مقالات

امام حسن مجتبٰی کی شہادت اور پس منظر

 مسلمانوں کی سستی اور بے فکری اور قلیل تعداد میں وفادار اور قرآن و اسلام کے محافظ شیعوں کے خون و جان کی حفاظت کی خاطر امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلحنامے پر دستخط کئے تو کوفہ چھوڑ کر مدینہ واپس چلے گئے اور نبی اکرم (ص) کی حدیث شریف کے تحت کہ:
«الحسن و الحسين ابنای امامان قامااو قعدا
حسن اور حسین میرے دو بیٹے، امام ہیں چاہے حالت قیام میں ہوں یا حالت قعود میں» ـ امام نے قعود کے 10 برس مدینہ منورہ میں گذارے.
ان سالوں کے بعد معاویہ نے بنوامیہ میں ہے بادشاہت کے تسلسل کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور اپنے بیٹی یزید کی ولایتعہدی کے لئے مقدمات فراہم کرنی کی تھانی. یہ امر بھی صلحنامی کی دفعات کی بالکل خلاف تھا… معاویہ نی صلحنامی پر دستخط کرنی کی فورا بعد سی اس کی خلاف ورزیوں کا آغاز کیا تھا([1]) مگر یہ خلاف ورزی بہت ہی اہم تھی … وہ یزید کی ولیعہدی کے بعد اسے مسلمانوں کا نیا خلیفہ بنانا چاہتا تھا … البتہ اپنی موت کے بعد … یہ امر صلحنامے کے ایک خاص نکتے کی خلاف تھا… طے یہ پایا تھا کہ معاویہ اپنے بعد خلافت امام حسن علیہ السلام کے سپرد کرے گا اور اگر امام حسن علیہ السلام نہ ہوں تو امام حسین علیہ السلام مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا. وہ امام حسن علیہ السلام کے رد عمل سے خائف تھا چنانچہ اس نے امام حسن علیہ السلام کے قتل کی سازش تیار کی… دہشت گردی کے آغاز اور اس کے بانی مبانیوں کے بارے میں زیادہ جاننے والے حضرات غور فرمائیں… وہ چاہتا تھا کہ یہ سازش کسی صورت بھی ناکام نہ ہو چنانچہ … نام نہاد خلیفہ مسلمین نے شام کے پڑوس میں واقع مشرقی روم کے اسلام دشمن بادشاہ کے پاس اپنا خاص قاصد روانہ کیا اور «اس کے ساتھ اپنی گہری دوستی کا حوالہ دے کر» نہایت طاقتور زہر مانگا… معاویہ نے زہر کو ایک لاکھ درہم کے ہمراہ مدینہ روانہ کیا … سلطان شام کا تحفہ کوفہ کے مشہور منافق اشعث کی بیٹی «جعدہ» کے حوالے کیا گیا. جعدہ اس وقت امام حسن علیہ السلام کی زوجیت میں تھی. یزید کے باپ معاویہ نے جعدہ کو وعدہ دیا تھا کہ «اگر وہ امام حسن علیہ السلام کو شہید کردے تو وہ اسے اپنی بہو بنائے گا اور اس کو یزید کی بیوی ہونے کا اعزاز! حاصل ہوگا… جعدہ دھوکہ کھا گئی اور خیانت کا فیصلہ کیا.
اس روز گرمی زوروں پر تھی اور امام حسن علیہ السلام روزہ دار تھے چنانچہ پیاس آپ (ع) کے وجود نازنین پر غالب آگئی تھی… افطار کے وقت جعدہ نے شربت میں زہر ملایا اور ریحانۃ الرسول (ص) کو پیش کیا. امام حسن علیہ السلام نے شربت نوش کرتے ہی محسوس کیا کہ مسموم ہوگئے ہیں چنانچہ فرمایا:«انا لله و انا اليه راجعون». اس کے بعد خدا کا شکر ادا کیا اور الحمد للہ کہہ کر جعدہ کی طرف رخ کرکے فرمایا: «اے دشمن خدا! تو نے مجھے قتل تو کر دیا لیکن جان لو کہ معاویہ نے تجھے دھوکہ دیا اور میرے بعد تم کسی کی زوجیت اختیار نہ کرسکوگی. خدا تجھے اور اس کو اپنے عذاب کے ذریعے خوار و ذلیل فرمائے». اب امام (ع) بیماری کے بستر پر لیٹ گئے.
