مقالات

امام زمانہ(عج) نہج البلاغہ کے آئینہ میں

  تمہید:

دنیا میں پھیلا ہوا ظلم  و ستم ہر طرف تباہی اور بربادی ،انائیت کا بول بالا اور دوسری طرف نیکیوںکی پامالی سے تنگ آکر آخر وہ کون سا انسان ہے جو اپنے معبود کی بارگاہ میں دست دعا بلند نہ کرتا ہو اور کسی منجی کے ظہور کا انتظار نہ کرتا ہو ۔ہر قوم اور ہر مذہب کسی نہ کسی منجی بشریت کے منتظر ہیں ،اور اس  کے آنے کی راہیں دیکھ رہے ہیں ۔لہٰذا  یہ کہا جا سکتا ہے کہ اجمال کے اعتبار سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن جب ہم ان مطالب کی گہرائیوں میں اترتے ہیںتوپھر ہمیں مختلف  افکارنظر آتے ہیں جو اپنے اپنے اعتبار سے اس مفہوم کی تحلیل کرتے ہیںاوراپنے اپنے بیان سے اس کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں ۔

        امام زمانہ عجّل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اور ان کی غیبت :   

        ہمارے پاس مستند حدیثوں  اور معتبر روایتوںکے ذریعہ یہ مسلّم ہے کہ ہادیوں میں سے ایک ہادی کافی عرصہ تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد ظہور کریں گے جن کا نام رسول کے نام پر ہوگا اورجن کی سیرت بھی رسول کریم کی سیرت ہوگی وہ اس وقت ظہور کریں گے جب یہ دنیا ظلم و جور سے بھری ہوگی اور اس وقت آپ اسے عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ حذیفہ روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم  ﷺ فرماتے ہیں ’’اگر چہ دنیا کے تمام ہونے میں ایک ہی دن باقی کیوں نہ ہو،خدا اسی روز کواتنا طولانی کر دیگا یہاں تک کہ خدا میری اولاد میں سے ایک مرد کو بھیجے گا،جس کا نام میرا نام ہوگا ،جناب سلمان نے دریافت کیااے رسول خدا !وہ آپ کے کون سے بیٹے کی نسل سے ہوںگے،آپ نے امام حسین ؑکے شانے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ’’ان کی نسل سے‘‘۔ ۱؎ امیر المومنین حضرت علیؑ، امام آخر ؑکے بارے میں فرماتے ہیں’’ تم لوگ یہ جان لو …کہ حضرت مہدی  اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف طولا نی عرصہ تک لوگوں سے پوشیدہ طور پر اس طرح زندگی بسر کریں گے کہ ماہرین آثارافراد بھی ان کے آثار تک نہیں پہنچ پا ئیں گے اگر چہ وہ اس راہ میں بے پناہ کوشش کر ڈ الیں۔۲؎ عقل و خرد رکھنے والا ہر آدمی اس حقیقت کو ضرور تسلیم کر ے گا کہ زمانہ دن بہ دن ، روز بہ روز خراب سے خراب تر اور بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے ،ملتیں اسیر ہو رہی ہیں ، تہذیبیں برباد ہو رہی ہیں ، اچھا اخلاق رخصت ہو رہا ہے ، عوام بھوکوں مر رہی ہے ۔اورقومیں نا امنی کی زندگی گزار رہی ہیں ، ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف مکاتب فکر نے انسان کے لئے منجی بشریت کا نظریہ پیش کیا ہے ،لیکن دین اسلام نے اس مسئلہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور اسلام کے احکام کا دوسرا گراں قدر منبع (احادیث)منجی بشریت کے ظہور کے نوید سے مالامال ہے ۔اور ہما رے پاس اس کی دلیل موجود ہے جو قرآن سے بھی ثابت ہے اور قول رسولؐ سے بھی۔ ہما رے مذ ہب کا بھی یہ ماننا ہے کہ ایک روشن زمانہ آئیگا جب کو ئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور سب ہی امن و چین کی زندگی گذاریں گے ، خدا ئے واحد کی پرستش کریں گے اور اس کی عبا دت میں کسی کو شریک نہیں کر یں گے ۔جیسا کہ امیر المومنین علیؑ فرماتے ہیں کہ ’’ وہ پیغمبر اسلام ؐ اور ائمہ ؑ کی روش پر عمل کریں گے ، یہاں تک کہ پریشانیاں دور ہوجا ئیںگی ، وہ غلام اور اسیر ملتوں کو آزاد کر یں گے ،گمراہ اور ظالم لوگوں کو تتر بتر اور حق کے متلا شی لوگوں کوایک جگہ جمع کردیں گے۔۳؎

