معرفتِ خدا اور علی مرتضیٰؑ { حصہ دوم}
علیؑ درِ الہی پر
نہج البلاغہ امیر المؤمنینؑ اور اہلبیتؑ کے فضائل سے بھرا پڑا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح علی علیہ السلام نے اللہ کی معرفت کے ذرائع قران،نبی اور آئمہ کو قرار دیا ہے اہلبیت کی معرفت کے بھی یہی تین ذرائع ہیں ۔ایک مقام پر امام نے اہلبیت کی معرفت یوں کرائی:
هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهِ وَ لَجَأُ اَمْرِهِ وَ عَيْبَةُ عِلْمِهِ وَ مَوْئِلُ حُكْمِهِ وَ كُهُوفُ كُتُبِهِ وَ جِبَالُ دِينِهِ بِهِمْ اَقَامَ انْحِنَاءَ ظَهْرِهِ وَ اَذْهَبَ ارْتِعَادَ فَرَائِصِهِ۔۔۔۔۔ لَا يُقَاسُ بِآلِ مُحَمَّدٍ (صلى الله عليه وآله) مِنْ هَذِهِ الْاُمَّةِ اَحَدٌ وَ لَا يُسَوَّى بِهِمْ مَنْ جَرَتْ نِعْمَتُهُمْ عَلَيْهِ اَبَداً هُمْ اَسَاسُ الدِّينِ وَ عِمَادُ الْيَقِينِ اِلَيْهِمْ يَفِيءُ الْغَالِي وَ بِهِمْ يُلْحَقُ التَّالِي وَ لَهُمْ خَصَائِصُ حَقِّ الْوِلَايَةِ وَ فِيهِمُ الْوَصِيَّةُ وَ الْوِرَاثَةُ الْآنَ اِذْ رَجَعَ الْحَقُّ اِلَى اَهْلِهِ وَنُقِلَ اِلَى مُنْتَقَلِهِ۔
وہ سرِ خدا کے امین اور اس کے دین کی پناہ گاہ ہیں، علمِ الٰہی کے مخزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں۔ کتب (آسمانی ) کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں، انہیں کے ذریعے اللہ نے اس کی پشت کا خم سیدھا کیا اور اس کے پہلوؤں سے ضعف کی کپکپی دُور کی۔۔۔
اس امت میں کسی کو آلِ محّمد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے ،وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں، آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے ، حقِ ولایت کی خصوصیات انہی کیلئے ہیں اور انہی کے بارے میں “پیغمبر کی “ وصیت اور انہی کیلئے (نبی کی ) وراثت ہے۔ اب یہ وقت وہ ہے کہ حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہو گیا۔ (خطبہ 2)
ان عظمتوں کے مالک علی علیہ السلام کا نہج البلاغہ کا ایک جملہ معرفت خدا کی بہترین دلیل ہو سکتا ہے جب امامؑ فرماتے ہیں: وَ بِی فَاقَةٌ اِلَيْك۔
میری احتیاج تجھ سے وابستہ ہے(خطبہ 89)
علی ؑ جیسا امام اور کامل انسان جس ذات کا محتاج ہو وہ اللہ ہے اور وہ کسی کا محتاج نہ ہو۔اس احتیاج کو امام ؑ نے مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے۔
