علی کی عدالت سیاسی و قانونی
عدالت سیاسی:
عدالت سیاسی یہ ہے کہ انسان سیاست کرنے میں کبھی عدل وانصاف کا دامن نہ چھوڑے اور سیاسی میدان میں جو خدمات انجام دے سکتا ہے انھیں انجام دینے میں کوتاہی و بخل نہ کرے اپنے سیاسی مخالفین کو شکست دینے اور نیچا دکھانے کے لئے ہر جائز ناجائز عمل کا سہارا نہ لے بلکہ وہ کام کرے جو سیاسی حوالے سے قوم کے مفاد میں ہو۔امیر المؤمنین علیہ السلام کہ جس کا حق خلافت پچیس سال تک تسلیم نہ کیا گیا جس کی وجہ سے اسلامی معاشرے کو درد ناک واقعات اور ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑا خلیفہ کو قتل کر دیا گیا لوگ آپ کے پاس آئے اور خلافت قبول کرنے کے لئے اقرار کرنے لگے اب اگر آپ خلافت کو قبول نہ کرتے تو(ایک طرف)حقائق پامال ہوجاتے اور لوگ کہتے کہ علی ؑ کو تو شروع ہی سے خلافت سے رغبت نہیں تھی(دوسری طرف ) اسلام اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا کہ معاشرہ ظالم اور مظلوم دوحصوں میں بٹ جائے کہ ایک (ظالم) زیادہ شکم پُری کی بناپر ناراض اور دوسرا (مظلوم)گرسنگی کی وجہ سے پریشان ہو اور انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تماشائی بنارہے ۔لہٰذا آپ ؑ نے اس سنگین ذمہ داری کو قبول کر لیا۔(۱)
فرماتے ہیں:’’لَو لا حُضُورُ الحَاضِر وَقیام الْحُجَّۃِ بوُجودِ النَّاصِرِ وَمَا اَخَذَ اللّٰہ عَلَی الْعُلْمَاء اَن لاَّ یُقَارُّوا عَلٰی کِظَّۃِ ظالِمٍ والا سَغَبِ مظلومٍ،لَاَلقیتُ حَبْلَھاعَلٰی غَارِبِھاوَلَسَقَیْتُ آخِرَھا بِکَأسِ اَوَّلھا۔‘‘(۲)
’’اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو خدا نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پُری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون اطمینان سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اس کے کاندھے پر ڈال دیتا اور روز اول کی طرح ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا۔‘‘
عدالت قانونی:
عدالت قانونی یہ ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوں اور معاشرے کے تمام افراد کی فطری وواقعی ضروریات اس قانون سے پوری ہوتی ہوں نہج البلاغہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کس قدر خود اس کے پابند تھے اور اپنے نمائندوں کو کس قدر پابند بنائے رکھتے تھے۔
محمد بن ابی بکر جب مصر کے حکمران تھے ان کی جانب خط لکھا جس میں حضرت نے تحریر فرمایا:کہ (اے محمد!)لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا، ان سے نرمی کا برتاؤ کرنا،کشادہ روئی سے پیش آنا اور سب کو ایک نظر سے دیکھنا تاکہ۔
’’لاَ یَطْمَعُ العُظَمَآئُ فِی حَیْفِکَ لَھُم وَلا یَیْأَسَ الصنُّعَفَآئُ مِنْ عَدلِکَ بھم۔‘‘(۳)
’’بڑے لو تم سے اپنی جاحق طرف داری کہ امید نہ رکھیں اور چھوٹے لوگ تمہارے عدل وانصاف سے ان(بڑوں)کے مقابلہ میں ناامید نہ ہو جائیں۔‘‘
خط نمبر ۴۶ کا مضمون بھی یہی ہے جو کہ حضرت نے کسی اور عامل کو لکھا جس کا نام سید رضی نے ذکر نہیں کیا۔
عدالت اور آزادی:
حضرت علی علیہ السلام امام عادل ہونے کے ساتھ ساتھ آزادی کے بھی قائل تھے اور کسی قسم کا کوئی حربہ استعمال کر کے کسی کی آزادی اس سے نہیں چھینتے تھے برخلاف امیر شام کے کہ جو ہر حربہ استعمال کرتا تھا بالخصوص دولت یا منصب کا لالچ دے کر لوگوں کو خریدلیتا تھا۔
جب مدینہ کے کچھ لوگ حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑ کر معاویہ سے جاملے تو آپ نے والیٔ مدینہ سہل بن حنیف انصاری کو خط لکھا اور فرمایا:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے یہاں کچھ لوگ چپکے چپکے معاویہ کی طرف کھسک رہے ہیں۔تم اس تعداد پر کہ جو نکل گئی ہے اور اس کمک پر کہ جو جاتی رہی ہے ذراافسوس نہ کرو۔ان کے گمراہ ہوجانے اور تمہارے اس قلق و اندوہ سے چھٹکا را پانے کے لئے ۔یہی بہت ہے کہ وہ حق وہدایت کی طرف سے بھاگ رہے ہیں اور جہالت وگمراہی کی طرف دوڑ رہے ہیں ۔یہ دنیا دار ہیں جو دنیا کی طرف جھک رہے ہیں اور اسی کی طرف تیزی سے لپک رہے ہیں۔انھوں نے عدل کو پہچانا ،دیکھا ،سنااور محفوظ کیا اور اسے خوب سمجھ لیا کہ یہاں حق کے اعتبار سے سب برابر سمجھے جاتے ہیںـ:’’اَنَّ النَّاسَ عند نا فی الحق اسوۃ۔‘‘(4)
’’لہٰذا وہ ادھر بھاگ کھڑے ہوئے جہاں جانبداری اور تخصیص برتی جاتی ہے ۔‘‘
اب یہ لوگ اگر چہ امام حق وعادل کو چھوڑ کر امام ظالم وباطل کے پاس چلے گئے تھے لیکن چونکہ اپنے اختیار سے گئے لہٰذا انھیں آزاد چھوڑا۔
آخر میں ہم دعاگو ہیں کہ خد اوند عالم ہمیں امیر المؤمنین علیہ السلام کی اس سیرت قولی وفعلی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم عملاً بھی شیعہ علی نظر آئیں ۔والسلام علی من اتبع الھدیٰ۔
تحریر: محمد عادل علوی
حوالہ جات
(۱)مطالعہ ٔنہج البلاغہ شہید مرتضیٰ مطہری ص۱۴۲۔
(۲)نہج البلا غہ فیض الاسلام خطبہ ۳۔
(۳)نہج البلاغہ مفتی جعفر حسین خطبہ ۲۷۔
4)نہج البلاغہ خطبہ ۷۰۔