مقالات

معرفتِ خدا اور علی مرتضیٰؑ {حصہ اول}

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سید الموحدین امیر المؤمنین  علی علیہ السلام کی زندگی کا ہر قول  و فعل قربِ خدا اور  رضائے الہی  کا پرتو تھا۔آپ ؑ کی زندگی کے ہر قدم سے معرفتِ خدا کی جھلک نظر آتی   ہے۔امامؑ    خوداپنی زندگی کے بارے فرماتے ہیں:

وَ لَقَدْ عَلِمَ الْمُسْتَحْفَظُونَ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ (صلى الله عليه وآله) اَنِّي لَمْ اَرُدَّ عَلَى اللَّهِ وَلَا عَلَى رَسُولِهِ سَاعَةً قَطُّ وَ لَقَدْ وَاسَيْتُهُ بِنَفْسِي فِي الْمَوَاطِنِ الَّتِي تَنْكُصُ فِيهَا الْاَبْطَالُ وَ تَتَأَخَّرُ فِيهَا الْأَقْدَامُ نَجْدَةً اَكْرَمَنِي اللَّهُ بِهَا   (خطبہ:195)

پیغمبر کے وہ اصحاب جو (احکام شریعت ) کے امین ٹھہرائے گئے تھے اس بات سے اچھی طرح آگا ہ ہیں کہ میں نے کبھی ایک آن کے لئےبھی اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکام سے سرتابی نہیں کی اور میں نے اس جوانمردی کے بل بوتے پر کہ جس سے اللہ نے مجھے سرفراز کیا ہے پیغمبرؐ کی دل و جان سے مدد ان موقعوں پر کی جن موقعوں سے بہادر (جی چرا کر)بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور قدم (آگے بڑھنے کی بجائے)پیچھے ہٹ جاتے تھے ۔

امام المتقینؑ کےخطبات و خطوط اور حکمت بھرے  مختصر اقوال کے کچھ حصہ کو سید رضیؒ نے  ایک کتاب میں جمع کیا اورنہج البلاغہ نام رکھا۔اس تحریر میں نہج البلاغہ سے اللہ سبحانہ کی معرفت  کی اہمیت ، معرفت کی راہیں اور معرفت کے کچھ جملات نقل کئے گئے ہیں۔شیعہ و سنی علما یہی کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اگر اللہ کی معرفت حاصل کرنی ہو تو علی علیہ السلام کی ذات ہی بہترین ذریعہ ہے۔

نہج البلاغہ کے  شارح مشہور سنی عالم ابن ابی الحدید معتزلی  خطبہ 84 کی شرح میں لکھتے ہیں:

واعلم ان التوحید والعدل والمباحث الشریٖۃ الالھیۃ،ما عرفت الا من کلام ھذا الرجل ۔۔۔وھذہ الفضیلۃ عندی اعظم فضائلہ علیہ السلام۔ جلد 6 صفحہ 346

معلوم ہونا چاہئے کہ توحید و عدل اور الہیات کی عظیم بحثیں فقط اسی ذات کے کلام سے پہچانی جا سکتی ہیں ۔۔۔اور میرے نزدیک یہ آپؑ کی سب سے بڑٰ ی فضیلت ہے۔

ابن ابی الحدید خطبہ 231 کی شرح  بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں”ھذا ھو  مذھب اصحابنا المعتزلۃ، وعن امیر المؤمنین علیہ السلام اخذوہ؛ و ھو استاذھم و شیخہم فی العدل والتوحید

یہ ہمارے علمائے معتزلہ کا نظریہ ہے اور انہوں نے اسے امیر المؤمنین ؑ سے لیا ہے اور آپؑ عدل و توحید میں ان کے استاد اور شیخ ہیں۔جلد 13 صفحہ 47

ابن ابی الحدید خطبہ 164 کی شرح میں علم التوحید کی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

و معلوم ان ھذا الرجل انفرد  بہذا الفن ،و ھو اشرف العلوم، لان معلومہ اشرف المعلومات،ولم ینقل عن احد من العرب غیرہ فی ھذا الفن حرف واحد۔۔۔

