سفیرهٔ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
زندہ وفا کا نام ہے زینب کے نام سے
آگاہ اب بھی شام ہے زینب کے نام سے
مجلس کا اہتمام ہے زینب کے نام سے
یہ کربلا دوام ہے زینب کے نام سے
زینب کا ہر بیان ہے تفسیر کربل
زینب کا امیتاز ہے تشہیرِ کربل
مختلف مسالک کی دنیا میں یہ ایک غلط مفروضہ قائم ہو چکا ہے کہ خانوادہ اہلبیت اور خاص طور پر کربلا کے شہدا اور مقتدر شخصیات کے بارے میں سب سے زیادہ علم یا عشق ومحبت کسی ایک مخصوص فرقے کو یا مسلک کو حاصل ہے۔
میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی اس میں کم ازکم میں نے اس فرق کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ محبت اور عشق دراصل ایک رویہ ہے لیکن اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ دنیا بھر میں عشق اور محبت کا ایک ہی رنگ اور ایک ہی ڈھنگ ہے۔ انسانوں سے محبت سے قطع نظر اپنے رب سے بھی محبت کے کتنے ہی انداز ہیں اور میری نظر میں کوئی انداز بھی غلط نہیں۔
یہی سوچ کر میں اپنی استطاعت اور علمی و دینی علوم کے مرتبے سے واقف ہونے کے باوجود کربلاکی اس شیر دل خاتون اور ثانیء بنت رسول پر قلم اٹھانے کی جرآت کی ہے جو صرف مسلم خواتین کے لیئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی حُریت پسند خواتین کے لیئے ایک مینار نور ہیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ کو دیکھتے ھیں تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا ایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے دروبام کو روشن کئے ھوئے ھیں ۔اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ھے کہ بی بی زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیز ہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ھیں ۔
عورتوں کی فطری ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور بنی نوع آدم علیہ السلام کو حقیقت کی پاکیزہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ وہاجرہ و خدیجہ اور طیب وطاہر صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہم کی عظیم شخصیت اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ھیں وہاں جناب زینب سلام اللہ بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بنکر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل سچ اور جھوٹ ایمان و کفر اور عدل وظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں ۔
آغاز میں ہی ایک بات کی وضاحت کرتی چلوں جو عام مسلمان نے شاید جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہه کی تینوں صاحبزادیوں کا نام زینب ہی تھا جو دراصل ‘‘زینِ اب‘‘ یعنی والد کی زینت اور فخر ہے
١۔۔۔زینب جنکا دوسرا نام رقیہ ہے اور روایات کے مطابق انکا مدفن مدینے میں ہے
٢۔۔۔زینب کبریٰ جو عقیلہ بنی ہاشم کہلاتی ہیں جنکا مدفن شام میں اور بعض روایات میں مصر میں ہے
٣۔۔۔۔زینب صغریٰ جو اُمِ کلثوم کہلاتی ہیں اور جنکی قبر مصر میں ہے
علی کی بیٹی۔ مولف ڈاکٹر علی قائمی۔
کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ ہیں جو عقیلہ بنی ہاشم کہلاتی ہیں ۔انہیں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کی سرزمین پر کسب کمال میں وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میں آنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اور حضرت زینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم اور منفرد مثال بن گئیں۔
زینب سلام اللہ علیہا مکمل نام = زینب بنت علی علیه السلام
تاریخ ولادت = ۵ جمادی الاول، ۶ ہجری
لقب = ام المصا ئب
والد = علی ابن ابی طالب علیهما السلام
والدہ = فاطمہ علیہا السلام بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
تاریخ شا=دت = ۱۵ رجب،۶۲ ہجری
جناب سیدہ زینب کی ولادت اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سرشاری
حضرت زینب سلام اللہ علیہا امام علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بیٹی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نواسی تھیں۔ وہ ۵ جمادی الاول۶ھ۔ق کو مدینہ میں پیدا ہوئیں۔
جناب سیدہ کی پیدائش پر پورے مدینہ میں سرور و شادمانی کی لہر دوڑ گئی ۔ یوں جیسے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں ان کی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آغوش میں ایک چاند کا ٹکڑا اتر آیا تھا ۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر میں تھے علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بیٹی کو آغوش میں لیا ایک کان میں اذان اور ایک میں اقامت کہی اور دیر تک سینےسے لگائے ٹہلتے رہے۔
اسلام کا سرمایہ ٔ تسکین ہے زینب
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب
حیدر کے خدوخال کی تزئین ہے زینب
شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب
یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے
تطہیر میں زہرا ہے تو تیور میں علی ہے
