روزہ اور خود سازی
يَأَيُّھَاالَّذِينَ ءَامَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلىَ اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ[1]
اے ایمان والو !اپنی فکر کرو، اگر تم خود راہ راست پر ہو تو جو گمراہ ہے وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا، تم سب کو پلٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے پھر وہ تمہیں آگاہ کرے گاکہ تم کیا کرتے رہے ہو.
ایک اور آیہ میں یوں ارشاد فرمارہا ہے وَ مَن تَزَكىََّ فَإِنَّمَا يَتَزََكىَّ لِنَفْسِهِ وَ إِلىَ اللَّهِ الْمَصِيرُ
اور جو پاکیزگی اختیار کرتا ہے تو وہ صرف اپنے لیے ہی پاکیزگی اختیار کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے.[2]
خود سازی کی تعریف یعنی اپنے آپ کو اندر سے پاک وپاکیزہ کرنا اور غیر خدا کو دل سے نکالنا .خود سازی سے مراد انسان کا اپنے آپ کو بری صفات اور محرمات سے بچانا ہے دوسرے الفاظ میں خود سازی یعنی انسان کا اپنےاعمال وکردار اور گفتار میں خدا کو مدنظر رکھنا اور اپنی خواہشوں پر خدا کی مرضی کو ترجیح دینا . یا اس طرح تعریف کی گئی ہے کہ انسان کا عقلی اور شرعی ہونا ،انسان عقلی یعنی عقل کے مطابق اعمال کو بجالا نا اور شرعی یعنی شرعیت کے مطابق اعمال کو بجا لانا ہے .
اسلام نے انسان کی سعادت وکمال کے لیے مختلف برنامے بنا ئے ہیں جن میں سے ایک یہ روزہ ہے جو انسان سازی کے لیے بہت ہی موئثر ہے روزہ انسان کی روح کو لطیف ،ارادہ میں تقویت اور خود سازی کی بہترین تمرین ہے روزہ جہاد پر جانے کے لیے ایک مقدمہ اور وسیلہ ہےجو شخص بھوک پر صبر نہیں کرسکتا اسکے لیے بعید ہے کہ وہ جہاد پر جائے گا اور وہاں صبر کرے گا .
امام جعفر صا دق علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ پیامبر گرامیﷺنے فرمایا روزہ خواہشات نفسانی اور شھوت کوکم کرتا ہے ،قلب کے صاف اور اعضاء بدن کے پاک ہونے کا سبب ہے انسان کے ظاہر اور باطن کو سنوارتا اور بناتا ہے ،شکر نعمت ،فقراء پر احسان اور بارگاہ خدا وندی میں خشوع وخضوع کاباعث ہے .اسی طرح روزہ خدا سے التجاء کرنے ،خدا وند متعال کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے،شھوت کے ٹوٹنے ،حساب وکتاب میں آسانی اور نیکیوں میں اضافہ کاباعث ہے .
اصلاح نفس اور خود سازی کے عوامل واسباب میں سےاہم عامل تفکر ہے
قَالَ عَلِی ع: الْفِكْرُ تُورِثُ نُوراً وَ الْغَفْلَةُ ظُلْمَةٌ وَ الْجَهَالَةُ ضَلَالَةٌ وَ السَّعِيدُ مَنْ وُعِظَ بِغَيْرِهِ وَ الْأَدَبُ خَيْرُ مِيرَاثٍ حُسْنُ الْخُلُقِ [3]
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتےہیں سوچ وفکر نورانیت اور غفلت وتاریکی کو ایجاد کرتی ہے اور جس کو اسکے بغیر نصیحت ہوگئی وہ سعید ہے اور ادب حسن خلق کی میراث ہے .اولیا ء خدا ،عظیم لوگ اور جو بارگاہ خدا وندی میں تقرب رکھتے ہیں اور خاندان وحی کے پر فیض ہیں اور جوان بزگان کے مدد گار اور اصحاب میں سے تھے وہ کسی کام کو انجام دینے سے پہلے تفکر کی عظیم نعمت سے بہرہ مند ہوتے تھے لہذا وہ بصیرت اور دور اندیشی کے مالک بن گئے اور اسی بصیرت ودوراندیشی کی بدولت وہ تہذیب نفس اور خود سازی کے میدان میں کامیاب ہوگئے لیکن فقدان بصیرت اور تفکر نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو پشیمانی اور افسوس کا سامنا کرنا پڑا .امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں لَا بَصِيرَةَ مَن لا فِكرَ لَه جوفکر نہیں رکھتا وہ بصیرت اور روشن بینی نہیں رکھتا. [4]
