مقالات

عورت کا مقام نہج البلاغہ کی نگاہ میں (حصه اول)

عورت کی خلقت کا مقصد

        قرآن خلقت و صلاحیت کے فلسفہ (۱)میں مرد و عورت کے درمیان مثلا روح الہی(۲)فطرت الھی(۳)وجدان اخلاقی(۴) و ا مانت(۵) و غیرہ میں فرق قرار نہیں دیا اور جیسا کہ انسان کی اہمیت ایمان عمل صالح(۶) ،علم(۷) ،تقوی(۸)،ایمان میں سبقت (۹)،جھاد(۱۰) ،ہجرت(۱۱) خوشبختی کی راہ(۱۲) وغیرہ سے ہے اور قرآن مرد وعورت کے درمیان ان تمام چیزوں میں ذرہ برابر فرق قرار نہیں دیا ہے بلکہ مرد و عورت کی ایک دوسرے کے ذریعے مکمل جانا ہے ۔فقط یہی نہیں بلکہ اسلام عورت کی خلقت کا مقصد بیان کرتا ہے کہ اللہ نے عورت کو خلق کیا اور عورت کو ہی مرد کے وجود کی خلقت و پیدائش کیلئے مقدمہ قرار دیا ۔اسلام کے مطابق انسان کی خلقت کا ہدف(علت غائی) اس کا کمال تک پہنچنا ہے ۔انسان کیلئے آسمان ،زمین ،ہوا،پانی،سورج،چاند ،ستارہ…تمام چیزیں خلق کی گئی ہیں لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ عورت مرد کیلئے پیدا کی گئی ہے بلکہ قرآن آواز دے رہا ہے کہ مرد کو وجود عورت بخشتی اور خدا قرآن میں مختلف مقام پر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے {ھن لباس لکم و انتم لباس لھن}یا فرماتا ہے کہ {و لھن مثل الذی علیھن بالمعروف }(۱۳)اور دوسری جگہ اس کے مقام و عظمت کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے کہ {ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکما زواجا لستکنوا الیھا و جعل بینکم مودۃ و رحمۃ}(۱۴)کلمہ ’’من نفسکم‘‘مرد و عورت کے مساوی و برابر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

        قرآن میں بہت زیادہ آیات عورت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے جو کہ عورت کے مقام و فضیلت کی طرف نشان دہی کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عورت کے حقوق کی رعایت کی تاکید کرتیں ہیں اور ان کے حقوق کی رعایت نہ کرنے پر آتش جہنم کی دھمکی دی گئی ہے مثلا {تلک حدود اللہ }و {تبعد حدودہ فقد ظلم نفسہ}اور سورہ نساء کے شروع میں ہی کلمہ’’اتقوا‘‘عورت کی منزلت و انکے حقوق کی رعایت کی طرف اشارہ ہے ۔

        اس کے علاوہ بھی بہت زیادہ آیات و روایات عورت کے مقام و منزلت کے بارے میں موجود ہیں اورقرآن میں ایک مکمل سورہ ،سورہ نساء کے نام سے موجود ہے ۔اگر کسی جگہ پر ہمارے معصومین علیہم السلام نے عورت کی مذمت کی ہے تو سبب وجہ بھی بیان فرمائی ہے اور عورت کو محبت و مہربانی کا مرکز قرار دیا ہے ۔جیسا کہ امام علی ؑ اپنے فرزند امام حسن ؑ سے وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عورتوں سے مشورہ نہ کرنا ۔ان کی رائے کمزور اور ان کا ارادہ سست ہوتا ہے ۔انہیں پردہ میں رکھ کر ان کی نگاہوں کو تاک جھانک سے محفوظ رکھو کہ پردہ کی سختی ان کی عزت و آبرو کو باقی رکھنے والی ہے اور ان کا گھر سے نکل جانا غیر معتبر افراد کے اپنے گھر میں داخل کرنے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے ۔اگر ممکن ہو تو وہ تمہارے علاوہ کسی کو نہ پہچانیں تو ایسا ہی کرو اور خبردار انہیں ان کے ذاتی مسائل سے زیادہ اختیارات نہ دو اس لئے کہ عورت ایک پھول ہے اور حاکم و متصر ف نہیں ہے اس کے پاس و لحاظ کو اس کی ذات سے آگے نہ بڑھائو اور اس میں دوسروں کی سفارش کا حوصلہ نہ پیدا ہونے دو۔دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ غیرت کا اظہار مت کرنا اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستے پر چلی جائے گی اور بے عیب بھی مشکوک ہوجاتی ہے (۱)

