مشرق کا عظیم ستارہ حضرت آيت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اى کی نگاہ میں
9 نومبر (یومِ اقبال) کی مناسبت سے
مشرق کا عظیم ستارہ حضرت آيت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اى کی نگاہ میں
بسمہ تعالیٰ
"ميں خلوصِ دل سے عرض کررہا ہوں کہ آج حضرتِ اقبال کی عظمت ميں جلسہ منعقد کيا جا رہا ہے تو يہ ميرى زندگی کے پرجوش اور انتہائی يادگار دنوں ميں سے ہے_
وہ درخشاں ستارہ جس کى ياد ،جس کا شعر ،جس کى نصيحت اور سبق گٹھن کے تاريک ترين ايام ميں ايک روشن مستقبل کو ہمارى نگاہوں کے سامنے مجسم کررہا تھا،آج خوش قسمتی سے ايک مشعلِ فروزاں کي طرح ہمارى قوم کى توجہ کو اپنى طرف مبذول کيے ہوئے ہے_
ہمارى عوام جو دنیا ميں اقبال کے پہلے مخاطب تھے،افسوس کہ وہ کافی بعد میں اس سے آگاہ ہوئے ،ہمارے ملک کى خاص صورتِ حال ،خصوصاً اقبال کى زندگي کے آخرى ايام ميں ان کے محبوب ملک ايران ميں منحوس استعمارى سياست کا غلبہ اس امر کا باعث بنا کہ وہ کبھي ايران نہ آئے_
فارسى کے اس عظيم شاعر جس نے اپنے زيادہ تر اشعار اپنى مادرى زبان ميں نہيں بلکہ فارسى ميں کہے ،کبھى اپنى پسنديدہ اور مطلوب فضا،ايران ميں قدم نہيں رکھا ،اور نہ صرف يہ کہ وہ ايران نہ آئے بلکہ سياست نے، جسکے خلاف اقبال عرصہ درازتک برسرِ پيکار رہے ،اس بات کى اجازت نہ دي کہ اقبال کے نظريات و افکار کا بتايا ہوا راستہ اور درس ايرانى عوام کے کانوں تک پہنچے جسے سننے کیلئے وہ سب سے زيادہ بے تاب تھے_اس سوال کا جواب کہ کيوں اقبال ايران نہيں آئے ،ميرے پاس ہے_
جب اقبال کى عزت و شہرت عروج پر تھى اور جب برصغير کے گوشہ و کنار ميں اور دنيا کى مشہور يونيورسٹيوں ميں انہيں ايک عظيم مفکر، فلسفى، دانشور ،انسان شناس اور ماہر عمرانيات کے طور پر ياد کيا جاتا تھا، ہمارے ملک ميں ايک ايسى سياست نافذ تھى کہ ايران آنے کى دعوت نہ دى گئی اور ان کے ايران آنے کے امکانات فراہم نہ کیے گئے_ سالہا سال تک ان کى کتابيں ايران شائع نہ ہوئیں ۔حالانکہ يہ وہ زمانہ تھا جب اس ملک ميں ايرانى اور مسلمان کے تشخص کو نابود کرنے کیلئے غير ملکى ادب و ثقافت کا تباہ کن سيلاب رواں تھا_ اقبال کا کوئی شعر اور کوئى تصنيف مجالس و محافل ميں عوام کے سامنے نہ لائى گئی_
آج اقبال کی آرزو يعنى اسلامى جمہوريت نے ہمارے ملک ميں جامہء عمل پہن ليا ہے_ اقبال لوگوں کى انسانى اور اسلامى شخصيت کے فقدان سے غمگين رہتے تھے اور اسلامى معاشروں کى معنوى ذلت اور نااميدي کو سب سے بڑے خطرے کى نگاہ سے ديکھتے تھے ،لہٰذا انہوں نے اپنى تمام تر توانائیوں کے ساتھ مشرقى انسان اورخصوصاً مسلمان کى ذات اوروجود کیلئے کام کیا۔ فارسی زبان جس نے اپنے اقبال کے ذہن کے ساتھ زندگى گذاری ہے ،بات کروں تاکہ اس عظيم اجتماع ميں اپنے اوپر ان کے عظيم احسان اور اپنے عزيز لوگوں کے ذہن پر ان کے اثرات کے عظيم حق کو کسى حد تک ادا کرسکيں_