خود سازی کی ابتدا توبہ ہی سے ہوسکتی ہے توبہ کے بغیر خودسازی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے . امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں التَّوْبَةُ تُطَهِّرُ الْقُلُوبَ وَ تَغْسِلُ الذُّنُوبَ . [5]توبہ سے قلوب پاک اور گناہ دھلتے ہیں توبہ یعنی ہوائے نفس کے چراغ کو گل کرنااور خدا کی مرضی کے مطابق اپنا قدم اٹھانا .توبہ ہی خود سازی کا مصداق اور نزول رحمت الہی کا باعث بنتی ہے امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں. عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع أَنَّهُ قَالَ: التَّوْبَةُ تَسْتَنْزِلُ الرَّحْمَةَ. [6] توبہ کرنے سے رحمت الہی نازل ہوتی ہے .
خود سازی کے اہم عوامل میں سے ایک محاسبہ نفس ہے .محاسبہ یعنی انسان دن کے خاتمہ پر اپنے ایک روز کے کاموں کی جانچ پڑتال کرے اور دیکھ لے کہ جو فرائض الہی اور واجبات اسکے ذمے تھےان پر عمل کیا ہے یا نہیں؟کیا لغزش اور انحراف کا شکار تو نہیں ہوگیا ہے ؟خود سازی کے اہمیت کے پیش نظر حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں : عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَاضِي ع قَالَ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يُحَاسِبْ نَفْسَهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ فَإِنْ عَمِلَ حَسَناً اسْتَزَادَ اللَّهَ وَ إِنْ عَمِلَ سَيِّئاً اسْتَغْفَرَ اللَّهَ مِنْهُ وَ تَابَ إِلَيْهِ. [7] جوہر روز اپنا محاسبہ نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے چنانچہ اگر نیک عمل انجام دیا ہے ،توخدا سے اعمال نیک کےزیادہ ہونے کی دعا کرے اور اگر کوئی گناہ اور برا کام انجام دیا ہے خدا سے توبہ اور استغفار کرے.پیامبر خدا ﷺاپنے اصحاب سے فرماتے ہیں : قال رسول اللّه ﷺ: ألا أنبّئكم بأكيس الكيّسين، و أحمق الحمقاء؟ قالوا: بلى يا رسول اللّه، قال رسول اللّه ﷺ: أكيس الكيّسين من حاسب نفسه و عمل لما بعد الموت، و أحمق الحمقاء من أتبع نفسه هواه و تمنّى على اللّه الأماني. [8]
کیا تمہیں عاقل ترین عاقلوں اور نادان ترین نادانوں کی خبر دوں ؟اصحاب نے کہا جی ہاں یارسول اللہ آنحضرتﷺ نے فرمایا عاقل ترین انسان وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اوراپنے مرنے کے بعد کےلیے عمل کرے اور احمق ترین انسان وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہشات کاغلام ہو اور ہمیشہ اپنی آرزوں کےبارے میں خدا سے درخواست کرے .
قال رسول اللّه ﷺ:یااباذر ،حَاسِب قَبلَ اَن تُحَاسَبَ ،فَاِنَّہ اَھوَنُ لِحِاسَبِکَ غدا اے ابوذر اپنے نفس کا حساب لو ،اس سے پہلے کہ تمھارے نفس کا حساب لیا جائے تاکہ کل تمھارے لئے محاسبہ آسان ہوجائے .[9]
خوسازی کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں اور موانع موجود ہیں جسطرح عوامل اسبا ب کو مختصر کیا ہے ان کو بھی اختصار کے ساتھ تحریر کررہا ہوں .