        لیکن اگر دیکھا جائے تو اس کلام میں مختلف احتمالات پائے جاتے ہیں ایک احتمال یہ ہے کہ اس دور کے حالات کیطرف اشارہ ہے جب عورتیں ۹۹ فیصد جاہل پیدا ہوا کرتی تھیں اور ظاہر ہے کہ پڑھے لکھے انسان کا کسی جاہل عورت سے مشورہ کرنا نادانی کے علاوہ کچھ نہیں ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس میں عورت کی جذباتی فطرت کی طرف اشارہ ہے کہ اس کے مشورہ میں جذبات کی کارفرمائی کا خطرہ زیادہ ہے لہذا اگر کوئی عورت اس نقص سے بلند تر ہوجائے تو اس سے مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔تیسرا احتمال :یہ ہے کہ اس میں ان مخصوص عورتوں کی طرف اشارہ ہو جن کی رائے پر عمل کرنے سے عالم اسلام کا ایک بڑا حصہ تباہی کے گھاٹ اتر گیا اور آج تک اس تباہی کے اثرات دیکھے جارہے ہیں(۲)

        اس وصیت کی عمدہ و بہترین شرح ابن میثم بحرانی اس طرح بیان کرتے ہیں کہ امام علی ؑ نے امام حسن ؑ سے عورت و ان کے امور کے بارے میں چند وصیتیں کی ۱:۔عورت سے مشورہ کرنے سے پرھیز کرو ،کیونکہ یہ لوگ عقلی لحاظ سے ناقص (ناقص العقل)ہیں اور ان کی فکروں میں خطا کا  امکان ہے ۲:۔عورتوں کے نظریہ کو حجاب (لباس) کے ذریعے پوشیدہ کرو ۳:۔جس شخص کے بارے (چاہے مرد ہو یا عورت)اطمینان نہ ہو اسے گھر میں لانا بہتر نہیں ۴:بعض موقع پر مردوں کو گھر میں لانے سے زیادہ فساد کا سبب عورتوں کا گھر سے باہر جانا ہے اور عورتوں کیلئے اچھا یہ ہے کہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی کونہ پہچانے۔۵:وہ امور جو عورت کی طاقت و قدرت سے باہر ہیں (کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ)ان پر مسلط نہیں ہونا چاہیے ۔ان تمام باتوں کے باوجود امام ؑ نے فرمایا’’المراۃ ریحانۃ‘‘عورت ایسی گھاس کے مانند ہے جو خوشبودار ہوتی ہے عورت کا کام حاکم ہونا نہیں بلکہ عورت کا وجود لذت و فائدہ بخش ہے شاید ایک وجہ عورت کی ریحانہ (خوشبو) کے لفظ سے مخصوص کرنے کی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عرب کی عورتیں عطر بہت زیادہ استعمال کرتی تھیں اور یہ کہ عورت حاکم نہیں ہوسکتی اس لئے کہ وہ حاکم بننے کیلئے نہیں خلق کی گئی ہیں بلکہ(محکوم بنا کر پیدا کی گئی ہیں)تا کہ اس پر حکومت کی جائے ۔۶:انکا احترام جن(چیزوں ) سے مربوط ہے اس سے تجاوز نہ کرو۷:عورت کو دوسروں کی سفارش کیلئے نہ بلائو ،کیونکہ یہ کام ان کی توانائی سے باہر ہے اور اس کام میں انہیں کے نقصان کا اندیشہ ہے ۸:عورت کے معاملہ میں ان کی پاکدامنی و غیرت کو بیچ میں نہ لائو کیونکہ یہ چیزیں انکے لئے فساد کا موجب بن سکتی ہیں یعنی یہ کہانہیں برے کاموں کیلئے مجبور کرسکتی ہیں اور اس کامکی برائی و کثافت کو ان کی نگاہوں سے دور کرسکتی ہیں۔

        اسی طرح علامہ خوئی وصیت کی۳۱کی بہت اچھی تشریح کی ہے اور نیک نظریہ کے مطابق اگر مولاعلی ؑ نے عورتوں سے مشورہ کرنے سے منع کیا ہے تو عورتوں کی فکری ناتوانی کی وجہ سے ،اور اگر وہ امور جو انکی قدرت سے باہر ہیں اگر ان کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ڈالنے سے روکا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ کیونکہ ان کاموں کی وجہ سے انہیں تکلیف ہوسکتی ہے اور یہ چیزیں انکی خوبصورتی و اہمیت کو ختم کرسکتی ہیں اور انہیں دوسروں کی سفارش کیلئے نہ بلائو کیونکہ دوسروں کی توجہ ان کی طرف ہوسکتی ہے اور یہ فساد کا موجب بن سکتا ہے(۱)

