مقالات

واقعہ مسجد مبارک شجرہ علی علیہ السلام کی زبان اقدس سے

 امیرالمومنین علیه السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:

 میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ تھا کہ قریش کی ایک جماعت آپ کے پاس آئی اور انہو ں نے آپ سے کہا کہ:

اے محمدﷺ ❗️

 آپ نے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے ۔ایسا دعویٰ نہ تو آپ کے باپ داد ا نے کیا نہ آپ کے خاندان والوں میں سے کسی اور نے کیا ❗️

ہم آپ سے ایک امر کا مطالبہ کرتے ہیں اگر آپ نے اسے پورا کر کے ہمیں دکھلادیا تو پھر ہم بھی یقین کر لیں گے کہ آپ نبی و رسول ہیں اور اگر نہ کر سکے تو ہم جان لیں گے کہ(معاذاللہ) آپ جادوگر اور جھوٹے ہیں ❗️

 حضرت نے فرمایا کہ وہ تمہارا مطالبہ ہے کیا ❓

 انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے لئے اس درخت کو پکاریں کہ یہ جڑ سمیت اکھڑ آئے اور آپ کے سامنے آکر ٹھہر جائے.❗️

آپ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ ہر چیز پرقادر ہے:

اگر اس نے تمہارے لئےایسا کر دکھایا تو کیا تم ایمان لے آؤ گےاور حق کی گواہی دو گے ❓

 انہوں نے کہا کہ ہاں.

آپؐ نے فرمایا: کہ اچھا جو تم چاہتے ہو تمہیں دکھائے دیتا ہوں،

لیکن میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم بھلائی کی طرف پلٹنے والے نہیں ہو ❗️

… آپؐ نے فرمایا:

اے درخت 

اگر تو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو اپنی جڑ سمیت اُکھڑ آ ،یہاں تک کے تو بحکم خد ا میرے سامنے آکر ٹھہر جائے ??

امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

 (رسو لؐ کا یہ فرمانا تھا کہ) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا وہ درخت جڑ سمیت اکھڑ آیا اور ا س طرح آیا کہ اس سے سخت کھڑکھڑاہٹ اور پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی سی آوازآتی تھی یہاں تک کہ وہ لچکتا جھومتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے رو برو آکر ٹھہر گیا اور بلند شاخیں اُن پر اور کچھ شاخیں میرے کندھے پر ڈال دیں اور میں آپؐ کی دائیں جانب کھڑا تھا ❗️

 

 جب قریش نے یہ دیکھا تونخوت و غرور سے کہنے لگے:

کہ اِسے حکم دیں کہ آدھا آپ کے پاس آئے اور آدھا اپنی جگہ پر رہے 

چنانچہ آپؐ نے اسے یہی حکم دیا:

 تو اسکا آدھا حصہ آپؐ کی طرف بڑھ آیا اس طرح کہ اس کا آنا (پہلے آنے سے )زیادہ عجیب صورت سے اور زیادہ تیز آواز کے ساتھ تھا اوراب کے وہ قریب تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺسے لپٹ جائے ۔. ❗️

اب اُنہوں نے کفر و سرکشی سے کہا:

کہ اچھا اب اس آدھے کو حکم دیجئے کہ یہ اپنے دوسرے حصے کے پاس پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا.

چنانچہ آپؐ نے حکم دیا اور وہ پلٹ گیا. 

میں نے (یہ دیکھ کر )کہا کہ لاالہ الااللہ۔ اے اللہ کے رسو لؐ میں آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والاہوں، اور سب سے پہلے اس کا اقرار کرنے والاہوں کہ اس درخت نے بحکم خدا آپ کی نبوت کی تصدیق اورآپ کے کلام کی عظمت و برتری دکھانے کے لئے جو کچھ کیا ہے و ہ امر واقعی ہے (کوئی آنکھ کا پھیر نہیں ) 

 یہ سن کر وہ ساری قو م کہنے لگی:

یہ (پناہ بخدا ) پرلے درجے کے جھوٹے اور جادوگر ہیں

ان کا سحر عجیب و غریب ہے اور ہیں بھی اس میں چابکدست ۔اس امر پر آپ کی تصدیق ان جیسے ہی کر سکتے ہیں اور اس سے مجھے مراد لیا (جو چاہیں کہیں ).

نهج البلاغه خطبه 190

بعد میں اسی درخت کی جگہ پر مسجد بنائی گئی جس کا نام مسجد شجرہ رکھا گیا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button