گزشتہ قوموں سے عبرت (عوامل عبرت آموزی)
عوامل عبرت آموزی
چنانچہ گزشتہ صفحے میں امام علیہ السلام کا قول مبارک جو حکمت نمبر ۲۹۷ کے عنوان سے گزر گیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا : ’’ ما اکثر العبد و امل الاعتبار ‘‘ عبرتیں کتنی زیادہ ہیں اور عبرت لینے والے کتنے کم۔ انسان کے لئے درس اور ہدایت حاصل کرنے کے عوامل و اسباب بہت زیادہ ہیں چنانچہ نہج البلاغہ میںبھی کئی جگہ عبرت کی نشانیاں بیان ہوئی ہیں نعمتوں کا ذکر ہو یا عذاب کا تذکرہ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب ہوں یا افراد پر گزرنے والے عجیب واقعات ذیل میں چند نمونے اسباب کے بیان کئے جا رہے ہیں۔
۱ ۔ نعتموں اور قدرت خداوند کی یاد:
خطبہ ۱۸۲ بند ۱۸ : اوصیکم عباد اللہ بتقوی اللہ الذی …… یعبرن
بندگان خدا! میں تمہیں اس خدا سے تقوی اختیار کرنے کی دعوت دیتاہوں جس نے تمہیں بہترین قیمتی لباس پہنائے ہیں اور تمہارے لئے مکمل معیشت کا بندوبست کیا ہے یاد رکھو اگر کسی شخص کو باقی رہنے کا وسیلہ ملتا اور موت کو مذید ٹالنے کے لئے کوئی راستہ ملتا تو وہ
سلیمان ابن داؤود ہوتے کہ جس کے لئے جن و انس دونوں کو مسخر کیا گیا تھا نیز نبوت اور تقرب خداوند بھی ساتھ حاصل تھا لیکن جب انہوں نے اپنے حصے کی غذا حاصل کی اور اپنی مدت کو پورا کر لیا تو فنا کے کمانوں نے موت کے تیر چلا دئے اور سارے شہر کے شہر ان سے خالی ر ہ گئے اور تمام قصروں کے چراغ بجھ گئے اور دوسری قومیں ان کی وارث ہو گئیں اور تمہارے لئے انہیں گزشتہ قوموں میں عبرت کا سامان فراہم ہو گیا ؎۱ نیز خدا کی قدرت اور دنیا والوں پر مسلط ظالموں کی تباہی کو یوں بیان کیا ہے۔
خطبہ ہمان بند ۲۱ این العماقلۃ و ابناء العماقلۃ این الفراعنۃ و ابناء الفراعنۃ الی ……مدّنو …
کہاں ہیں( شام اور حجاز کے عماقلہ اور ان کی اولاد کہاں ہیں مصر کے فراعنہ اور ان کے اولاد؟ کہاں ہیں آذربئیجان کے اصحاب الرس جنہوں نے انبیاء کو قتل کیا مرسلین کی سنتوں کو مٹا دیا اور ظالموں کی سنتوں کو زندہ رکھا کہاں ہیں وہ لوگ جو لشکر کو لے کر آگے بڑھ رہے تھ اور ہزاروں کی تعداد کو شکست دی تھی جنہوں نے فوج کے فوج تیار کئے اور شہروں کے شہروں کو آباد کئے ؎ ۲ ایک اور مقام پر حیلہ اور بہانوں سے جان چھڑانے والوں کے بارے میں یوں فرمایا ہے: قد زاحت عنکم الاباطیل و اضمحلت عنکم الاباالعلل الی بالنذر ۱۔تمام حیلے بہانے کمزور پڑ چکے ہیں حقائق ثابت ہو چکے ہیں اور امور پلٹ کر اپنی منزل پر آگئے ہیں لہذا عبرتوں سے نصیحت لو! زمانے کے تغیرات سے عبرت حاصل کرو اور ڈرانے والے شخص کی نصیحت سے فائدہ حاصل کرلو۔
عزیر اقرباء کی موت اور فراق سے عبرت لینا:
اس مشکلات سے بھری اور تکالیف میں ڈوبی ہو گی دنیا میں انسان کے لئے مایۂ سکون اور دکھ درد اس کے شریک اقارب اور رشتہ اور اس دوست احباب ہو سکتے ہیں یہی لوگ مشکلات اور مصیبتوں میں اس کے کام آتے ہیں اور انسان انہی کے سہارے اپنے غم کے بوجھ کو ہلکاکرتا ہے اور ان حالات میں ان کو اپنا سہارا سمجھتا ہے ایک دن جب یہی لوگ اس کے سامنے اور اپنے ہاتھوں سے انکے بے روح جسم کو زیرخاک دفناتا ہے تو سب سے پہلے جو بات اس کے ذہن میں آتی ہے وہ یہ کہ آج کو اس نے اپنی مدت تمام کر لی ہے اور کل کو مجھے اسی جگہ جانا ہے۔ امام علیہ السلام نے ایک جنازے پر شرکت کے دوران ایک شخص کو ہنستے ہوئے دیکھ کر یوں فرمایا: کان الموت فیھا علی غیرنا کتب ؎۱
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موت کسی اور کے لئے لکھی گئی ہے اور یہ حق کسی اور شخص پر واجب قرار دیا گیا ہے اور جن مرنے والوں کو ہم دیکھ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ مسافر ہیں جو عنقریب واپس آنے والے ہیں ادھر ان کے جنازوں کو زیر خاک اتارتے ہیں اور ادھر ان کا ترکہ کھانے لگتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ گویا ہمیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے اس کے بعد ہم نے ہر نصیحت کرنے والے مرد و عورت کو بھلا دیا ہے اور ہر مصیبت اورآفت کے ذریعے ہمیں نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بنی اسرائیل کی تباہ حالی سے عبرت:۔
