روح اللہ خمینیؒ
اس زمانہ کے عظیم مدبر،مجاہد،لیڈر اور مجتہد آیت اللہ العظمی امام خمینی ؒ کے فراق کو 27 سال ہو رہے ہیں ۔آپ کے حالات پر آپ کی زندگی میں بھی بہت کچھ لکھا اور کہا جاتا رہا اور اب تک لکھا اور کہا جا رہا ہے۔اپنے بھی اظہارِ عقیدت کرتے رہے اور مخالف بھی حالات بیان کرتے رہے۔
آپ کے افکار اور کردار حقیقت میں قرآن مجید اور آئمہ طاہرینؑ کی تعلیمات کی اس زمانے میں عملی تفسیر ہیں۔انقلاب کی ابتداء سے آخری ایام تک درج ذیل آیت کو امام خمینیؒ بار بار موضوع بحث بناتے رہے ۔قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۖ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ(سورہ سبا:46)
ترجمہ:’’کہہ دے کہ مَیں تو تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں ،کہ تم دو دو(مل کر)یا اکیلے اکیلے ہی خدا کے لئے کھڑے ہو جاؤ‘‘۔
اس آیت میں انقلاب کے بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں اور امام خمینی ساری زندگی ان اصولوں پر کار بند رہے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے رہے۔اس آیت میں للہیت کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ ہے یعنی آپ کا ہر قدم بلکہ آپ کی فکر بھی اللہ کے لئے ہو اور جب آپ کے کام اللہ کے لئے ہوں گے تو پھر تعداد مہم نہیں ہے ۔دودو بھی اس مشن کو لے کر آگے بڑھو اور اگر اکیلے بھی رہ جاؤ تو اکیلے اکیلے بھی آپ کا مشن رواں دواں رہنا چاہئے۔امیر المؤمنین علیہ السلام نے بھی اس مقصد کو یوں بیان فرمایا:’’اے لوگو!ہدایت کی راہ میں ہدایت پانے والوں کی کمی سے گھبرا نہ جانا‘‘۔(نہج البلاغہ:خطبہ:199)
مندرجہ بالا آیت میں ایک اورواضح پیغام یہ ہے کہ آپ اللہ کے لئے قیام کریں اور جب آپ کا قیام اللہ کے لئے ہو گا تو پھر کسی کی مخالفت اور ملامت کی بھی پرواہ نہیں ہو گی۔امیر المؤمنین علیہ السلام نے اپنے فرزند ارجمند امام حسن علہ السلام کو یہی وصیت فرمائی تھی:’’خدا کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرو اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کا ملامت کا اثر نہ لو‘‘۔(وصیت:31)
امیر المؤمنین علیہ السلام نے خطبہ قاصعہ میں فرمایا:’’میں تو اس جماعت میں سے ہوں کہ جن پر اللہ کے بارے میں کوئی ملامت اثر انداز نہیں ہوتی۔وہ جماعت ایسی ہے جن کے چہرے سچوں کی تصویر اور جن کا کلام نیکوں کے کلام کا آئینہ دار ہے،وہ شب زندہ دار اور دن کے روشن مینار اور خدا کی رسی سے وابستہ ہیں۔یہ لوگ اللہ کے فرامین اور پیغمبر کی سنتوں کو زندگی بخشتے ہیں،نہ سر بلندی دکھاتے ہیں اور نہ خیانت کرتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ان کے دل جنت میں اٹکے ہوئے اور جسم اعمال میں لگے ہوئے ہیں‘‘۔(نہج البلاغہ:خطبہ 190)
امام خمینیؒ نے عمل سے ثابت کیا کہ نہ اپنوں کی تعداد کی کمی ہمیں اپنے مشن سے روک سکتی ہے اور نہ مخالفین کی ملامت ہماری رفتار پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
جوان نسل کو خصوصیت سے امام خمینی کے افکار کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اپنے افکار و کردار کو خلوص کے زیور سے آراستہ کرنا چاہئے۔ یوں یہ حسینی قافلہ خمینی کی راہنمائی میں آگے بڑھتا رہے گا اور وقت کے امامؑ کے دل کی تسکین کا سبب بنے گا اور خود اس قافلہ کے راہی بھی اِس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی قلب ِ مطمئنہ کے مصداق بنیں گے۔
آیت اللہ العظمی روح اللہ الخمینی اپنی آخری وصیت میں فرماتے ہیں :’’با دلی آرام و قلبی مطمئن و روحی شاد و ضمیر امیدوار بہ فضل خدا از خدمتِ خواہران و برادران مرخص و بہ سوی جایگاہِ ابدی سفر می کنم‘‘۔ روحش شاد