مقالات

فلسفۂ خلقت

        امام (ع) خطبہ ۶۳ میں فرماتے ہیں:

               ’’واتقوا اللہ عباداللہ۔۔۔ و استعدوا للموتِ بما یزول عنکم‘‘

        امام (ع) کے اس خطبہ میں دو مطلب کی طرف انسان کی نظر جلب کرلیتے ہیں:

        مطلب اوّل:امام (ع) انسان کو متوجہ کررہاہے کہ انسان بی جہت خلق نہیں ہوا۔ بلکہ خدا کی عنایت انسان پر ہے ، ’’لقد خلقنا عبثاً۔۔۔، آیا گمان کرتے ہو ہم نے تمھیں بیہودہ خلق کیاہے۔ ہماری طرف پلٹ کر نہیں آؤگے‘‘۔

        کوئی اپنی خلقت اور خلق کرنے کی علت جو جانتیں تونہ خدا کو فراموش کریگااورنہ قیامت اور سب سے اہم اپنے وظیفہ کو۔

        دوسرا مطلب:انسان کے اعمال کا گواہ اس کی عمر ہے اور یہ بہت ہی اہم اور حساس نکتہ ہے۔ روایات میں بھی صریحاً ذکر ہوا ہے اور خداوندنے قرآن مجید کے مختلف آیتوں میں اس کا ذکر فرمایاہے۔ خصوصاً اس آیہ میں روشن و واضح بیان فرمایاہے: ’’ قیامت کے دن زمین خداکی نور سے روشن ہوگی، نامہ اعمال رکھے جاینگے۔ پیامبران الہی اور گواہوں کو لایاجائے گا اور کسی پر ظلم ہوئے بغیر حق کی بنابر قضاوت ہوگی‘‘۔

        اور گواہوں میں سے ایک دن رات ہے جو اچھے اور بُرے اعمال کی گواہی دے گی۔ قیامت کی ناموں میں سے یوم الحسرۃ (روز حسرت) ہے ۔ کیوں؟ اس لیے جب انسان اپنے نامہ اعمال کو دیکھتے ہیں تو حسرت سے دل بھر جاتاہے۔ اور ناچار کہہ اُٹھتے ہیں کاش میرے اور اعمال کے درمیان زیادہ فاصلہ ہوتا۔ کیونکہ روز قیامت ہر انسان اپنے اچھے اور بُرے اعمال کو سب دیکھیں گے۔

        واقعاً اگر کسی کو ایسے ناخوشگوار دن کی فکرمند ہو تو گناہوں سے پرہیز اور واجبات کو انجام دیں گے۔ یعنی در واقع موت اور اچھے اعمال کے درمیان مقابلہ و مقایسہ ہے۔ اگر انسان اور اس کی اعمال صالحہ جیت جائیں اور انجام پائے، تو اس نے اپنی دنیا عارضی و فانی کے ذریعے دنیای اخروی و جاویدانی کو خرید لیا۔ امّا اگر موت جیت تو پھر انسان کی پشیمانی انسان کو کچھ بھی فایدہ نہیں دے سکتی۔ کیونکہ اس دنیا میں انسان کو اعمال کے مناسبت سے پاداش دینا ہے۔

        اعمال صالح و نیک ہو تو، ثواب و نعمتہای الہی سے ہزار بلکہ اصلاً قابل قیاس نہیں۔ ان نعمتوں سے جو اس دنیا میں اس کو ملی ہے میلے گی۔ اما اگر گناہوں سے اس کے نامہ اعمال پُر ہو تو، عذاب الہی میں گرفتار ہوجاینگے۔

                                  ’’فاتقوا اللہ۔۔۔ و استعدوا للموت فقد اظلکم۔۔۔‘‘

                        ’’اے بندے خدا، خدا کے لیے تقویٰ اختیار کرو، اعمال کے ذریعے سے اپنی حیات کی انتہا کرو‘‘

        ہر وہ چیز جو تمہارے لیے ہمیشہ رہے گی اس کو اپنااس کو مقابلہ میں جو جلد ہی فنا ہونے والی سے جتنی جلدی ہو سکے اعمال خیر انجام دو تمہاری عمر کی انتہاء پہنچنے سے پہلے۔ اور ہمیشہ اپنے آپ کو مرنے کے لیے آمادہ رکھو، کیونکہ موت ہمیشہ تم پر سایہ کیے ہوئے ہیں۔

        اگر ہم اس خطبہ کی شروع اور انتہاء تک ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو مولای کائنات ، ابتداء تقویٰ سے شروع فرماتے ہیں۔ پھر انسان کو آمادہ اور ہوشیار کررہے ہیں ۔ کہ اے انسانوں جاگے رہو! یہ دنیاابدی نہیں، گذرنے وال ہے۔ جانتا ہوں یہ توجہ اور تنبہ فقط اس لیے نہیں کہ موت آئے گی۔ یہ تو سب کو معلوم ہے، کیونکہ یہ تو واضح اور روشن ہے ، توضیح کی محتاج نہیں۔

        بلکہ توجہ کرناضرورت ہے، اس لیے کہ انسان کو اصلی اور واقعی زندگی سے آگاہ کرناہے۔ تاکہ ان کی زندگی دنیای ہوس پرست کی آگ میں جل رہی ہے۔ اس کی دلیل دہ ہا  آیات و روایات ہے جسمیں ہم پایان حیات اور عمل نیک کی طرف ترغیب دیتی ہے۔

        پس اس زندگی کی اہمیت، قیمت و عظمت جانیں۔عقل اور وجدان سے زندگی موقت سے زندگی ابدی کو سنواریں۔ کیونکہ اس زندگی و دنیا سے گذرجانے کے بعد پلٹ کی راہ نہیں، بلکہ فقط افسوس ہی افسوس ہے اور وہ بھی سودمند نہیں۔

                                فانّ اللہ سبحانہ: ’’یخلقکم عبثاً و لم یترککم سدیً‘‘

                        ’’ قطعاً خداوند عالم تمھیں عبث خلق نہیں کیا، اور تمھیں بیہودہ آزاد نہیں چھوڑا‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button