علی کی اجتماعی اور اقتصادی عدالت
عدالت اجتماعی:
جہاں ایک طرف حضرت علی علیہ السلام نے معقلہ بن ہبیرہ شیبانی، (مکتوب۴۳)زیادہ بن ابیہ (مکتوب ۲۰) اور دوسرے گورنروں کو خطوط لکھ کر عدالت اجتماعی کے قیام پر زور دیا اور مختلف خطبات اور فرامین میں بھی اس کے نفاذ کے ضروری قرار دیا وہاں دوسری طرف خود عملاً ایسا کر کے دیکھا تے رہے
عدالت اجتماعی یعنی افراد کا آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ اور ان کا رابطہ حکومت کے ساتھ(اور حکومت کا رابطہ ان کے ساتھ)حق وعدالت کی بنیاد پر ہو۔(۱)
یہاں ہم ایک نمونے کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ سگا بھائی عقیل بیت المال سے ایک صاع گندم اپنے حصے سے زیادہ لینے کا سول کرتاہے۔سوال کرنے میں عقیل بھی غلب نہیں اس لئے کہ فقر و بے نوائی سے ان کے بچوں کے رنگ تیرگی مائل ہو چکے ہیں گویا ان کے چہرے نیل چھڑک کر سیاہ کر دیئے گئے ہیں لہٰذا جناب عقیل باربار سوال کرتے ہیں حضرت علی علیہ السلام ان کی بات غور کے ساتھ سنتے ہیں پھر لوہے کے ایک ٹکڑے کو گرم کر کے ان کے جسم کے قریب لے جاتے ہیں۔وہ اس طرح چیختے ہیں جس طرح کوئی بیمار درد و کرب سے چیختا ہے اس وقت حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ثَکَلَتْکَ الثواکِلُ یا عَقِیِلُ،أَتَیِٔنّ من حَدِیْدَۃٍ اَحمَاھا اِنسانُھا لِلَعْبِہٖ وتَجُرُّ نِی اِلٰی نارٍ سَجَرَھا جبارھا بِغَضَبِہٖ،أَتَیِٔنُّ مِن الاَذیٰ وَلا أَئِنُّ مِن لَظیٰ؟‘‘(۲)
’’اے عقیل! رونے والیاں تم پر روئیں کیا تم اس لوہے کے ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں (بغیرجلانے کی نیت کے اور وہ انسان بھی تمہارے مجھ جیسا بھائی نہ کہ دشمن)تپایا ہے اور تم مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو کہ جسے خدائے قہار نے اپنے غضب سے بھڑ کا یا ہے۔تم تو اذیت سے چیخو اور میں جہنم کے شعلوں سے نہ جلاؤں۔‘‘
معلوم ہوا علی علیہ السلام عدالت اجتماعی کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ اپنے سگے بھائی کو بھی دوسروں کے حصے سے کچھ دینا نہ صرف یہ کہ پسند نہیں کرتے بلکہ ان پہ ناگوار گزرتاہے۔
عدالت اقتصادی:
عدالت اقتصادی سے مراد یہ ہے کہ دولت ومواہب طبیعی کی تقسیم میں عدل ومساوات سے کام لیا جائے اور طبیعی وکتسابی فرق کو معیار بنا کر تقسیم کیا جائے۔(۳)اورا میرالمؤمنین علیہ السلام کی اس عدالت پر جب کچھ لوگ بگڑ اٹھے تو آپ نے فرمایا:
کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے(کچھ لوگوں کی)امداد حاصل کروں(وَاللّٰہ لاَ اَطُورُ بہ مَا سَمِرَ سَمِیْرٌ وَمَا اَمَّ نَجْمٌ فی السَّمَائِ نَجْماً)(۴)
’’خدا کی قسم ! جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف چمکتے رہیں گے میں اس چیز کے قریب بھی نہیں بھٹکوں گا ۔ ‘ ‘
اگر یہ خود میرا مال ہوتا جب بھی میں اسے سب میں برابر تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے(میرا اپنا نہیں ہے)
پہلے والے خلیفہ کی جانب سے عدالت اقتصادی کی پائمالی کے خلاف آپ نے عملی قدم اٹھا یا اور اس نے جو جاگیریں اپنے اقرباء کو دی تھیں واپس لے لیں اور فرمایا:
’’وَاللّٰہ لَووَجَدتُہٗ قَد تُزُوِّجَ بِہِ النِّسائُ،وَمُلِکَ بِہِ الاِمَائُ، لَرَدتُہٗ۔‘‘(۵)
’’خدا کی قسم! اگر مجھے ایسا مال کہیں بھی نظر آتا جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جا چکا ہوتا تو اسے بھی واپس پلٹا لیتا۔‘‘
چونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اسے ظلم کی صورت میں اور زیادہ تنگی محسوس ہوگی۔
حوالہ جات
(۱)منشور جاوید جلد۱؍۱۴۵۔
(۲)نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ ۲۱۵۔
(۳)منشور جاوید جلد۱؍ص۱۴۵۔
(۴)نہج البلاغہ مفتی جعفر حسین خطبہ ۱۲۴۔
(۵)نہج البلاغہ فیض الاسلام خطبہ ۱۵۔