مقالات

دوست و دوستی خالق نہج البلاغہ مولا ئے کائنات کے بیش بہا اقوال کی روشنی میں

     تمہید :

        انسان اجتماعی اور معاشرتی زندگی گذارتاہے۔اور اس زندگی میں اس سے متعلق بہت سے رشتے اور تعلقات ہوا کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک کا ایک الگ مقام اور ہرایک کی اپنی حیثیت ہوا کرتی ہے ۔ان رشتوں میں کچھ رشتے تو خدا دادی  ہو تے ہیں یعنی ان میں انسان کی مرضی اور اختیا ر کا دخل نہیں ہو تا ہے، جیسے ماں ،باپ ،بھائی ،بہن ،گھر ،خاندان، وغیرہ ،لیکن کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان پوری طرح سے خود مختار ہوتا ہے، ایسے رشتوں میں سے ایک رشتہ، دوستی ہے ۔ دوستی انسان کی عقل و فکر کی ایک حد تک عکاسی کرتی ہے، غالباً یہ حدیث ہی کا مفہوم ہے کہ ’’کسی شخص کو پہچاننا ہو تو اس کے ہم نشینوں کو دیکھو ‘‘ تو اس طرح دوستی بھی ایک ایسا رشتہ ہے کہ جو انسان کی شخصیت بنا نے اور بگاڑ نے میںکا فی حد تک موثر ہے، دوست ایک ایسی شخصیت ہے کہ جو انسان سے سب سے زیادہ نزدیک اور قریب ہے کیو نکہ یہ دوست ہم سن وسال اور ہم فکر و ہم مزاج ہو تا ہے۔ اس لئے ہما رے احساسات ، فکر اور جذبا ت کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے اور فکری و عملی غلطیوں کی اصلاح بھی کر سکتاہے۔ لہٰذا ہمیں اچھے دوست کی ضرورت ہے ساتھ ہی خود کو اپنے دوست کے لئے ایک اچھا ساتھی اور ہمدم بنا نے کی بھی ضرورت ہے ۔ اس لئے اس پر کا فی غور و فکر کرناچاہیئے ۔ لہٰذا دوستی کو اسلامی نقطہ نظر سے مولا ئے کا ئنات کے قیمتی بیانات کی روشنی میںبیان کیا جا تا ہے۔  

        دوست اور دوستی، ایک ایسا عنوان ہے کہ جس سے نوع بشر کی ہر فرد آشنا ہے ۔ عالم ہو یا جا ہل ، بڑا ہو یا چھوٹا ،امیر ہو یا غریب ، ہر فرد اپنے افکار اور خیالا ت کے مطا بق ، اپنے ہم فکر اور ہم مزاج شخص کو اپنا دوست بنا تا ہے ۔دوستی خدا کا اپنے مو من اور مخلص بندوں کے لئے ایک بہت بڑا تحفہ ہے اوریہ تحفہ اتحاد اور بھائی چارگی کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ دو ستی مختلف اغراض و مقاصد کے تحت ہوتی ہے ۔ جیسے کسی خاص ہدف تک پہنچنے کے لئے ، یا سیا سی فا ئدہ کے لئے ، غرض کہ دوستی کا میدان بہت وسیع ہے اس میں مختلف عنا وین اور مقاصد شامل ہو سکتے ہیں ۔لیکن ہما ری گفتگو ایک اچھے، دین میں مددگاراور اسلامی دوست کے سلسلے میں ہے۔

        دوستی کسے کہتے ہیں؟ :

        اس عنوان کواگر چہ ہرشخص جا نتا ہے، لیکن اور زیا دہ سمجھنے کے لئے دوست اور دوستی کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ دو ہم فکر اور  ہم مزاج افراد کے درمیان ایک خاص قلبی اور محبتی رشتہ اور تعلقات کو دوستی کہتے ہیں ۔یہ دوستی کسی نسبی یا سببی رشتہ کی محتاج نہیں ہوتی ہے بلکہ صرف دو افراد کے ایک دوسرے سے میل جول اور ملاقات سے وجود میں آتی ہے ۔زیادہ تر دوستیاں ،اسکولوں ،مدرسوں اور کالجوں میں ہواکرتی ہیں ۔عام طور پر کوئی کسی سے کہہ کر دوستی نہیں کرتا ،بلکہ اسکول میں ساتھ رہتے رہتے کھیلتے کودتے دوستی ہو جا تی ہے اور زیادہ تر ایسی دوستیا ں اسکولوں ، مدرسوں ہی میں ختم بھی ہو جا تی ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ایسی دوستیاں اسکول کے بعد بھی با قی رہیں   دوستی کرنا اور دوست بنانا سماج میں ایک اچھا کام سمجھا جا تا ہے ۔اور یہ کام اچھے اخلاق اور خوش مزاجی کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اسی سلسلے میں           مولا ئے کا ئنات علی ںفرما تے ہیں ـ  ـ’’ دوستی اور محبت عقل کا نصف حصہ ہے‘‘۱؎ آپ نے دوستی کرنے کو عقلمندی میں شمار کیا ہے ۔

        دوستی سے متعلق اسلامی نظریہ :  

        عام طور سے دوستی خود سے ہی ہو جا تی ہے ،جب مختلف افراد ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو ان کے درمیان ہر کوئی اپنے ہم فکر اور ہم خیال شخص کو دوست بنا لیتا ہے ۔ دنیا کے مختلف مذاہب میں سے کوئی بھی اس موضوع پر کوئی خاص نظریہ نہیں رکھتا ہے ۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے کہ جس نے اس موضوع کو بھی بڑی اہمیت دی ہے، اور دوست اور دوستی سے متعلق اپنا خاص نظریہ بھی ظاہر کیا ہے  اور اس دوستی ( رفاقت) کو بھی دینی چیزوں میں شمار کرتے ہو ئے د وست کو دینی بھا ئی کہا ہے ۔ ساتھ ہی دوستی کے اصول اور ضوابط بھی معین کئے ہیں۔{ جاری ہے}

تحریر:  سید محمد مجتبیٰ علی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button