(محسن نقوی)
مولا علی سب سے زیادہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے کہ دیکھیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی نواسی کے لیے کیا نام منتخب کرتے ہیں ۔ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جن کا ہمیشہ سے یہ معمول تھا کہ جب بھی کہیں جاتے تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر سلام کرکے رخصت ہوتے تھے اور جب بھی کہیں سے واپس ہوتے تو سب سے پہلے در سیدہ پر آکر سلام کرتے اور بیٹی سے ملاقات کے بعد کہیں اور جاتے تھے ۔
آج سب، جیسے ہی سفر سے پلٹے سب سے پہلے فاطمہ سلام اللہ کے گھر میں داخل ہوئے اہل خانہ کو سلام اور نو مولود کی مبارک باد پیش کی، رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ کر سب تعظیم کے لیےکھڑے ہوگئے اور حضرت علی نے بیٹی کو ماں کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا ۔ روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا : خدا نے اس بچی کا نام ” زینب ” منتخب کیا ہے ۔
اس لیے کہ زینب کے معنی ہیں باپ کی زینت جس طرح عربی زبان میں ” زین ” معنی زینت اور "اب”معنی باپ کے ہیں یعنی باپ کی زینت ہیں ۔ حضور اقدس نے جناب سیدہ ذینب کو اپنے سینہ اقدس سے لگالیا اور اپنا رخسار مبارک زینب بنت علی(ع) کے رخسار مبارک پر رکھ کر اتنا گریہ کیا کہ آپ کے آنسوں آپ کی ریش مبارک پر جاری ہوگئے ۔ آقا دو عالم جناب سیدہ ذینب پر آنے والے مصائب سے آگاہ تھے ۔
نشو نما
سیدہ زینب کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں رسول اسلام (ص) نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں ۔
نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا ، عصمت کبریٰ فاطمہ زہرا نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گیئں ۔ اسی کے ساتھ ساتھ حسنین شریفین نے انھیں بچپن ہی سے اپنی شفقت آمیز ھمّ عصری کا شرف بخشا جو زینب کے پاکیزہ تربیت کی وہ پختہ بنیادیں بنیں جن سے اس مخدومہ اعلیٰ کا عہد طفولیت تکمیل انسانی کی ایک مثال بن گی
شعوری اور فکری تربیت
فضیلتوں اور کرامتوں سے معمور گھر میں رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی علیہ السلام و فاطمہ سلام اللہ کی مانند عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا وجود تاریخ بشریت کا ایک غیرمعمولی کردار بن گیاہے کیونکہ امام کے الفاظ میں اس عالمۂ غیر معلمہ اور فہیمۂ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لیکر، عصمتی ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات کی درخشاں قندیل بن گئیں ۔
جب بھی ہم جناب زینب سلام اللہ علیہا کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے معنوی کمالات کی تجلیاں، جو زندگی کے مختلف حصول پر محیط نظر آتی ہیں، آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہیں چاہے وہ اپنی ماں کی آغوش میں ہمکتی اور مسکراتی تین چار سال کی ایک معصوم بچی ہو چاہے وہ کوفہ میں خلیفۂ وقت کی بیٹی کی حیثیت سے خواتین اسلام کے درمیان اپنے علمی دروس کے ذریعہ علم و معرفت کے موتی نچھاور کرنے والی ” عقیلۂ قریش ” ہو یا کربلا کے خون آشام معرکے میں اپنے بھائی حسین غریب کی شریک و پشت پناہ ، فاتح کوفہ و شام ہو ہرجگہ اور ہر منزل میں اپنے وجود اور اپنے زریں کردار و عمل کے لحاظ سے منفرد اور لاثانی نظر آتی ہے ۔
روایت کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے اپنے مہمان کے لیے کھانے کی فرمائش کی، معصومہ عالم نے عرض کی یا ابا الحسن ! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے صرف مختصر سی غذا ہے جو میں نے زینب کے لئے رکھ چھوڑی ہے یہ سن کر علی و فاطمہ کی عقیلہ و فہیمہ بیٹی دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اور مسکراتے ہوئے کہا : مادر گرامی، میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے، میں بعد میں کھالوں گی اور ماں نے بیٹی کو سینے سے لگالیا اور باپ کی آنکھوں میں مسرت و فرحت کی کرنیں بکھر گئیں : ” تم واقعتا زینب ہو ” ۔
جناب زینب کو بھی بچپن میں ہی نانا محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سایہ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی درد و مصائب میں مبتلا مظلوم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا لیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کردیا ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ جب وہ سات سال کی تھیں تو ان کے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہو گیا ۔ اس کے تقریباً تین ماہ بعد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی انتقال فرما گئیں ۔
اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو ” ثانی زہرا” اور ” عقیلۂ بنی ہاشم ” جیسے خطاب عطاکرنے پر مجبور ہوگئی ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے نبوت و امامت کے بوستان علم و دانش سے معرفت و حکمت پھول اس طرح اپنے دامن میں سمیٹ لئے تھے کہ آپ نے احادیث کی روایت اور تفسیر قرآن کے لئے مدینہ اور اس کے بعد علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کے دور خلافت میں کوفہ کے اندر، با قاعدہ مدرسہ کھول رکھاتھا جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف کی تعلیم حاصل کرتی تھی۔ جناب زینب نے اپنے زمانے کی عورتوں کے لئے تعلیم و تربیت کا ایک وسیع دسترخوان بچھا رکھا تھا جہاں بہت سی خواتین آئیں اور اعلی علمی و معنوی مراتب پر فائز ہوئیں ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی خانگی زندگی
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی بیٹی جناب زینب کبری کی شادی اپنے بھتیجے جناب عبداللہ ابن جعفر سےکی تھی، جن کی کفالت و تربیت، جناب جعفر طیار کی شہادت کے بعد خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ذمے لے لی تھی اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ نے ہی ان کی بھی پرورش کی تھی ۔
روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عبداللہ ابن جعفر سے شادی سے قبل یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جناب زینب کبری کے اعلی مقاصد کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے اگر وہ اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سفر کریں تو وہ اپنے اس فعل میں مختار ہوں گی ۔
چنانچہ جناب عبداللہ ابن جعفر نے بھی اپنے وعدے پر عمل کیا اور حضرت علی علیہ السلام کے زمانے سے لے کر امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے تک ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور امام وقت کی پشتپناہی کے عمل میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کی حمایت اور نصرت و مدد کی حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شہادت کے بعد جناب زینب کو اپنےشوہر کے گھر میں بھی آرام و آسایش کی زندگی میسر تھی۔ان کے پانچ بچے ہوئے جن میں سے حضرت عون اور حضرت محمد کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ شید ہو گئے ۔
جناب زینب کی اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام سے محبت
جناب عبداللہ اقتصادی اعتبار سے اچھے تھے انہوں نے ہر طرح کی مادی و معنوی سہولیات حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے لئے مہیا کر رکھی تھیں ۔ وہ جانتے تھے جناب زینب سلام اللہ علیہا کو اپنے بھائیوں امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت کرتی ہیں اور ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں لہذا وہ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے ۔
خاص طور پر جناب زینب امام حسین علیہ السلام سے بہت زیادہ قریب تھیں اور یہ محبت و قربت بچپن سے ہی دونوں میں پرورش پارہی تھی چنانچہ روایت میں ہے کہ جب آپ بہت چھوٹی تھیں ایک دن جناب سیدہ فاطمہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کی کہ بابا ! مجھے زینب اور حسین کی محبت دیکھ کر کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے یہ لڑکی اگر حسین کو ایک لمحے کے لیئے نہیں دیکھتی تو بے چین ہوجاتی ہے، اس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا : بیٹی ! وہ مستقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں اور سختیوں میں شریک ہوگی ” ۔ یہ سنتے ہی جناب زینب عظیم مقاصد کے تحت آرام و آسائش کی زندگی ترک کردی اور جب امام حسین کے ساتھ ہر محاز پر شریک سفر رہیں ۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی جاوداں شخصیت کے تاریخی پہلو
دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کی تحفظ وپاسداری
جناب زینب نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرہ میں رونما ہونے والے طرح طرح کے تغیرات بہت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر دیکھ کر کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھاہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کررہے ہیں، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی حسین کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوگئی ظاہر ہے جناب زینب، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لئے امام حسین علیہ السلام سے ساتھ ہوئی تھیں کیونکہ آپ کاپورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا ۔
علم و تقویٰ
کائنات کی سب سے محکم و مقدس شخصیتوں کے درمیان پرورش پانے والی خاتون کتنی محکم و مقدس ہوگی اس کا علم و تقویٰ کتنا بلندو بالا ہوگا۔ جب آپ مدینہ سے کوفہ تشریف لائیں تو کوفہ کی عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علی سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کافی ہیں ، لیکن ہماری عو رتوں نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ اگر ہو سکے تو آپ اپنی بیٹی زینب سے کہہ دیں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ سکیں ۔