        امام علی ؑ کے اقوال و گفتار حقیقت میں اسلام و قرآن ہے کہ ہر گز یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ ایک ساتھ حوض کوثر پر رسول اکرمؐ کے پاس حاضر ہونگے اور اگر کوئی انسان منبع اسلامی کی بررسی و تحقیق کرے تو اسے معلوم ہوجائیگا کہ اسلام نے عورت کی کمزوری جو لایق مہربان و کرم ہے اس پر خاص توجہ کی ہے اور اس یااپنا دفاع (حفاظت) کرنے سے بھی مجبور جانا ہے اسی وجہ سے عورتوں کی خوشبو وشیشہ سے تشبیہ دی ہے اور مردوں کو سفارش کی ہے کہ ان کے ساتھ مہربانی ونرمی کا سلوک کریں (۲)

        اسلام کہتا ہے کہ وہ امور جو عورتوں سے مربوط نہیں ہیں ان میں عورتوں سے مشورہ کرنیکی  ضرورت نہیں ہے لیکن وہ امور جو عورتوں سے مخصوص ہیں ان سے مشورہ کرو مثلا وہ امور جو لڑکیوں سے مربوط ہیں ’’أستمرو انساء فی بناتھن‘‘وہ امور جو کہ تمہاری بیٹیوں سے مربوط ہیں ان کے بارے میں اپنی عورتوں سے مشورہ کرو اگر دیکھا جائے تو مولاء کا مقصد عورتوں کی مذمت کرنا نہیں ہے بلکہ ایک واقعیت جو خلقت  میں پائی جاتی ہے اسے بیان کرتے ہیں یعنی قانون تکوینی و بقاء نسل انسان اس بات کا تقاضا کرتی ہے موجود خدا نے اس عظیم عہدہ کو عورتوں کے سپرد کیا اس کے تمام وسائل و لوازم انہیں عطا فرماتے ان میں ایک وسیلہ عشق و محبت ہے کہ مرد اس صفت سے محروم ہے اس لئے کہ  کا درد برداشت کے قابل ہو اس کیلئے عقل کی کمزوری کا ہونا ضروری ہے (۳)

        مولا علی ؑ نے اپنی وصیت میں عورتوں سے مشورہ کرنے سے منع کی ہے لیکن مولاؑ نے عمومی بات نہیں کہی ہے اور نہ تمام عورتوں کو ناقص العقل کہا ہے اور خود قرآن میں جو آیات مشورہ پر دلالت کرتیں ہیں وہ آیات عام ہیں اور عمومیت پر دلالت کرتی ہیں {امرھم شوری بینھم }(۱)و {والمومنون و المومنات بعضھم اولیاء بعض یأمررہ بالمعروف و ینھون عن المنکرٖ}(۲)بعض مومن مرد و عورت بعض ،بعض کے سرپرست ہیں اور ایکدوسرے کو اچھے و پسندیدہ کاموں کی دعوت دیتے ہیں اور برے کاموں کو انجام دینے سے منع کرتے ہیں ہمارے ائمہ خود عورتوں سے مشورہ کرتے تھے اور جو عورتیں باکمال تھیں دوسروں کو بھی ان سے مشورہ کرنے کی تاکید کرتے تھے جیسا کہ مولا علی ؑ فرماتے ہیں کہ (ایاک و مشاورۃ النسا الا من جربت بکمال عقل)(۳)یعنی عورتوں سے مشورہ کرنے سے پرہیز کرو مگر وہ عورتوں جنکی عقلیں کمال تک پہنچ گئی ہو اور بانچھ نہ ہو ان تمام باتوں کی بنا پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ احادیث جو عورتوں کی عقل کے ناقص ہونے پر دلالت کرتیں ہیں بعض عورتوں کیلئے ہے نہ کہ تمام عورتوں کیلئے (۴)