اور واضح ہے کہ آپؑ اس فن میں منفرد و یکتا ہیں اور یہ  اشرف و اعظم علم ہے کیونکہ معلوم اشرف المعلومات ہے۔آپؑ کے علاوہ کسی عرب سے اس فن میں ایک لفظ بھی منقول نہیں ۔۔۔جلد 9 صفحہ256

شیعہ علماء میں سے مرحوم کلینیؒ اصول کافی  میں توحید کے بارے میں  امامؑ سے ایک خطبہ نقل کرتے ہیں اور پھر تحریر فرماتے ہیں :

وھی کافیۃ لمن طلب علم التوحید اذا تدبرھا و فہم ما فیہا، فلو اجتمع السنۃ الجن والانس لیس فیہا لسان نبی علی ان یبینوا التوحید بمثل ما اتی بہـبابی و امی- ما قدروا علیہ ولو لا ابانتۃ علیہ السلام ما علم الناس کیف یسلکون سبیل التوحید۔

جو توحید کو سیکھنا چاہتا ہے اس کے لئے اس خطبہ میں غور و فکر کافی ہے اور اگر انبیاء سے ہٹ کر تمام جن و انسان جمع   ہوکر یک زبان ہو جائیں تو۔میرے ماں باپ فدا- توحید اس طرح بیان نہیں کرسکتے  اور اگر امام کے بیانات نہ ہوتے تو لوگوں کو پتہ ہی نہ چلتا کہ توحید کی راہ کیسے طے کرنی ہے۔ (اصول کافی جلد 1 کتاب التوحید باب جوامع التوحید صفحہ182)

امیر المؤمنینؑ نے پہلے خطبہ میں اللہ سبحانہ کی معرفت کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:

أَوَّلُ الدِّينِ مَعْرِفَتُهُ

دین کی ابتداء اس کی معرفت ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 1)

معرفت کے اس عظیم سرمائے کے حصول کا دروازہ امامت ہے۔امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں:

نَحْنُ الشِّعَارُ وَ الْأَصْحَابُ وَ الْخَزَنَةُ وَ الْأَبْوَابُ وَ لَا تُؤْتَى الْبُيُوتُ إِلَّا مِنْ أَبْوَابِهَا فَمَنْ أَتَاهَا مِنْ غَيْرِ أَبْوَابِهَا سُمِّيَ سَارِقاً۔

ہم (رسول اللہ ؐ سے)قریبی تعلق رکھنے والے اور خاص ساتھی اور خزانہ دار اور دروازے ہیں ا ور گھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے اور جو دروازوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف سے آئے اس کا نام چور ہوتاہے۔(خطبہ:152)

ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ خزانہ اور  دروازے سے مراد علم اور حکمت کا خزانہ اور دروازہ بھی ہو سکتا ہے اور جنت کا دروازہ اور خزانہ بھی مراد ہو سکتا ہے اور پھر فضائل امیر المؤمنینؑ کی چوبیس احادیث اس  خطبہ کی شرح میں لکھی ہیں۔(شرح ابن ابی الحدید جلد 9 صفحہ 165)

علوم میں سے افضل ترین علم ،علمِ توحید ہے اور اس فرمان کے مطابق اس علم کا  خزانہ اور دروازہ علی علیہ السلام ہیں جسے توحید سیکھنی ہے وہ اس دروازے سے ہو کر آئے گا اور اگر اس در کو چھوڑ کر آنے کی کوشش کرے گا او امامؑ فرماتے ہیں وہ چور  ہوگا۔

ایک اور مقام پر امامؑ معرفت کا ذریعہ آئمہ کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَ اِنَّمَا الْاَئِمَّةُ قُوَّامُ اللهِ عَلٰى خَلْقِهِ وَ عُرَفَاؤُهُ عَلَى عِبَادِهِ وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وَ عَرَفُوهُ وَ لَا يَدْخُلُ النَّارَ اِلَّا مَنْ اَنْكَرَهُمْ وَ اَنْكَرُوهُ۔