غفلت خودسازی کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ اور مانع ہے ،خدا،آیات الہی ،قیامت اور خود اپنے آپ سے غافل ہونے کی وجہ سے انسان فضائل انسانی سے محروم ہوجاتا ہے .غفلت کے مقابلے میں یقظہ ہے یعنی بیداری. خود سازی کےلیے بیداری اساسی شرط ہے انسان کو جان لینا چاہیے کہ وہ مسافر ہے .مسافر کے لیے زادہ راہ اور راہنمائی کی ضرورت ہے اگر اس کو معلوم نہ ہو کہ وہ مسافر ہے تو وہ اپنے لیے زادراہ اور راہنمائی کا بندوبست نہیں کرے گا.اولیاء دین کی نگاہ میں غفلت گمراہی اور پلیدگی ہے .مولا امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: الْغَفْلَةُ ضَلَالُ النُّفُوسِ وَ عُنْوَانُ النُّحُوسِ . غفلت نفس کی گمراہی اور بدقسمتی کا عنوان ہے .[10]غفلت انسان کو کمال اور بزرگی تک پہنچنے سے روک دیتی ہے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشا دفرماتا ہے :وَ لَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الجِنِِّ وَ الْاِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِھَا وَ لَھُمْ أَعْيُنٌُ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَ لَھُمْ ءَاذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُوْلَئِكَ كاَلْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُوْلَئكَ هُمُ الْغَافِلُونَ[11]
اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہے مگر وہ ان سے سوچتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔
غفلت سے بچنے کے لیے بہترین راہ یاد خدا ہے خاص طور پر حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھنا .
لفظ شیطان اور ابلیس قران مجید میں تقریبا ۹۹ مرتبہ ذکر ہوا ہے جس کا مقصد فقط انسان کو خدا وند عالم کی عبادت واطاعت سے روکنا اور گناہ معصیت میں غرق کرنا ہے پروردگار عالم نے قرآن میں کئی جگہ شیطان کو انسان کے دشمن کی حیثیت سے روشنا س کرایا ہے اور انسان کو اسکے مکروفریب سے خبردار کرکے اس سے دور رہنے اور اسے اپنا دشمن سمجھنے کی ہدایت فرمائی ہے ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے : إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكمُْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُواْ حِزْبَهُ لِيَكُونُواْ مِنْ أَصحَابِ السَّعِيرِ شیطان یقینا تمہارا دشمن ہے پس تم اسے دشمن سمجھو، بے شک وہ اپنے گروہ کو صرف اس لئے دعوت دیتا ہے تاکہ وہ لوگ اہل جہنم میں شامل ہوجائیں ۔[12]
جب تک کوئی شخص شیطان سے دوری اختیار نہیں کرے گا حقیقت خودسازی اس میں پیدانہیں ہوگی گناہ کامرتک انسان شیطان کااطاعت گذار ہے اور جب دشمن اس قدر چالاک ہے اورہر ظاہر اور مخفی طریقے سے درپے ہے توہمیں کیا کرنا چاہیے ؟دشمن ہر لمحہ ہماری معمولی سی غفلت کا منتظر ہے توہمیں بھی چاہیے کہ کسی لمحہ اپنا اسلحہ نہ اتاریں انسان کا اسلحہ تقوی ہے صرف اہل تقوی ہی تقوی کے اسلحہ کی مدد سے خود کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اہل تقوی جب ذکر خدا میں مشغول ہوتے ہیں تواپنے نور بصیرت ومعرفت سے دام ابلیس کو دیکھ لیتے ہیں.
بزرگترین مانع خودسازی تعلقات دنیاوی ہیں.مال وثروت سے محبت کرنا ،گھر اور اسباب زندگی سے لولگانا ،مقام ومرتبہ کی ہر وقت ٹوہ میں رہنا ،اس قسم کے تعلقات دنیاوی انسان کو خودسازی سے روک دیتے ہیں .
