حقیقت موت
’’کیف تکفرون باللہ وکنتم أمواتاً فأحیاکم ثمّ یمیتکم ثمّ یحییکم ثمّ الیہ ترجعون‘‘
بقرۃ؍۲۸
(ہائیں) کیونکہ تم خدا کا انکار کرسکتے ہو حال آنکہ تم (ماؤں کے پیٹ میں) بے جان تھے تو اسی نے تم کو زندہ کیا پھر وہی تم کو مار ڈالے گا پھر وہی تم کو (دوبارہ قیامت میں) زندہ کریگا پھر اسی کی طرف لوٹا نے جاؤگے۔
موت کا معنا لغت میں: مرنا ،یعنی فوت ہونا ،فا تا یفوت فوتاََو افواتاًگذرنا، کام کرنے کا وقت جا تا رہنا۔
اقسام موت:
انواع الموت بحسب أنواع الحیاۃ، موت کے حداقل پانچ معنا ہے:
۱۔موت قوّۃ نامیہ کے مقا بلے میں جوانسان و حیوان اور نبا تا ت میںپائی جاتی ہے۔
’’یحیی الأرض بعد موتھا ‘‘
روم؍۱۹
۲۔قوّۃ حاسیہ کی زوال کو بھی موت کہا جاتا ہے۔
’’ یا لیتنی مِتّ قبل ھذا‘‘
مریم؍۲۳
۳۔ قوّۃ عاقلہ کی زوال کو بھی موت کہا جاتا ہے، یعنی جہالت۔
’’أو من کان میتاً فأحییناہُ‘‘
انعام؍۱۲۲
۴۔حُزن جو مکدّر ہے حیاۃ کے لیے کو موت کہا جاتا ہے۔
’’و یأتیہ الموتُ من کلّ مکانٍ وما ھو بمیّت‘‘
ابراہیم؍۱۷
۵۔نیند موت کا چھوٹا بھائی ہے، اور موت بڑھی نیند ہے۔ دونوں کو خداوند عالم نے تَوَفّیاًکہا ہے۔
’’و ھو الّذی یتوَفّاکم باللّیل‘‘
انعام؍۶۰
موت کا معنا اصطلاح میں: سلب حیاۃ
موت کے مقابلے میں حیاۃ ہے ، حیات کے چھے معنا ہے لیکن موضوع ہماری حیات نہیں کہ تمام معنوں کو ذکر کروں اور تحلیل کروں۔ صرف ایک معنا جو موت کا پہلا معناہے۔ یعنی وہ موت جو قوۃ نامیہ کے مقابلے میں ہے جو انسان، حیوان اور نباتات میں پائی جاتی ہے۔
اوّل مرحلہ:
تمام مخلوقات الہی چاہے وحدانیت پروردگار کا قائل ہو، یا وحدانیت خداوند کا قائل نہ ہو۔ ہر صورت میں سب مخلوقات اس بات پر متفق ہے کہ اس جہان سے گذرناہے۔ ہم اس دنیا میں، ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے ہے ۔ ہر چیز کی انتہاء ہوتی ہے، فقط وہ ذات باریتعالیٰ ہے جسکی نہ ابتداء اور نہ انتہا ، ابد سے ہے اور ابد تک رہیگا۔
دوسرا مرحلہ:
جب انسان قائل اور قبول ہے کہ اس جہان میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آئے۔ اس مرحلہ میں انسان عقیدے کے لحاظ سے دو حصّوں میں تقسیم ہوتا ہے۔
خداوند عالم کی وحدانیت کے قائل، وہ لوگ ہے جو خداوند عالم کو خالق کائنات جانتے ہیں اور اس دنیا کو مثل پُل اور گذرگاہ سمجھتے ہیں۔ ’’الدّنیا مزرعۃ الآخرۃ‘‘
تحریر: ’’آغا محمد محسن عادلی پاکستان‘‘