        ہمارے معصومین کا عورتوں سے مشورہ کرنا اس بات پر واضح دلالت کرتا ہے کہ تمام عورتیں ناقص العقول نہیں ہیں جیسا کہ مولا علی ؑ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول خدا نے اپنے اصحاب و انصار سے پوچھا کہ بتائو عورتوں کیلئے بہترین چیز کیا ہے ؟کسی نے زیور کسی نے حجاب،کسی نے گھر کہا یہاں تک کسی نے صحیح جواب نہیں دیا مولا علی ؑ جب پلٹ کر گھر آئے تو جناب فاطمہ ؑسے وہی سوال پوچھا بی بی فاطمہ نے عرض کیا:عورتوں کیلئے بہتر یہ ہے کہ وہ نا محرم کو دیکھے اور نہ ہی نامحرم اسے دیکھے ‘‘غرض دوسرے دن رسول اکرم ؐ نے دوبارہ سوال کرنے پر مولا علی ؑ نے جواب دیا حضرت ؐ نے فرمایا:اے علی  تم نے خود غور فکر کی ،مولا نے فرمایا:نہیں بی بی فاطمہ نے جواب دیا تھا(۵)

        یہی نہیں بلکہ بے شمار واقعات موجود ہیں جو عورتوں کی فضیلت کو بیان کرتے ہیں اور بہت زیادہ احادیث و روایات بھی موجود ہیں خود ہمارے ائمہ طاہرین نے عورتوں کے مقام و منزلت کے بارے میں روایات نقل کی گئی ہیں جیسا کہ امام صادقؑ جناب ہاجر کی تعریف و توصیف کے بعد ا سطرح ان کی صفت بیانکی ’’جمیلۃ عاقلۃ‘‘جناب ہاجر عاقل و خوبصورت عورت تھیں۔اسی طرح جناب موسی نے اپنی جوانی کے عنوں میں اپنی جان کی حفاظت کیلئے دربار سے باہر چلے گئے اور جناب شعیب کی بیٹی کی بتائی ہوئی تدبیر کے ذریعے اپنی جان کی حفاظت کی اور زندگی کو دوام بخشا اور رسول خدانے ام سلمی کی اس طرح تعریف کی ’’یرحمک اللہ انت علی خیر و الی خیر‘‘خدا کی رحمت تمہارے شامل حال ہو کہ تم نیکی کے راستے پر ہو اور ہمیشہ رہو گی اسی طرح امام حسین ؑنے جناب سکینہ اپنی دختر نیک اختر کے بارے میں بیان فرمایا کہ ’’و اما سکینۃ غالب علیھا الا ستغراق مع اللہ‘‘سکینہ یاد خدا میں غرق ہے (۶)

        جیسا کہ مولاؑ نے وپنی وصیت ۳۱ میں عورت کو نقص ایمان بیان فرمایاہے بعض ہمارے علماء کرام مثلا ابن میثم بحرانی وغیرہ عورت کے نقص ایمان ہونے کی وجہ اسطرح بیان کرتے ہیں کہ وہ ان ایام سے مربوط ہے جبکہ عورت نماز و روزہ کو ترک کرتی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو عورت اپنے ان ایام کا جبران کرلیتی ہے وہ کسطرح ؟

        عورتیں ،مردوں سے چھ سال پہلے(قبل) نماز شروع کرتیں ہیں اور ان چھ سال کی مدت میں انکی نماز ۱۲۹۰ رو زکی نماز ،مردوں سے زیادہ ہے اور وہ تمام ایام جبکہ نماز و روزہ کو انجام نہیں دیتی ہے ایک سال حد اقل ۳۶ دن و حد اکثر ۱۲۰ دن سے زیادہ نہیں ہوتے لہذاہر حال میں اس طرح وہ دن جن میں نماز و روزہ کو ترک کرتیں ہیں جبران ہوجاتا ہے اور بہت سے عورتیں ثواب کی نیت سے بعد میں نماز وروزہ کو ادا بھی کرتیںہیں(۱)

        دوسری جگہ مولاؑ نے ارشاد فرمایا:’’و اما نقصان عقولھن فشھادۃ امراتین کشھادۃ الرجل الواحد‘‘(۲)اور عقلوں کے اعتبار سے ناقص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں دوعورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوتی ہے مولا علی ؑ نے کیوں عورتوں کو ناقص العقل کہا۔اس کی بہترین توضیح ہمارے علماء کرام اس طرح بیان کرتے ہیں کیونکہ عورت کے مزاج کا خاصہ یہ ہے کہ واقعات کے بیان میں جذبات کو ضرور شامل کردیتی ہیں اوریہی چیز گواہی میں نقص پیدا کردیتی ہے ورنہ وہ شعور اور ادراک کے اعتبار سے ناقص نہیں ہوتی ہے اس کا نقص عقل پر جذبات کے غلبہ سے ظاہر ہوتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو مرد کو بھی ناقص العقل بنا سکتی ہے یا دوسرے الفاظ میں اگر مرد اپنے فسق کی بنا پر قابل شہادت نہ رہے تو اس کاشمار بھی ناقص العقل افراد ہی میں ہوگا کہ فسق کی تعلیم جذبات وخواہشات نے دی ہے عقل نے نہیں دی ہے ۔

