امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کے شرائط
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر نماز و روزہ کی طرح تعبدی محض نہیں ہے کہ مکلف ان کو انجام دے ایک خاص طریقے سے چاہے نتیجہ نہ بھی دیں پھر بھی اس مکلف کی مسئولیت انجام ہو جائے گی ۔ امر بہ معروف اور نہی عن المنکر مخصوص شرائط رکھتے ہیں ۔
۱۔معروف اور منکر کی شناخت :
امر بہ معروف اور نہی عن منکر بھی ان تکالیف میں سے ہے کہ جن کے بارے میں علم اور آگاہی ہونا واجب ہے کیونکہ ان کی شناخت کے بغیر اس کے بجا لائے جانے کا امکان نہیں یعنی جب انسان کو پتہ نہیں ہوگا کہ معروف کیا ہے اور منکر کیا ہے کس طرح لوگوں کو ان کے انجام دینے کی نصیحت کر ے گا۔ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا :
وامر بالمعروف تکن من اھلہ و انکر المنکر بیدک و لسانک۔۔۔۔۔۔۔۔ و تفقہ فی الدین۔۶؎
’’امر بہ معروف کرو تا کہ خود اہل معروف ہو اور ہاتھ سے اور زبان سے منکرات کا انکار کرو اور دین کی عمیق شناخت میں کوشش کرو ‘‘۔
۲۔ احتمال تأثیر :
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر ایسی تکالیف میں سے ہے کہ یہ تب واجب ہوتے ہیں جب احتمال تاثیر کافی ہے ۔ اور یہ تکلیف فقط اس وقت ساقط ہوتی ہے جب انسان کو علم و قطع ہو کہ اس کا امر بہ معروف اور نہی عن المنکر بے فائدہ ہے اور اس قسم کا فرض واقعاََ نادر ہے خداوند فرماتا ہے :
لعلہ یتذکر او یخشی ٰ
شاید و ہ نصیحت پکڑ لے یاڈر جائے ۔
۳۔گناہوں پر اصرار :
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ شخص گنہگار اپنے گناہوں پر اصرار کرے کیونکہ اگر گنہگار اپنے عمل کے بعد ادارہ کرلے کہ گناہ انجام نہیں دے گا یا اس سے وہ گناہ اتفاقی سرزد ہو گیا ہو تو اس صورت میں نہی کرنے کی ضرورت نہیں ہے نہی کی ضرورت اس وقت ہے جب وہ شخص گناہ انجام دینے پر خوش ہو اور ترک کرنے کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو اور اگر ایک شخص گناہوں سے دور ہونا چاہتا ہو اور کوئی نہی کرے تو شاید اس کا نقصان ہوگا فائدہ کے بجائے ۔
امر بہ معروف اور نہی عن المنکر مفسدہ سے خالی ہو :
اگر امر بہ معروف اور نہی عن المنکر میں انسان کو یہ احتمال ہو کہ ان کی وجہ سے اسے جان، مال یا عزت و آبرو کا نقصان ہوگا یا اس کے رشتہ داروں اور دوستوں کو یہ نقصانات ہوں گے تو اس صورت میں امر بہ معروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہوں گے مگر یہ کہ اصل دین خطرے میں ہو اس صورت میں ان چیزوں کو دین پر قربان کر دینا چاہئے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایاکہ میں نے امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کی خاطر قیام کیا اور اس راہ میں اپنی جان و مال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کروں گا اور اپنے اہل بیت ؑ کے اسیر ہونے کی بھی پرواہ نہیں کروں گا اور اس پیغام سے امام حسین ؑ نے دنیا والوں کو بتا دیا کہ مال وجان و عزت کو دین کے راستے میں قربان کر دینا چاہئیے اور جب بھی دین کو قربانی کی ضرورت ہو تو کسی قسم کی مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہئیے ۔
مراتب امر و نہی :
فقہ اسلامی میں تین مراتب کلی امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کے لئے ذکر کئے گئے ہیں اور ہر مرتبہ مختلف مراتب اور درجات کا حامل ہے اور جو شخص امر بہ معروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ یہ پائین مرتبہ سے ہو جائیں گے تو اس کے لیے اس سے اوپر والے مرتبہ کی طرف عدول کرنا جائز نہیں ہے ۔
وہ تین مراتب امر بہ معروف اور نہی عن المنکریہ ہیں ۔
۱۔ دل سے راضی ہونا یا نفرت کرنا ۔
۲۔ گفتار کے ذریعہ امر و نہی کرنا ۔
۳۔ اپنے زور بازو سے امر و نہی کرنا ۔
حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
فمنھم المنکر للمنکر بیدہ و لسانہ و قلبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۷؎
ایک گروہ منکر کا زبان سے اور دل سے انکار کرتا ہے پس وہ لوگ تمام اچھی عادتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اور جمع کیے ہوئے ہیں ۔ دوسرے گروہ نے منکر کا زبان اور دل سے انکار کیا ہے اور ہاتھوں کا استعمال نہیں کیا یہ وہ ہیں کہ جنہوں نے دو عادتیں اچھی عادتوں سے لی ہیں اور دوسری عادتوں کو ہاتھ سے دے دیا ہے ۔ بعض لوگ منکر کا فقط دل سے انکار کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ اور زبان سے کوئی کام نہیں کرتے۔ انہوں نے دو اچھی عادتوں کو ضائع کیا ہے اور ایک اچھی عادت لی ہے بعض ایسے لوگ ہیں کہ جنھوں نے منکر کو نہ زبان سے ، نہ دل سے اور نہ ہاتھ سے انکار کیا ہے وہ چلتی پھرتی لاش ہیں ۔