تمام مادی عناصر اور انسانی زندگی کی ضروری اشیاء سے رابطہ ہی انسان کی دنیا ہے .اگر یہ رابطہ خدا وند عالم کی مرضی کے مطابق ہوتو بے شک انسان کی یہ دنیا قابل حمد وثنا ہے ،اوراخروی سعادت کی ضامن ہے ،لیکن اگر انسان کا یہی رابطہ مادی اوردل کی خواہشات کی بناپر ہو جہاں پر کسی طرح کی کوئی حد وحدود نہ ہو تواس وقت انسان کی یہ دنیا مذموم اور آخرت میں ذلت کا باعث ہوگی اور یہی دنیا ہے جو خودسازی اور اصلاح نفس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے مولا امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں : مَنْ أَصْبَحَ حَزِيناً عَلَى الدُّنْيَا فَقَدْ أَصْبَحَ سَاخِطاً عَلَى رَبِّهِ تَعَالَى وَ مَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّهِ طَالَ شِقَاؤُهُ وَ غَمُّهُ الدُّنْيَا. [13] جوبھی دنیا کے بارے میں رنجیدہ ہوکرصبح کرے تو وہ درحقیقت قضائے الہی سے ناراض ہے جس کا سب سے بڑا مقصد دنیا ہو تواسکی بدبختی اور غم دنیا طولا نی ہوجائیں گے .رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں حُبُ الدُّنْيَا أَصْلُ كُلِ مَعْصِيَةٍ ٍ وَ أَوَّلُ كُلِّ ذَنْبٍ [14] دنیا کی محبت ہر معصیت اور گنا ہ کی بنیاد اور ہر نافرمانی کی ابتدا ہے .دنیاوی زندگی کاظاہر ی روپ بہت ہی پر فریب ہے کونکہ جس کے پاس چشم بصیرت نہ ہو اسکو یہ زندگانی دنیا دھوکے میں مبتلا کرکےاپنی طرف کھنیچ لیتی ہے اور پھر اسے آرزوں ،خواہشات ،فریب اور لہو ولعب کے حوالے کردیتی ہے .
بزرگترین مانع خودسازی عدم قابلیت نفس ہے جس کا دل گناہوں سے آلودہ اور تاریک ہو چکا ہے وہ انوار الہیہ کی تاب نہیں لاسکتا اورجب ایک انسان کا دل شیطان کی آماجگاہ بن جاتا ہے توفرشتگان مقرب الہی نزول نہیں کرتے .امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جب ایک انسان گنا ہ کرتا ہے تواسکے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے یہ باربار گناہ کرنےکی وجہ سے اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے تواس صورت میں ہرگز انسان فلاح اور رستگاری کی طر ف نہیں جاتا .
ایک مانع خود سازی شکم پرستی اور پر خوری ہے صبح سے شام تک لذیذ غذاوں کی تلاش میں رہنا ،اور جوغذا کی لذت اورمشروبات کی لذت میں سارا دن گزارتا ہے وہ مناجات کی لذت کب حاصل کرے گا.امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں پرشکم کا اثر انسان کو طغیان بن دیتا ہے خدا وند متعال کے نزدیک ہونا فقط خالی شکم میں ہوتا ہے اوربدترین حالت اس وقت ہے جب انسان کا شکم پر ہوتا ہے ایک مقام پر علی علیہ السلام فرماتے ہیں جب خدا کسی بندہ کو صحیح کرنا چاہتا ہے تو اسے تین چیزیں عطاکرتا ہے ۱۔ قلت طعام ۲۔قلت کلام ۳۔قلت نیند [15]
ایک مانع خود سازی حبّ ذات ہے . انسان اگرچہ کثیر زحمت کے بعد بعض موانع بزرگ خودسازی کو برطرف کرلیتا ہے لیکن ابھی تک ایک ایسا مخفی مانع خودسازی انسان کے اندر موجود ہوتا ہے جسے حبّ ذات کہتے ہیں .ضروری ہے کہ انسان اس حبّ ذات کو حبّ خدا میں تبدیل کرے ان تمام کاموں کو فقط خدا کی رضا کی خاطر انجام دے حتی اگر غذا بھی کھاتا ہے تو اس نیت سے کھائے کہ اس پروردگار کی عبادت کرسکے.