«جنادہ بن ابی امیہ» کہتے ہیں: میں امام علیہ السلام کی بیماری میں ہی آپ (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا. امام (ع) کے سامنے طشت رکھا ہوا تھا. امام (ع) کو کبھی کبھی قے آتی تھی اور آپ (ع) کا خون بڑے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں آپ کے جگر کے ٹکڑوں کے ہمراہ طشت میں گر جاتے تھے. میں نے عرض کیا: اے میرے مولا! اپنا علاج معالجہ کیوں نہیں کراتے؟ امام (ع) نے فرمایا: اے بندہ خدا! موت کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟». میں نے عرض کیا: «انا للہ و انا الیہ راجعون». اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے خبر دی ہے کہ آپ (ص) کے بعد بارہ خلفاء اور امام ہونگے جن میں سے گیارہ امام علی اور فاطمہ سلام اللہ علیہما کے فرزند ہونگے اور یہ سارے تلوار یا زہر کے ذریعے شہید کئے جائیں گے». میں نے عرض کیا:«اے فرزند رسول (ص)! مجھے نصیحت فرمائیں». فرمایا: «اِستَعِد لِسَفَرِکَ وَ حَصِّل زادَکَ قَبلَ اََجَلِکَ … موت آن پھنچنے سے قبل ہی سفر آخرت کے لئے تیاری کرو اور… جان لو کہ دنیا کے حلال میں حساب ہے اور حرام میں عذاب و عِقاب … دنیا کے شبہوں میں مبتلا ہونا باعث عتاب ہے؛ پس دنیا کو مردار کی مانند سمجھو اور اس میں سے کچھ نہ لو مگر صرف اپنی ضرورت کے برابر… اور اگر قوم، قبیلے اور یار و مددگار کے بغیر بھی محترم اور عزیز ہونا چاہو اور سلطنت و بادشاہی کے بغیر ہیبت کی خواہش رکھتے ہو تو معصیت اور خدا کی نافرمانی کی ذلت کے دائرے سے خارج ہوکر اس کی اطاعت کی عزت کے دائرے میں داخل ہوجاؤ».
امام (ع) کئی روز تک بیماری کے بستر پر پڑے رہے اور آپ نے یہ دن شدید ترین رنج و تکلیف میں گذارے … اور جب آپ کی سانسیں اکھڑنے لگیں اور چہرہ مبارک پیلا پڑگیا تو معلوم ہوا کہ رسول اللہ کے فرزند اور فاطمہ و علی علیہمہا السلام کے دلبند کی حیات مبارکہ کے آخری لمحات ہیں… چنانچہ بھائی حسین (ع) نے آپ کا سرمبارک اپنی آغوش میں لیا اور آپ کے پیشانی کو چوما اس وقت ان کے درمیان لمبی گفتگو ہوئی. امام حسن علیہ السلام نے بھائی حسین علیہ السلام کو وصی قرار دیا؛ امامت کے اسرار اور خلافت کے ودائع اور امانتوں کو امام حسین علیہ السلام کے سپرد کیا اور تب آپ(ع) کی روح روضات قدس کی جانب پرواز کرگئی اور جنت کے سردار جنت سدہارگئے.
امام حسن علیہ السلام کی وصیتوں میں سے ایک یہ تھی کہ: مجھے اپنے جد امجد رسول اللہ (ص) کے پہلو میں دفن کریں… مگر اگر وہ "خاتون » مانع ہو تو میں آپ کو اپنی قرابت کے حق کی قسم دیتا ہوں کہ جھگڑے اور تنازعے کو روک لیں اور ایک قطرہ خون بھی اس سلسلے میں زمین پر نہ گرنے پائے؛ اس صورت میں میرا بدن بقیع میں دفن کریں حتی کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ السلام سے ملاقات کرلوں اور آپ (ص) سے فیصلہ کراؤں اور آپ (ص) کے بعد ان لوگوں کی وجہ سے جو مصائب میں نے سہہ لئے ان کی شکایت آپ (ص) سے کروں».
جب امام حسن علیہ السلام نے عالم بقاء کی جانب رحلت فرمائی، امام حسین علیہ السلام نے بنوہاشم کے کچھ افراد کے ہمراہ جسم مبارک کو غسل دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ مبارکہ کی طرف روانہ ہوئے تا کہ فرزند رسول (ص) کو رسول (ص) کے پہلو میں دفن کیا جائے.
«حَکَم» کا بیٹا «مروان» – جو رسول اللہ (ص) کے حکم پر اپنے باپ کے ہمراہ مدینہ سے جلا وطن تھا اور آپ (ص) کے انتقال کے بعد مدینہ میں آبسا تھا؛ جان گیا کہ امام حسن علیہ السلام کو روضہ رسول (ص) میں دفنایا جارہا ہے… یہ وہی شخص تھا جس نے جنگ جمل میں اپنے ہی لشکر کے ایک اہم سپہ سالار طلحہ کو یہ کہہ کر قتل کردیا کہ« عثمان کے قتل میں تم ہی تو ملوث ہو اور یہ تمہاری سزا ہے اور اپنے لشکر کی امیرہ ام المؤمنین عائشہ کو بھی بعد میں اسی شخص نے کنوئیں میں گرا کر قتل کیا تھا … مروان کو معلوم ہوا تو اپنے خچر پر سوار ہوا اور زوجہ رسول (ع) عائشہ بنت ابی بکر کے پاس پھنچا اور کہا: «حسین … فرزند رسول (ص) … اپنے بھائی کو اپنی نانا رسول اللہ (ص) کے پہلو میں دفنانا چاہتے ہیں … اٹھو اور انہیں اس کام سے روک لو». کہنے لگیں: میں کیسے روکوں ؟ مروان خچر سے اترا اور عائشہ کو سوار کیا اور قبر رسول (ص) کے پاس پھنچ ایا. آل ابی سفیان کے کئی افراد بھی وہاں اکٹھے ہوگئے تھے اور نعرے لگا رہے تھے: عثمان مظلوم بقیع کے بدترین نقطے میں دفن ہوگا اور حسن رسول خدا (ص) کے پہلو میں؟ ایسا ہرگز نہ ہوگا مگر یہ کہ نیزے اور تلواریں ٹوٹ جائیں اور ترکش تیروں سے خالی ہوجائیں». امام حسین علیہ السلام بھی ان کا جواب دیتے رہے.
«عبداللہ ابن عباس» کہتے ہیں: ہم ان ہی سخن و جواب سخن میں تھے کہ ایک آواز سنائی دی اور ہم نے دیکھا کہ عائشہ خچر پر سوار آرہی ہیں اور ان کے ہمراہ کثیر تعداد میں لوگ بھی آرہے ہیں اور عائشہ ان لوگوں کو جنگ کی ترغیب دلارہی ہیں. جب ان کی نظر مجھ پر پڑی تو کہنے لگیں: ای ابن عباس! تم (بنو ہاشم) نے میری خلاف اپنی جرأت تمام کردی ہے اور ہر روز مجھے آزار دے رہے ہو اور تم ایسے فرد کو میرے گھر میں داخل کرنا چاہتے ہو جسے میں دوست نہیں رکھتے…!([2])
میں نے کہا: واسواء تاہ۔۔ ایک روز جمل (اونٹ) پر سوار ہوجاتی ہو اور ایک روز خچر پر؟! کیا خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہو اور خدا کے اولیاء کے خلاف لڑنا چاہتی ہو اور رسول اللہ (ص) اور آپ(ص) کے حبیب کے درمیان حائل ہونا چاہتی ہو؟ اسی وقت وہ خاتون قبر رسول (ص) کے پاس پھنچیں اور اپنے آپ کو خچر سے زمین پر گرایا اور چِلّا کر بولیں: «خدا کی قسم! خدا کی قسم کہ جب تک میرے سر میں ایک بال بھی باقی ہو میں حسن کو یہاں دفن نہیں ہونے دوں گی!.
روایت میں ہے کہ اسی وقت تیراندازی شروع ہوئی اور جنازے کو تیروں کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں جسم مبارک سے 70 تیر نکالے گئے…بنو ہاشم نے یہ دیکھا تو غضبناک ہوئے اور تلواریں بے نیام کرکے لڑنے کے لئے بے قرار ہوئے مگر سیدالشہداء علیہ السلام نے فرمایا: «میں تمہیں خدا کی قسم دیتاہوں کہ میرے بھائی کی وصیت کو ضائع نہ کرو اور ایسا کوئی اقدام نہ کرو جو خونریزی کا باعث بنے». اس کے بعد امام علیہ السلام نے دشمنوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: «اگر میرے بھائی کی وصیت نہ ہوتی تم خود ہی دیکھ لیتے کہ میں تمہاری ناکیں کس طرح زمین ر رگڑتا ہوں اور اپنے بھائی کو کس طرح اپنے نانا کے پہلو میں دفن کرتا ہوں». اس کے بعد جنازہ اطہر کو اٹھایا گیا اور امام حسن علیہ السلام کو بقیع میں دفنایا گیا.
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے: «رسول اللہ صلیاللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جب وہ میری بیٹے حسن کو زہر دے کر شہید کریں گے، سات آسمانوں کے فرشتے ان پر گریہ و بکاء کریں گے… اور جو بھی ان کے لئے گریہ و بکاء کرے گا، جس روز آنکھیں اندھی ہوں گی، اس کی آنکھیں نابینا نہ ہوں گی… اور جو بھی ان کی مصیبت میں غمگین و محزون ہوگا، جس روز دل مغموم ہونگے، وہ محزون نہ ہوگا… اور جو بھی بقیع میں ان کی زیارت کرے گا، اس روز جب قدم کانپ رہے ہوں گے اس کے قدم صراط کے اوپر ثابت اور استوار ہونگے».
علی لعنة الله علی القوم الظالمين و سيعلم الذين ظلموا ای منقلب ينقلبون

اصلی ماخذ:

  1. شيخ عباس قمي ؛ منتہی الآمال؛ تلخیص آیۃاللہ رضا استادی ؛ قم: دفتر نشر مصطفی، 1380.
    2. محمد بن یعقوب کلینی ؛ اصول کافی ؛ ترجمہ و شرح سید جواد مصطفوی ؛ تہران: انتشارات ولی عصر (عج)، 1375 .

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button