امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف(حصه دوم)
نہج البلاغہ کے آئینے میں
خطبہ/ ۱۰۰ میں ارشاد ہوتا ہے :’’۔۔۔و خلف فینا رایۃ الحق من تقدمھا مرق۔۔۔ولاتیأسوا من مدبر۔۔۔‘‘
’’۔۔۔اور ہمارے درمیان ایک ایسا پرچم حق چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھ جائے وہ دین سے نکل گیا ۔۔۔۔۔قیام اطمنان سے کرتا ہے لیکن قیام کے بعد پھر تیزی سے کام کرتا ہے جب تم اسکے لئے اپنی گردنیں جھکا دو گے اور ہر مسئلہ میں اسکی طرف اشارہ کرنے لگو گے تو اسے موت آجا ئے گی اور اسے لیکر چلی جائی پھر جب تک خدا چاہے گاتمہیں اسی حال میں رہنا پڑے گا یہاں تک کہ وہ اس شخص کو منظر عام پر لے آئے جو تمہیں ایک مقام پر جمع کر دے اور تمہارے انتشار کو دور کر دے تو دیکھو جو آنے والا ہے اس کے علاوہ کسی کی طمع نہ کرو جو جارہا ہے اس سے مایوس نہ ہو جاؤ۔۔۔۔‘‘
پرچم حق سے مراد خود امام علی ؑ ہیں پھر اہلیبت جن میں مستقبل قریب میں امام محمد باقر ؑ اور امام جعفر صادق ؑ کا دور تھا جس کی طرف دنیا نے رجوع کیا اور انکی سیاسی عظمت کا احساس بھی کیا اور مستقبل بعید میں امام مہدیعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا دور ہوگا اور اسلام پلٹ کر اپنے مرکزپر آجائیگا اور ظلم و جور کا خاتمہ ہوگا اور عدل و انصاف کا نظام قائم ہو جائیگا۔
اسی طرح ابن ابی الحدید اپنی شرح میں لکھتا ہے کہ یہاں پر امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے سلسلہ میںپیشنگوئی کی گئی ہے کہ وہ اہل بیت میں سے ہیں اور ہمارے (اہل تسنن)نزدیک وہ آئندہ پیدا ہوں گے لیکن امامیہ کے نزدیک دور حاضر میں موجود ہیں ۔
(شرح نہج البلاغہ ج/۷ص/۹۴-۹۵)
یہ جملہ کہ ’’ولا تیأسوا من مدبر ‘‘جو کہ آپ کی غیبت کی طرف اشارہ ہے کہ جس کے سلسلہ میں اسنے تحریر کیا ہے کہ جب امام مہدی کی وفا ت ہو جائے تو مایوس نہ ہونا کہ شاید ہم ابھی تک غلطی پر تھے ۔
ایک دوسرے خطبہ میں ارشاد ہوتا ہے
’’۔۔۔و یعطف الرأی علی القرآن اذا عطفوا القرآن علی الرّای الا و فی غد۔۔۔۔۔۔و تخرج لہ الارض افالیذ کبدھا و تلقی الیہ ۔۔۔‘‘ (خطبہ /۱۳۸)
’’۔۔۔وہ رائے کو قرآن کی طرف جھکا دے گا جب لوگ قرآن کو رائے کی طرف جھکا رہے ہوں گے ۔۔۔۔۔یا د رکھو کل اور کل بہت جلد وہ حالات لے کر آنے والا ہے جسکا تمہیں اندازہ نہیں ہے ۔اس جماعت سے باہر کا والی تمام اعمال کی بد اعمالیوں کا محاسبہ کرے گا اور زمین تمام جگر کے ٹکڑوں کو نکال دے گی اور نہایت آسانی کے ساتھ اپنی کنجیاں اس کے حوالے کر دے گی اور پھر وہ تمہیں دکھلائے گاکہ عادلانہ سیرت کیا ہوتی ہے اور مردہ کتاب و سنت کو کس طرح زندہ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔‘‘
