اللہ آپ ؑکے ذریعہ ہدایت کرے گا
رسول کریم ؐ کے مبعوث بہ رسالت ہو نے سے پہلے پوری دنیا چونکہ و حی سے دور تھی لہٰذا جاہلیت کی زندگی بسر کررہی تھی ۔
اس زمانہ کے لوگوں کی یہ حالت تھی کہ حرام اور حلال میں کبسی امتیاز کے قائل نہیں تھے، ان کے نزدیک سارے حرام ،حلال ہو چکے تھے اور ان میں بدی اور خوبی کی شناخت دم توڑ چکی تھی، جب ظلم و جور اور ضلالت و گمراہی پوری زمین پر حکم فرما تھی خداوند عالم نے قرآنی وحی کا رسول اکرم ؐ پر آغاز کیا اور پھر دنیا میں نورکا سلسلہ چل پڑا،تاریکی چھٹنے لگی ،گمراہیاں ہدایت میں تبدیل ہو نے لگیں، ظلم و جور کی جگہ عدالت نے لے لی ، شیطان پریشان ہوکرچیختا رہا…
لیکن اب ایمان کی چمک دمک مومنین کے چہروںسے جھلکنے لگی تھی اور ہدایت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا
ظاہری طور سے تو یہ رسول خدا ؐتھے جو لوگوں تک پیغام حق کو پہنچا رہے تھے ۔
لیکن در اصل خدا وند عالم آپ ؐکے ذریعہ وحی کو وسیلہ بنا کر لوگوں کو صحیح راستہ کی طرف متوجہ کررہا تھا ۔
ترسٹھ سال کی مختصر سی زندگی کے بعد جب پیغمبر اسلام ؐ نے رحلت کی ،تویہ ہدایت کی ذمہ د اری آپ ؐکے بعد مسلسل ایک کے بعد ایک ائمہ علیہم السلام نے سنبھالی اور انہیں کے ذریعہ خدا وند عالم ہدایت کرتا تھا
لیکن گیارہوں امامؑ کی شہادت کے بعد جب امام زمانہ ؑ نے غیبت اختیار کرلی، تو یہ سلسلہ گویا کہ منقطع ہو گیا ۔
وحی کا سلسلہ منقطع ہو جا نا پوری امت کے لئے بہت بڑی مشکل اور پریشانی بن گئی اور دوران جاہلیت کی جہالتیں گویا کہ پھر سے پلٹنے لگیں اس وجہ سے واقعی طور پر پھرسے اسی ہدایت کی ضرورت آگئی جس کی بنا پر لوگوں نے ہدایت پا ئی تھی ، جس طریقہ سے خدا نے پہلی با ر اپنی ہدایت کے ذریعہ رہنمائی کی تھی اسی طرح ایک بار پھر خدا نے امام زمانہ ؑ کو ہدایت کا وسیلہ بنایا
جیسا کہ مو لا ئے کا ئنا ت ؑ فرما تے ہیں کہ :
’’یہ جان لو کہ وہ جو ہم سے ہے ( امام مہدی ؑ) آیندہ فتنہ کے وقت موجود ہوگا وہ روشن چراغ کے ذریعہ ا س میں قدم رکھے گا ،اور گتھیوں کو سلجھا نے کے لئے اسی راہ اور اسی اصول پر عمل کریگا جس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام عمل کر تے تھے ۔‘‘
نہج البلاغہ ،خطبہ ،۱۵۰