وَ كُلُّ عَزِيزٍ غَيْرَهُ ذَلِيلٌ وَ كُلُّ قَوِيٍّ غَيْرَهُ ضَعِيفٌ وَ كُلُّ مَالِكٍ غَيْرَهُ مَمْلُوكٌ وَ كُلُّ عَالِمٍ غَيْرَهُ مُتَعَلِّمٌ وَ كُلُّ قَادِرٍ غَيْرَهُ يَقْدِرُ وَ يَعْجَزُ وَ كُلُّ سَمِيعٍ غَيْرَهُ يَصَمُّ عَنْ لَطِيفِ الْاَصْوَاتِ وَ يُصِمُّهُ كَبِيرُهَا وَ يَذْهَبُ عَنْهُ مَا بَعُدَ مِنْهَا وَ كُلُّ بَصِيرٍ غَيْرَهُ يَعْمَى عَنْ خَفِيِّ الْاَلْوَانِ وَ لَطِيفِ الْاَجْسَامِ وَ كُلُّ ظَاهِرٍ غَيْرَهُ بَاطِنٌ وَ كُلُّ بَاطِنٍ غَيْرَهُ غَيْرُ ظَاهِرٍ
اس کے سوا ہر باعزت ذلیل اور ہر قوی کمزور و عاجز اور ہر مالک مملوک ، اور ہر جاننے والا سیکھنے والے کی منزل میں ہے اس کے علاوہ ہر قدرت و تسلط والا کبھی قادر ہوتا ہے اور کبھی عاجز، اور اس کے علاوہ ہر سننے والاخفیف آوازوں کے سننے سے قاصر ہوتا ہے اور بڑی آوازیں (اپنی گونج سے ) اسے بہرا کر دیتی ہیں اور دور کی آوازیں اس تک پہنچتی نہیں ہیں اور اس کے ماسوا ہر دیکھنے والا مخفی رنگوں اور لطیف جسموں کے دیکھنے سے نابینا ہوتا ہے ۔ کوئی ظاہر اس کے علاوہ باطن نہیں ہو سکتا اور کوئی باطن اس کے سو اظاہر نہیں ہو سکتا ۔(خطبہ63)
فَاِنَّمَا اَنَا وَ اَنْتُمْ عَبِيدٌ مَمْلُوكُونَ لِرَبٍّ لَا رَبَّ غَيْرُهُ يَمْلِكُ مِنَّا مَا لَا نَمْلِكُ مِنْ اَنْفُسِنَا
ہم او رتم اسی رب کے بے اختیار بندے ہیں کہ جس کے علاوہ کوئی رب نہیں ۔وہ ہم پر اتنا اختیا ر رکھتا ہے کہ خود ہم اپنے نفسوں پر اتنا اختیا ر نہیں رکھتے۔(خطبہ214)
لَا يَرْجُوَنَّ اَحَدٌ مِنْكُمْ اِلَّا رَبَّهُ
تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے۔(حکمت82)
وَ اَنْ تُبَاهِيَ النَّاسَ بِعِبَادَةِ رَبِّكَ
خیر و اچھائی یہ ہے کہ۔۔۔تم اپنے پروردگار کی عبادت پر ناز کرسکو(حکمت94)
وَ اَلْجِئْ نَفْسَكَ فِي اُمُورِكَ كُلِّهَا اِلَى اِلَهِكَ فَاِنَّكَ تُلْجِئُهَا اِلَى كَهْفٍ حَرِيزٍ وَ مَانِعٍ عَزِيزٍ وَ اَخْلِصْ فِي الْمَسْأَلَةِ لِرَبِّكَ فَاِنَّ بِيَدِهِ الْعَطَاءَ وَ الْحِرْمَانَ۔
ہر معاملہ میں اپنے کو اللہ کے حوالے کر دو کیونکہ ایسا کرنے سے تم اپنے کو ایک مضبوط پناہ گاہ اور قوی محافظ کے سپرد کردوگے۔ صرف اپنے پروردگار سے سوال کروکیونکہ دینا اور نہ دینا بس اسی کے اختیار میں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اپنے اللہ سے بھلائی کے طالب رہو۔(وصیت31)
اللہ سبحانہ نہ کسی بشر کا محتاج ہے اور نہ ہی اسے اعضاء و جوارح کی احتیاج ہے
وَ السَّمِيعِ لَا بِأَدَاةٍ وَ الْبَصِيرِ لَا بِتَفْرِيقِ آلَةٍ وَ الشَّاهِدِ لَا بِمُمَاسَّةٍ
وہ سننے والاہے لیکن نہ کسی عضو کے ذریعہ سے اور دیکھنے والاہے لیکن نہ اس طرح کہ آنکھیں پھیلائے۔ وہ حاضر ہے لیکن نہ اس طرح کہ چھوا جاسکے (خطبہ150)