امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف( حصه اول)
مقدمہ
نہج البلاغہ کی عظمت و اہمیت قطعاً محتاج بیان نہیں ہے یہ وہ کتاب ہے کہ جس پر زمانہ کی گردشیں اثر انداز نہیں ہوسکیں بلکہ زمانہ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ جدید اور روشن سے روشن افکار و نظریات مسلسل اسکی قدر و قیمت اور اہمیت میں اضافہ کرتے رہے اسکی فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہیکہ خود ابن ابی الحدید حضرت علیؑ کے ایک قول کے سلسلے میں کہتا ہے کہ اگر سارے فصحائے عرب ایک مجلس میںجمع ہو جائیں اور ان پر یہ کلام تلاوت کیا جائے تو انہیں چاہئے کہ وہ اس کلام کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں ۔
آپ کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف تو خود دشمن نے بھی کیا ہے کہ جب محقن ابن ابی محقن حضرت علی ؑ کو چھوڑ کر معاویہ سے مل گیا اور صرف معاویہ کے دل کو خوش کرنے کے لئے کہ جو کینہ ٔ علی ؑسے لبریز تھا ،کہنے لگا :
’’میں ایک گنگ ترین شخص کو چھوڑکر تمہارے پاس آیا ہوں۔ ‘‘یہ چاپلوسی اتنی منفور تھی کہ خود معاویہ نے اسکو پھٹکارتے ہوئے کہا ’’وائے ہو تجھ پر !تو علی ؑکو گنگ ترین شخص کہتا ہے جبکہ قریش علی ؑ سے پہلے فصاحت سے واقف نہ تھے ،علی ہی نے قریش کودرس فصاحت دیا ہے۔
اسکی سند کے معتبر ہونے کے سلسلہ میں علمائے اہل سنت کے علاوہ عیسائی مفکرین نے بھی اقرار و اظہار کیا ہے ۔
اگر اسکو تحت کلام الخالق فوق کلام المخلوق کہا جاتا ہے تو جسطرح قرآن کا دعویٰ ہے کہ لارطب و لایابس الا فی کتاب مبین کہ کوئی خشک و تر ایسا موجود نہیں جو اس کتاب میں موجود نہ ہو ،تو نہج البلاغہ کے سلسلہ میں بھی کہا جا سکتا ہیکہ یہ وہ کتاب ہے کہ جسمیں ہر چیز کا ذکر موجود ہے اور ہر موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
امامت و رہبری
امامت و رہبری (نہج البلاغہ میں جسکا تذکرہ تقریباً ۷۵؍ مقامات پر ہوا ہے)ایک ایسا مسئلہ ہے جسکا جاننا ہم سب پر فرض ہے اور اپنے امام کی معرفت ہر انسان پر لازم و ضروری ہے جیسا کہ رسول اسلام ؐنے فرمایا ہے: ’’من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ۔ ‘‘
جوانسان اپنے امام کو پہچانے بغیر اس دنیا سے چلا جائے اسکی موت جاہلیت کی موت ہے ۔اس حدیث کو شیعوں کے علاوہ ۲۵ ؍سے زائد معروف و مشہوراہل سنت راویوں نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے(جسکی تفصیل کو اس مختصر مقالہ میں ذکر کرنا ممکن نہیں ) اسکے باوجود یہ حضرات اس عقیدہ پر باقی ہیںکہ امام پردہ غیب میں نہیں ہیں اور انکی ابھی ولادت نہیں ہوئی ہے ۔
مہدویت
مسئلہ مہدویت بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جسکو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں شیعوں کا عقیدہ یہ ہیکہ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریفکی ولادت ہو چکی ہے اور آپ ؑ پردہ غیبت میں ہیں ،ایک دن آئیگا جب آپ ظہور کرینگے اور ظلم و جور کا خاتمہ کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے لیکن بعض اہل سنت حضرات کا عقیدہ و نظریہ یہ ہے کہ آپ کی ولادت ابھی نہیں ہوئی ہے بلکہ ایک زمانہ آئیگا جب آپ کی ولادت ہوگی اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہوگی جبکہ تقریباً سو سے زائد اہل سنت علماء ،شیعوں کے عقیدے کے معترف ہیں جیسے سبط بن جوزی،ابن خلدون ،فخر رازی شافعی ،عارف عبد الوہاب شعرانی حنفی ، ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہرستانی ،علامہ میر خواند ،نورالدین ابن صباغ مالکی،ابو عبد اللہ یاقوت حموی وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں اس عقیدے کا اقرار کیا ہے کہ آپ ؑ کی ولادت ۱۵؍ شعبان المعظم ۲۵۵ ھ میں ہو چکی ہے اور بعض نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ آپ امام حسن عسکری ؑ کے فرزند ہیں مثلاً عبد الوہاب شعرانی حنفی کہتا ہے کہ آخری زمانہ میں امام مہدیؑ کے خروج کی امید ہے اور آپؑ امام حسن عسکری ؑ کی اولاد میں سے ہیں، آپؑ کی ولادت نیمہ شعبان ۲۵۵ ھ میں ہوئی ابھی تک آپ با حیات ہیں یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ کے ساتھ جمع ہوںگے اور آپ کی عمر اس زمانہ میں ۷۰۶ سالہ ہے(جبکہ اسوقت آپ ؑ کی عمر ۱۱۷۲ سال ہے) اسکی خبر مجھے شیخ حسن عراقی نے دی ہے۔ ‘‘
(الیواقیت والجواہر ج/۲ ص/۱۲۷)
بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس دور میں مہدویت کی بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ بحث آئندہ سے مربوط ہے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس بحث کے بہت سے فوائد ہیں مثلا ً آپ کے ظہور کے اسباب میں سے بعض ایسے سبب ہیں جو کہ خود انسان کے ذریعہ حاصل ہونے والے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہم معلوم کریں کہ ہمارا فریضہ کیا ہے تاکہ ہم جلد از جلد آپ ؑ سے نزدیک ہو سکیں اور آپ کا دیدار کر سکیں یا ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمارا امام ہمارے تمام امور کا ناظر ہے لہٰذا اسپر ہمارا عقیدہ ہوگا تو ہم گنا ہوں سے بچ سکتے ہیں یا اسکے علاوہ بہت سے اسباب اور علتیںبھی بیان کی گئیں ہیں ۔
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلہ کو نہج البلاغہ میں کس حد تک بیان کیا گیا ہے اور آپ کے سلسلہ میں مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے کیا کیا پیشنگوئیاں فرمائی ہیں ۔( جاری ہے)
تحریر: سید منہال حیدر زیدی