اقبال تاریخِ اسلام کے نماياں ،عميق اور اعلیٰ شخصيتوں ميں سے ہيں کہ انکى خصوصيات اور زندگى کے صرف ايک پہلو کو مدِ نظر رکھا جا سکتا اور ان کے صرف اس پہلو اور اس خصوصيت کے لحاظ سے تعريف نہيں کى جا سکتى_ اگر ہم صرف اسى پر اکتفا کريں اور کہيں کہ اقبال ايک فلسفی ہيں اور ايک عالم ہيں تو ہم نے حق ادا نہيں کيا_ اقبال بلاشک ايک عظيم شاعر ہيں اور ان کا بڑے شعراء ميں شمار ہوتا ہے_ اقبال کے اردو کلام کے بارے ميں اردو زبان و ادب کے ماہرين کہتے ہيں کہ بہترين ہے،شايد يہ تعريف، اقبال کی بڑی تعريف نہ ہو کيونکہ اردو زبان کى ثقافت اور نظم کا سابقہ زيادہ نہيں ہے ليکن اس بات ميں کوئی شک نہيں کہ اقبال کے اردو کلام نے بيسويں صدى کے ابتدائی برسوں ميں برصغير کے افراد پر(خواہ ہندو ہوں یا مسلمان )گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کو اس جد وجہد ميں اس وقت تدريجى طور پر بڑھ رہی تھی ،زيادہ سے زيادہ جوش دلايا ہے۔ خود اقبال بھي مثنوى "اسرار خودى” ميں کہتے ہيں:
باغبان زور کلامم آزمود
مصرعى کاريد و شمشيرى درود
اور ميرا استنباط يہ ہے کہ وہ يہاں پر اپنے اردو کلام کے بارے ميں کہتے ہيں جو اس وقت برصغير کے تمام لوگوں کے لئے جانا پہچانا تھا_
اقبال کا فارسي کلام بھى ميرے نزديک شعری معجزات ميں سے ہے_ ہمارے ادب کی تاریخ ميں فارسی ميں شعر کہنے والے غير ايرانى بہت زيادہ ہيں ليکن کسى کى بھى نشاندہی نہيں کی جا سکتی جو فارسى ميں شعر کہنے ميں اقبال کی خصوصيات کا حامل ہو_
اقبال فارسی بات چيت اور محاورے سے ناواقف تھے اور اپنے گھر ميں اور اپنے دوستوں سے اردو يا انگريزي ميں بات کرتے تھے ۔ اقبال کو فارسی مضمون نگارى اور فارسی نثر سے واقفيت نہيں تھی اور اقبال کی فارسی نثر وہی تعبيرات ہيں جو انہوں نے "اسرارِ خودی” اور "رموزِ بے خودى” کى ابتداء ميں تحرير کی ہيں اور آپ ديکھتے ہيں کہ ان کا سمجھنا فارسی زبان والوں کے لئے مشکل ہے_
اقبال نے ایامِ طفلى اور جوانی ميں کسى بھى مدرسے ميں فارسی نہيں پڑھى تھی اور اپنے والد کے گھر ميں اردو بولتے تھے لہٰذا انہوں نے فارسی کا انتخاب صرف اس لئے کيا کہ وہ محسوس کرتے تھے کہ ان کے ا
فکار اور مضامين اردو کے سانچے ميں نہيں سماتے تھے اور اس طرح انہوں نے فارسى سے انسيت حاصل کى_
انہوں نے سعدي اور حافظ کے ديوان اور مثنوى مولانا اور سبک ہندى کے شعراء مثلاً عرفي،نظيري اور غالب دہلوي نيز ديگر شعراء کے کلام کو پڑھ کر فارسی سيکھى_ اگرچہ وہ فارسی ماحول ميں نہيں رہے اور انہوں نے فارسى کی پرورش گاہ ميں کبھي زندگي نہيں گزارى تھی ليکن انہوں نے لطيف ترين ،دقيق ترين اور ناياب ترين ذہنی مضامين کو اپنی طويل (بعض نہايت اعليٰ) نظموں کے سانچے ميں ڈھال کر پيش کيا اور يہ چيز ميري رائے ميں اعلیٰ شعری استعداد اور صلاحيت ہے_ اگر آپ ان لوگوں کے اشعار کو ديکھيں جو ايرانى نہيں تھے ليکن انہوں نے فارسى کلام کہا تھا اور ان کا اقبال سے موازنہ کريں تو آپ سامنے اقبال کي عظمت واضح تر ہوجائیگى_
اقبال کے بعض مضامين جن کو انہوں ايک شعر ميں بيان کرديا ايسے ہيں کہ اگر انسان چاہے کہ نثر ميں بيان کرے تو نہيں کر سکتا اور ہميں ايک مدت تک زحمت اٹھانى پڑے گى کہ ايک شعر کو جس کو انہوں نے آسانى کے ساتھ بيان کرديا ہے ،فارسى نثرميں جو ہمارى اپنى زبان بھى ہے ،بيان کريں_