         امامؑ اور آپؑ کی اصول پسندی   :

         کا ئنا ت میں جتنی بھی چیزیں موجود ہیں ،سب خدا وند عالم نے انسان کے فا ئدہ اٹھا نے کے لئے بنا ئی ہیں جیسا کہ خود قرآن مجید میںبھی اس مطلب کی طر ف مختلف جگہوں پر اشارہ ملتا ہے ۔ لیکن یہ ہم انسانوں کی کم ظرفی ہے کہ جس کی وجہ سے پوری طرح ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں ، اور بعض کا استعمال خود اپنے ہی ضرر میں کر لیتے ہیں ۔ دوسری چیزوںکا کیا ذکر کیا جائے جب کہ قرآ ن میں واضح طور سے خود قرآ ن کے ہی متعلق خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے {یضلّ بہ کثیراً و یھدی  بہ کثیراً  }۴؎  اللہ اس (قرآن) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے اوراسی کے ذریعہ بہت سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہے ۔

        تو پتہ چلا کہ تما م موجودات انسان کے فائدہ کے لئے ہیں یہ انسان ہے کہ جو غلط طریقہ سے ان چیزوں کا استعمال کر کے انہیں اپنے لئے مضر بنا لیتا ہے ۔ اس کی ایک واضح اور روشن مثال خود انسان کی توا نائی ، قدرت اور صلا حیت ہے۔ خدا وند عالم نے راہ ہدایت میں ترقی اور تکامل کے لئے انسان کو اس کے بد ن کے مختلف اعضاء و جوارح کی صورت میں بیش بہا تحفے دئے ہیں ، معنوی صلا حیتوں سے نوازا ہے اور امیر المو منین ؑکے قول کے مطابق انسان ہی میں ایک بڑا عالم ہے لیکن یہ بڑا عالم جسے خداوند عالم نے رشد و ہدایت کے لئے بنا یا ہے اور جسے عظمتوں کی چوٹیوں کو پا نے کے لئے خلق کیا ہے جب وہ اپنی توانائیوں اور قدرتوں کو غلط طریقہ سے بروئے کار لاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ فا ئدہ نہیں ہوتا بلکہ سنگین نقصان سے اسے روبرو ہونا پڑتا ہے ۔  یہ ضرر اس وقت تک فا ئدہ میں تبدیل نہیں ہو سکتے ہیں جب تک کہ اس کے استعمال کے لئے کو ئی اصول نہ بنایا جا ئے  ، اور چونکہ اسلام کے اصول سب سے کامیاب اصول ہیں ، اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے اصول پر اگر عمل نہ کیا گیا تو رحمتیں زحمت بن جا ئیں گی اور جنت میں لے جا نے کا وسیلہ ہی جہنم میں داخل ہو نے کا سبب بن جا ئے گا ۔

 امام زمانہ ؑکی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپؑ اسلام کے اصولوں کے خود بھی پا بند ہو نگے اور اسی اصول کو دنیا میں رائج بھی  کریں گے ۔جیسا کہ خود امیر المو منین علی  ؑ فرماتے ہیں کہ :  وہ ( امام زمانہ ؑ) دل کی آرزوؤں اور خوا ہشوںکو ہدایت اور راہنما ئی کے را ستہ پر   

چلا ئیں گے جب کہ اس زمانہ میں لوگ ہدا یت اور راہنمائی کو اپنے پیروں تلے کچل رہے ہو نگے اور جس زمانے میں تفسیر کے نام پر مختلف(خود ساختہ) نظر یوں کو قرآن پر تھو پا جا رہا ہو گا ، وہ نظر یوں اور فکروںکو قرآن کے مطابق ڈھال دیں گے ۔ ۵؎