ایک روز کوفہ کی اہل ایمان خواتین رسول زادی کی خدمت میں جمع ہو گئیں ۔اور ان سے درخواست کی کہ انھیں معارفت اللہ سے مستفیض فرمائیں ۔ زینب نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسیر قرآن شروع کیا اور چند دنوں میں ہی خواتین کی کثیر تعداد علوم اللہ سے فیضیاب ہونے لگی ۔ آپ روز بہ روز قرآن مجید کی تفسیر بیان کر تی تھیں ۔
تاریخ آپ کو ” ثانی زہرا” اور ” عقیلۂ بنی ہاشم ” جیسے ناموں سے بھی یاد کرتی ھے ۔
کوفہ میں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مردو زن کی زبان پر تھا اور ہر گرا میں آپ کے علم کی تعریفیں ہو رہی تھیں اور لوگ علی(ع) کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بیٹی کے علم کی تعریفیں کیا کرتے تھے یہ اس کی بیٹی کی تعریفیں ہو رہی ہیں جس کا باپ "راسخون فی العلم ” جس کا باپ باب شہر علم ہے جس کا باپ استاد ملائکہ ہے ۔
جذبہ جہاد اور سرفروشی
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سربلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لئےجاوداں بنادیا ۔ جناب زینب سلام اللہ کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتاہے
فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر
اس دوران جناب زینب کبری کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔ خدا کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوشنود رہنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیازہے صبر، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز میں استفادہ نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائگیص میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے ۔
سالارٍ حقانیت
جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کئے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیاہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا۔ جن لوگوں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کرکے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی سردربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کرکے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کئے ہیں ۔
انقلابی تدبر
باوجود اس کے کہ بظاہر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کردیا۔
بے مثال عالمہ اور صبرو استقامت کا کوہ گراں
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بحمد اللہ میری پھوپھی (زینب سلام علیہا) عالمہ غیرمعلمہ ہیں اور ایسی دانا کہ آپ کو کسی نے پڑھایا نہیں ہیں
زینب سلام علیہا کی حشمت و عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انہیں خالق کایئنات نے علم ودانش سے سرفراز فرمایا تھا ۔
جناب زینب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کی عظیم دولت و نعمت سے بھی بہر مند تھی زینب بنت علی تاریخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفریں کردار کا دوسرا نام ہے ۔
زینب نے اپنے عظیم کردار سے آمریت کو بے نقاب کیا ظلم و استبداد کی قلعی کھول دی اور فانی دنیا پر قربان ہونے والوں کو آخرت کی ابدیت نواز حقیقت کا پاکیزہ چہرہ دیکھا یا ، صبرو استقامت کا کوہ گراں بن کر علی علیہ السلام کی بیٹی نے ایسا کردار پیش کیا جس سے ارباب ظلم و جود کو شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا ۔
جناب زینب کو علی و فاطمہ علیہما السلام کے معصوم کردار ورثے میں ملے اما م حسن علیہ السلام کا حسن وتدبیر جہاں زینب کے احساس عظمت کی بنیاد بنا وہاں امام حسین علیہ السلام کا عزم واستقلال علی علیہ السلام کی بیٹی کے صبر و استقامت کی روح بن گیا ، تاریخ اسلام میں زینب نے ایک منفرد مقام پایا اور ایساعظیم کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیاتک دنیائے انسانیت کے لئے مشعل راہ واسوہ حسنہ بن گیا۔
زینب بنت علی (ع) تاریخ اسلام میں اپنی ایک مخصوص انفرادیت ھے اور واقعہ کربلا میں آپ کے صبر شجاعانہ جہاد نے امام حسین علیہ السلام کے مقدس مشن کی تکمیل کو یقینی بنایا ۔ آپ نے دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کا تحفظ وپاسداری میں اپناکردار اس طرح ادا کیا کہ جیسے ابوطالب (ع) رسول اللہ (ص) کی پرورش میں اپنے بھتیجے کے تحفظ کے لیئے اپنی اولاد کو نچھاور کرنا پسند کرتے تھے کیونکہ ان ک اایک مقصد تھا کہ محمد بچ جائے وارث اسلام بچ جائے بالکل اسی طرح زینب کاحال یہ کہ اسلام بچ جائے دین بچ جائے چاھے کوئی بھی قربانی دینی پڑے ۔
تاریخ کربلا اور تحریک زینب
تاریخ کربلا اور تحریک زینب (ع) میں ایک نیا باب کھلتا ہے زینب اس قافلے کی قافلہ سالار اور بزرگ ہیں کہ جسکے قافلہ سالار امام حسین علیہ السلام تھے جس کے حامی عباس ،(ع)علی اکبر (ع) ۔۔۔ بنی ہاشم اور امام حسین (ع) کے باوفا اصحاب تھے ، وہ غیور مرد جن پر اہل بیت (ع) حرم اور بچوں کو ناز تھا جن کے وجود سے اہل بیت (ع) کو سکون تھا ۔
