امام جواد علیہ السلام کا ایک فقہی معمہ کو حل کرنا
امام جواد (علیہ السلام) نے یحییٰ بن اکثم سے سوال کیا: اے ابا محمد اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت پر نظر کی تو اس پر حرام تھی، دن چڑھے حلال ہوگئی، پھر آدھے دن میں حرام ہوگئی اور ظہر کے وقت حلال ہوگئی، اور پھر جب عصر کا وقت آیا تو حرام ہوگئی اور مغرب کے وقت دوبارہ حلال ہوگئی، آدھی رات میں اس پر حرام ہوگئی اور پھر طلوع فجر کے وقت حلال ہوگئی اور جب دن نکلا تو اس پر پھر حرام ہوگئی اور دن کے آدھے حصے میں دوبارہ حلال ہوگئی۔
یحییٰ اور دیگر فقہاء امام کے سامنے حیران و پریشان ہوگئے۔
مامون نے کہا: اے اباجعفر خدا آپ کو عزت دے۔ اس مسئلے کی حقیقت ہمارے لیے بیان فرمائیں۔
امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: یہ عورت صبح کے وقت ایک مرد کی کنیز تھی، کوئی دوسرا شخص اس پر نگاہ کرتا ہے تو وہ حرام ہوتی ہے، قبل از ظہر وہ شخص کنیز کو اس کے آقا سے خرید لیتا ہے تو وہ اس پر حلال ہوجاتی ہے اور وقت ظہر پہنچتے ہی اس کو آزاد کردیتا ہے تو پھر اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ جب عصر کا وقت آتا ہے تو اس کو اپنے حبالہ نکاح میں لے لیتا ہے تو اس پر حلال ہوجاتی ہے۔ مغرب کے وقت اس کو ظہار کردیتا ہے تو اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ وقت عشاء کفارہ دے دیتا ہے توً پھر اس پر حلال ہوجاتی ہے اور جب رات کا نصف حصہ گذر جاتا ہے تو اس کو طلاق دے دیتا ہے تو وہ اس پر پھر حرام ہوجاتی ہے اور طلوع فجر کے وقت اس کی طرف رجوع کرلیتا ہے تو وہ اس پر حلال ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد وہ شخص اسلام کو ترک کردیتا ہے تو وہ عورت اس پر حرام ہوجاتی ہے اور اس کے بعد وہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام قبول کرتا ہے جس وجہ سے وہ عورت دوبارہ اس پر حلال ہوجاتی ہے، دوبارہ اسے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ ابوالعاص بن ربیع نے جب اسلام قبول کیا تو رسولخدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے پچھلے نکاح کی بنیاد پر زینب کو اس کے حوالے کردیا۔
حوالہ: تحف العقول، ص 454۔