        دوسری طرف اگر ہم دیکھے تو عقل کی دو قسم ہے عقل انسانی و اجتماعی ،عقل انسانی میں عورت و مرد برابر ہیں لیکن عقل اجتماعی میں مرد وعورت پر مقدم و غالب ہے وہ اس طرح عقل انسانی وہیں عقل ہے ’’ما عبد بہ الرحمن و اکتسب بہ الجنان‘‘یعنی عقل وہ چیز ہے جس کے ذریعے خدا کی عبادت کی جاتی ہے اور اس عقل کے وسیلہ سے بہشت حاصل کی جاتی ہے اسی عقل انسانی کے ذریعے انسان خدا سے رابطہ برقرار کرتا ہے اور آیات الہی پر غوروفکر کر{أفلا تعقلون}کیوں تفکر نہیں کرتے؟یہ آیت عمومیت پر دلالت کرتی ہے یعنی مرد و عورت دونوں کو شامل کرتی ہے لہذا عقل انسانی وہ عقل ہے جس میں مرد وعورت مساوی و برابر ہیں۔لیکن عقل اجتماعی ،فیصلہ کرنا ،ہدایت ،امامت ،جنگ ،گواہی وغیرہ سے مربوط ہے اور یہاں پر عورت کے جذبات غالب آجاتے ہیں وہ عورت کی نرمی وجذبات عقل پر غالب ہوجاتے ہیں اس بنا پر  مرد کی عقل ،عورت کی عقل پر مقدم ہے(۳)

        دوسری جگہ مولا علی عورت کی فضیلت اور اسکے وظیفہ کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں…و جہاد المرۃ حسن التبعل(۱)عورت کا جہاد شوہر کے ساتھ خوش اخلاقی و اس کی اطاعت ہے کیونکہ شوہر کی اطاعت میں خدا کی اطاعت ہے عورت کا نفس (امارہ)اس مسئلہ میں شکست کھاتا ہے اور عورت اللہ کے راستے پر گامزن ہوتی ہے ۔مولا ؑ کے اس قول سے بھی عورت کی عظمت واضح ہوتی ہے کہ خدا نے عورت کو میدان جہاد میں جانے سے منع کیاہے مگر اسے بغیر اجر و ثواب کے نہیں چھوڑا ہے بلکہ فرمایا :عورت کا جہاد شوہرداری ہے عورت یہ نہ سوچے کہ اللہ نے اسے اس فضیلت (جہاد)سے محروم کردیا ہے بلکہ اگر عورت گھر میں رہے اور اپنے تمام وظیفہ کو انجام دے تو ا سکا ثواب بالکل اس مجاہد کی طرح ہے جو میدان میں جا کر شمشیر کے ذریعے دشمنوں سے مقابلہ کرتا ہے رسول اکرم ؐ نے فرمایا:اس کا ثواب شہید کے ثواب کا نصف ہے واقعا اگر عورت اپنے شوہر کی دنیا وآخرت کے کاموں میں مدد کرتی ہے تو اس کا اجر مجاہدوں و شہدا کے برابر ہوتا ہے (۲) یہ اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے جیسا کہ ایک شخص رسول خداؐ کے پاس آیا اور عرض کی جب میں گھر جاتا ہوں تو میری بیوی میرے استقبال کو آتی ہے جب گھر سے باہر نکلتا ہوں تو خداحافظی کرنے دروازہ تک آتی ہے اور جب بھی مجھے غمگین دیکھتی ہیں تو کہتی ہے کیوں غمگین ہیں؟اگر آپ کا یہ غم دنیا و روزی کی کمی کیلئے ہے تو جان لیں رزق و روزی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور خدا اس کا ضامن ہے اور اگر آپ کا غم آخرت کیلئے ہے تو یہ ایک اچھا کام ہے کہ آپ آخرت کی فکر میں ہیں خدا آپ کے غم میں اضافہ کرے رسول خداؐ نے فرمایا:خدا زمین پر اپنے بندوں کو کام کرنے کیلئے بھیجتا ہے اور یہ عورت انہیں میں سے ایک ہے(۳)

مقالہ نگار :تسکین فاطمہ حیدری 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button