ایسی حمایت و نگہبانی تھی کہ سید شہدا (ع) کی حیات کے آخری لمحات تک دشمن خیموں کے پاس تک نہ بھٹک سکا ، جنگ کے دوران ابو عبداللہ الحسین (ع) کی، لاحول ولا قوۃ الا بااللہ کی آوازسے ان کی ڈھارس بندھی ہوئی تھی حسین (ع) اس طرح انھیں تسلی دے رہے تھے ۔
بہترین عزیزوں کی شہادت پر امام زین العابدین (ع) کے بعد اس قافلہ کی بزرگ خاندان پیغمبر (ص) سے ایک خاتون ہے کہ جس کے عزم و استقلا ل کے سامنے پہاڑ پشیمان، جس کے صبر پر ملائکہ محو حیرت ہیں، یہ علی (ع) کی بیٹی ہے، فاطمہ (س) کی لخت جگر ہے ۔ بنی امیہ کے ظلم کے قصروں کی بنیاد ہلانے والی ہے ، ان کو پشیمان و سرنگوں کرنے والی ہے جناب ذینب تھیں ۔
یہ وہی سیدہ زینب (س) ہے جو اپنے امام (ع) کے حکم سے اولاد فاطمہ (س) کے قافلہ کی سرپرستی کرتی ہیں ، بڑی مصیبتیں اٹھانے کے بعد امام حسین (ع) اور ان کے فداکار اصحاب کے خونی پیغام کو لوگوں تک پہنچاتی ہیں ۔
سوئے کوفہ
گیارہ محرم سن۶۱ہجری کو اہل بیت (ع) کے اسیروں کاقافلہ کربلا سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا ، اہل بیت (ع) کے امور کی باگ دوڑ امام زین العابدین (ع) کے ہاتھ میں ہے کیونکہ آپ امام ہیں اور آنحضرت کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے، قافلہ سالار زینب کبری (س) ہیں ، جو امام زین العابدین (ع) کی قریب ترین ہیں اور خواتین میں سب سے بزرگ ہیں ۔
راہ حق و حقیقت میں کربلا کی فرض شناس خواتین نے امام عالی مقام (ع) کی بہن حضرت زینب کبری (ع) کی قیادت میں ایمان و اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و تحمل اور شجاعت و استقامت کے وہ جوہر پیش کئے ہیں ۔ جس کی مثال تاریخ اسلام بلکہ تاریخ بشریت میں بھی ملنانا ممکن ہے ۔
کربلا کی شہادت و اسیری کے دوران خواتین نے اپنی وفاداری اور ایثار و قربانی کے ذریعہ اسلامی تحریک میں وہ رنگ بھرے ہیں کہ جن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے ۔ وہ خود پورے وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کاایک لفظ بھی زبان پر نہ آیا۔ نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہیں اور اپنے عزم و ہمت کے تحت کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لہرادئے حضرت زینب (س) اور ان کی ہم قدم و ہم آواز ام کلثوم (ع) ، رقیہ ( ع) ، رباب (ع) ، لیلا (ع) ، ام فروہ (ع) سکینہ (ع) ، فاطمہ (ع) اور عاتکہ (ع) نیز امام (ع) کے اصحاب و انصار کی صاحب ایثار خواتین نے شجاعت اور ایثار و قربانی کے وہ لازوال نقوش ثبت کیں۔
ظاہر ہے کہ ان خواتین اور بچوں کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہے کہ جنہوں نے عاشور کے دن رنج و مشقت اور غم برداشت کۓ تھے ، دل خراش واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اپنے عزیزوں کے داغ اٹھائےتھے اور اب وہ بے رحم دشمنوں کے محاصرہ میں ہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کافر قیدیوں کی طرح لے جایا جارہا ہے ۔
خواتین کے احساس و جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے اور صورت حال میں امام زین العابدین (ع) کی جان کی حفاظت بھی کرنا ہے جوکہ قافلہ میں زینب کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری ہے پیغام کابار آپ پر زیادہ ہے ، لیکن زینب کے حوصلہ میں حد سے زیادہ استقامت اورمقاومت ہے کہ وہ بڑی مشکلوں اور مصائب کے وحشتناک طوفانوں سے ہر گز نہ گھبرائیں اور مقصد امام حسین (ع) کو زندہ جاوید بنانے میں حضرت زینب نے تاریخ کا بے مثال نمونہ پیش کیا ہے ۔
سوئے شام
اسیروں کے قافلہ کو چند روز ابن زیاد کی بامشقت قید میں رکھ کر شام کو روانہ کیا جس زمانہ سے شام مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تھا اس وقت ہی سے وہاں خالد بن ولید اور معاویہ ابن ابی سفیان جیسے لوگ حاکم رہے ، اس علاقہ کے لوگوں کونہ پیغمبر (ص) کی صحبت میسر ہوئی اور نہ وہ آپ کے اصحاب کی روش سے واقف ہوسکے ،رسول خدا کہ چند صحابی جواس سرزمین پر جاکر آباد ہوگئے تھے یہ پراگندگی کی زندگی بسر کرتے تھے عوام میں ان کا کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا ، نتیجہ میں وہاں کے مسلمان معاویہ ابن ابی سفیان کے کردار اور اس کے طرز زندگی ہی کو سنت اسلام سمجھتے تھے ۔
اسیروں کے قافلہ کے داخلہ کے وقت ایسے ہی لوگوں نے شہر شام کو جشن و سرور سے معمور کررکھا تھا ، یزید نے اپنے محل میں مجلس سجارکھی تھی ، اس کے ہم قماش چاروں طرف بیٹھے تھے تاکہ بزم عم خود اس کامیابی کا جشن منائیں ۔
دربار یزید میں دختر شیہد کربلاء حسینؑ
سرحسین (ع) کو یزید کے سامنے لا کر رکھا گیا اور اسی وقت اہل بیت (ع) کے اسیروں کو لایا گیا ، جب سکینه بنت حسین (ع) نے اپنے باپ کے سر بریدہ کو دیکھا تو ہائے با با کہہ کر رونے لگی کہ جس سے مجلس والے پریشان ہوگئےلیکن جب زینب (س) نے اپنے بھائی کا سر دیکھا تو ایسی غم انگیز آواز میں نوحہ پڑھا کہ جس نے کلیجے ہلا دیئے۔
’’ یا حسیناہ ، یا حبیب اللہ ، یا بن مکۃ و منی ، یا بن فاطمۃ الزھراء سیدۃ النساء ، یا بن بنت المصطفی‘‘