        ہمیں تاریخ سے عبرت لینی چا ہئے :

        اگر ہم حقیقی طور سے اس دنیا  کے ذریعہ کا میا بی اور نجات حاصل کر نا چا ہتے ہیں تو سب سے کا میاب نسخہ یہ ہے کہ سیرت رسول اکرم ؐ جو کہ خود اسلام کے اصول و ضوابط کا بنیادی رکن ہے ، پر عمل کریں ۔ صرف اور صرف یہی نجا ت کا راستہ ہے ۔ اگر ہم تا ریخ پر نظر ڈا لیں تو ہمیں رسول اکرم ؐ اور ان کے ارشادات کی اہمیت کا پتہ چلے گا ۔ جب تک مسلمان پیغمبر اسلام ؐ کی اتباع اور پیروی کرتے رہے ، تب تک انہیں کا میا بی اور فتح ملتی رہی اور اسلام بھی پھیلتا رہا لیکن جہا ں مسلما نوں نے پیغمبر اسلام ؐ کی سیرت کو چھوڑ کر اپنی خوا ہشوں کی پیروی کی وہاں وہاں انہیں شکست اور نا کامی کا سامنا کرنا پڑا  ،اگر نمو نہ کے طور پر جنگ احد کو دیکھا جا ئے تو یہ ہما ری عبرت کے لئے کا فی ہو گی ۔ اس کے  با وجود کہ مسلمانوں کا لشکر کم اور کفار و مشرکین کی تعداد کا فی زیادہ تھی لیکن جس طریقہ سے پیغمبر ؐ اسلام نے مسلما نوں کو مختلف جگہوں پر معین کردیا  تھا وہ چھوٹی سی فوج بھی کامیابی کی طرف مسلسل گامزن تھی ، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب کفار و مشرکین کے پیر میدان جنگ سے اکھڑ گئے اور وہ اپنی جان بچا بچا کر بھا گنے لگے ۔ لیکن اس کامیابی کو دیکھ کر کچھ مسلمانوں نے اپنی وہ جگہیں چھوڑدیں جہاں پیغمبر اسلامؐ نے انہیں رکھا تھا اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہو ئے غنا ئم جنگی لوٹنے کے لئے دوڑ پڑے ۔ بس اتنا سا ہی موقع اسلام دشمنوں کے لئے کا فی تھا ، انہوں نے اسی طرف سے حملہ کر دیا اور پھر حالت یہ ہو گئی کہ مسلمانوں کی کا میابی شکست میں تبدیل ہو گئی ۔ اس ہو نے وا لی کا میا بی  کا شکست میں تبد یل ہو جا نا، یہ کس وجہ سے تھا؟ ہم جتنا بھی اس با رہ میں فکر کر لیں نتیجہ صرف یہی نکلے گا کہ رسول ؐ کے حکم کو نہ ما نا ، ادھرآپ ؐ کاقول فرا موش ہوا اور ادھر شکست نے بڑھ کر گلے سے لگا لیا ۔دین اسلا م جس طرح اوائل میں تیزی سے پھیل رہا تھا ، اگر اس میں کسی طرح کا فرق نہ آتا تو آج پوری دنیا کا صرف ایک اکیلا مذہب اسلام ہوتا ، لیکن کیا سبب ہے کہ رسولؐ کے زمانہ میں ترقی کرنے والاا سلام پچھڑتا  چلا گیا ؟  وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ مذہب کا نا م تو رہ گیا  لیکن خود مسلمانوںنے رسول اکرمؐ ،اور دین و شریعت کی پیروی چھوڑ کر اپنے خیال اور وہم کی پیروی کرنے لگے ۔

        امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ : وہ ( امام زمانہ ؑ ) دل کی آرزؤں اور خو اہشوں کوہدایت کے راستے پر چلا ئیں گے جب کہ اس زمانہ میں لوگ ہوس کی پیروی کر رہے ہو ں گے اور ہدا یت اور نصیحت پر توجہ نہ دیتے ہونگے۶؎۔ اور اگر تا ریخ سے  عبرت لی جا ئے تواس وقت پتہ چلے گا کہ ہدا یت کے اعتبار سے لوگوں کوچلا نا ہی اسلام کی سب سے بڑی فتح ہے ۔

        اسلام کی نئی زندگی :  

        کسی بھی پودے کے رشد کر نے کے لئے یہ ضروری ہو تا ہے کہ اس کی جڑوں کو مٹی میں چھپادیا جا ئے لیکن جڑ کا چھپ جا نا اس کے رشد کے لئے کا فی نہیں ہے بلکہ اسے سورج کی روشنی بھی چا ہیئے ، مناسب اندازہ سے پا نی بھی چا ہیئے … اسی طرح اگر پو دا لگا نے والا کچھ دن تک اس کا خیال رکھے تو یہ تھوڑے دن کی محنت اس کی سلامتی کے لئے کا فی نہیں ہو تی ہے چونکہ اس کی رشد اور سلامتی کے ساتھ ساتھ دوسرے مضر عوامل سے اس کی حفا ظت بھی ضروری ہو تی ہے۔ یہی کچھ حال اسلام کے پودے کے ساتھ بھی ہوا، پیغمبر اسلام ؐنے اس پودے کو لگایا ،اس کی جڑیں بھی مضبوط کر دیں اور تا حیات اس کی خبر گیری بھی کرتے رہے اس وجہ سے جب تک پیغمبر اسلام ؐ با حیات رہے شجر اسلام پر ہمیشہ بہار نظرآئی ،لیکن آپ ؑکے بعد جب محسن اسلام پر بھی پا بندیاں لگ گئیں تو اسلام کی ترقیاں بھی رک گئیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح درخت کے رشد و نمو کے عوامل ہو تے ہیں اسی طرح دین اسلام کے رشد کے بھی مختلف عوا مل ہیں، جس میں قرآن پر عمل ،اورسنت و سیرت پیغمبرؐ کی اتباع کا ایک اہم کردار ہے، جیسا کہ پیغمبرؐ اسلام نے کئی موقعوں پر ان کی محوریت کا اعلان کیا  ’’ انی تارک فیکم الثقلین ‘‘ کا جملہ اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن لوگوں نے نہ قرآن پر عمل کیا اور نہ ہی سنت پیغمبرؐ کی اتباع کی اور تو اور اسلام کے حاکموں نے ہی الگ اپنا راستہ ڈھونڈ لیا تو پھر اسلام کیسے ترقی کرتا ؟یہ تو ہما رے ائمۂ ہداۃ کی جاںفشانی کا نتیجہ ہے جو اسلام زندہ ہے ۔ورنہ اسلام بھی دوسرے تحریف شدہ ادیان کی فہرست میں شامل ہو چکا ہوتا ۔

        قرآن و سنّت کا احیائ:

        چونکہ اسلام کو زندہ کرنے ، اور زندہ رکھنے کے دو ہی عوامل ہیں، (۱) قرآن کو زندہ رکھنا اور(۲) سنت پیغمبر اسلام ؐ پر عمل کرنا ، لہٰذا   امام زمانہ ؑ ظہور کے بعد جن طریقوں پر اعتبا ر کر کے عمل کر یں گے ان میں بنیاد اور اصالت ، قرآن کی اتباع کرنا ہے جیسا کہ امیرالمو منینؑ    فرما تے ہیں کہ ’’ جب لوگ اپنے نظریہ کو قرآن پر تھوپ رہے ہونگے ،اس وقت وہ (امام زمانہ ؑ) نظریوں اور افکار کو قرآن کے تابع کریںگے،۷؎ یعنی پھر کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنے خیال اور اپنی فکر کے اعتبا ر سے عمل کرے بلکہ سب کے لئے ضروری یہ ہو گا کہ قرآن کے اعتبار سے عمل کریں اور اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں : ’’وہ حقیقی اور واقعی حکومت میں عادلانہ روش کو ظاہر کریں گے اور کتاب خدا اور  سنت پیغمبر اکرمؐ جنہیں اس وقت تک ترک کردیا گیاہو گا  اسے زندہ کریں گے‘‘ ۸؎جو کہ پیغمبر اسلام ؐ کی وصیت بھی ہے اور اسلام کی کامیابی و کا مرانی کا راز بھی ہے ۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ؐفرما تے ہیں(انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی و انھما لن تفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض)۹؎  بیشک میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میری عترت ہیں،اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگی ،یہاں تک کہ حوض کو ثر پر مجھ سے ملاقات کریں‘‘