؎ ۱۔نہج البلاغہ ترجمہ ذیشان حیدر جوادی ص ۳۴۹ متن خطبہ ص ۳۴۸ ؎۲۔خطبہ ۱۸۲ بند ۲۱ ترجمہ ص ۳۴۹ ذیشان ؎۳۔ خطبہ ۱۵۷ ترجمہ ذیشان ص ۲۹۵
خطبہ ۱۹۲ بند ۳۶ فاعتبروا بما احاب الی …… من طوارق الدھر عبرت حاصل کرو ان لوگوں سے جن پر
عذاب نازل ہوا ان کے استکبار کی وجہ سے اور خدا کا عذاب اور ہر جو نازل ہوا اس سے عبرت لو ان کے رخساروں کے بل گرنے اور پہلووں کے بل لیٹنے سے نصیحت حاصل کرو اللہ کی بارگاہ میں تکبر کے برے انجام سے بچنے کے ہدایت فرمائی اور جو لوگ اپنے چہروں پر ململ کے نقاب اوڑھتے تھے اور حریر کی بستر پرآرامدہ نیند سونے کی عادت رکھتے تھے کیسے ان کے خوبصورت چہرے اور پہلو زیر خاک زمین پر لیٹے اور چمڑوں کو مٹی پر رکھے ہوئے ہیں! ایک اور مقام پر تکبر کی وجہ سے شیطان کر دی گئی سزا کو یوں بیان کیا ہے: فاعتبروا بما کان من فعل اللہ بابلیس ……۳
تم لوگ پروردگار کے ابلیس کے ساتھ (اس کی تکبر کی وجہ سے) برتاؤ سے عبرت حاصل کرو کہ اس نے اس کے طویل عمل اور بے پناہ جدوجہد کو تباہ و برباد کردیا جب کہ وہ چھ ہزار سال عبادت کر چکا تھا جس کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ دنیا کے سال تھے یا آخرت کے ،مگر ایک ساعت کے تکبر انے اعمال کو برباد کردیا۔ معلوم ہوا کہ کبریائی فقط خداوند کے ساتھ مخصوص ہے چونکہ وہی قادر مطلق ہے مخلوق کو اس مقام عظمی تک رسائی نہیں اگر اونچا کرنے کی غلطی کی یا مقام تواضع سے ہٹا تو تباہی اس کا نتیجہ ہے۔
عبرت کے مثبت آثار:۔
نامہ ۴۹: ولو اعتبرت بما حفظت ما بقی ، والسلام : امام ؑ معاویہ کو جواب دیتے ہوئے آخر کلام میں فرماتے ہیں کہ اگر تو گزشتہ لوگوں سے عبرت لیتا تو باقی زندگی کو محفوظ کر سکتا تھا۔ امام کے کلام سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ عبرت حاصل کرنے والا اپنی زندگی کو خطرات سے بچاتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے اور یہی عبرت حاصل کرنے کا بہترین اثر اور نتیجہ ہے۔ نامہ ۵۳ بند۱۵۲ اور ۱۵۳ میں عادلانہ حکومت اور فاضلانہ سیرت کو یاد کرنے کا حکم دیا ہے کیوں کہ اس سے انسان نیک سیرت پر چلنے کے لئے آمادہ ہو جاتاہے جس کے نتیجے میں وہ خواہشات سے اپنے آپ کو دور رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ۲ ایک اور مقام پر امام علیہ السلام انسانی احوال اور اوصاف کو ہم مشابہ قرار دیتے ہوئے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ خطبہ ۱۹۲ بند ۹۳ فاعتبروا بحا ل ولد اسماعیل و بنی اسحاق و بنی اسرائیل الی…… واقرب الاشتباہ ۳ فرماتے ہیں لہذا تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق اور اسرائیل (یعقوب ) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کس قدر ملتے ہوئے اور کیفات اور صفات کس قدر یکساں ہیں۔ آقای امین الخوئی فرماتے ہیں جب تمہارے اوصاف بنی اسرائیل والوں کے اوصاف سے ملتے جلتے ہوں اور ایک جیسے ہوں تو آپ کو چاہیئے کہ ان کی حالت سے عبرت حاصل کرو ؎۴ پس اقوام پر گزرنے والے حالات سے اگر عبرت لیتے ہیں تو اس کافائدہ یہ ہو گا کہ یقینا ہم عذاب اور قہر الہی سے محفوظ ہو جائیں گے۔
۱۔ کلمات قصار ۱۲۲ ترجمہ نہج البلاغہ ذیشان حیدر جوادی ص ۶۷۳ متن ص ۶۷۲ ؎۲۔ ترجمہ ذیشان حیدر جوادی نہج البلاغہ ص ۲۸۵ ؎۱۔ نامہ ۳۹ ترجمہ نہج البلاغہ ص ؎۲۔ نامہ ۵۳ ترجمہ نہج البلاغہ ذیشان ص ۵۹۶ ؎۳۔ خطبہ ۱۹۲ بند ۹۳؎۴۔مع منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغہ میرزا حبیب اللہ خوشہر ص ۳۹۱
خداے متعال سے دعا ہے کہ ائمہ اطہار کے فرامین کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہراس سبب سے اللہ ہمیں محفوظ رکھے جس کی وجہ سے گزشتہ قوموں پر عذاب نازل ہوا۔