اے حنفی (ع) ! اے حبیب خدا ، اے مکہ و منی کے فرزند ، اے دختر رسول فاطمہ زہرا سیدۃ النساء العالمین کے نورنظر
راوی کہتا ہے کہ قسم خدا کی زینب نے مجلس کے ہر شخص کو رلا دیا یزید لعین شراب خوار اپنی جاہ طلبی کے نشہ میں چور خاموش بیٹھا تھا ، اور سید الشہداء کے دندان مبارک پر چھڑی لگارہا تھا اور کہہ رہا تھا: کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ۔
خطبہ زینب سلام اللہ علیہا
زینب (س) اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء (س) کی طرح ظالموں کے سامنے قد بلند کرتی ہیں بھرے دربار میں خدا کی حمد و ستائش کرتی ہیں اور رسول (ص) و آل رسول (ع) پر درود بھیجتی ہیں اور پھر قرآن کی آیت سے اپنے خطبہ کا اس طرح آغاز کرتی ہیں
” ثم کان عاقبۃ الذین اساؤاالسوای ان کذبوا بآیا ت اللہ ۔۔۔۔”
یزید تویہ سمجھتا تھا کہ تونے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کردیا ہے تیرے گماشتوں نے ہمیں شہروں شہروں اسیری کی صورت میں پھرایا تیرے زعم میں ہم رسوا اور تو باعزت ہوگیا ہے ؟ تیرا خیال ہے کہ اس کام سے تیری قدر میں اضافہ ہوگیا ہے اسی لیئے ان باتوں پر تکبر کررہا ہے ؟ جب تو اپنی توانائی و طاقت (فوج) کو تیار دیکھتا ہے اور اپنی بادشاہت کے امور کو منظم دیکھتا ہے تو خوشی کے مارے آپے سے باہر ہوجاتا ہے ۔
تو نہیں جانتا کہ یہ فرصت جو تجھے دی گئی ہے کہ اس میں تو اپنی فطرت کو آشکار کرسکے کیا تو نے قول خدا کو فراموش کردیا ہے ۔ کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انھیں دی گئی ہے یہ ان کے لئے بہترین موقع ہے ، ہم نے ان کو اس لئے مہلت دی ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کرلیں ، پھر ان پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ہوگا ۔
پسر طلقاء کیا یہ عدل ہے تیری بیٹیاں اور کنیزیں باعزت پردہ میں بیٹھیں اور رسول کی بیٹیوں کو تو اسیر کرکے سربرہنہ کرے ، انہیں سانس تک نہ لینے دیا جائے، تیری فوج انھیں اونٹوں پر سوار کرکے شہر بہ شہر پھرائے ؟ نہ انہیں کوئی پناہ دیتا ہے ، نہ کسی کو ان کی حالت کاخیال ہے ، نہ کوئی سرپرست ان کے ہمراہ ہوتا ہے ، لیکن جس کے دل میں ہمارے طرف سے کینہ بھرا ہوا ہے اس سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟
تو کہتا ہے کہ کاش جنگ بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ موجود ہوتے اور یہ کہہ کر تو فرزند رسول (ص) کے دندان مبارک پر چھڑی لگاتا ہے ؟ کبھی تیرے دل میں یہ خیال نہیں آتا ہے کہ تو ایک گناہ اور برے کام کا مرتکب ہوا ہے ؟ تونے آل رسول (ص) اور خاندان عبدالمطلب کا خون بہایا
خوش نہ ہو کہ تو بہت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگا ، اس وقت یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ دن نہ دیکھتا تو یہ کہتا ہے کہ اگر میرے بزرگ اس مجلس میں ہوتے تو خوشی سےاچھل پڑتے ، اے اللہ تو ہی ہمارا انتقام لے اور جن لوگوں نے ہم پرستم کیا ہے ان کےدلوں کو ہمارے کینہ سے خالی کردے ، خداکی قسم تو اپنے آپے سے باہر آ گیا ہے اور اپنے گوشت کو بڑھالیا ہے ۔
جس روز رسول (ص) خدا ،ان کے اہل بیت (ع) ، اور ان کے فرزند رحمت خدا کے سایہ میں آرام کرتے ہوں گے تو ذلت و رسوائی کےساتھ ان کے سامنے کھڑا ہوگا ۔ یہ دن وہ روز ہے جس میں خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا وہ مظلوم و ستم دیدہ لوگ جو کہ اپنے خون کی چادر اوڑھے ایک گوشے میں محو خواب ہیں ، انہیں جمع کرے گا ۔
خدا خود فرماتا ہے : ” راہ خدا میں مرجانے والوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں ، تیرے باپ معاویہ نے تجھے ناحق مسلمانوں پر مسلط کیا ہے ، جس روز محمد (ص) داد خواہ ہوں گے اور فیصلہ کرنے والا خدا ہوگا ، اور عدالت الہی میں تیرے ہاتھ پاؤں گواہ ہوں گے اس روز معلوم ہوگا کہ تم میں سے کون زیادہ نیک بخت ہے ۔
یزید اے دشمن خدا ! میری نظروں میں تیری بھی قدر و قیمت نہیں ہے کہ میں تجھے سرزنش کروں یا تحقیر کروں ، لیکن کیا کروں میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے ہیں دل سے آہیں نکل رہی ہیں ، شہادت حسین (ع) کے بعد لشکر شیطان ہمیں کوفہ سے ناہنجاروں کے دربار میں لایا تاکہ اہلبیت (ع) پیغمبر (ص) کی ہتک حرمت و عزت کرنے پر مسمانوں کے بیت المال سے ، جو کہ زحمت کش و ستم دیدہ لوگوں کی محنتوں کا صلہ ہے ، انعام حاصل کرے ۔
جب اس لشکر کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین ہوئے اور دہان ہمارے گوشت کے ٹکڑوں سے بھر گئے ہیں ، جب ان پاکیزہ جسموں کے آس پاس درندہ دوڑ رہے ہیں ایسے موقع پر تجھے سرزنش کرنے سے کیا ہوتا ہے ؟
اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تونے ہمارے مردوں کو شہید اور ہمیں اسیر کرکے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو عنقریب تجھے معلوم ہوجائے گا کہ جسے تو فائدہ سمجھتا ہے وہ نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس روز تمہارے کئے کے علاوہ تمارے پاس کچھ نہ ہوگا ، تو ابن زیاد سے مدد مانگے گا اور وہ تجھ سے ، تو اور تیرے پیروکار خدا کی میزان عدل کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔
تجھے اس روز معلوم ہوگا کہ بہترین توشہ جو تیرے باپ معاویہ نے تیرے لیۓ جمع کیا ہے وہ یہ ہے کہ تو نے رسول (ص) خدا کے بیٹوں کو قتل کردیا ۔
قسم خدا کی میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور اس کے علاوہ کسی سے شکایت نہیں کرتی ، جو چاہو تم کرو ، جس نیرنگی سے کام لینا چاہو لو ، اپنی ہردشمنی کا اظہار کرکے دیکھ لو ، قسم خدا کی جو ننگ کا دھبہ تیرے دامن پر لگ گیا ہے وہ ہرگز نہ چھوٹے گا ، ہر تعریف خدا کے لئے ہے جس نے جوانان بہشت کے سرداروں کو کامیابی عطا کی ، جنت کو ان کے لئے واجب قرار دیا ، خداوند عالم سے دعا ہے کہ ان کی عظمت و عزت میں اضافہ فرمائے ان پر اپنی رحمت کے سائیہ کو مزید گستردہ کردے کہ تو قدرت رکھنے والا ہے ۔
سفیره کربلا کی ضرب سے ضمیروں میں بیداری
شام والے رفتہ رفتہ عراق میں گزرجانے والے حادثہ کی حقیقت سے آگاہ ہوگئے اور انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ کربلا والے یزید کے حکم اور کوفہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں رسول (ص) خدا کے نواسے حسین بن علی (ع) اور یہ خواتین بچے جنہیں قیدی بناکر دمشق لایا گیا ہے یہ پیغمبر اسلام (ص) کے اہلبیت (ع) یہ اس کاخاندان ہے جس کی جانشینی کے نام پر یزید ان پر دوسرے مسلمانوں پر حکومت کررہا ہے
بازار حمیدیہ جہاں شہدائے کربلا کی عورتوں اور بچوں کو اونٹوں پر لایا گیا۔ خطبہ ذینب کبری کے سوختہ جگر اور تقوی سے سرشار دل سے نکلے ہوئے کلمات کا رد عمل یہ ھوا کہ پتھر دل والا بھی جب ایمان و تقوی سے سرشاراور خود کو ناتوان اور مدمقابل کو طاقتور سمجھے لگا ۔ چند لحظوں کے بعد ھی قصریزید میں موت کا سناٹا چھاگیا ۔
یزید نے حاضرین کی پیشانیوں سے ناراضی اور نفرت کے آثار دیکھے تو کہنے لگا خدا ابن مرجانہ کو غارت کرے ، میں حسین (ع) کے قتل کو پسند نہیں کرتا تھا ، اس کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ اسیروں کو اسی حالت میں رکھنا مصلحت کے خلاف ہے ، حکم دیا کہ انہیں دوسری جگہ منتقل کردو ۔ قریش کی خواتین میں سے جو بھی ان سے ملنا چاہتی ہے مل سکتی ہے عظمت زینب سلام اللہ علیہا کی عظمت اور قوت قلب اس وقت اور اچھی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ جب یزید کی مجلس میں آپ کی روحانی حیثیت اور خطبہ اپنا اثر قائم کرتا ہے ۔
جس زینب (س) نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ اور مکہ معظمہ سے کربلا اور کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں اور سفر میں ذرہ برابر آرام میسر نہیں آیا اور کسی ایک شخص یا جماعت کی حمایت کے بغیر قافلہ سالاری کو سنبھالے رہیں اور منزل بہ منزل ان کی حفاظت کرتی رہیں ۔
اس ماحول میں لب کشائی کے لئے شیر کا کلیجہ اور جرئت درکار ہے ، زینب (س) کی رگوں میں علی (ع) و فاطمہ (س) کا خون دوڑ رہا ہے ۔ آپ اپنے زمانہ کے بڑے بت کے سامنے اس شجاعت و شہامت سے ایسے سخن ریز ہوتی ہیں اور اہلبیت (ع) کی فریاد مظلومیت پوری تاریخ میں پھیلادیتی ہیں اور خوابیدہ ضمیروں کو بیدار کردیتی ہیں ۔
کلام زینب (س) کے چند نکات
جناب زینب (س) کی تقریر ایسی منطقی اور شعلہ ور تھی کہ جس کس مقابلہ میں کوئی شخص کھڑا نہیں رہ سکتا تھا ، زینب (س) کی تقریر کی قاطعیت و جامعیت نے یزید جیسی پلید شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کردیا اور رسول (ص) اور آل رسول (ع) کی عظمت و کرامت کو یاد دلایا اور الہی اقدار کو اقدار کی ضد سے جدا کردیا ۔
اگر چہ آپ (س) کا پورا خطبہ ہی نکاس معمور ہے اور رھتی دنیا تک چراغ راہ اور سر چشمہ ھدایت ھے لیکن اس کے چند پہلوبہت اھم ھیں جو سیدہ کو سفیر کربلا بنا جاتے ھیں ۔
ظالم کی پہچان اس کے سیاہ کارناموں سے ھوتی ھے
جناب زینب (س) کے خطبہ کے برجستہ ابعاد میں سے ایک پہلو یزید کے خاندان کے سیاہ کارنامے اور اس کی ناپاکی کے ریشے ہیں ، زینب (س) خاندان یزید کی پلیدیوں کو شمار کراتی ہیں اور کسی شخص میں ان کی تردید کی طاقت نہیں ہے ۔ اے یزید تو ہندہ کا بیٹا ہے اور ہندہ وہ عورت ہے کہ جس نے جنگ احد میں لشکر رسول (ص) کے سردار سید الشہداء حضرت حمزہ کا جگر اپنے دانتوں سے چباکر پھینک دیا تھا ،ایسے خاندان سے سانحہ کربلا کے علاوہ اورکوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی ۔
تاریخ اسلام میں اسیری کی تعریف
زینب (س) یزید کو ابن طلقاء کہ کر مخاطب ھوتی ہیں ، طلقاء ان لوگوں کو کہتے ہیں جو کہ رسول خدا سے دشمنی رکھتے تھے جنگ کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے وقت رسول (ص) نے انہیں آزاد کودیا تھا اور فرمایا تھا : "اذ ھبوا انتم الطلقا ” جاؤ تم سب آزاد ہو یزید انہیں اشخاص کا بیٹا ہے جنھیں رسول نے آزاد کردیا تھا اور آج اس نے خاندان پیغمبر (ص) کو اسیر بنا رکھا ہے ، اس جملہ کے ذریعہ زینب (س) نے یزید کو یہ سمجھادیا کہ درحقیقت قیدی تو ہے ہماری اسیری ہماری ذلت پر دلیل نہیں ہے اور نہ تیری طاقت تیری عظمت و کامیابی پر دلیل ہے۔