بلاشبہ آئمہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حاکم ہیں اور اس کو بندوں سے پہچنوانے والے ہیں۔ جنت میں وہی جائے گا جسے ان کی معرفت ہو اور وہ بھی اسے پہچانیں اور دوزخ میں وہی ڈالاجائے گا جو نہ انہیں پہچانے اور نہ وہ اسے پہچانیں۔(خطبہ:150)

یہاں آئمہ کو اللہ کی معرفت کا ذریعہ قرار دیا کہ اللہ کے بندوں کو اگر اللہ کی معرفت حاصل کرنی ہے تو ذریعہ امام ہوں گے۔

ایک مقام پر امام کے فریضہ کو یوں بیان    فرمایا:

اِنَّهُ لَيْسَ عَلَى الْاِمَامِ اِلَّا مَا حُمِّلَ مِنْ اَمْرِ رَبِّهِ  الْاِبْلَاغُ فِي الْمَوْعِظَةِ ، وَ الِاجْتِهَادُ فِي النَّصِيحَةِ ، وَ الْاِحْيَاءُ لِلسُّنَّةِ ، وَ اِقَامَةُ الْحُدُودِ عَلَى مُسْتَحِقِّيهَا

امام کا فرض تو بس یہ ہے کہ جو کام اسے اپنے پروردگار کی طرف سے سپرد ہوا ہے (اسے انجام دے) اور وہ یہ ہے کہ پندو نصیحت کی باتیں ان تک پہنچائے ،سمجھائے بجھانے میں پوری پوری کوشش کرے ، سنت کو زندہ رکھے اور جن پر حد لگنا ہے ان پر حد جاری کرے ۔

امام ؑ کا کام اللہ کی طرف سے سپرد کی ہوئی امانتوں کی ادائگی ہے اور علی علیہ السلام فرما چکے ہیں کہ دین کی بنیاد کا نام معرفتِ خدا ہے تو یہ بنیادی چیز بھی امام ہی سے حاصل کی جا سکتی اور اس کی ادائگی امام کے مشن میں سے ایک مشن ہے جو اللہ کی طرف سے سونپا گیا ہے۔

امیرالمومنینؑ نے معرفتِ الہی  کے لئے جو ذرائع بتائے ہیں ان میں سے سرفہرست اللہ کی کتا ب  ،نبی اکرم اور آئمہ ہدی کو  قرار دیا ہے ۔

ایک شخص نے امامؑ سے سوال کیا کہ آپ خلاق عالم کے صفات کو اس طرح بیان فرمائیں کہ ایسا معلوم ہو جیسے ہم اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔اس پر حضرت غضب ناک ہو گئے اور فرمایا:۔

  فَانْظُرْ اَيُّهَا السَّائِلُ فَمَا دَلَّكَ الْقُرْآنُ عَلَيْهِ مِنْ صِفَتِهِ فَائْتَمَّ بِهِ وَاسْتَضِئْ بِنُورِ هِدَايَتِهِ وَ مَا كَلَّفَكَ الشَّيْطَانُ عِلْمَهُ مِمَّا لَيْسَ فِي الْكِتَابِ عَلَيْكَ فَرْضُهُ وَلَا فِي سُنَّةِ النَّبِيِّ (صلى الله عليه وآله) وَ اَئِمَّةِ الْهُدَى اَثَرُهُ فَكِلْ عِلْمَهُ اِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ فَاِنَّ ذَلِكَ مُنْتَهَى حَقِّ اللهِ عَلَيْكَ وَ اعْلَمْ اَنَّ الرَّاسِخِينَ فِي الْعِلْمِ هُمُ الَّذِينَ اَغْنَاهُمْ عَنِ اقْتِحَامِ السُّدَدِ الْمَضْرُوبَةِ دُونَ الْغُيُوبِ الْاِقْرَارُ بِجُمْلَةِ مَا جَهِلُوا تَفْسِيرَهُ مِنَ الْغَيْبِ الْمَحْجُوبِ فَمَدَحَ اللهُ تَعَالَى اعْتِرَافَهُمْ بِالْعَجْزِ عَنْ تَنَاوُلِ مَا لَمْ يُحِيطُوا بِهِ عِلْماً وَ سَمَّى تَرْكَهُمُ التَّعَمُّقَ فِيمَا لَمْ يُكَلِّفْهُمُ الْبَحْثَ عَنْ كُنْهِهِ رُسُوخاً فَاقْتَصِرْ عَلَى ذَلِكَ وَ لَا تُقَدِّرْ عَظَمَةَ اللهِ سُبْحَانَهُ عَلَى قَدْرِ عَقْلِكَ فَتَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ

اے (اللہ کی صفتوں کو) دریافت کرنے والے دیکھو! کہ جن صفتوں کا تمہیں قرآن نے پتہ دیا ہے (ان میں) تم اس کی پیروی کرو اور اسی کے نور ہدایت سے کسبِ ضیا کرتے رہو اور جو چیزیں کہ قرآن میں واجب نہیں اور نہ سنت پیغمبر و آئمہ ہُدیٰ میں ان کا نام و نشان ہے اور صرف شیطان نے اس کے جاننے کی تمہیں زحمت دی ہے ۔ اس کا علم اللہ ہی کے پاس رہنے دو، اور یہی تم پر اللہ کے حق کی آخری حد ہے ۔

اور اس بات کو یاد رکھو کہ علم میں راسخ و پختہ لوگ وہی ہیں کہ جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی ساری چیزوں کا اجمالی طور پر اقرار کرتے ( اور ان پر اعتقاد رکھتے ) ہیں ،اگرچہ ان کی تفسیر و تفصیل نہیں جانتے اور یہی اقرار انہیں غیب پر پڑے ہوئے پر دوں میں درانہ گھسنے سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے اور اللہ نے اس بات پر ان کی مدح کی ہے کہ جو چیز ان کے احاطہٴ علم سے باہر ہوتی ہے، اس کی رسائی سے اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں اور اللہ نے جس چیز کی حقیقت سے بحث کرنے کی تکلیف نہیں دی ، اس میں تعمق و کاوش کے ترک ہی کا نام رسوخ رکھا ہے ۔ لہذا بس اسی پر اکتفا کر و اور اپنے عقل کے پیمانہ کے مطابق اللہ کی عظمت کو محدود نہ بناؤ۔ ور نہ تمہارا شمار ہلاک ہونے والوں میں قرار پائے گا۔(خطبہ اشباح:89)

اس خطبہ میں  اوصافِ الہیہ کا ایک اصول امام نے بیان فرما دیا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو صفاتِ خداوندی میں کوئی اختلاف نہ ہو اوروہ اصول یہ ہے کہ  آپ یہ اوصاف قرآن،نبی اور آئمہ سے لیں اپنی رائے اور محدود سوچ پر انحصار کرنا شیطانی وسوسہ کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔

توحید کے موضوع پر اس طویل اور اہم خطبہ کے آخر میں امامؑ فرماتے ہیں:

