مقالات

عدالت علی علیہ السلام (حصہ دوم)

عدالت،  علی علیہ السّلام کی نگاہ میں :

               

حضرت علی علیہ السّلام  عدالت کو ایک وظیفہ الٰہی بلکہ ناموس الٰہی سمجھتے ہیں اور آپ کو ہرگز گوارہ نہیں کہ اسلامی تعلیمات سے آگاہ مسلمان طبقاتی نظام اور بے عدالتی کو تماشائی بنادیکھتا رہے۔

       امیرالمئومنین علیہ السّلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں  خدا کی قسم !مجھے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزانا اور طوق وزنجیر میں مقید ہو کر گھسیٹا جا نا اس سے کہیں زیا دہ پسند ہے کہ میں اللہ اور اسکے رسول ؐ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے کسی بندے پر ظلم کیا ہو یا مال دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو ۔میں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کرسکتا ہوں جو جلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑارہنے والاہے۔

         اور اسی طرح خطبہ شقشقہ میں گزشتہ غم انگیز سیاسی حالات کو بیان فرماتے ہیں کہ جب حالات نے پلٹا کھایا تو لوگ قتل عثمان کے بعد آپ کے پاس آئے اور خلافت قبول کرنے کے لیے اصرار کر نے لگے گزشتہ دردناک واقعات اور موجودہ زما نہ کی نا گفتہ بہ حالات کو دیکھتے ہوئے آپ نے اس سنگین ذمہ داری کو قبول کر نا نہیں چاہتے تھے لیکن اگر آپ خلافت کو قبول نہ کرتے تو (ایک طرف )حقائق پاما ل ہوجا تے اور لو گ کہتے کہ علی کو پہلے سے ہی خلافت کی رغت نہیں تھی اور آپ کی نگاہ میں اس کی کو اہمیت نہیں تھی تو(دوسر ی طرف ) اسلام اس با ت کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ معاشرے میںایک ظالم شکم پُری کی بنا پر ناراض اور دوسری مظلوم وستم دیدہ گرسنگی کی وجہ سے پریشان ہو ۔ایسی صورت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تما شائی بنارہے لھٰذا آپ نے اس ذمہ داری کو قبول کر لیا ۔

امیر المئو منین علیہ السّلام خطبہ شقشقہ میں اس کی طر ف یو ں اشارہ کر ہے ہیں کہ؎

 لَوْلَا حُضُوْرُالْحَاضِرِ‘ قیامُ الُحُجّۃِ بِوُ جُودِ النَّاصِرِ ‘وَمَااَخَذَاللّٰہُ عَلیَ العُلَمآئِ اَلَّا یُقارُّوا علیٰ کظِّۃِ ظالِمِِ‘ وَلَا سَغَبَ مَظلُومِِ‘لَا لَقیتُ حَبلھا علی غَارِ بِھا ‘وَکسقَیتُ آخرَ ھَابِکاسِ اوَّلھا ‘‘(۱۲)

     اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مددکر نے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو خدانے علی سے لے رکھاہے کہ وہ ظالم کہ شکم پُری اور مظلو م کی گرسنگی پر سکون واطمینا ن سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈود اس کے کاندھے پر ڈال دیتا اور روز اوّل کی مانند ایک گو شہ میں بیٹھ جاتا ۔

عدالت علی علیہ السّلام وحکومت :

      حضرت علی علیہ السّلام نے بھی خداکے نمائدوں کی طرح اپنی ہر حکومت اور ریاست کی سخت مذمت اور تحقیر فرمائی ہے جس کا مقصد چاہ طلبی اور تشکیل پانے والی حکومت کی اہمیت نہیں  بلکہ ایسی حکومت کواس کے سارے رزق وبرق کے باوجود سور کی اس ہڈی سے زیادہ پست تعبیر کیا ہے جو کسی مجذوم میں ہو۔   

         لیکن اگر یہی حکومت وریاست اپنے حقیقی اور اصلی محور ومر کز پر ہو یعنی اس کے ذریعہ معاشرہ میں عدالت کو رواج دیا جارہاہو ‘ حق کا وبول بالا ہو اور معاشرے کی خدمت کی جا رہی ہو تو ایسی حکومت حضر علی علیہ السّلام کی نگاہ میں نہایت مقدس ہے اور آ پ کی یہی کو شش تھی کہ ایسی حکومت ان کے حریف  ورقیب اور  مفاد پرست وفرصت طلب افر اد تک نہ پہونچنے پائے آپ نے ایسی حکومت کی بقاء وحفاظت اور سر کشوں کی سر کوبی کے لیے تلوار اٹھانے سے دیغ نہیں کیا ۔