جناب زینب (س) کی اس تقریر سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیبی زینب (س) کو تاریخ اسلام پر کتنا عبور تھا ۔
حزب اللہ اور گروہ شیطان
جناب زینب(س) اپنے سرفراز خاندان کے نام کو حزب اللہ اور یزید کے ناپاک خاندان کو گروہ شیطان کے نام سے یاد کرتی ہیں اور فرماتی ہیں : بڑے تعجب کی بات ہے کہ حزب اللہ ، گروہ شیطان اور آزاد شدہ لوگوں کے ہاتھوں مارا جائے ، ہمارا خون تمہارے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے اور تمہارے منھ سے ہمارا گوشت نکلا پڑرہا ہے ۔
پردہ کی اہمیت
جناب زینب (س) کے کلام سے تمام با ایمان اور اہلبیت (ع) کا اتباع کرنے والوں کو جو پیغام دیا جاسکتا ہے وعفت و حجاب کا پیغام ہے زینب خاندان پیغمبر (ص) کی خواتین بیٹیوں کو قیدی بناکر شہروں شہروں ، کوچہ و بازار میں سربرہنہ مجمع عام میں پھرانے پر تند و سخت لہجہ میں اعتراض کرتی ہیں اور اس حرکت کو عدل کے خلاف قرار دیتی ہیں ، یہ حساسیت مسلمان عورت کے حجاب و عفت کی اہمیت کی غماز ہے ، اس سے ہمیشہ دفاع کرنا چاہئے۔
پیشن گوئی
زینب (س) نے اپنے خطبہ کے آخر میں اعتماد کے ساتھ فرمایا : اے یزید تو اپنے تمام مکر و حیلوں کو استعمال کرلے اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کرلے لیکن قسم خدا کی تو ہماری یاد کو نہیں مٹا سکتا ہے اور وحی الہی کو نابود نہیں کرسکتا ہے _ _ ہر تعریف خدا ہی کے لئے ہے کہ جس نے ہمارا آغاز سعادت و مغفرت سے اور اختتام شہادت و رحمت پر کیا ۔
خاندان نبوت و رسالت (ص) کی اسیری کا روحانی پس منظر
عصر عاشورا کو امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد اضطراب و بے چینی کی قیامت خیز رات حسین (ع) کی بہنوں نے عباس (ع) کی طرح پہرہ دیتے ہوئے ٹہل ٹہل کر گزاردی ۔گیارہ محرم کی صبح اسیری کے پیغام کے ساتھ نمودار ہوئی لشکر یزید شمر اور خولی کی سرپرستی میں رسیاں اور زنجیریں لے کر آگیا ۔عورتیں رسیوں میں جکڑدی گئیں اور سید سجاد (ع) کے گلے میں طوق اور ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈال دی گئیں بے کجاوہ اونٹوں پر سوار ، عورتوں اور بچوں کو قتل گاہ سے لے کر گزرے اور بیبیاں کربلا کی جلتی ریت پر اپنے وارثوں اور بچوں کے بے سر لاشے چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئیں ۔
لیکن اس ہولناک اسیری کی دھوپ میں بھی اہل حرم کے چہروں پرعزم و استقامت کی کرنیں بکھری ہوئی تھیں نہ گھبراہٹ ، نہ بے چینی ، نہ پچھتاوا نہ شکوہ ۔ اعتماد و اطمینان سے سرشار نگاہیں اور نور یقین سے گلنار چہرے ۔
تاریخ کا یہی وہ رخ ہے جو بتاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنی اس انقلابی مہم میں اہل حرم کو ساتھ لےکر کیوں نکلےتھے ؟
اور جناب زینب (ع) کو کیوں بھائی کی ہمراہی پر اس قدر اصرار تھا ؟
اور ابن عباس کے منع کرنے پر کیوں امام حسین (ع) نے کہا تھا کہ ” خدا ان کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے ۔
اہل حرم کی اسیری ، کتاب کربلا کا ایک مستقل باب ہے اگر حسین (ع) عورتوں کو ساتھ نہ لاتے اور انہیں اسیروں کی طرح کوفہ و شام نہ لے جایا جاتا توبنی امیہ کے شاطر نمک خوار صحرائے کربلا میں پیش کی گئی خاندان رسول (ص) کی عظیم قربانیوں کو رایئگاں کردیتے ۔
یزیدی ظلم و استبداد کے دور میں جان و مال کے خوف اور گھٹن کے ساتھ حصول دنیا کی حرص و ہوس کا جو بازار گرم تھا اور کوفہ و شام میں بسے مال و زر کے بندوں کےلئے بیت المال کا دہانہ جس طرح کھول دیا گیا تھا، اگر حسین (ع) کے اہل حرم نہ ہوتے اور حضرت زینب (ع) اور امام سجاد (ع) کی قیادت میں اسرائے کربلا نے خطبوں اورتقریروں سے جہاد نہ کیا ہوتا تو سرزمین کربلا پر بہنے والا شہدائے راہ حق کا خون رائگاں چلاجاتا ۔
اور رسل و رسائل سے محروم دنیا کو برسوں خبر نہ ہوتی کہ آبادیوں سے میلوں دور کربلا کی گرم ریت پر کیا واقعہ پیش آیا اور اسلام و قرآن کو کس طرح تہہ تیغ کردیا گیا ۔
ان مظالم کو بیان کرکے جو یزید نے کربلاکے میدان میں اہل بیت رسول (ع) پر روا رکھے تھے؛ حضرت زینب (ع) نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا ۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہوگیا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کے ابتدا تھی ۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا کا ایک زرین قول ھے ۔ آپ فرماتی ہیں
خداوند تعالی کو تم پر جو قوت و اقتدار حاصل ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور وہ تم سے کس قدر قریب ہے اس کو پیش نظر رکھ کر (گناہ کرنے سے ) شرم کرو ۔
حضرت زینب (س) اپنے بھائی امام حسین (ع) کی شہادت کے تقریبا ” ڈیڑھ سال بعد 15 رجب المرجب 62 ہجری کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں ۔ آپ کا روضہ اقدس شام کے دارالحکومت دمشق میں ہے ۔
http://www.alhassanain.com/