        اللہ آپ ؑکے ذریعہ ہدایت کرے گا :

        رسول کریم ؐ کے مبعوث بہ رسالت ہو نے سے پہلے پوری دنیا چونکہ و حی سے دور تھی لہٰذا جاہلیت کی زندگی بسر کررہی تھی ۔ اس زمانہ کے لوگوں کی یہ حالت تھی کہ حرام اور حلال میں کبسی امتیاز کے قائل نہیں تھے، ان کے نزدیک سارے حرام ،حلال ہو چکے تھے اور ان میں بدی اور خوبی کی شناخت دم توڑ چکی تھی، جب ظلم و جور اور ضلالت و گمراہی پوری زمین پر حکم فرما تھی خداوند عالم نے قرآنی وحی کا رسول اکرم ؐ پر آغاز کیا اور پھر دنیا میں نورکا سلسلہ چل پڑا،تاریکی چھٹنے لگی ،گمراہیاں ہدایت میں تبدیل ہو نے لگیں، ظلم و جور کی جگہ عدالت نے لے لی ، شیطان پریشان ہوکرچیختا رہا… ،لیکن اب ایمان کی چمک دمک مومنین کے چہروںسے جھلکنے لگی تھی اور ہدایت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔ظاہری طور سے تو یہ رسول خدا ؐتھے جو لوگوں تک پیغام حق کو پہنچا رہے تھے ۔ لیکن در اصل خدا وند عالم آپ ؐکے ذریعہ  وحی کو  وسیلہ بنا کر لوگوں کو صحیح راستہ کی طرف متوجہ کررہا تھا ۔ ترسٹھ سال کی مختصر سی زندگی کے بعد جب پیغمبر اسلام ؐ نے رحلت کی ،تویہ ہدایت کی ذمہ د اری آپ ؐکے  بعد مسلسل ایک کے بعد ایک ائمہ  علیہم السلام   نے سنبھالی اور انہیںکے ذریعہ خدا وند عالم ہدایت کرتا تھا ،لیکن گیارہوں امامؑ کی شہادت کے بعد جب امام زمانہ ؑ نے غیبت اختیار کرلی، تو یہ سلسلہ گویا کہ منقطع ہو گیا ۔ وحی کا سلسلہ منقطع ہو جا نا پوری امت کے لئے بہت بڑی مشکل اور پریشانی بن گئی اور دوران جاہلیت کی جہالتیں گویا کہ پھر سے پلٹنے لگیں اس وجہ سے واقعی طور پر پھرسے اسی ہدایت کی ضرورت آگئی جس کی بنا پر لوگوں نے ہدایت پا ئی تھی ، جس طریقہ سے خدا نے پہلی با ر اپنی ہدایت کے ذریعہ رہنمائی کی تھی اسی طرح ایک بار پھر خدا نے امام زمانہ ؑ کو ہدایت کا وسیلہ بنایا،جیسا کہ مو لا ئے کا ئنا ت ؑ فرما تے ہیں کہ : ’’یہ جان لو کہ وہ جو ہم سے ہے ( امام مہدی ؑ) آیندہ فتنہ کے وقت موجود ہوگا وہ روشن چراغ کے ذریعہ ا س میں قدم رکھے گا ،اور گتھیوں کو سلجھا نے کے لئے اسی راہ اور اسی اصول پر عمل کریگا جس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور  ائمہ علیہم السلام عمل کر تے تھے ۔‘‘۱۰؎

تحریر: سید فرحت عباس رضوی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button