اسکے شروع کے جملے میں ہی امام علی ؑ نے اشارہ کیا ہے کہ وہ رائے کو قرآن کی طرف جھکا دے گا جبکہ لوگ اسکو رائے کی طرف جھکا رہے ہوں گے یہاں پر مراد اہل تسنن ہیں جو قیاس اور رائے کے ذریعہ حکم فقہی کا استنباط کرتے ہیں جبکہ یہ صحیح نہیں ہے ۔اسکے بعد آپ ؑ نے امام مہدی کے ظہور کے وقت کی منظر کشی کی ہے جسکے لئے انسانیت سراپا انتظار ہے کہ جب عدل و انصاف قائم ہوگا اور زمین اپنے سارے خزانے اگل دے گی جیسا کہ قرآن نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے:
’’و اخرجت الارض اثقالھا ‘‘ (زلزال/۲)
’’اور وہ سارے خزانے نکال دے گی ‘‘
یا اسی کے ضمن میں امام صادق ؑ کی یہ حدیث کہ
’’جس وقت ہمارا قائم قیام کرے گا زمین (امام کی تدبیر اور لوگوں کی سچی سعی و کوشش کی بنا پر )اپنے تمام قیمتی خزانے ظاہر کر دے گی تاکہ لوگ خود اپنی آنکھوں سے اسکا مشاہدہ کر لیں (اس طرح کہ لوگ ظاہری اور معنوی اعتبار سے بے نیاز ہو جائیں گے )کہ اسکے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو تمہارے ہدیہ یا زکات کے مال کو قبول کر لے اس طرح تمام لوگ خدا کے فضل سے بے نیاز ہو جائیں گے ۔‘‘ (بحار الانوار ،ج/۵۲ص/۲۳۷)
اس حدیث اور دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تمام افراد کے اقتصادی حالات بھی عروج پر ہوں گے اور یہ صرف اور صرف مومنین کے تقوے اورر پرہیز گاری کی بنیاد پر ہوگا ۔پروردگار عالم کی تمام نعمتیں ظاہر ہوجائیں گی ،آسمان سے جیسے بارش ہونا چاہئے بارش ہوگی، چاروں طرف ماحول سر سبز و شاداب ہوگا نیز بقول خود مولائے کائناتؑ کہ اگر ایک عورت عراق سے شام جانا چاہے گی تو اسکا پیر صرف ہری بھری کھاس کے علاوہ کہیں اور نہ پڑے گا ۔
علم بھی اپنے کمال پر ہوگا۔ امام صادق ؑ فرماتے ہیںکہ علم کے ۲۵؍ حروف ہیں جسمیں وہ علم صرف دو حرف سے زیادہ نہ تھا جسکو تمام پیغمبران الٰہی نے لوگوں کے سامنے پیش کیا لیکن آپ (امام مہدیؑ)کے دور میں بقیہ ۲۵ ؍حروف بھی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو جائیں گے ۔
آپؑ نے ایک مقام پر فرمایاہے:
’’۔۔۔۔یا قوم ھذا ابان ورد کل موعود ۔۔۔۔۔۔۔فی سترۃ عن الناس لا یبصر القائف اثرہ ،ولو تابع نظرہ ۔۔۔‘‘
(خطبہ/۱۵۰)
’’لوگو!یہ ہر وعدہ کے ورود اور ہر اس چیز کے قربت کا وقت ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو ۔۔۔لوگوں سے یوں مخفی رہے کہ قیافہ شناس بھی اس کے نقش قدم کو تاحد نظر نہ پا سکیں ۔۔۔‘‘
اس خطبہ میں بھی آپ نے امام ؑ کی غیبت اور ظہور کا تذکرہ فرمایا ہے اور یہ واضح کر دیا کہ زمانہ بہر حال حجت خدا سے خالی نہ رہے گا۔ اب تمہارا فرض ہے کہ اس کے ذریعہ آگے قدم بڑھاؤ۔
یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں پر ابن ابی الحدید نے اپنی شرح ، جلد /۹،صفحہ /۱۲۸ پر تحریر کیا ہے کہ اس سے مراد آپ کی غیبت ہے جو کہ شیعوں کا عقیدہ ہے پھر اس عقیدہ کا انکار کرنے کے بعد خود ہی تحریر کیاہے کہ ممکن ہے امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریفکو خدا وند عالم پیدا کرنے کے بعد کچھ دن لوگوں سے مخفی رکھے اور دوسروں کے ذریعہ روابط قائم رہیں۔
اسی طرح آپ نے سلسلہ امامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مستقبل کے حالات کا ذکر کیا ہے :
’’الا بابی و امی ھم من عدّۃ اسماؤھم فی السماء معروفۃ فی الارض مجھولۃ۔۔۔‘‘ (خطبہ /۱۸۷)
’’میرے ماں باپ ان چند افراد پر قربان ہو جائیں جن کے نام آسمان پر معروف اور زمین میں مجہول ہیں ۔۔۔۔‘‘
یہاں پر ’’عدۃ ‘‘کی شرح میں شیعوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ امامیہ یہ کہتے ہیں کہ عدۃ سے مراد گیارہ امام ہیں جو کہ آپ ؑ کی نسل سے ہیںاور دوسرے افراد اس کا مقصود اولیائے خدا کوبیان کرتے ہیں ۔لیکن اسنے اپنا نظریہ بیان نہیں کیا کہ عدہ سے مراد کیا ہے جبکہ اسکے علاوہ خود اہلسنت کی کتابوں میں نہ جانے کتنی صحیح احادیث میں سلسلہ ٔ امامت کا ذکر ہوا ہے ۔مثلاً جابر بن حمزہ نے رسول اسلام ؐ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: ’’لا یزال الاسلام عزیزاً الیٰ اثنیٰ عشر خلیفۃ ثم قال کلمتہ لم افھمھا ،فقلت لابی ما قال؟فقال :کلھم من قریش ‘‘ (صحیح مسلم ج/۶ ص/۳)
’’اسلام ہمیشہ سے پسندیدہ رہا ہے یہاں تک کہ اسپر بارہ خلیفہ حاکم ہوں۔ اسی وقت آپ نے کچھ فرمایا جسکو میں سمجھ نہ سکا۔میں نے اپنے والد سے دریافت کیا کہ پیغمبر ؐ نے کیا فرمایاتو انہوں نے جواب دیا کہ وہ سب کے سب قریش سے ہیں ‘‘
نہج البلاغہ میں کلمات قصار کے ضمن میں ایک واقعہ نقل ہوا ہے کہ کمیل بن زیاد نخعی فرماتے ہیں :امیر المومنین نے (اپنے زمانہ ٔ خلافت میں قیام کوفہ کے دوران )مجھے ساتھ لیا ۔ہم لوگ شہر سے باہر قبرستان کی طرف نکل گئے۔ جب شہر سے دور سناٹے میںپہونچے تو امام نے ایک آہ سرد بھری اور گفتگوکا سلسلہ شروع کیا۔ اپنی گفتگو کی ابتدا میں فرمایاکہ اے کمیل! لوگوں کے دل ظرف کے مانندہیں اور بہترین ظرف وہی ہے جو اپنے بہترین مظروف کی اچھی طرح حفاظت کر سکے پس جو کچھ میں بیان کر رہا ہوں اسے محفوظ کر لو ۔
مولائے کائنات ؑ نے اپنی اس گفتگو میں جو تھوڑی مفصل بھی ہے فرمایا کہ راہ حق کی پیروی کرنے والے انسان تین طرح کے ہوتے ہیں اور اس کے بعد آپ نے اپنی تپش دل اور گھٹن کا شکوہ ان الفاظ میں فرمایا کہ آج ایسے افراد نہیں ہیں کہ میں اس سینہ میں محفوظ رموز و اسرار کے عظیم ذخیرہ ان افراد کے حوالہ کر سکوں لیکن اختتام گفتگو میں فرماتے ہیںکہ البتہ ایسا نہیں کہ علی جن کی آرزو رکھتا ہے زمین ان افراد سے بالکل خالی ہو گئی ہے ،نہیں ایسا ہر گز نہیںہے ،ہر عہد میں ایسے افراد رہے ہیں اگر چہ ان کی تعداد کم ہی رہی ہو، پھر آپنے ارشاد فرمایا :