ميں جناب ڈاکٹر مجبتوى کا ان اشعار کیلئے جو انہوں نے پڑھے ہيں ممنون ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ آپ اقبال کے کلام کو زندہ کيجئے کيونکہ اقبال کو متعارف کرانے کا بہترين ذريعہ ان کا کلام ہے اور اقبال کو کوئی بھى بيان متعارف نہيں کرا سکتا_
اقبال مانند آفتاب شاعر ہيں اور ان کے بعض فارسى اشعار اپنے عروج پر پہنچے ہوئے ہيں ۔اقبال نے مختلف طرزوں مثلاً ہندى طرز، عراقى طرز اور حتیٰ کہ خراسانى طرز ميں بھى اشعار کہے ہيں اور نہ صرف يہ کہ صرف شعر کہے بلکہ اچھے شعر کہے ہيں انہوں نے مختلف شعرى قالبوں یعنی مثنوى، غزل، قطعہ، دوبيتى اور رباعى کا استعمال کيا ہے_ اور جيسا کہ ميں نے عرض کيا کہ قابلِ تعريف اشعار ہيں اور اعلیٰٰ مضامين کو باندھا ہے ۔بعض اوقات تو ان کا کلام ساتويں آسمان پر پہنچا ہوا ہے اور نماياں حيثيت رکھتا ہے جب کہ اس شخص کو مروّجہ فارسی بولنے کی مشق نہيں ہے اور فارسى گھرانے ميں پيدا نہيں ہوا اور فارسی کے مرکز ميں بھى زندگى نہيں گزارى_ يہ استعداد ہے لہٰذا اقبال کى صرف ايک شاعر کى حيثيت سے تعريف ان کے حق ميں کوتاہی ہے_
اقبال ايک عظيم مصلح اور حريت پسند شخص ہيں اگرچہ حريت پسندی اور سماجی اصلاح ميں اقبال کا رتبہ بہت زيادہ اہم ہے ليکن اقبال کو صرف سماجی مصلح نہيں کہا جا سکتا کيونکہ اسى برصغير ميں اقبال کے ہم عصروں ميں کچھ ہندو اور مسلمان لوگ ہندوستان کے سماجی مصلح مانے جاتے ہيں جن ميں سے اکثر کو ہم پہچانتے ہيں اور ان کی تصنيفات موجود ہيں اور ان کی جدوجہد واضح ہے_
خود مسلمانوں ميں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد على ، مولانا شوکت علی ، مرحوم قائد اعظم (محمد علي جناح) جيسى نماياں شخصیات موجود تھيں جن کى زندگى کے ايام بھى اقبال کی حيات کے مانند تھے_ اور وہ لوگ ايک ہى نسل سے اور ايک ہى عہد سے تعلق رکھتے تھے اورحریت پسندوں و مجاہدوں ميں شامل تھے ليکن اقبال ان سب سے بڑے اور اعلیٰ مقام ہيں ،اقبال کے کام کى عظمت کا ان ميں سے کسی سے بھى موازنہ نہيں کيا جا سکتا_ يعنى زيادہ سے زيادہ اہميت اور قدر جو مولانا ابوالکلام کے لئے قائل ہيں جو ايک نماياں شخصيت رکھتے ہيں اور حقيقتاً انکى اہميت کو کم نہيں سمجھنا چاہئے ،يا مولانا محمد على يا مولانا شوکت على کے سلسلے ميں ہم جس اہميت کے قائل ہيں، يہ ہے کہ يہ لوگ انتھک مسلمان مجاہد تھے جنہوں نے اپنے ملک سے برطانيہ کو نکالنے کیلئے سالہا سال کوشش کى اور اس سلسلے ميں بہت زيادہ جدوجہد کى_ ليکن اقبال کا مسئلہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہيں ہے بلکہ اسلامی دنيا اور مشرق کا مسئلہ ہے_ وہ اپني مثنوى (پس چہ بايد کرد اے اقوامِ شرق) اس بات کى نشاندہی کرتے ہيں کہ اقبال کی تيز نگاہيں کس طرح اس دنيا کى طرف متوجّہ ہيں جو ظلم و ستم کا شکار ہے اور ان کى توجہ اسلامى دنيا کے تمام شعبوں کى جانب ہے_ اقبال کیلئے مسئلہ صرف مسئلہ ہند نہيں ہے لہذا اگر اقبال کوايک اجتماعی مصلح بھى پکاريں تو حقيقت ميں ہم اقبال کي پورى شخصيت کو بيان نہيں کرتے اور مجھے وہ لفط اور عبارت نہيں ملتى جس سے ہم اقبال کى تعريف کر سکيں_
