بارے میں فیصلہ کر ے اور وہ اللہ ہے کہ جسے وُہ تلاش کرے ۔وہ اُسے بے بس نہیں بنا سکتا ،اور جو بھاگنے کی کوشش کرے ،وہ اُس کے ہاتھوں سے بچ کر نہیں نکل سکتا ۔
بنی اُمیہ کو علی ؑ کا نصیحت کرنا
اے بنی اُمیّہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جلد ہی تم اپنی (دنیا اور اس کی )ثروتوں کو دوسروں کے ہاتھوں اور دشمنوں کے گھروں میں دیکھو گے۔سب آنکھوں سے زیادہ دیکھنے والی وہ آنکھ ہے جس کی نظر نیکیوں میں اتر جائے ،اور سب کانوں سے بڑھ کر سننے والا وہ کان ہے کہ جو نصیحت کی باتیں سنے اور انہیں قبول کرے۔
حوالہ جات
1خطبہ نمبر ۲
2کے بعض فراز
3خطبہ نمبر ۷۳۔
4خطبہ نمبر ۸۵۔کے بعض فراز
5خطبہ نمبر ۱۶۴ کے بعض فراز
6 مکتوب نمبر ۱۷کے بعض فراز
7 حکمت نمبر ۴۶۴
8 خط نمبر ۶ کے بعض فراز
9 خطبہ نمبر ۱۹۰ کے بعض فراز
10 خط نمبر ۶۲ کے بعض فراز
11 خطبہ نمبر ۹۱ کے بعض فراز
12 خطبہ نمبر ۱۰۳ کے بعض فراز