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ اَهْلُ الْوَصْفِ الْجَمِيلِ وَ التَّعْدَادِ الْكَثِيرِ اِنْ تُؤَمَّلْ فَخَيْرُ مَأْمُولٍ وَ اِنْ تُرْجَ فَخَيْرُ مَرْجُوٍّ اللّٰهُمَّ وَ قَدْ بَسَطْتَ لِي فِيمَا لَا اَمْدَحُ بِهِ غَيْرَكَ وَ لَا اُثْنِي بِهِ عَلَى اَحَدٍ سِوَاكَ وَ لَا اُوَجِّهُهُ اِلَى مَعَادِنِ الْخَيْبَةِ وَ مَوَاضِعِ الرِّيبَةِ وَ عَدَلْتَ بِلِسَانِي عَنْ مَدَائِحِ الْآدَمِيِّينَ وَ الثَّنَاءِ عَلَى الْمَرْبُوبِينَ الْمَخْلُوقِينَ اللَّهُمَّ وَ لِكُلِّ مُثْنٍ عَلَى مَنْ اَثْنَى عَلَيْهِ مَثُوبَةٌ مِنْ جَزَاءٍ اَوْ عَارِفَةٌ مِنْ عَطَاءٍ وَ قَدْ رَجَوْتُكَ دَلِيلًا عَلَى ذَخَائِرِ الرَّحْمَةِ وَ كُنُوزِ الْمَغْفِرَةِ اللّٰهُمَّ وَ هَذَا مَقَامُ مَنْ اَفْرَدَكَ بِالتَّوْحِيدِ الَّذِي هُوَ لَكَ وَ لَمْ يَرَ مُسْتَحِقّاً لِهَذِهِ الْمَحَامِدِ وَ الْمَمَادِحِ غَيْرَكَ وَ بِي فَاقَةٌ اِلَيْكَ لَا يَجْبُرُ مَسْكَنَتَهَا اِلَّا فَضْلُكَ وَلَا يَنْعَشُ مِنْ خَلَّتِهَا اِلَّا مَنُّكَ وَ جُودُكَ فَهَبْ لَنَا فِي هَذَا الْمَقَامِ رِضَاكَ وَ اَغْنِنَا عَنْ مَدِّ الْاَيْدِي اِلَى سِوَاكَ اِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ.

اے خدا!تو ہی توصیف و ثنا اور انتہائی درجہ تک سرا ہے جانے کا مستحق ہے ۔ اگر تجھ سے آس لگائی جائے ، تو تو دلوں کی بہترین ڈھارس ہے اور اگرتجھ سے امیدیں باندھی جائیں، تو تو بہتر ین سر چشمہٴ امید ہے۔

تو نے مجھے ایسی قوت بیان بخشی ہے کہ جس سے تیرے علاوہ کسی کی مدح اور ستائش نہیں کرتا ہوں اور میں اپنی مدح کا رخ کبھی ان لوگوں کی طرف نہیں موڑنا چاہتا جو ناامیدیوں کو مرکز اور بدگمانیوں کے مقامات ہیں، تو نے میری زبان کو انسانوں کی مدح اور پردردہ مخلوق کی تعریف و ثنا سے ہٹا لیا ہے ۔

 بار الٰہا!ہر ثناء گستُر کے لیے اپنے ممدُوح پر انعام و کرام اور عطاو بخشش پانے کا حق ہوتا ہے اور میں تجھ سے امید لگائے بیٹھا ہوں یہ کہ تو رحمت کے ذخیروں اور مغفرت کے خزانوں کا پتہ دینے والاہے۔ خدایا! یہ تیرے سامنے وہ شخص کھڑا ہے جس نے تیری توحید و یکتائی میں تجھے منفرد مانا ہے اور ان ستائشوں اور تعریفوں کا تیرے علاوہ کسی کو اہل نہیں سمجھا ۔ میری احتیاج تجھ سے وابستہ ہے ۔ تیری ہی بخششوں اور کامرانیوں سے اس کی بے نوائی کا علاج ہو سکتا ہے اور ا سکے فقرو فاقہ کو تیرا ہی جو دواحسان سہارا دے سکتا ہے۔ ہمیں تو اسی جگہ پر اپنی خوشنودیاں بخش دے اور دوسروں کی طرف دستِ طلب بڑھانے سے بے نیاز کر دے تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والاہے۔ (خطبہ:89)

ایک مقام پر اللہ سبحانہ کی معرفت کا ذریعہ قرآن کو قرار دیتے ہوئے امامؑ فرماتے ہیں:

وَ اسْتَدِلُّوهُ عَلَى رَبِّكُمْ۔

اور اپنے پروردگار تک پہنچنے کے لیے اسے(قران) دلیلِ راہ بناؤ۔(خطبہ 174)

حصہ دوم پڑھنے کیلئے کلک کریں 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button