’’اللھم بلی ! لا تخلو الارض من قائم اللہ بحجۃ اما ظاہر مشھوراً و اما خائفا مغمورا ۔۔۔‘‘ (حکمت /۱۴۷)
’’اس کے بعد بھی زمین ایسے شخص سے خالی نہیں ہوتی ہے جو حجت خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہے وہ ظاہر ہو اور مشہور یا خائف اور پوشیدہ ،تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور اسکی نشانیاں مٹنے نہ پائیں لیکن یہ ہیں ہی کتنے اور کہاں ہیں ؟واللہ ان کے عدد بہت کم ہیں لیکن ان کی قدر و منزلت بہت عظیم ہے ۔۔۔یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ اور اس کے دین کے داعی ہیں ۔ہائے مجھے ان کے دیدار کا کس قدر اشتیاق ہے‘‘ ۔
اتمام حجت بہر حال ایک اہم اور ضروری مسئلہ ہے لہٰذا ہر دور میں ایک حجت خدا کارہنا ضروری ہے چاہے ظاہر بظاہر منظر عام پر ہو یا پردہ ٔ غیبت میں کہ اتمام حجت کے لئے اسکا وجود ہی کافی ہے اس کے ظہور کی شرط نہیں ہے اور حضرت علی ؑ کا اس بیان کے سلسلہ میں اتنا اہتمام اسکی اہمیت کو اور بڑھا دیتا ہے ۔
اس کو یقوبی نے تاریخ یعقوبی میں جلد /۲،صفحہ /۴۰۰ پر یا بیہقی نے ’’المحاسن و المساوی ‘‘میں صفحہ /۴۰ پر اور اسکے علاوہ اکثر اہل سنت نے اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے ۔
خود ابن ابی الحدید نے اس جملہ کی شرح میں اس طرح تحریر کیا ہے ـ:
’’یہ جملہ بطور صراحت شیعوں کے عقیدۂ امامت سے نزدیک ہے ‘‘
جبکہ خود اسکا عقیدہ اسپر نہیں تھا اور یہ حق پر باطل کا لبادہ چڑ ھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے جیسا کہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
’’ولا تلبسوا الحق بالباطل و تکتموا لحق و انتم تعلمون ‘‘ (بقرہ /۴۲)
’’حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو‘‘
یا دوسری آیت میں اس طرح خطاب ہوتا ہے:
’’ یا اہل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل و تکتمون الحق و انتم تعلمون ‘‘ (آل عمران/۷۱)
’’اے اہل کتاب ،کیوں حق کو باطل سے مشتبہ کرتے ہو اور جانتے ہوئے حق کی پردہ پوشی کرتے ہو ‘‘
جبکہ دیگر مقامات پر بھی مولائے کائنات ؑ نے امامت و رہبری اور خلافت کو لوگوں پر واضح کر دیاتھا لیکن یہ تمام چیزوں کا علم رکھتے ہوئے بدیہیات کا انکار کرتے ہیں اور یہ واقعاً افسوس کا مقام ہے کہ ایک عالم ادیب ،مورخ ،متکلم ،حدیث شناس،تاریخ اسلام سے آشنا انسان فقط اپنے مذہب کے اعتراف اور شیعوں کی مخالفت کی بنا پر اسکو قبول نہیں کرتا اور آپ ؑ کے قول کا مسخرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہاں آنحضرت ؑ کا مقصود کچھ اور ہے ۔ایسے ہی افراد کے لئے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے :
’’و جحدوا بھا واستقنتھا افسھم ظلماو علوا۔۔۔‘‘ (نمل/۱۴)
’’ان لوگوں نے ظلم اور غرور کے جذبہ کی بنا پر انکار کردیا تھا ورنہ ان کے دل کو بالکل یقین تھا ۔۔۔‘‘
ایک مقام پر آپنے ؑ آئندہ کے حالات بیان کرتے ہوئے قرآن کی آیت تلاوت فرمائی :
’’لتعطفن الدنیا علینا بعد شماسھا ۔۔۔و نرید ان نمن علی الذین ۔۔۔‘‘ (حکمت /۲۰۹)
’’یہ منھ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف بہر حال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کو اپنے بچے پر رحم آجاتا ہے (اس کے بعد آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی )’’ہم چاہتے ہیں کہ ان بندوں پر احسان کریں جنہیں روئے زمین پر کمزور بنا دیا ہے ‘‘
ہر شارح نے اسکی شرح اپنے اپنے انداز میں کی ہے لیکن ابن ابی الحدید نے اس سلسلہ میں شیعوں کے قول کو نقل کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ صرف امام مہدی موعود سے مخصوص نہیں بلکہ یہ ایک امام سے مربوط ہے جو کہ زمین کا صاحب اختیار ہوگا اور پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔
بعض احادیث اور اقوال جو کہ نہج البلاغہ میں ذکر نہیں ہوئے ہیں ان میں بھی مولائے کائنات ؑ نے امام زمانہ کا تذکرہ فرمایاہے جیسا کہ آپ نے صراحتا ً فرمایا :
’’اذا نادیٰ مناد من السماء ’’ان الحق فی آل محمد ‘‘فعند ذالک یظھر المہدی علی افواہ الناس و یشربون حبہ فلا یکون لھم ذکر غیرہ ‘‘
’’اس وقت جب آواز دینے والا آسمان سے آواز دے گا کہ ’’حق اہلبیت کے ساتھ ہے ‘‘تو اس وقت لوگوں کی زبان پر مہدی کا نام ہوگا اور انکے دل آپ کی محبت سے لبریز ہوں گے اور زبان پر صرف آپ کا ہی ذکر ہوگا ‘‘
ان تمام ارشادات و فرامین کی روشنی میں چند نکات خلاصۃ پیش کئے جا سکتے ہیں:
۱-امام مہدی کا ظہور ایک امر مسلم اور وقوع پذیر ہے ۔
۲-آپ کا ظہور ایک قیام کی شکل میں ہوگا اور آپ کی حکومت پوری
دنیا پر ہوگی ۔
۳-آپ کی حیثیت ایک مرکزی حیثیت ہوگی اور آپ ساری
دنیاکے رہبرو امام قرار پائیں گے ۔
۴-آپ کے ظہور کے وقت پوری دنیا سے لوگ آپ کے ارد گرد جمع
ہوں گے ۔
۵-آپ کو بغیر کسی فتنہ و فساد کے کامیابی حاصل ہوگی ۔
۶-آپ ظہور کے بعد قرآن اور سیرت کو زندہ کریں گے اور ظلم وجور
سے بھری ہوئے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔
۷-وقت ظہور زمین اپنے خزانے اگل دیگی ۔
۸-علم اپنے عروج پر ہوگا ۔
اب آخر میں ہم یہی دعا کرتے ہیں کہ اللھم انا نشکو الیک فقد نبیناو غیبۃ امامنا ،ففرج ذالک اللھم بعدل تظھرہ و امام حق نعرفہ ۔ (مستدرک الوسائل ج/۴ ص/۴۰۴)
و اصلح لنا امامنا۔۔۔اللھم املأ الارض بہ عدلا و قسطا ۔۔۔۔و اجعلنی من خیار موالیہ و سبقتہ ۔۔۔وارزقنی الشھادۃ بین یدیہ ۔ (مصباح المتجھد ص/۶۹۸)
تحریر: سید منہال حیدر زیدی