شاید بزرگترین اور مھمترین مانع خودسازی ضعیف ارادہ اور تصمیم گیری کی قدرت کا نہ ہونا ہے یہ مانع انسان کو شروع ہی سے عمل سے روک دیتا ہے شیطان اور نفس امارہ کوشش کرتے ہیں کہ ریاضت اورعبادات الہیہ غیر ضروری ہیں کہتے ہیں تیرا وظیفہ ان کاموں کو انجام دینا نہیں ہے تیری عمر ابھی بہت باقی ہے یہ کمالے یہ اکٹھا کرلے ….مثلاانسان ارادہ کرتا ہے کہ میں کل روزہ رکھو نگا لیکن اپنے ارادے کے برعکس روزہ نہیں رکھتا .اسی طرح انسان ارادہ کرتا ہے کہ میں آج رات نماز تھجد کے لیے اٹھو ں گا لیکن اپنے ارادہ کے خلاف نہیں اٹھتا او رنماز تھجد نہیں پڑھتا ۔اسطرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس قسم کے انسان کاارادہ ضعیف ہے لہذا ضروری ہے کہ پہلے مضبو ط ارادہ کی تمرین کی جائے
نفسانی خوہشات کی پیروی کرنےوالے شخص کادل کبھی کسی طر ف اور کبھی کسی طرف گھومتا پھرتا رہتا ہے اسکو اصلا وقت ہی نہیں ملتا کہ وہ خدا کے ساتھ خلوت میں گفتگو کرے رازونیاز کی باتیں کرے قال علی علیہ السلام فاشجع الناس من غلب ھواہ مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں شجاع ترین وہ شخص ہے جو اپنی نفسانی خواھشات پر کنٹرول رکھے [16]
ایک مانع خودسازی غیرضروری اوربے فائدہ باتیں ہیں خدا وند متعال نے انسان کو تکلم کی طاقت عطا کی ہے کہ اس سے اپنی ضرورت کوبرطرف کرے اگر انسان فقط ضرورت کی گفتگو کرتا ہے توگویا نعمت بزرگ سے استفادہ کررہا ہے اور اگر بیھودہ اور غیر ضروری باتوں میں سارا دن لگارہتا ہے تو گویا نعمت خدا وندی کو ضائع کررہا ہے . رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں کثرت کلام سے پرہیز کرو مگر یاد خدا میں کرسکتے ہیں کیونکہ خدا کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتونی ہونا قساوت قلبی کا موجب بنتا ہے اور اپنی زبان کی حفاظت کر وکیونکہ یہ ایک بہترین ھدیہ ہے . مولاعلی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : وَ قَالَ علی ع إِذَا تَمَّ الْعَقْلُ نَقَصَ الْكَلَامُ جب عقل مکمل ہوتی ہے توباتیں کم ہوجاتی ہیں کیونکہ عاقل کو ہر بات تول کر کرنا پڑتی ہے [17]
تحریر: مولانا ممتاز حسین بھڈوال
حوالہ جات
[1] ۔ سورہ مائدہ (105)
[2] .سورہ فاطر ۱۸
۱۔بحار الأنوار (ط – بيروت) / ج74 / 289 / باب 14 خطبه صلوات الله عليه المعروفة ….. ص : 280
[4] .شرح غررالحکم ،ج۶،ص۴۰۱
[5] ۔ تصنيف غرر الحكم و درر الكلم / 195 / آثار التوبة ….. ص : 195
[6] ۔ مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل / ج12 / 129 / 86 – باب وجوب التوبة
[7] ۔ الكافي (ط – الإسلامية) / ج2 / 453 / باب محاسبة العمل ….. ص : 453
[8] ۔ سفينة البحار / ج2 / 174 / في محاسبة النفس ….. ص : 173
[9] . بحارالانوار ج۷۰،ص۷۳
[10] ۔ تصنيف غرر الحكم و درر الكلم / 265 / ذم الغفلة ….. ص : 265
[11] .سورہ اعراف آیہ ۱۷۹
[12] .سورہ فاطر آیہ۶
[13] . كنز الفوائد / ج1 / 345 / فصل من كلام أمير المؤمنين ص في هذا المعنى ….. ص : 345
[14] .میزان الحکمۃ ،ج۳،ص۲۹۴
[15] .مستدرک الوسائل ج۳،ص۸۱
[16] .بحارالانوار ج۷۰ ،ص۷۶
[17] . نهج البلاغة کلمات قصار71