        حضرت علی علیہ السّلام کے زمانے میں ابن عباس  حضرت علی علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔حضرت علی علیہ السّلام اس وقت اپنی بوسیدہ نعلین میں ٹانکے لگارہے تھے حضرت نے ابن عباس سے پو چھا اے انب عباس یہ بتائو ہماری اس نعلین کی کیا قیمت ہے؟ ابن عباس نے عر ض کی مولا کو ئی قیمت نہیں۔آپ ؑ نے فرمایا کہ میری نگا ہ میں یہ نعلین تم لوگو ں پر کی جا نے والی حکومت سے بہتر ہے مگر یہ کہ میں اس حکومت کے ذریعہ عدالت کا اجرا کر سکوں ‘حق صاحب کو دلا سکوں اور باطل کو نا بو د کر سکوں ۔

   نتیجہ:

        جب مولاء کائنات امیرالمئومنین علی علیہ السّلام  نے حکومت کی باگ ڈود اپنے ہاتھ میں لی اور آپ کی عادلانہ روش کا نتیجہ یہ ہوکہ پہلے ہی رنجش سے ارباب سیاست کے دلوں میں قہر ی طور پر رنجش پیداہوگی اور اس رنجش کے نتیجہ میں یہ ہو ا کہ تخریب کا ری کی جا نے لگی اور حکومت کے درد سر ی ایجاد کی جانے لگی خیر خواہ دوست آپ کی خدمت آئے اور نہایت خلوص اور خیر خواہی کے ساتھ التماس کر نے لگے کہ آپ اہم سیاسی مصلحتوں کی خاطراپنی سیاست میں کچھ نر می لائیں اور اس قسم کے مشکلات سے اپنے کو بچائے ‘ ٹکڑا دے کہ ان کا منھ بند کر دینا بہتر ہے اس لیے کہ یہ تخریب کارہیں ان سے بعض خلیفہ اوّل کے نمک خوار ہیں آپ کا مقابلہ معاویہ ایسے دشمن سے ہے جس کے قبضہ میں شام جیسا زرخیز علاقہ ہے مصلحت اسی میں ہے کہ عدالت جیسے موضوع کو نہ چھڑا جائے ۔

  حضرت امیرالمئومنین علی ابن ابیطالب علیہ السّلام نے جواب میں ارشاد فرمایا:۔ 

          ’’ اَتَامُرُونّیِ اَن اَطلُبَ النَّصرَ بِا لجَورِفِیمَن وُلِّیت ُ عَلیہِ لَا اَطُورُ سَمِیر ‘وَما اَمّ نَجمُ فی السّما ئِ نجمًا ‘لو کانَ المالُ لی لسَوّیتُ بَینھم ‘ فَکیفَ وَ اِنّماالمالُ مالُاللّہِ‘‘(۱۳)  

  کیاتم لوگ مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ خلافت کی خاطر نزاد پرستی وظلموزیادتی کروں مجھ سے یہ اُمید نہ رکھے ہوئے ہو کہ عدالت وانصاف کو خلافت وحکومت کی بھیٹ چڑھادوں خداکی قسم جب تک دنیا کا قصّہ جاری ہے اور تاروں میں کشش باقی ہے میں ہر گز یہ نہ کروں گا میں اور طبقاتی نظام ؟ میں’’ عدالت‘‘ کی پائمالی ؟ اگر میرا ذاتی ما ل ہوتا جسے رنج ومشقّت سے کمایاہوتاتوبھی ایک سدوسرے میں امتیاز قائم نہ کرتا چہ جا ئیکہ یہ ما ل تو خداوندعالم کا ہے اور میر حیثیت فقط ایک امانت دار کی سی ہے۔

   امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام خدا وندعالم کی بارگاہ میں اس طرح اپنی عدالت کو بیان فرمارہے ہیں کہ بارالٰہا !تو خوب جانتاہے کہ جو کچھ ہم سے (جنگ وصلح کی صورت میں ) ظاہر ہوا اس لیے نہیں تھا کہ ہمیں تسلط یا اقتدا کی خواہش تھی یا مال ٍکی طلب تھی بلکہ یہ اس لیے تھا کہ ہم دین کے نشانا ت کو ( پھر اُن کی جگہ پر)پلٹائیں اور تیرے شہروں میں امن وبہبودی کی صورت میں پیدا کرئیں تاکہ تیرے ستم رسیدہ بندوں کو کوئی کھٹکانہ رہے اور تیرے وہ احکام (پھر سے ) جاری ہوجاہیں جنھیں بیکار بنادیاگیا ہے ۔

       اے اللہ !میںپہلا شخص ہو ں جس نے تیری طرف رجوع کی اور تیرے حکم کو سُن کر لبیک کہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآ لہ ِوسلّم کے علاوہ کسی نے بھی  نماز پڑھنے میں مجھ پر سبقت نہیں کی ۔

خداوند متعال سے دعا ہے کہ ہمیں امیرالمئومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام  کے نقش قدم پر چلنے اور عدالت کو صحیح معنوں میں اجر ا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

حوا لہ جات:

۱۲۔نہج البلاغہ خطبہ۳شقشقہ

۱۳۔نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۶

تحریر: بلال علی ڈار کشمیری( کشمیر ھند)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button