لہذا آپ ديکھئے کہ يہ شخصيت ،يہ عظمت اور اس عظيم انسان کي ذات اور اس کے ذہن ميں معانی کى گہرائی کہاں اور ہمارے لوگوں کى ان کے متعلق واقفيت کہاں اور حق تو يہ ہے کہ ہم اقبال کى شناخت کے مسئلے سے دور ہيں_
بہرحال يہ سيمينار بہترين کاموں ميں سے ہے جو انجام پائے ليکن اس پر بھى اکتفا نہيں کرنا چاہئے اور ميں ثقافت و تعليمات کے محترم وزير اور يونيورسٹى سے منسلک بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ملک ميں اقبال کے نام پر فاونڈيشن کے قيام اور يونيورسٹيوں ،ہالوں اور ثقافتي اداروں کے ناموں کو اقبال کے نام پر رکھنے کى فکر ميں رہيں_ اقبال کا تعلق ہم سے ،اس قوم سے اور اس ملک سے ہے جس طرح کہ اس غزل ميں جو جناب ڈاکٹر
مجتبوى نے پڑھى اور آپ نے سنى_ اقبال ايرانى عوام سے اپنے لگاؤ کو بيان کرتے ہيں اور کہتے ہيں:
*چون چراغِ لالہ سوزم در خيابانِ شما*
*اے جوانانِ عجم جانِ من و جانِ شما*
اور آخر ميں کہتے ہيں:
*مى رسد مردى کہ زنجيرِ غلامان بشکند*
*ديدہ ام از روزن ديوار زندان شما*
اور يہ ميرى اس بات کي تائید ہے جو اقبال کے ايران نہ آنے کي وجہ کے بيان ميں ،پہلے عرض کرچکا ہوں_ وہ اس جگہ کو زنداں سمجھتے ہيں اور قيديوں سے مخاطب ہو کر بولتے ہيں_ اقبال کے ديوان ميں بہت سى مثاليں ہيں جو اس بات کى نشاندہی کرتى ہيں کہ وہ ہندوستان سے نااميد ہوچکے ہيں (کم ازکم اپنے زمانے کے ہندوستان سے) اور ايران کى جانب متوجہ ہيں_ وہ چاہتے ہيں کہ وہ مشعل جس کو انہوں نے جلا رکھا ہے ايران ميں مزيد روشن ہو اور انہيں اس بات کى اميد ہے کہ يہاں پر کوئی معجزہ رونما ہو ۔ يہ اقبال کا ہم پر حق ہے اور ہميں چاہئے کہ اس حق کا احترام کريں_
اب رہى بات اقبال کى شخصيت کى تو اگر ہم اقبال کى شناخت کرنا چاہيں اور اقبال کے پيغام کى عظمت کو جانيں تو ہميں خواہ مخواہ اقبال کے دور کے برصغير کو اور اس دور کو پہچاننا پڑے گا جو اقبال کے دور پر ختم ہوتا ہے کيونکہ اس شناخت کے بغير اقبال کے پيغام کا مفہوم سمجھا نہیں جا سکتا ہے_ اقبال کے دور ميں برصغير اپنے سخت ترين ايام سے گزار رہا تھا_ جيسا کہ آپ کو معلوم ہے اقبال ١٨٧٧ء ميں پيدا ہوئے يعنى مسلمانوں کے انقلاب کى انگريزوں کے ہاتھ شکست کے بيس سال بعد_
١٨٥٧ع ميں انگريزوں نے ہندوستان اسلامى حکومت اور برصغير ميں اسلام کى حکم فرمائی پر آخرى ضرب لگائی _ ہندوستان ميں عظيم بغاوت رونما ہوئى اور شايد يہ بغاوت تقريباً دو تين سال تک جارى رہى_ اس کا عروج ١٨٥٧ء کے اوسط ميں تھا،انگريزوں نے موقع سے فائدہ اٹھايا اور اس ضرب کو جو تقریباً ستّر اسّی سال سے ہندوستان پر لگا رہے تھے اچانک فيصلہ کن طور پر لگایا اور اپنے خيال ميں وہاں سے اسلام کى جڑوں کو کاٹ ديا ۔يعني اسلامى حکومت اور مسلمانوں کى حکومت تھى جس کو انہوں نے طويل عرصے سے ادھر اُدھر سے کمزور بنا ديا تھا_ اس کے بہادر سرداروں اور عظيم شخصيتوں کو ختم کرديا تاکہ ہندوستان ميں اسلامى تہذيب کى مضبوط جڑوں کو کمزور کرسکيں_ اس کے بعد يکبارگى اس تناور اور قديمى درخت کو جس کى جڑيں پہلے ہى کمزور کرچکے تھے اور جس کے محافظوں کو ختم کر چکے تھے اور وہ اکيلا رہ گيا تھا کاٹ کر ختم کرديا اور ہندوستان کو برطانوى سلطنت کا جزو بنا ليا_”