مقالات

معیار و ملاک خوبی نہج البلاغہ کی نظر میں

 

جب بھی کسی علاقے میں بارش ہوتی ہے اس علاقے کی ضرورت اور ظرفیت کے مطابق زمین تک پہنچتی ہے
جن علاقوں میں چاول کاشت کیے جاتے ہیں اور ان کو بارش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہاں اکثر بارش دیکھنے کو ملتی ہے
اور وہ علاقے جن میں زیادہ بارش نقصان دہ ہوتی ہے اور بارش کا نہ ہونا بھی ان کیلئے مضر ہوتا ہے عموما ان علاقوں میں بارش کم ہوتی ہے اور وہاں کے لوگ بھی کم بارش سے راضی ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ بارش ان کیلئے مضر ہے ۔  اور وہ لوگ جو اس علاقے کو نہیں جانتے وہ احساس کرتے ہیں فلاں علاقے میں خشکسالی ہے درحالنکہ ان کی ضرورت کے مطابق بارش ہوتی رہتی ہے۔

 البتہ کبھی کبھی جب بارش کا نہ ہونا مفید ہوتا ہے بہت زیادہ بارش آجاتی ہے بجای اینکہ رحمت ہو زحمت اور عذاب بن جاتی ہے اور اس عذاب کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کی فصلوں کو اس بارش کی وجہ سے نقصان پنہچا ہو ۔ اور وہ لوگ جو اس علاقے کے نہیں ہوتے اور ان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا کہتے ہیں: کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن پر یہ بارش برسی ہے۔
لیکن اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ اس بارش کیوجہ سے ان کو نقصان پہنچا ہے۔
اور کبھی کبھی اس کے بر عکس جہاں بارش کی ضرورت ہوتی ہے وہاں بارش نہیں ہوتی اور خشکسالی کی وجہ سے وہاں کی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے ۔
نتیجہ: پس بارش ہمیشہ رحمت نہیں ہوا کرتی اور نہ ہی ہمیشہ زحمت اور عذاب ہوتی ہے ۔
بلکہ ہر علاقے میں خدا کی مصلحت کے مطابق ہوتی رہتی ہے
تھوڑی یا زیادہ، نعمت یا زحمت

قابل توجہ بات یہ ہے کہ رزق انسان بھی اسی طرح ہے۔

ہمیشہ زیادہ اور وسیع رزق اچھائی اور خوبی کی علامت نہیں
اور ہمیشہ تھوڑا رزق بد بختی کی علامت نہیں
بلکہ خداوند عالم ہر انسان کو اس کی ضرورت کے مطابق رزق دیتا ہے تاکہ اس کیلئے نقصان نہ ہو ۔
لیکن کبھی کبھی کسی انسان کو اس کی ضرورت سے زیادہ رزق دے دیتا ہے اور کبھی کسی انسان کو اس کی ضرورت سے تھوڑا رزق دیتا ہے ۔ جب کہ دونوں اچھائی اور خوبی کی علامت نہیں ہیں ۔

 پس رزق کا زیادہ یا تھوڑا ہونا کو اچھائی کی علامت تصور نہیں کرنا چاہیے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کیلئے اچھائی کا معیار اور ملاک کیا ہے؟
امیرمومنان علی علیه السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:
ہر شخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہوتا ہے ، اسے لے کر فرمان قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرات ،لہذا اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے اہل و مال و نفس میں فراوانی و وُسعت پائے تو یہ چیز اس کے لئے کبیدگی خاطر کا سبب نہ بنے۔ جب تک کوئی مرد مسلمان کسی ایسی ذلیل حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا کہ جو ظاہر ہو جائے، تو اس کے تذکرہ سے اسے آنکھیں نیچی کرنا پڑیں اور جس سے ذلیل آدمیوں کی جراٴت بڑھے ،وہ اس کامیاب جواری کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے مرحلے پر ہی ایسی جیت کا متوقع ہوتا ہے ، جس سے اسے فائدہ حاصل ہو اور پہلے نقصان ہو بھی چکا ہے تو وہ دور ہو جائے ۔

أمَّا بَعْدُ فَإِنَّ الْأَمْرَ يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ كَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ إِلَى كُلِّ نَفْسٍ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِيَادَةٍ أَوْ نُقْصَان…. فإِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ مَا لَمْ يَغْشَ دَنَاءَةً تَظْهَرُ فَيَخْشَعُ لَهَا إِذَا ذُكِرَتْ وَ يُغْرَى بِهَا لِئَامُ النَّاسِ كَانَ كَالْفَالِجِ الْيَاسِرِ الَّذِي يَنْتَظِرُ أَوَّلَ فَوْزَةٍ مِنْ قِدَاحِهِ تُوجِبُ لَهُ الْمَغْنَمَ وَ يُرْفَعُ بِهَا عَنْهُ الْمَغْرَمُ

نهج البلاغه خطبه23

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button